January 31, 2010

میں اور گوریاں

Main aur Gorian


عمر کے پچیسویں سال میں میری بھی قسمت کھلی اور میں گوریوں کے دیس پہنچ گیا۔وہ پہلی گوری جس کے روبرو مجھے جانے کااور گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اس سے کچھ زیادہ ہی انکساری اور خوش اخلاقی سے بات کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ پہلی گوری تھی جس سے میں بات کر رہا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرینکفرٹ ایر پورٹ پر امیگریشن کا کام کر رہی تھی اور میرا یورپ میں داخلہ اس کے ہاتھ میں تھامی مہر پر منحصر تھااور میں ایسا نہیں کرنا چاہ رہا تھا جس سے وہ برا منا جائے اور مجھے واپسی پاکستان جانے والے جہاز پر سوار کرا دے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 22, 2010

الو کا پٹھہ

Ullo ka Patha

 میرے ایک دوست واصف محمود صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ جب بھی لڑکی کا معاملہ آتا ہے میں پہلو تہی کر لیتا ہوں، انکا
 شکوہ دور کرتے ہوئے یہ مضمون زیرِخدمت ہے اور اس سے اگلا بلاگ وارسا کی لڑکیوں کے بارے میں ہوگا۔ امید ہے کہ واصف صاحب کا شکوہ دور ہو جائے گا۔ 

میں اپنی زندگی سے اچھا خاصا مطمئن تھا جب ایک دن تصور نے(تصور میں نہیں تصور نے کیونکہ تصور میرے دوست کا نام ہے)مجھے ایک قول زریں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔میں تو اس کو بکواس سے زیادہ درجہ دینے کو
 تیا ر نہ تھا لیکن تصور کے اصرار پر اس پر سنجیدگی سے غور کیا۔لکھا تھا " جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی نہ ہو تو وہ تیسرا شیطان ہوتا ہے لیکن جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی ہو تو وہ تیسرا الو کا پٹھہ ہوتا ہے"۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 16, 2010

جب مجھے انجمنِ شبانہ جانا پڑا۔


 کچھ لوگوں کو عجیب عادتیں ہوتی ہیں جیسے مجھے اگر آپ کہیں نہ لے کر جانا چاہتے ہوں اور صاف انکار بھی نہ کرنا چاہتے ہوں تو مجھے اتنا ہی کہہ دیں کہ "وہاں بہت سے لوگ ہوں گے"۔میں خود ہی جانے سے منع کر دوں گا۔مجھے جن چیزوں کا کبھی شوق نہیں رہا ان میں انگریزی فلموں سے رغبت کے باوجود نائیٹ کلب جانا بھی ہے۔ 

 میں کوئی ایسا حاجی یا ملا نہیں ہوں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی وجہ رہی ہو کہ وہاں بہت سے لوگ ہوں گے۔پاکستان میں تو خیر یہ ویسے ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ایسے چھوڑیں ویسے کلب بھی نہیں بنتےلیکن کچھ دوست جو لاہور،اسلام آباد مزیدپڑھنے کے لیے چلے گئے تھے بتاتے ہیں کہ وہاں پر ایسے کلب نیم خفیہ طور پر کام کرتے ہیں اب سچ جھوٹ انکا ۔پر دبئی جا کر بھی اور بابا کے اصرار پر بھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ جا کر دیکھنا تو چاہیے کہ آخر یہ ہے کیا بلا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 12, 2010

نیا سال،عیسوی بھی اور عمرکا بھی

niya saal eesvi bhe or umer ka bhe

کسی نے کہا تھا نیا سال محض ایک ہندسے کی تبدیلی ہے لیکن اس سال تو کم از کم یہ تبدیلی دو ہندسوں پر مشتمل تھی۔نیا سال اور میری سالگرہ تقریباً ساتھ ساتھ ہی آتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ہی میرا کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔نیا سال ہمیشہ میرے لیے اس طرح مشکل لایا ہے کہ کچھ عرصہ نئے ہندسے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں لگ جاتا ہے اور ایسے ہی سالگرہ بھی کہ مجھے پھر سے گنتی کرنی پڑتی ہے کہ اب میں کتنے سال کا ہو گیا ہوں۔لیکن اس بار دونوں دن مجھے نیا قسم کا تجربہ ہوا۔ یہاں پولینڈ میں لوگ نئے سال کی مبارکباد ان الفاظ میں دیتے ہیں ’نیا سال نئی خوشیاں‘۔پر کوئی ہم سے پوچھے کہاں کا نیا سال کہاں کی خوشیاں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 8, 2010

چند چیزیں جو چند چیزوں کی یاد دلاتی ہیں

chand chezain jo chand chezon ki yad dilati hain

یاد تو یاد ہے،اس کمبخت کا کیا جائے۔کسی بھی واقعے کسی بھی بات سے دل میں بلا اجازت چلی آتی ہے۔ایسی ہی کچھ باتیں ہیں کچھ واقعات ہیں جو یہاں وارسا میں آکر دل کو کچوکے لگاتی ہیں اور میرے جیسا شخص جو رہتا ہی ماضی میں ہے اس کادل بے اختیار ماضی میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یوں تو ایسی چیزوں کی لمبی فہرست ہے لیکن فی ا لحال صرف چھ چیزوں کا ذکر کروں گا جو مجھے سب سے زیادہ ماضی میں لے جاتی ہیں۔

 ان میں سب سے پہلے ہے میرے کمرے میں رکھا ہوا ریفریجنریٹر یا فریج۔جو اتنی اونچی آواز میں چلتا ہے کہ جب اس کا کمپریسر بند ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بجلی چلی گئی ہو۔دن کے وقت تو کمرے میں شور شرابہ رہتا ہے لیکن رات کو جب ہر طرف خاموشی سی ہوتی ہے تو جیسے ہی کمپریسر بند ہو تا ہے بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے ’واپڈا کی تو۔۔۔‘۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 4, 2010

وارشاوا سے

warshawa (warsaw) se
جب میں نے پہلی باروارسا دیکھا تو مجھے پہلی نظر میں ہی اس سے پیار ہو گیا تھا۔ ملتان جہاں کے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ دوزخ میں کچھ لوگ کمبل لی کر سردی سے کانپ رہے تھے تو ایک شخص نے جو وہاں نیا آیا تھا ایک پرانے شخص سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا یہ ملتان کے رہنے والے ہیں۔اگر آپ اس بات کو مقامی لوگوں کا گھڑا ہوا افسانہ سمجھتے ہیں تو ملتان کے چار تحفے فارسی میں بھی مشہور ہیں جو کہ گرد،گرما،گدا وگورستان ہیں۔

باقی متحدہ عرب امارات تو ویسے ہی صحرا ہے وہاں کے بارے میں کچھ لکھنا ہی بیکار ہے۔تو وارسا پہنچنے پر جون میں
جب درجہ حرارت تیس سینٹی گریڈ تک پایا تو ہم گرمی کے ماروں کے لیے ویسے ہی وارسا ایک جنت سی تھی۔لیکن اب چھ ماہ بعد اس کی تمام تر خامیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی مجھے اس سے ویسا ہی پیار ہے جیسا پہلی نظر میں ہوا تھا،حالانکہ میرا ریکارڈ رہا ہے جو شے مجھے پہلی نظر میں ہی بھا جائے وہ بعد ازاں کچھ اتنی خاص نہیں رہتی لیکن وارسا اس اصول سے ابھی تک تو بالاتر ہی رہا ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

ذات,short story

zaat

   تیرہ سال چھ مہینے اور نو دن کے بعد محمد افضل نے فیصلہ کیا کہ اب وطن کی یاد ناقابلِ برداشت ہے اور اب وقت آگیا ہے جب واپس مڑ جانا چاہیے۔لندن میں محمد افضل کے نام سے جانا جانے والا اپنے وطن میں فضلی نائی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔پر یہ تو تیرہ سال چھ ماہ قبل کی بات تھی اب پتہ نہیں وہ اس کو پہچانتے بھی ہیں کہ نہیں۔نجانے اس کے من میں کیا سمائی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر دو کپڑوں میں ہی گاؤں کو چھوڑ آیا۔گاؤں میں تو خیر تھا کیا ایسا جس کو چھوڑنے میں مشکل ہوتی ،ایک بوڑھا باپ جس کا پسندیدہ مشغلہ فضلی کو گالیا ں نکالنا اور مارنا تھا، ایک کچا گھر اور وہ بھی چوہدریوں کی مہربانی،چند دوست جو کہیں بھی بنائے جا سکتے ہیں ، ایک ماں اور ایک شمو جو ہر جمعرات شاہوں کے مزار پر اس کے نام کا دیا جلانے کے بعد اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔گاؤں چھوڑنا کوئی ایسا گھاٹے کا سودا تونہ تھا ،پر چھوٹنے پر آیا تو پہلے گاؤں چھوٹا پھر شہر اور آخر میں ملک۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad