March 21, 2012

پس ثابت ہو ا کہ پولش لڑکیاں متعصب ہیں

pas sabit hoa Polish larkian mutasib hain



اب یہ تو ذرا مشکل ہے کہ میں متعصب کی کیٹیگری بتائوں کیونکہ یہ نہ تو رنگ ،نہ زبان، نہ نسل اور نہ ہی مذہب کے زمرے میں آتی ہے پر میرے بارے ضرور ہے۔حقیقت بمعہ امثال کے حاضر خدمت ہے۔

ہمیں ابھی پولینڈ آئے ایک مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ میرے ایک دوست کے ساتھ ناچتے ہوئے بے خود ہو کر اس کی ہم رقص نے 
اس کو کندھے پر کاٹ لیا۔لو بائیٹ Love bite تو سنا ہی ہو گا بس لڑکی نے اس کے کندھے پر لاکھ کی مہر ثبت کر کے اشارہ دے دیا کہ لوہا گرم ہے پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم تک پہنچنے والا ہر لوہا ٹھنڈا ہی پایا گیا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 10, 2012

ایستونیا گئے کیوں اب رہوایستونیا کوئی دن اور

Estonia gae kiyo ab raho Estonia koi din aur


 جب چھوٹے تھے تو ہر دوسرے ماہ ایک کہانی ایسی بچوں کے رسالے میں پڑھنے کو مل جاتی تھی کہ جس کا آغاز یوں ہوتاتھا "جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب ہماری شامت آئی تو ہم نے یہ کیااور ہم نے وہ کیا"۔ بڑی خواہش تھی کہ ہم بھی ایک کہانی لکھیں جو ایسے ہی شروع ہو۔حالانکہ کافی عرصہ تو ہمیں سمجھ بھی نہیں آئی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔پر جیسے ہے نہ کہ دو شخص لڑرہے تو ایک گزرتے بندے نے پوچھا کیوں لڑ رہے ہو یار؟ ایک نے جواب دیا اس نے مجھے دو سال پہلے گینڈا کہا تھا۔اس گزرتے بندے نے کہا تو آج لڑنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تو لڑنے والے نے جواب دیا میں نے گینڈا آج ہی دیکھا ہے۔ 

تو ہمیں بھی اب سمجھ آئی کہ گیدڑ کی شامت کا مطلب کیا ہے لہذا میرا آج کا بلاگ ایسے شروع ہوتا ہے کہ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور ہماری شامت آئی تو ہم نے بھی شہر کا رخ کیا۔ شہر تھا تالین،مہینہ تھا جنوری اور درجہ حرارت تھا منفی پچیس۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 1, 2012

حکایت کی شامت

Hikayat ki shamat


چونکہ بات کو کھینچنے میں ہماری قوم اپنی مثال ہےاور آجکل ویسے ہی ایس ایم ایس کے دور میں جب ارسطو کی بات قاعدِ اعظم کے نام سے اور کوئی پھٹیچر شعر غالب کے نام سے موصول ہو رہا ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔ لہذا ہم نے جو حکایت سنی اس کے کردار دیو جانس کلبی اور سکندر اعظم تھے ممکن ہے آپ نے افلاطون، سقراط یا کسی اور کے نام سے سن رکھی ہو بہرحال واقعہ اپنی جگہ موجود ضرور ہے۔باقی کرداروں کا کیا ہے۔

 ہوا یوں کہ سکندر اعظم صاحب دیو جانس کلبی سے ملنے گئے حالانکہ ہمارا پٹواری کسی سے خؤد نہیں ملنے جاتا کجا حکمران۔بجائے اس کے کہ کسی کو بھیجوایا ہوتا کہ بادشاہ سلامت سلام دے رہے ہیں اور کلبی صاحب دوڑے دوڑے دربار پر حاضری دیتے موصوف خود ایک فلسفی جنہیں ہمارے ہاں کھسکے ہوئے سمجھا جاتا ہے سے ملنے پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر اپنی بادشاہی کی جون میں پوچھتے ہیں بول تجھے کیا چاہیے ۔قرین قیاس یہی ہے کہ اس زمانے میں آج کل کے صحافیوں کی طرح فلسفیوں کو لفافے پہنچائے جاتے تھے ۔اور اپنی اسی حاتم طائی کی قبر پر لاتیں مارنے کی عادت کے باعث جب سکندر صاحب اگلے جہان کو سدھارے تو ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔حالانکہ یہاں بادشاہ تو بادشاہ میڈیا ایڈوائزروں نے محل تعمیر کرا ڈالے ہیں۔موصوف نے بہرحال بادشاہوں کی جگ ہنسائی کا خاصا سامان کیا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad