December 21, 2013

کانفرنس کہانی

Conference kahani 


 کسی بھی کانفرنس میں جانے کا اور فائدہ ہو نہ ہو یہ فائدہ ضرور ہو جاتا ہے کہ سمجھ چاہے ایک لفظ نہ آئے ایک بلاگ 
ضرور ہو جاتا ہے۔ بطور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہم سے امید رکھتی ہے کہ ہم یونیورسٹی میں منعقد کی جانے والی ہر کانفرنس میں ضرور شرکت کریں لیکن اللہ کی رحمت سے ہم بلاگ بس میں بیٹھ کر ، بستر پر لیٹ کر، چہل قدمی کرتے ہوئے الغرض کہیں بھی کبھی لکھ سکتے ہیں تو بندہ کانفرنس میں جانے کا تردد کیوں کرے جہاں لوگوں کی باتیں سننی پڑیں ان کے سوالات سمجھنے پڑیں اور سب سے مشکل کام دو تین گھنٹے ہوشیار باش ہو کر بیٹھے رہو۔ تاہم کبھی کبھی بندہ پھنس جاتا ہے اور جانے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچتی تو یہ کانفرنس بھی ایسی ہی کانفرنسوں میں سے نکلی اور ہمیں جاتے ہی بنی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

December 11, 2013

اٹلی آئیں؟ بسم اللہ- اٹلی آئیں؟ماشا اللہ - حصہ دوم

Italy aain? Bismillah-Italy aain? Mashallah-Prat II


پچھلے بلاگ میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ کیسے ہم اٹلی پہنچے اور کیسے راجہ صاحب نے بسم اللہ کی بجائے ماشااللہ کہہ کر ہمارا استقبال کیا۔ بہرحال فائدہ یہ ہوا فوٹو آدھے پہنچ گئے ہیں اور باقی آدھوں کی امید ہے۔ اب آگے پڑھیں۔

سلوینیا کا وعدہ تو وفا نہ ہو البتہ ہماری دلجوئی کو وہ ہمیں ادھر ادھر لیے پھرے۔ کہیں پیزاکھلایا تو کہیں سینڈوچ کھلایا۔ چند خواتین سے بھی ملاقات کرائی جو محض اطالوی بولتی تھیں اور ملاقات کے بعد میں سوچتا رہا کہ یہ ملاقات کرائی تھی یا ملاقات کی تھی۔

اس سے اگلے روز وہ ایک کانفرنس میں لے گئے کہ آئیں یہ غیرسرکاری کانفرنس دراصل اٹلی میں انگریزی بولنے والوں کا اکٹھ ہے۔اس اکٹھ سے مجھے وہ اکٹھ یاد آیا جس میں وہ ہمیں بسم اللہ والے پھیرے میں لے گئے تھے اور جہاں کم از کم تین چار سو طلبا وطالبات پالٹی بازی میں مصروف تھے۔اگرچہ وہاں پر ہم تماشائی تھے لیکن پالٹی کرتے طلبا و طالبات کے اتنے بڑے مجمعے کو دیکھنا بذات خود ایک پالٹی ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

December 1, 2013

اٹلی آئیں؟ بسم اللہ- اٹلی آئیں؟ماشا اللہ - حصہ اول

Italy aain? bismillah- Italy aain? mashallah- hissa awal


ہوا یوں کہ میں نے عزم کیا کہ اٹلی دیکھے گئے اکثر ممالک کی طرح ایک روزہ دورے میں نہیں دیکھنا بلکہ تفصیلاً گھومنا 
ہے۔ اور شکر خورے کو شکر اللہ نے راجہ صاحب اٹلی والے کی صورت میں دیا کہ انہوں نے بلاوہ بھیج دیا کہ آ جائیں اور ہم چلے گئے۔ بہانہ اردو کانفرنس کا بنا اور ہم ریان ائیر کی سستی ٹکٹ خرید بیرگامو-میلان کے ہوائی اڈے کے لیےعازم سفر ہوئے جس کو حال ہی میں دنیا کے بدترین ہوائی اڈوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ ہم اس معاملے میں یورپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں کہ اس لسٹ میں ٹاپ دس میں ہمارا اسلام آباد بھی شامل ہے جبکہ بھارت تو دو قدم آگے ہے کہ اس کے تین ہوائی اڈے اس فہرست میں شامل ہیں۔

جہاز نے بیرگامو –میلان اترنا تھا جبکہ راجہ صاحب اٹلی والے کی رہائش پادوا میں ہے جو کہ دو ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے لہذا انہوں نے کہہ دیا کہ آپ وہاں سے ٹرین پکڑ کر پادوا آ جائیں اور میں نے حامی بھر لی۔ لیکن جب ہوائی اڈے پر اترا تو آگے راجہ صاحب اٹلی والے خود مجھے وصول کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ ان کو اپنا منتظر پا کر اور خصوصاً ہوائی اڈے پر منتظر پا کر بڑی خوشی ہوئی کہ ان کا دل نہ مانا تھا کہ مہمان کو خوار کیا جائے لہذا وہ خود ہی لینے چلے آئے اور ہمیں ریل گاڑی ، بس وغیرہ سے بچاتے ہوئے اپنی کار میں پادوا لے گئے جو کہ ہماری خود ساختہ کانفرنس کا میزبان مقام تھا۔ انہوں نے وینس دکھایا، ویرونہ گھومایا، جھیل گاردا کی سیر کرائی اور ہمیں جہاز میں سوار کر کے ہی ہمیں چھوڑا۔ اور ہمارے پاس ایسٹونیا آنے کا وعدہ کر لیا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 21, 2013

وینس۔ ول نہ وینساں

Venice- wal na Vensan


فلمیں کیسے لوگوں کا دماغ خراب کرتی ہیں اس کا اندازہ مجھے وینس جا کر ہوا۔ انگریزی فلمیں دیکھ دیکھ کر کئی لوگوں سے 
سنا کہ وینس نہ دیکھا تو دنیا میں کچھ نہ دیکھا۔ وینس عجوبہ ہے، دنیا سے آگے کی کوئی چیز ہے، خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک شہر ہے الا بلا اور وغیرہ وغیرہ. دی ٹورسٹ The Tourist ،دی اٹالین جاب The Italian Job اور اس کا حسب معمول فضول ہندی چربہ پلیئرز Players دیکھ کر جو لوگ کبھی چیچوں کی ملیا اور کالا شاہ کاکو سے آگے نہیں جا سکے وینس جانے کی خواہش کرنے لگے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 11, 2013

بطخ کی اداسی اور جھیل گاردا

Batakh ki udasi or jheel Garda

ایسٹونیا سے ہم جیکٹ ویکٹ پہن کر چلے تھے اور اٹلی میں لوگوں کا بس چلتا تو شرٹ بھی اتار پھینکتے۔ لیکن آج بارش نے 
سب کے دماغ ٹھکانے لگائے ہوئے تھے اور اللہ کی ہی مہربانی کے باعث فحاشی میں کمی واقع ہوئی تھی کہ خنکی کے پیش نظر اطالوی بیبیوں کو لحاظ آیا اور انہوں نے کچھ پورے کپڑے پہنے۔ راجہ صاحب اٹلی والے تو پنجابی زبان اور اطالوی زبان کے دور کے اکثر رشتے نکالتے رہتے ہیں جس کو ہم دل میں ناجائز رشتے کا نام دیتے رہے پہلی بار ان کے قائل ہوئے کہ پاکستانیوں کو بھی اللہ ہی نیک کرے تو کرے کسی انسان کے بس کا کام نہیں ایسے ہی اطالویوں کو بھی اللہ ہی نے سیدھا کیا ورنہ ساحل ہو ، گوری ہو اور پورے کپڑوں میں ہو تو خود کو چٹکی بھریے آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 6, 2013

شجر محبت

 Shajar-e-Muhabbat
سیانے کہتے ہیں آج کل کا زمانہ وہ وقت ہے کہ بندہ خود کو بیچنا چاہتا ہو تب بھی جب تک وہ بازار میں اپنے سینے پر برائےفروخت کی تختی لٹکائے نہ کھڑا ہو کوئی نہیں پوچھتا کہ کیسے بیچتے ہو؟

 تو ہم بھی سینے پر تختی لٹکائے بازار میں حاضر ہیں کہ اس بلاگ پر ویسے تو آپ طنز ومزاح ہی پڑھتے ہیں لیکن میرے چند ایک افسانے بھی پڑھ چکے ہیں اور انہی اور مزید افسانوں پر مشتمل کتاب شجر محبت کے نام سے شایع ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 1, 2013

شکار آہو توسط انسان

shikar aaho tawasut insaan



خوش قسمتی فقیر پر ہمیشہ مہربان رہی ہے اور نادیدہ قوتوں نے ماسوائے بورڈ کے امتحانات کے ہر گام پر غیبی امداد بہم 
پہنچائی ہے جن کی مہربانی سے زندگی کی تیس گرمیاں دیکھنے سے قبل ہی ایسے نادر تجربات و حواداث کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر ان کو احاطہ تحریر میں لایا جاوے تو خلقت کے واسطے باعث برکت و عبرت قرار پاویں۔ 

 کچھ سرگشتہ خمار رسوم و قیود قسم کے افراد یہاں پر دور کی کوڑی کے مصداق اعتراض اٹھائیں گے کہ درست محاورہ زندگی کی بہار ہے زندگی کی گرمی نہیں تو ایسے لکیر کے فقیروں کو سمجھانے کی ناکام کوشش کے واسطے عرض ہے "پتر کدی ملتان تے آؤ، بہار مہار سب بھول جاؤ گے" کہ شہر ملتان شریف واقع بیرون حدود لاہور و اندرون صوبہ پنجاب کہ وجہ شہرت ہی اس کے موسم کی سختی ہے کہ کسی صاحب حال کیا صاحب حال، ماضی و مستقبل نے تحریر کیا ہے اور اس صاحب بلاگ نے نقل کیا ہے کہ ایک شہر جو ہند سند میں واقع دریاؤں سے ایک دریا جس کا واحد مقصد محبت کی راہ میں روڑے اٹکانا رہا ہے المشہور چناب کے کنارے ہے اور ملتان کہلاتا ہے کا موسم ایسا ہے کہ بادشاہ وقت نے کسی کو جیل ڈالنا ہو اس کو ملتان کا قصد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور وہ تمام عمر شمس کی ہمسائیگی میں گزار دیتا ہے کہ اس عجوبہ بے روزگار شہر میں دو موسم پائے جاتے ہیں اول موسم گرما دوم موسم شدید گرما۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

October 21, 2013

بکرے کی بک بک

Bakry ki bak bak


صاحبان، قدر دان، قصائیان و مالکان میں ایک بکرا ہوں اور بِک رہا ہوں ۔ اگر آپ یہ فضول سوال پوچھیں کہ میں بکرا کیوں ہوں اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ چونکہ میں ایک بکری کے ہاں پیدا ہوا لہذا میں بکرا ہوں۔ کیونکہ انسان کے علاوہ اور کسی جاندار میں یہ طاقت نہیں کہ وہ جس کے ہاں پیدا ہوا ویسا نہ ہوا کہ بکرے کے گھر بکرے کا بچہ اور گدھے کے گھر گدھے کا بچہ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن انسان کا کوئی پتہ نہیں کہ انسان کے گھر پیدا ہونے والا انسان کا بچہ ہی ثابت ہو گا یا کچھ اور۔ اور اس سوال کے جواب میں کہ میں بِک کیوں رہا ہوں تو اپنے گریبان میں جھانک لیں پاکستانی ہو کر ایسے سوال۔ بہرحال میری فروخت کا معاملہ میرے یا میرے رشتے داروں دوست یاروں کے پیسے کمانے سے تعلق نہیں یہ سرا سر عید قربان کی وجہ سے خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ یہ سیانوں کی باتیں ہیں اور بکرے کے مغز کا سوائے بھون کر کھانے کے اور کوئی استعمال نہیں لہذا ایسی باتیں کیوں کی جائیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

October 11, 2013

روپیہ واقعی رو پیا؟

Ropiya waqee Ro piya


فرانسیسی کہاوت ہے کہ کرنسی چھاپنے والے پریس کے پیچھے پھانسی گھاٹ ہے۔ فرانسیسی واقعی دور رس نگاہ رکھنے والی قوم ہے جب ہی اتنی صدی آگے دیکھ لیا جب آگے ہمارے حکمران نوٹ چھاپ چھاپ کر گھر لیے جا رہے ہیں اور پیچھے عوام پھانسی گھاٹ پر قطار بنائے کھڑی ہے۔

کرنسی نوٹ سب سے پہلے چھاپنے کا ذمہ چینیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے آئی ایم ایف IMF اور ورلڈ بنکWorld Bank سے پہلے بلکہ کافی پہلے یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی پہلے ہی نوٹ چھاپے تھے لیکن تب سیانے لوگ دنیا میں موجود تھے اور ان کا کہا مانا بھی جاتا تھا تو انہوں نے سمجھا بچھا کر نوٹ چھپوانے بند کر دیے۔

دنیا میں شروع میں بارٹر نظام چلا کرتا تھا کہ کسی شے کے بدلے کوئی اور شے۔ اس میں چیز کی قیمت سودا لینے والے اور دینے والے پر منحصر ہوتی تھی یعنی میرے پاس سونا وافر ہے اور کسی ساتھی بلاگر کے پاس انڈے وافر ہیں تو میں خوشی خوشی دس گرام سونے کے بدلے ایک درجن انڈے لے لیا کرتا تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

October 1, 2013

میرے بچپن کی یادگار شرارتیں

Mere bachpan ki yadgar shrartain


حالانکہ بہت سے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں بچپن میں انتہائی بیبا، باادب اور معصوم بچہ تھا اور آج کل کے بچوں کو دیکھتے ہوئے تو ہماری شرافت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم بھی پورے سورے تھے بس خدمت کا موقع نہیں ملا اور والد صاحب کے ڈر سے اکثر کاموں سے باز رہتے اور لگے رہتے ہوائی قلعے بنانے جس میں ہم اکثر فاتح عالم بنتے یا اکیلے پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوا آتے بعد میں کافی عرصہ ہم خیالی جاسوس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔انہی سوچوں میں گم رہنے کی بنا پر کئی لوگوں نے ہم کو بے وقوف مشہور کرنا چاہا لیکن اللہ کے فضل سے اپنی شہرت بچپن سے ہی اچھی رہی ہے اور اتنی اچھی رہی ہے کہ کبھی رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے تو یہ کہہ کر چھوڑ دیے گئے علی ایسا نہیں کر سکتا یہ کسی اور کی شرارت ہو گی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

September 21, 2013

چشمہ طلسم بحر طلسم

chashma e talism baher e talism


یوں تو زندگی میں کم ہی ایسی چیزیں گزری ہیں جن سے میں متاثر ہوا ہوں البتہ مجھے جتنا چشمے نے متاثر کیا ہے کبھی کسی چیز نے اتنا متاثر نہیں کیا ۔ جب میرے ہم عمر کمپیوٹر، ٹی وی اور ویڈیو گیموں Video games کی تمنا کرتے تھے میری ہر ممکن کوشش رہی تھی کہ کسی طرح چشمہ لگ جائے۔

اب خدا جانے میں چشمے سے کب اور کیسے متاثر ہوا کہ میرا مقصد بن کر رہ گیا کہ کسی طرح عینک لگ جائے کئی بہانے کیے کہ سر میں درد رہتا ہے، دھندلا نظر آتا ہے، آنکھوں میں جلن ہوتی ہے، چکر آتے ہیں، پڑھا نہیں جاتا لیکن ہر بار ڈاکٹروں نے بڑی سفاکی سے میرے ارمانوں کا خون کیا اور ہر مجھے نظر کے بالکل درست ہونے کا پروانہ تھما کر روانہ کیا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

September 11, 2013

میں پروفیسر کیوں بننا چاہتا ہوں

Main professor kiyo banna chahta hoon

یوں تو پاکستان میں ہر سرکاری عہدے کے سرکاری مزے ہیں ۔کلرک ہو، ڈاکیا ہو، افسر ہو یا کوئی اور سرکاری عہدہ۔الگ ہی موجیں ہیں۔لوگ دن رات ایک کر کے سی ایس ایس اور پی سی ایس کرتے ہیں کہ سرکاری افسر لگ جائیں۔ڈاکٹر ،انجنیئر کے بعد سرکاری افسر ایک تمام نسل کا خواب رہا ہے۔

کسی بھی سرکاری ملازمت کو حاصل کرنے کے لیے تین میں سے ایک شے کا ہونا لازمی ہے۔یا تو تگڑی سفارش ہو۔سفارش میں اپنا یہ حال ہے تگڑی چھوڑ کانگڑی نہیں ملتی۔ہمیں تو لیزنگ والوں سے کار آج تک نہیں مل سکی کہ ہمارے ہمسائے بھی لیزنگ والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ اس بندے کو کار نہ دینا ہم نہیں جانتے۔  

ویسے آج کل سفارش سے زیادہ پیسہ چلتا ہے۔اب بندہ کہاں سے دس پندرہ لاکھ بھر کر پٹواری، تھانیدار یا واڈرن لگے کہ یہاں تو دس پندرہ ہزار کے لالے اور ملالے پڑے رہتے ہیں۔

تیسرا راستہ ہے سرکاری امتحانات کا۔بدقسمتی سے جنرل نالج میں ہم صفر ہیں کہ اپنے علاقے کے علاوہ ہمیں کسی سے کوئی علاقہ نہیں اور انگریزی میں ہم منفی دس ہیں کہ انگریزی کے ہجے کرنا تک ہمارے بس کا کام نہیں اور مضمون نگاری تو دور کی بات ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

September 1, 2013

میرا سوہنا شہر ملتان

Mera sohna sheher Multan

جب کوئی مجھے ملتان میں ملنے آتا ہے تو پہلی جگہ جہاں میں اس کو لے جاتا ہوں اگلے بندے کی جیب کے مطابق۔ اگر صاحب حیثیت ہو تو زین زی بار یا بندو خان اور اگر غریب ہو تو شفیق سموسے والے کے پاس لے جاتا ہوں۔ اگر مجھے یقین ہو کہ پیسے مجھے بھرنے ہوں گے تو اپنے گھر بلا لیتا ہوں جہاں چائے بسکٹ ٹینگ Tang میں کام نمٹ جاتا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

August 21, 2013

یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

 Yeh tera Pakistan hai yeh mera Pakistan hai


نئے پاکستانیوں ، بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو شکایت رہتی ہے کہ پاکستان میں کوئی قاعدہ قانون نہیں اسی تاثر کی نفی کرنے کا بیڑہ اس اردو بلاگ میں اٹھایا گیا ہے اور تمام رائج قوانین کو مجتمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ اس سلسلے کا پہلا حصہ ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں رائج غیر تحریر شدہ قوانین اور اصول پہلی بار احاطہ تحریر میں لائے گئے ہیں امید ہے اس پر عمل کرتے ہوئے لوگوں فائدہ اٹھائیں گے اور اس نئے مطالعہ پاکستان کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

August 11, 2013

اصل،نقل

Asal, Naqal

ہم تین دوست تھے۔۔۔ تینوں ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔گاؤں تو خیر بڑے شہر والے کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک چھوٹا شہر ہے۔ ایک غیر معروف تحصیل ہے۔اور ہم تینوں سولہویں کرنے ایک بڑے شہر کی یونیورسٹی میں آئے تھے۔چھوٹے شہروں سے آنے والے عام طور پر اس پانی کے ریلے کی مانند ہو تے ہیں جو مٹی اور پتھر کے ڈالے گئے بند سے ٹکراتا پھر رہا ہوتا ہے اور جہاں پشتہ کمزور ہوتا ہے وہاں سے بہہ نکلتا ہے۔ہم تینوں کو کلچر اور ثقافت کے دامن میں پناہ ملی اور ہمارا یونیورسٹی میں کم اور ادبی ثقافتی محفلوں میں اُٹھنا بیٹھنا زیادہ ہو گیا۔ گلوکاری،شاعری،طبلہ نوازی،کہانی نویسی و مکالمے اور ا ن کو بولنے کا ڈھنگ۔یہی کچھ ہمارا اُوڑھنا بچھونا تھا۔ 

معاشرتی سائنس میں ماسٹرز کرنا ویسے بھی کوئی ایسا محنت طلب کام نہیں۔۔۔ اور ہوتا بھی سہی تو ہمیں کون صحیح غلط کی تلقین کرنے والا تھا۔ لہٰذا پڑھائی اور شوق ساتھ چل پڑے اور آہستہ آہستہ ہم پر یہ راز منکشف ہوگیا کہ عام طور پر لوگوں کے دلوں میں ادب و ثقافت کی بڑی چاہ ہے۔۔۔ ان لوگوں کو دل ہی دل میں بڑی عزت دی جاتی ہے جو اس شعبے سے منسلک ہوتے ہیں۔دل میں طلب مزید بڑھ گئی۔ طلبا عام طور پر کھانا کھانے کی ایسی جگہیں تلاش کرتے ہیں جہاں ان کے پیسے بھی کم لگیں اور کھانا بھی پیٹ بھر کر مل جائے،ایسی جگہیں عام طور پر اندرونِ شہر بکثرت پائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

August 1, 2013

بروج/ ستارے اور ان کا احوال


یوں تو تمام انسانوں کو بارہ گروہوں میں تقسیم کرنا کوئی عقلمندی کا کام نہیں کہ ہمارے ہاں تو اکیلا بندہ بارہ بارہ شخصیات کا حامل ہوتا ہے لیکن اب کرنے والوں نے کر دیا ہے تو ایسے ہی کام چلانا پڑے گا ویسے بھی ہمارے ملک میں تو لوگوں کی فقط دو اقسام ہیں آقا اور عوام اور یہ تو پھر بارہ قسمیں ہیں۔

ہر شخص کا برج اس کی تاریخ پیدائش کے حساب سے دیکھا جاتا ہے تاہم اگر وہ ایسے گھر پیدا ہوا ہو جہاں ڈائری لکھنے کا رواج نہ ہو اور اس کو اپنی تاریخ پیدائش نہ معلوم ہو سکے تو ان کے لیے خصوصی پیکج کے تحت ناموں کے پہلے حرف کے حساب سے برج بانٹے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 23, 2013

نہانا ٹیوب ویل میں اور جانا جان سے

nahana tube well main or jana jaan se


بچپن سے ہی دو تین خواب مسلسل دیکھتا آیا ہوں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں کسی بلند جگہ پر چڑھ جاتا ہوں مثلاً کسی دیوار پر، کسی چوبارے پر ، کسی چھت پر کسی اونچی دیوار پر اور اس کے بعد خوف میں مبتلا ہوتا ہوں کہ "بیٹا یہاں آ تو گئے ہو اب اترو گے کیسے؟" یہ خواب اس تواتر سے آتا رہا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے جب میں خواب میں نیچے اترنے کے متعلق پریشان ہو رہا ہوتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ وہی خواب ہے لہذا اب مجھے جاگ جانا چاہیے تاکہ خوف ختم ہو سکے اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔

خواب اس لیے یاد آیا کہ پچھلے سال گرمیوں میں چار ماہ کے لیے پاکستان گیا تو میرے دوست نعمان خان نے مجھے اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی جو کہ بہاولنگر کے قریب واقع ہے۔ ہم نے بخوشی اس کی دعوت قبول کر لی اور اس کے مہمان ہوگئے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 15, 2013

کون کی کھوج

Kon ki khoj


 راہ چلتے میری تم پر نظر پڑی ،مجھے ایک جانا پہچانا سا احساس ہوا۔۔۔جیسے ایک شناسا سا ذائقہ زبان پر آ جائے۔ تم نے ایک لمحے کو مجھے دیکھا۔ تمھاری آنکھوں میں شناسائی تھی۔ تمھاری مسکراہٹ۔۔۔ جانی پہچانی مسکراہٹ تھی۔ جیسے موڑ مڑتے ہی سامنے منزل سامنے آگئی ہو۔ اچانک ہی کوئی کھوج کی تکلیف سے آزاد ہو گیا ہو۔میری تمام حسیات اس کی طرف مرکوز ہو گئیں۔کون ہے؟کون ہے؟کون ہے؟کہاں دیکھا ہے؟کہاں دیکھا ہے؟کہاں دیکھا ہے؟میں وہاں رُکا تو نہیں لیکن اس لمحے کی تصویر میرے دل نے محفوظ کر لی اور میں یادداشت کے سہارے ماضی کے اوراق پلٹنے لگا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 7, 2013

جانا اٹلی اور ملاقات ماسی جیولیٹ سے

 Jana Italy aur mulaqaat masi Juliet se

عشق معشوقی میں جو درجہ سسی پنوں، ہیر رانجھا اور سوہنی ماہی وال نے پایا ہے وہی درجہ عربوں کے ہاں لیلی مجنوں اور انگریزوں کے ہاں رومیو جولیٹ کا ہے۔ ہم اپنی زبان اور اپنا ملک تک کو کامیاب کرا نہیں سکے اپنی ثقافت کیا خاک دنیا کے سامنے لاتے نتیجۃ ہماری سسیاں تھل میں خاک چھانتی رہ گئیں، سوہنیاں دریا برد ہو گئیں اور شیریںیاں نہر کھدوانے کی ٹھیکیداری کو پیاری ہوگئیں ادھر ولایتی ولی میاں شیخ پیر المعروف ولیم شیکسپئرWilliam Shakespeare نے رومیو جولیٹ لکھا اور اس کو تمام دنیا کے سامنے لازوال بنا دیا کہ ہماری طرح اور بھی کافی دنیا انگریزوں کی نقالی کرتی ہے تو انگریزی کے احساس کمتری کے ماروں کی مہربانی سے رومیو جولیٹ دنیا کے بڑے عاشقوں میں شمار ہوئے۔

اٹلی Italy کے شہر ویرونہ Verona میں وقوع پذیر ہونے والے رومیو جولیٹ کے اس عشق کے چکر کو ویرونہ والوں نے دیوتائی حیثیت دے رکھی ہے اور جولیٹ کا گھر ، جولیٹ کا مجسمہ،جولیٹ کی گلی، جولیٹ کے کارنامے سب کچھ سنبھال کر رکھا ہے البتہ حرام موت مرنے والے میاں رومیو کا ذکر کم کم ملتا ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 1, 2013

ببر شیر

Baber shair 

شیر جنگل کا بادشاہ ہے ۔اس کی چار ٹانگیں اور ایک دم ہوتی ہے۔ دم کو خاص ذہن نشین کیجیے کہ اکثر دو ٹانگوں پر چلنے والے گٹھنوں کے بل جھک کر اپنے دو بازوؤں کو ٹانگیں بنالیتے ہیں اور اسی بنا پر چار ٹانگوں کا دعوی کر کے شیر کہلاتے ہیں تاہم دم سے وہ باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں کہ وہ شیر ہیں یا نہیں۔شیر کی دم کا سوائے شناختی علامت کے ہونے کے کوئی اور مقصد ہماری نظر سے نہیں گزرا کہ جیسے گدھے کی پہچان اس کے سینگ کا نہ ہونا ہوتے ہیں ایسے ہی شیر کی پہچان اس کی دم کا ہونا ہوتے ہے۔


شیر کی سات اقسام تھیں جن میں سے اب فقط دو ایشیائی شیر اور افریقی شیر دنیا میں پائی جاتی ہیں جبکہ باقی اقسام صفحہ ہستی سے غائب ہو چکی ہیں اور ان کی فقط تصاویر پائی جاتی ہیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ان سات میں سے خواہ وہ پہاڑی شیر ہو یا غاری شیر کوئی بھی ایسی قسم نہیں پائی گئی جو انسانوں سی گفتگو کر سکتی ہو یا دو ٹانگوں پر چل سکتی ہو یا دم نہ رکھتی ہو یا دم نہ رکھنے کے باوجود دم پر پاؤں پڑتے ہی کاٹنے کے دوڑتا ہو۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 25, 2013

پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی کی دریافت

Pishawar main mitti main zinda rehny wali machli ki daryaft

خبر:پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی دریافت۔شہری پرجوش


یوں تو مٹی میں رہنے والی مچھلی کوئی نئی بات نہیں۔ انگریزی میں اس کو walking fish یا ambulatory fish کہا جاتا ہے اور اس کو اردو میں سیار مچھلی کہا جا سکتا ہے کی پہلے ہی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ یہ مچھلی لمبے عرصے تک پانی کے بغیر زندہ رہ لیتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سائینسی تحقیق نہ ہونے کے برابر کی وجہ سے ایسی کوئی بھی ایجاد حیران کن قرار پاتی ہے جبکہ میرے خیال میں یہ حیران کن نہیں بلکہ پریشان کن خبر ہے۔

دنیا کی تمام مخلوق نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و اطوار میں تبدیلی لائی اور جو نہ لا سکے وہ دنیا سے نیست نابود ہو گئے۔ خشکی پر چلنے والوں نے سمندروں میں تیرنا سیکھا، گرمی کے عادیوں نے سردیوں کی عادت ڈالی، پہاڑی علاقے کے باسی ریگستان میں رہنے لگے، ڈائینو سار کی نسل سکڑتے سکڑتے چھپکلیاں بن گئی، بلی کے بھتیجے بھانجے شیر چیتے بن گئے غرض جیسے جیسے موسم بدلا، خطے میں تبدیلی آئی وہ اسی آب و ہوا میں ڈھلتے چلے گئے اور زندہ رہے اور جو نہ ڈھال پائے وہ ہمیشہ قائم رہنے کے باوجود قائم علی شاہ سے خوش قسمت ثابت نہ ہو سکے اور چوتھی باری آنے سے پہلے ہی جہان پاک کر گئے ۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 19, 2013

استاد جی ہمراہ سائیڈ پروگرام میاں نیک دل

Ustad ji hamrah side program mian naik dil


میاں نیک دل کا فون آیا کہ استاد جی کے ہمراہ میں جمعہ کو آپ کے پاس آؤں گا۔ کچھ اپنی قسمت خراب تھی اور کچھ بلاگروں کی تعریفوں کے انبار، استاد جی سے ملاقات کا خاصا اشتیاق تھا۔ نیک دل صاحب سے پہلے ملاقات ہو چکی تھی اور جتنے وہ دیکھنے میں نرم لگتے ہیں دل کے بھی اتنے ہی نرم ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جن سے مل کر اگر آپ کے اندر حیا لحاظ باقی ہے تو یہ ہر بار آپ کو اپنا احسان مند کر کے جاتے ہیں اور آپ ہر بار سوچتے ہیں کہ ایسوں سے نہیں ملنا نہیں چاہیے ۔

میاں نیک دل صاحب کار سے اترے اور مجھے گلے ملے۔ جب میں میاں نیک دل سے مل چکا تو ایک لڑکا سا آ کر ملا، "کیا حال ہیں پائین۔۔" ۔ دل کو صدمہ سا لگا کہ یہ ہیں استاد جی؟ لیکن کن اکھیوں سے کار میں تاکا جھانکی کرتا رہا کہ شاید یہ استاد جی نہ ہوں استاد جی اندر بیٹھے ہوں اور یہ فقط استاد جی کا چھوٹا ہوں لیکن وہی استاد جی تھے ۔ اور میں نے جو زبان سے ان کی تعریفوں کے ڈونگے برسائے تھے گاڑی میں بیٹھ کر دل کو منانے لگا کہ شکل کا بخت اور عقل سے کوئی تعلق نہیں اور مزید وزن پیدا کرنے کو شیشے میں اپنی شکل دیکھنا شروع کر دی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 13, 2013

سینچری پوسٹ۔ بلاگ اور بلاگر کا تعارف

Century post- Blog or Blogger ka taruf


میرے بلاگ لکھنے کی براہ راست ذمہ داری میرے ماموں پر آتی ہے کہ وہ کمپیوٹر انجنیئر ہیں اور امریکہ میں ہوتے ہیں تو کہنے لگے "شاہ جی آپ بلاگ کیوں نہیں لکھتے"؟ "یہ بلاگ کس چڑیا کا نام ہے ماموں"؟ وہ بولے" آج کل دنیا کتب کی بجائے بلاگ لکھنے پر منتقل ہو رہی ہے"۔ "اچھا جی"!

جب میرے ہم عمر ڈاکٹر، انجنیئر اور فوج میں جانے کے خواب دیکھا کرتے تھے تو تب ہی میری خواہش تھی کہ میں بڑا ہو کر ادیب بنوں اور وقت کے ساتھ اس خواب میں شدت آتی گئی اور زندگی کا مقصد فقط یہ بن گیا کہ کسی پبلشر کو پیسے دے دلا کر ایک کتاب چھپوا لی جائے اور ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے کہ یہ بلاگ بیچ میں آن ٹپکا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 7, 2013

سفرنامہ گدائنسک

 Safarnama Gdansk -Poland


جب ملتان کی ہاڑ کی گرمی سے نکل کر پہلی بار یورپ کے ٹھنڈے میٹھے جون میں پہنچے تو آنے سے پہلے ہی عزم کر کے آئے تھے کہ یورپ کا چپہ چپہ گھومنا ہے۔ کوئی قصبہ کوئی شہر کوئی ملک ایسا نہیں بچے گا جہاں ہمارے مبارک قدم نہ پڑے ہوں تاہم پولینڈ اترتے ہی جب قیمتوں کے آٹے دال کا بھاؤ اور یورپی ویزے کے لیے ایک سال انتظار کرنے کی خبر ملی تو ہمارے ارمان بھی پولینڈ کے موسم کی طرح ٹھنڈے ہوگئے ۔ہم نے منصوبہ ب (پلان بی Plan B) سوچا کہ "تو نہ سہی تیری یاد ہی سہی" تو یورپ نہ سہی پولینڈ کا چپہ چپہ ہی گھوم لیا جائے لیکن پولش زبان سے نا واقفیت بری طرح آڑے آئی کہ ہمیں تو وارسا میں پوچھنا پڑتا تھا کہ "باجی آپ کو انگریزی آتی ہے؟ اگر ہاں تو یہ تو بتا دیں ٹکٹ کہاں سے لیتے ہیں اور مہربانی کر کے ایک ٹکٹ فلاں اسٹیشن کی موبائل میں ٹائپ کر دیں تاکہ ٹکٹ دینے والی ماسی کو کچھ سمجھ آ سکے"۔ تاہم شوق پوری طرح ٹھنڈا نہ ہوا اور دل وارسا سے باہر نکلنے کو مچلتا رہا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 1, 2013

ہائے ری مہنگائی

hi ri mehngai


انگریزی میں مہنگائی کو انفلیشن inflation اور اردو میں انفلیشن کو افراط زر کہا جاتا ہے۔افراط زر دراصل اس مقصد کے تحت نام دیا گیا ہے کہ جدید اکنامکس یا معاشیات کے تحت مہنگائی ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ ہو گیا ہے جس کو وہ خرچ کریں گے اور زیادہ گاہک ہونے کی صورت میں بیچنے والا منہ مانگے دام وصول کرے گا چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ وہ پیسہ کسی طریقے سے واپس لے لو۔ اب واپس لینے میں امیر کوتو نقصان نہیں ہوتا بےچارہ غریب مارا جاتا ہے کہ حکومت یا اسٹیٹ بنک گھر گھر جا کر تو نہیں کہے گی کہ بھائی نکالو پیسے جو گھر پڑے ہیں (ویسے کیا پتہ در پردہ ڈاکوؤں کو انہی کی پشت پناہی حاصل ہو اور ہم جو دن رات بد امنی کو گالیاں نکالتے ہیں وہ دراصل عوام کی فلاح میں مہنگائی ختم کرنے کا علاج ہو ) تاہم حکومت ٹیکس لگا کر اور بینک سود کا ریٹ بڑھا کر نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نوکریاں ختم ہو جائیں گی اور غریب پہلی ہی فرصت میں اپنے پیسے خرچ کر کے صبر کر لے گا اور دکاندار گاہک کم ہونے پر قیمت کم کریں دیں گے اور غریب کے وہ پیسے امیر کے اکاؤنٹ میں جا کر مارکیٹ میں زیر گردش روپیہ کی کمی کا سبب بن جائیں گے گویا مہنگائی ختم کرنے کے لیے قیمتوں کو نیچے مت لاؤ بلکہ بندے ہی مکاؤ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا منشور کہ غربت نہیں غریب مکاؤ کتنا سائنٹیفک ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 25, 2013

موزے پہننے پر پابندی - پاکستان سے ایک خبر

Mouzay pehnny per pabandi. Pakistan se aik khabar

خبر: بجلی کے شدید بحران کے سبب پاکستانی حکام نے سرکاری ملازمین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دفاتر میں موزے نہ پہنیں۔ ملک کے سرکاری دفاتر میں تمام ائیر کنڈشنرز کو بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

یوں تو اس بلاگ میں کوشش کی جاتی ہے کہ سیاسی بات نہ کی جائے لیکن کیا کیا جائے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ خود بیل کو سینگ گھسیڑنے کی دعوت دے جاتے ہیں۔تو پھر سیاست پر ایک غیر سیاسی بلاگ اور سہی۔

مانا کہ جرابوں کے بے شمار نقصانات ہیں مثلاً خشکی پیدا کرتی ہیں کوئی کوئی تو الرجی کر دیتی ہیں، پاؤں میں فنگس ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن موزوں اور بجلی کا تعلق؟ ماروں گٹھنا پھوٹے آنکھ محاورے کا موجد لازماً کوئی پاکستانی رہا ہو گا وگرنہ یہاں کے سرکاری اقدامات دیکھے بغیر اس کو اتنی بڑی حقیقت سمجھ نہ آتی کہ ہمارے ہاں اکثر فیصلےایسے ہی     لا جواب اور بے مثال ہوتے ہیں۔ ڈبل سواری پر پابندی موبائل پر پابندی اور ہفتے کی چھٹی کا فیصلہ ابھی بھولا نہیں کہ اب یہ نیا شاہکار سامنے آگیا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 19, 2013

پاکستان سے باہر(یورپ میں) کسی پاکستانی سے پہلی ملاقات

 Pakistan se bahir (Europe main) kisi pakistani se pehli mulaqat

ملتان سے وارسا کا 30 گھنٹے کا سفر ختم کر کے جب ہم وارسا کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو پتہ لگا کہ ہمیں یونیورسٹی کی طرف سے جس نے لینے آنا تھا وہ فلائیٹ کی تاخیر کی وجہ سے واپس جا چکا ہے اور ہم جو پہلی بار گھر سے باہر نکلے تھے گوروں کےدیس میں بے یارو مددگار کھڑے تھے۔گھر بتانا چاہا کہ ہم خیر خیریت سے پولینڈ پہنچ چکے ہیں تو پانچ یورو کا کارڈ ہیلو ہائے میں ہی اگلے جہاں پہنچ گیا جس سے ہمیں یورپ اور آسمان کی قربت کا احساس ہوا۔

یونیورسٹی کے تنظیمی امور سنبھالنے والے کو فون کیا تو وہ بنگالی نکلا شہریت کے حساب سے بھی اور حرکات کے حساب سے بھی۔اس نے جواب دیا آپ کا جہاز تاخیر سے آیا ہے ہمارا کیا قصور۔اب آپ دکان سے سم لو پھر اس نمبر سے مجھے فون کرو پھر میں آپ کو اُس نمبر پر تحریری پیغام کی صورت میں پتہ بھیجوں گا آپ ٹیکسی کر کے چلے جاؤ اس ہاسٹل میں آپ کی رہائش کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ تب ہمیں پتہ نہ تھا کہ پولینڈ میں کسی پولے یا غیر پولے کو شام کے بعد فون کرنے کا مطلب مجلس خاص کے رنگ میں بھنگ ڈالنا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 13, 2013

اشرف الحیوانات- افسانہ/کہانی

Ashraf-ul-Makhlooqat-afsana/short story

ایک تھا جنگل. اب پتہ نہیں وہ جنگل تھا یا نہیں تاہم وہاں قانون جنگل کا ہی چلتا تھا۔ کسی بوڑھے نیک دل شیر نے جس کی اولاد نہیں تھی مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ آج کے بعد یہاں کوئی شیر اس وجہ سے بادشاہ نہیں رہ پائے گا کہ وہ طاقت ور ہے، اس کی بجائے جو جانور سب سے زیادہ قابل ہو گاوہی بادشاہی کے کا حقدار ہو گا۔ تاہم قابلیت کی تعریف اس نیک بخت نے بھی نہ کی۔ شروع شروع میں تو وہاں شیروں کا ہی بول بالا رہا تاہم بدلتے وقت نے جنگل بھی بدل ڈالا اور قانون یہ قرار پایا کہ جو سب سے زیادہ قیمتی پتھر جمع کر پائے گا وہی بادشاہ بن پائے گا۔ قیمتی پتھر وہاں عام نہیں ملتے تھے بلکہ ان کو ڈھونڈنے کی خاطر پہاڑوں، دریاؤں، وادیوں، صحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ کئی جانور تو اس تلاش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ تاہم ہوا یوں کہ ایک بار اس جنگل کا حکمران ایک گیدڑ بن بیٹھا ۔ اب اس نے اتنے پتھر جمع کیسے کیے یہ ایک الگ کہانی ہے تاہم اس کو پتھر گننے والی کمیٹی کو چوری شدہ پتھروں اور غلط گنتی پر رام کرنے کیلئے بڑے جتن کرنے پڑے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 7, 2013

پاکستان میں شجر کاری

درخت جڑ سے اکھاڑنا
Pakistan main shajar kari

پاکستانی قوم کے دو ہی شوق ہیں پیسہ ہو اور بے شمار ہو۔کہتے ہیں ایک پاکستانی کو شیشے کی ایک بوتل سڑک پر پڑی ملی۔ اس نے سوچا کچھ شغل ہو جائے۔ اس نے بوتل سڑک پر توڑ دی تاکہ آتی جاتی کاروں کے پہیے پنکچر ہوتے رہیں۔ اتفاق سے اس بوتل میں ایک جن قید تھا چونکہ وہ جن پاکستان بننے سے پہلے کا قید تھا لہذا وہ پاکستانیوں کے کرتوتوں سے نا واقف تھا تو وہ سمجھا شاید اس کو آزاد کرنے کی خاطر بوتل توڑی گئی ہے ۔ اس نے پوچھا آقا کوئی سی تین خواہشیں بتائیں۔ پاکستانی نے کہا ایک تو میرے گھر میں ٹیکسال لگ جائے جو اندھا دھند نوٹ چھاپتی رہے اور وہ ہو بھی سب کے سامنے کہ رعب پڑتا رہے دوسرا وہ نوٹ خود بخود میری جیبوں میں اور اکاؤنٹوں میں منتقل ہوتے رہیں اور تیسرا باقی سب کے نوٹ جعلی ہو جائیں۔جن جانے لگا تو پاکستانی بولا بھائی صاحب آپ ناراض ہو گئے چلیں یورپ کا یا کسی عربی ملک کا آزاد ویزہ ہی دلا دو وہ بولا سرکار مجھے پتہ نہیں تھا پاکستان بن گیا ہے میں اور بوتل ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 1, 2013

گرائمر کے اسباق-اسم کی اقسام

 اسم – فعل- حرف
 پہلے اسم شریف ہوا کرتا تھا جب ہی پوچھا جاتا تھا "آپ کا اسم شریف"؟ لیکن اب پاکستان میں صرف نام کے شریف ہی جی سکتے ہیں کام کے شریف تو چلو بھر پانی کے بغیر ہی ڈوب مرتے ہیں لہذا اسم شریف ختم ہو گیا ہے اور اب نام اور نیم name سے کام چلایا جاتا ہے۔


فعل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں"ع" آتا ہے(فعل) اور دوسرے وہ جن میں"ی" آتا ہے(فیل)۔اگر "ع" والے فعل کرتے رہیں تو "ی" والے فیل سے بچاؤ ممکن ہے اب یہ الگ بات کہ وہ "ع" والا فعل پیسے سے کیا جائے ، محنت سے جائے، خوشامد سے کیا جائے یا نقل سے کیا جائے۔بہرحال "ع" والے فعل کا مطلب ہے کرنا اور "ی" والے فیل کا مطلب ہے نہ کر سکنا۔"ع" والا فعل اکثر جگہوں پر باعث برکت بنتا ہے جبکہ" ی" والا سوائے عشق کے کہیں بھی کامیاب نہیں۔ طالب علم اکثر امتحانوں میں اس "ع" والے فعل کے چکر میں پھنس کر "ی" والے فیل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں ۔"ی" والا فیل اساتذہ کا بھی پسندیدہ ہے کہ انکو کل نمبر لکھنے کی بجائے فقط ایف F ہی لکھنا ہوتا ہے۔فعلوں اور فیلوں کی ڈھیر ساری اقسام ہیں تاہم ان کو الگ بلاگ میں تفصیل سے لکھا جائے گا۔

 پڑھتے آئے ہیں کہ لکھا ہوا حرف پتھر پر لکیر ہوتا ہے لیکن ربر، ریموور اور کرینوں کی آمد کے بعد نہ پتھر رہے نہ پتھر پر لکیر۔ تاہم حرف ابھی بھی لکھے جا رہے ہیں کوئی سمجھے نہ سمجھے کوئی پڑھے نہ پڑھے ہماری بلا سے

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 25, 2013

جوئے شعر لانا- حصہ دوئم

joe shair lana- hissa doem

اس سے پہلے آپ حصہ اول میں پڑھ چکے ہیں:
اباجی کا پڑھائی پر اصرار اور ہماری دلچسپی فقط رسائل و جرائد تک
ٹیوشن والے استاد جی کے ڈنڈے کے راگ رنگ پروگرام اور ہماری بے بسی
بڑے بھائی کی نام نہاد دوستی اور ابا جی کو ہماری شکایتوں کی مستقل بنیادوں پر ترسیل
کرکٹ کا بخار اور گیند بازی میں پڑنے والی مار
کسی لڑکی کا نہ دیکھنا، ہنس کے دیکھنا مجھے
نتیجہ: ہمارا بننا شاعر اور رکھنا تخلص کزن۔
آگے پڑھیں....

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 19, 2013

جوئے شعر لانا-حصہ اول

Joe shair lana-hissa awal

 لیں جی پھر شام آگئی ہے، آج پھر ابا جی سے جھڑکیاں پڑی ہیں، ٹیوشن کا کام نہ کرنے پر استاد صاحب کے ہاتھوں دوزخ سے بچاؤ کے ٹیکے لگے، ایک اوور میں چار چھکے لگ گئے اور سب سے آخر میں گھر پہنچا تو بڑے بھائی صاحب میرے کھانے پر ہاتھ صاف کر چکے تھے ایسی صورت حال میں کوئی کیونکر جیے؟


 ابا جی ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں پڑھو، پڑھو اور پڑھو،لیکن آخر یار کوئی حد بھی ہوتی ہے پڑھائی کی۔ کالج سے ہوآئے ، ٹیوشن سے ہوآئے، ہوم ورک ہو گیا، اگلے سال کے پرچوں تک کی تیاری کر لی اب اور کیا پڑھیں؟ اب بندہ ایف اے میں ہوتے ہوئے پی ایچ ڈی تو نہ کرلے۔ جب جھڑکیاں زبانی کی حد پار کرتی ہوئی دستانی تک پہنچی تو ہمیں تشویش ہوئی کہ یار یہ کام خطرناک ہے تو ہم نے دو دھاری نسخہ آزما ڈالا۔ کچھ عرصہ تو سکون رہا ابا جی سمجھے کہ چلو بچہ پڑھنے لگ گیا ہے مگر ایک دن ابا جی نے وہ سوال کر ڈالا جسکا جواب صرف مجھے آتا تھااور بجائے شاباشی کے روز روز کی جھڑکیاں مستقل ہمارا مقدر بن گئیں۔ سوال تھا یہ عمران سیریز اور جاسوسی ڈائجسٹ کون پڑھتا ہے اور میرا جواب تھا میں۔ اور اس جواب نے ہماری پڑھائی میں دلچسپی پر کافی روشنی ڈال دی۔ اللہ پوچھے گا بڑے بھائی سے۔۔۔۔۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 13, 2013

ناگہانی

Nagihani

 جگہ کی کمی کے پیش نظر درخواست کی جاتی ہے کہ براہ کرم ایک ہفتے تک مرنے سے احتراز کیجیے۔خلاف ورزی کرنے والے کے ورثا کو حوالہ پولیس کر کے انتہائی سخت سزا دی جائے گی۔ قبرستان میں توسیع و ترقی کا کام تیزی سے جاری ہے جیسے ہی کام مکمل ہو گا مرنے پر سے پابندی اٹھا لی جائے گی۔


 یہ نوٹس محض شہر کے واحد قبرستان کے باہر آویزاں نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہر ممکن طریقے سے اسکی تشہیر بھی کی گئی تھی۔ بات صرف وال چاکنگ ،پمفلٹ اور اخباری اشتہاروں تک محدود نہیں رکھی گئی تھی بلکہ گھر گھر آگاہی مہم کے ذریعے ہر زندہ فرد تک یہ حکم نامہ پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔آخر حکومت کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت کا فرض تھا کہ ہر زندہ فرد تک حکم ناموں کی رسائی ممکن بنائی جائے اور کم از کم اس معاملے وہ کامیاب ہوئی تھی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 7, 2013

جوں کا خوں

Joon ka khoon

جوں گہرے رنگ کا ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو آپکے بالوں میں پایا جاتا ہے ۔اس کی خوراک انسانی خون ہے۔ جب یہ خون چوستا ہے تو خارش محسوس ہوتی ہے۔ اس کے بچے سفید رنگ کے ہوتے ہیں اور اس کے مرنے پر ٹخ کی آواز آتی ہے-اس کا تعلق بے شرموں کی نسل سے ہے کہ اگر آپکے سر میں پایا جائے تو سب لوگوں کے سامنے آپکو خارش کروا کروا کر شرمندہ کراتا رہتا ہے اور اگر سر میں جوں، جوں کی توں موجود رہے تو خارش کر کر کے آپ بھی بے شرم ہو جاتے ہیں۔

خارش کی بھی نہ جائے اور برداشت کرنا بھی مشکل
یوں تو جوں کے بارے بھی انگریزوں نے تحقیق کر رکھی ہے کہ اور کوئی کام ہے نہیں ان کو ہر الٹی پلٹی شے کی تحقیق کرتے پھر رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی تحقیقات آگے لائیں تو ہمارے نظریے کے مطابق جوں کا زندگی کا سائیکل تین پہیوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپکے دوست سے آپکے سر میں پڑنا، پھر آپکے سر میں سفید رنگ کی نئی نسل تیار کرنا جس کو لیکھوں کا نام دیا جاتا ہے اور آخر میں آپکی امی یا باجی کے ہتھے چڑھ کر ٹخ ہونا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 1, 2013

درخواست حصول پارٹی ٹکٹ برائے جنرل الیکشن

darkhwast hasool e party ticket braye general election

بخدمت جناب چیرمین صاحب پاکستان سیاسی پارٹی، اسلام آباد،لندن، واشنگٹن 
جناب عالی 
گزارش ہے کہ فدوی ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے کھانے اور پینے کا مظاہرہ عوامی اور سیاسی طور پر کر چکا ہے۔بے شک فدوی اس سے قبل تین چار پارٹیوں میں رہ چکا ہو لیکن اس بات کی گواہی تو آپ کی پارٹی کے اراکین بھی دیں گے کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ فدوی میں تمام خوبیاں آپ کی پارٹی کے اراکین جیسی ہی ہیں۔ یوں تو آپ جوابی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تمام اراکین اسمبلی دراصل ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ فدوی حال ہی میں آپ کی پارٹی میں شامل ہوا ہے لہذا فدوی کی بات پر یقین کر لیا جائے کیونکہ ابھی بھی چند ایک پارٹیاں حلقے سے موزوں امیدوار کی تلاش میں ہیں اور ویسے بھی" نئے لوٹے کے نو مہینے اس کے بعد اگلے کمینے" تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 25, 2013

بیگم گردی پر سزا- ایک خبر

Begam gerdi per saza- aik khabar

خبر: (زیورخ)سوئس خاتون معذور شوہر کوسیر و تفریح کے بہانے لے جا کر بھارت چھوڑ آئی جہاں ناکافی سہولیات کی بنا پر شوہر کی موت ہوگئی۔ عدالت نے خاتون کو بیگم گردی دکھانے پر چار سال قید کی سزا سنائی ہے۔ 

ہمارے نمائندہ عمومی یورپ "ب کھٹک" صاحب جو سفر نامے پڑھ پڑھ کر یورپ کے معاملات کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ گوگل اور وکیپیڈیا کی مدد سے کسی بھی ملک ، ملکی حالات اور ملکی افراد پر تفصیلی تبصرہ لڑھکا سکتے ہیں، اور چونکہ پاکستانی ہیں اس لیے بھارت سے بھی جان پہچان رکھتے ہیں اور بدقسمتی سے شوہر بھی ہیں تو تینوں امور پر گہری نظر رکھنے کے باعث انہوں نے بطور خاص ہمیں اس خبر کی تحقیقی رپورٹ بھیجی ہے۔چونکہ آج کل ہمارا میڈیا بھی بیرونی امداد پر بھروسہ کررہا ہے لہٰذا ہم بھی اس تحقیقی رپورٹ کو جوں کا توں شایع کر رہے ہیں۔ویسے تو کسی کی مجال نہیں جو ہماری مرضی کے بغیر ہمارے بلاگ پر ایک لفظ بھی شایع کر سکے لیکن پھر بھی لکھے دیتے ہیں کہ بلاگ ھذا کا مضمون سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یعنی کسی کو اعتراض ہو تو کھٹک صیب کو پکڑے ہمارا کوئی لین دین نہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 19, 2013

جرمنی میں جلسہ اور جلوس-سفرنامہ اشٹوٹ گارٹ

Germany main jalsa aur jaloos-safarnama stuttgart

ویسے تو ہمارا بڑے ترقی یافتہ شہروں سے علاقہ، علاقہ غیر رہا ہے کہ وہاں ماسوائے بے ڈھنگی بلند و بالاعمارات اور خود میں مگن روکھے سوکھے لوگوں (وہ بھی جرمن) کے علاوہ ہوتا کیا ہے لیکن والد صاحب کے حکم پر ان کے دوست کو کمپنی دینے کے لیے ہم نے جہاز سے چار گنا سستی بس کی ٹکٹ خریدی، جس میں پیسے بھی بچ رہے تھے، پندرہ بیس شہروں میں اسٹاپ بھی تھا اور میرے پسند کے قدرتی مناظر الگ۔ جب اشٹوٹ گارٹ Stuttgart چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد وارسا Warsaw سے بس پر پہنچے تو ہماری میزبان اور دبئی والے مہمان ہمیں لینے بس اڈے پر موجود تھے- اشٹوٹ گارٹ مغربی جرمنی میں واقع چند انتہائی ترقی یافتہ اور امیر شہروں میں سے ایک ہے۔ چوبیس گھنٹے کا سفر پولش لوگوں کے ساتھ گزار کر تشریف کا شکریہ تو ادا جو ہونا تھا سو ہونا تھا دماغ کا شکریہ بہرحال ادا ہو چکا تھا۔ اس سفر کے دوران ہم پر یہ راز کھلا کہ پولوں کے ساتھ سفر کرنا ہو تو مفلر کے بغیر ناممکن ہے۔ پولوں کی دو خوبیاں تب ہی آشکار ہوں گی جب آپ ان کے ساتھ وقت گزاریں کہ ایک تو پتا نہیں بچپن میں کاؤ بوائے فلمیں دیکھتے رہے ہیں جو جا بجا تھوک پھینکتے رہتے ہیں دوسرا ان کا بس لگے تو غسل خانوں میں بھی بئیر استعمال کریں۔ جہاں جہاں بس رُکتی تمام مرد و خواتین لڑکے و لڑکیاں با جماعت بئیر پی کر واپس آجاتے اور اگلے سٹاپ تک ہمارا سانس لینا محال ہوجاتا۔ جب اشٹوٹ گارٹ اترے تو دماغ ایسے چکرا رہا تھا جیسے کسی ایسی ویگن میں سفر کرنا پڑ گیا ہو جہاں تین چار خواتین بیک وقت قے کر رہی ہوں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 13, 2013

درخت اور انسان (افسانہ / کہانی )

drakht aur insan- afsana/ kahani

وارسا کا ویجنکی پارک جو اوپر تلے تین سطحوں پر بنایا گیا ہے میں فیڈرک شوپن کے مجسمے کے پیچھے سے نیچے اترتے 
ہوئے درختوں کی قطار میں میرا ساتواں نمبر ہے۔ میں کب سے یہاں ہوں ، کہاں لگایا گیا، کیسے یہاں آیا، وہ تو میں تب ہی بتا سکتا اگر ہم بھی انسانوں کی طرح ڈائری لکھا کرتے یا ہمارا بھی شہری انتظامیہ میں اندراج کرایا جاتا لیکن میری پہلی یاد اسی پارک کی ہے جب ایک سیاہ کوا میری ٹہنی پر بیٹھا کائیں کائیں کرتا کہہ رہا تھا کہ "بڑے درختوں کو کٹے اتنے دن ہو گئے کہ لگتا ہے کہ وہ یہاں تھے ہی نہیں" ۔ ایک بوڑھے کوے نے جس کو پتہ تھا وہ اس بار کی برف نہیں دیکھ پائے گا نے جواب دیا کہ "رہنا جھوٹ ہے اور جانا سچ ہے"۔ حالانکہ وہ میری پہلی یاد ہے لیکن میں اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں بڑے بوڑھوں کی باتوں ہر منہ کا ذائقہ خراب نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ تب دنیا کا نظام سائنس کی بجائے بڑوں کی باتوں پر چل رہا تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 7, 2013

ہم سفر "نہیں" چاہیے

hum safar nahee chahiye

اب تک میں سمجھتا رہا ہوں کہ میری جان صرف بھونکتے کتوں اور شراب پیے آدمیوں سے نکلتی ہے لیکن اب احساس ہوا ہے کہ وہ بندہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے جو دوران سفر بولنے کے مرض میں مبتلا ہو۔

ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ جان پہچان والے سے کم کم بات کرتے ہیں کجا انجان آدمی سے بات کرنا۔ اب ہماری طبعیت ایسی شرمیلی ہے کہ کسی کو یہ بتاتے شرم آتی ہے کہ پی ایچ ڈی کر رہا ہوں کہ اگلا سمجھے کا اویں ہی شیخی بگاڑ رہا ہوں۔ اب اگر آپ کیا کرتے ہیں کایہ جواب نہ دیا جائے تو اور کیا دیا جائے۔لیکن پھر آگے یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ یورپ سے کر رہا ہوں یورپ میں ایسٹو نیا سے کر رہا ہوں اور ایسٹونیا کا محل و وقوع کیا ہے اور وہاں ہی کیوں گیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اگر جھوٹ بولوں تو بھی شرم کی بات ہے کہ ایک تو ویسے ہی چھوٹ بولنا گناہ ہے دوسرا پہلے کیا کم جھوٹ بول رکھے ہیں زندگی میں جو مفت میں اور بولیں اور تیسرا یہ بتانا بھی باعث شرمندگی ہے کہ کچھ نہیں کرتا پھر کچھ کرنے پر لیکچر سننا پڑے گا۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 1, 2013

مادری زبانیں

madri zabanain

ہر سال 21 فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یوں تو میری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن میں قومی زبان اردو کو قومی مادری زبان اور سرائیکی کو علاقائی مادری زبان سمجھتا ہوں اور ان دونوں زبانوں سے اتنی محبت ہے کہ میں رہ نہ سکا اور اس سلسلے میں ایک مضمون پیش خد مت ہے جس کو طلبا امتحان میں لکھ کر خاطرخواہ نمبر بھی لے سکتے ہیں اور فارغ العقل معاف کیجیے گا فارغ التحصیل و فارغ الضلع پڑھ کر عش عش بھی کر سکتے ہیں۔

 میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ الحمدللہ میں بڑی خوش اسلوبی سے اسے بول سکتا ہوں اس لیے مجھے اس کو سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مجھے نہیں پتہ کہ سرائیکی کے کتنے حروف تہجی ہیں۔ سرائیکی پڑھنی پڑ جائے تو ایسے پڑھتا ہوں جیسے انگریزی میڈیم اسکولوں کالجوں والے اردو پڑھتے ہیں۔ یورپ والوں کا پاگل پن دیکھیں کہ ان کے ہر طالب علم کو ایک تو ہر مضمون اپنی مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے جب کہ اس کے علاوہ اسے یورپ کی ایک زبان اور سیکھنی ہوتی ہے تاکہ مختلف علاقوں والے دوسری جگہ جا کر اجنبیت محسوس نہ کریں۔ اس کے بر عکس ہم نے اپنے بچوں پر انتہائی کم بوجھ ڈالا ہے اور اسی رفتار سے چلتے رہے تو عنقریب اردو سے بھی جان چھوٹ جائے گی کہ انگریزی نہ صرف بین الاقوامی زبان ہے بلکہ ہر طرف اس کا دور دورہ ہے۔ انگلینڈ اور امریکہ کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے۔ ہمارے صاحب لوگوں کے صاحب لوگ جو کہ امریکی ہیں یا برطانوی، انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے صاحب لوگ بھی دوران گفتگو انگریزی ہی استعمال میں لاتے ہیں لہٰذا انگریزی سیکھنا لازم ہے نہ کہ اردو، جب کہ سرائیکی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ تو دور کی بات رہی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 24, 2013

نئے لوگوں کو ووٹ کیوں نہ دیں-حصہ دوئم

Nae logo ko vote kiyon na dain-hissa doem

گھروں میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی تو خواتین پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گا
آج کل ایک بڑا مسئلہ گیس کی ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہےلیکن اصل میں اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے اگر خدانخواستہ نئے لوگ آگئے اور ڈبل خدانخواستہ وہ اچھے بھی نکل آئے تو گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجانے کا امکان ہے جس سے سب سے بڑا نقصان خواتین کو ہوگا کہ انکو دوبارہ روز کھانا پکانا پڑے گا،کپڑے استری کرنے پڑیں گے ۔اب یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ شوہر تو بیٹھ کر ٹی وی کے چینل بدلتا رہے اور بی بی بیچاری باورچی خانے میں خوار ہوتی رہے۔اور جیسے ہی کھانا پکا کر فرصت ملی اب میاں کے اور بچوں کے کپڑے استری کرو۔اگر وہ تین وقت کھانا پکاتی رہی اور کپڑوں پر استری پھیرتی رہی  تو ڈرامے کب دیکھے گی؟ دو گھنٹے تو محض نہانے اور سرخی پاؤڈر پر نکل جاتا ہے، ہفتے میں چھ سات دن بیوٹی پارلر بھی جانا ہوتاہے، شاپنگ کا وقت علیحدہ نکالنا ہوتا ہے بیچاری کہاں تک تاب آئے۔ادھر شوہر صاحب صبح دفتر گئے اور شام کو وہاں سے گپیں ہانک کر آگئے اور لگے ٹی وی دیکھنے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 19, 2013

نئے لوگوں کو ووٹ کیوں نہ دیں-حصہ اول

Nae logo ko vote kiyon na dain-hissa awal

 الیکشن کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر عام عوام کے مزے کے دن آنے والے ہیں۔کوئی تبدیلی کےنعرے پر ووٹ مانگ رہا ہے کوئی سابقہ کارنامے جو صرف انکی نظر میں ہیں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہا ہے۔کچھ خون شہیداں سے آس لگائی بیٹھے ہیں کچھ زور بازو سے ووٹ حاصل کریں گے۔کچھ ٹڈی دل کے لشکر کی طرح نمودار ہو رہے ہیں کچھ تیسری قوت سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں کچھ کو امریکہ سے امید ہے کچھ کو موجودہ لوگوں کی خامیوں سے امید ہے۔لیکن ہماراآج کابلاگ ہمیشہ کی طرح سراسر غیر سیاسی ہے۔ہماری طرف سے آپ چاہے ہمیشہ کی طرح کالے چور کو ووٹ ڈالیں یا دم ہلاتے کھمبوں کو ہمیں کیا۔تاہم ہم آج کے بلاگ میں آپ کی سوچ کو تقویت دینےکی کوشش کریں گےکہ نئے لوگوں کی سیاست میں حوصلہ افزائی کیوں نہ کی جائے۔کیوں ایک بار پھر انہی لوگوں کو ووٹ دیے جائیں۔اب آپ بار بار انہی کو چنتے ہیں کوئی تو وجہ بھی ہو آپکے پاس آخر اور پھرہمارا انکا اتنا پرانا تعلق ہے کچھ تو حق بھی بنتا ہے انکا کہ نہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 13, 2013

محنت (افسانہ / کہانی)

(Mehnat (afsana/kahani

محنت ، توجہ اور لگن ہی واحد شے ہے جوآپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔پروفیسر شاہ کے یہ الفاط میری یاداشت سے کبھی محو نہیں ہوئے۔یونیورسٹی میں پہلے لیکچر کے دوران کہے گئے الفاظ مجھے ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات رہی ہو۔محنت ،توجہ اور لگن اور ان سے بہتر ہیں انتھک محنت ،انتھک توجہ اور انتھک لگن۔پروفیسر شاہ ہمارے چئیرمین بھی تھے اور بہت سے لوگوں کے آئیڈیل بھی۔ایک تو وہ عمر ہی ویسی ہوتی ہے جس میں آئیڈیل جیسی فضولیات خود سے پھوٹ پڑتی ہیں اور دوسرا گفتگو اور انداز۔وہ بلا شبہ کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتے تھے۔

ہمارا نظامِ تعلیم بذاتِ خود ایک تماشہ ہے۔چودہ سال شجرِ ممنوعہ سے دوری کے بعد اب لڑکے،لڑکیاں اکٹھے تھے اور یونیورسٹی حال ہی میں ایک بار پھر سالانہ امتحان کی بجائے سمسٹر سسٹم رائج کر چکی تھی اور وہ بھی ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا کیونکہ اب تک ہم سالانہ بلکہ چند مرتبہ تو دو سالہ امتحانات سے پاس ہوتے آئے تھے اور ایسے ہی سسٹم کا فائدہ اٹھا کر میں ٹیوشنوں ،سفارشوں اور رٹے کی مدد سے گرایجوایشن میں یونیورسٹی میں فرسٹ آچکی تھی جسکی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی میرے کندھوں پر گولڈمیڈل کا بوجھ منتقل ہو چکا تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 7, 2013

اے سی سی اے نہ کریو بھیا

ACCA na keryo bhaiya

کچھ دن زندگی میں ایسے آتے ہیں جو بعد میں بندہ سوچتا کہ نہ ہی آئے ہوتے تو اچھا تھا۔ان کے بغیر زندگی نے اچھا خاصا گزر جانا تھا۔ایک ایسے ہی ایک دن جو نہ آیا ہوتا تو اچھا تھا میرے دوست میاں نعیم صاحب میرے پاس آئے ۔ہم ان دنوں اکٹھے ورچوئل یونیورسٹی Virtual University سے کمپیوٹر انجئیرنگ کر رہے تھے۔میاں صاحب آ کر بولے کہ یہ بی ایس BS کر کے ہمیں کوئی نوکری ووکری نہیں ملنی۔ سی پلس پلس ++C  دور کی بات میٹرک والی جی ڈبلیو بیسک GW Basic تک تو آتی نہیں ہمیں ۔اور سیکھ بھی لیں تو یہ ورچوئل یونیورسٹی کو کون پوچھتا ہے۔تیسرا جب تک ہم ڈگری مکمل کریں گے مارکیٹ کمپیوٹر انجئینروں سے بھر چکی ہوگی۔پندرہ سو تو ہمارے ساتھ ڈگری مکمل کر لیں گے۔ہمیں کس نے گھاس ڈالنی ہےبات تو سچ تھی مگر بات تھی ناک کٹائی کی۔ سچ کہوں تو مجھے اس وقت میاں صاحب کے تینوں نکات سے اتفاق کے باوجود اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ نوکری ملے گی یا نہیں ۔میں نے میاں صاحب سے پوچھ لیا پھر کیا کیا جائے؟وہ بولے میں تو اے سی سی اے ACCAکر رہا ہوں ۔میں بات کر آیا ہوں کالج میں اگلے ہفتے سے کلاسیں شروع ہیں آگے جو آپکی مرضی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 1, 2013

میرا بہترین دوست-اردو مضمون

Mera behtreen dost.Urdu mazmoon

یوں تو آجکل دوست بھی چینی مارکہ آ رہے ہیں جو دیکھنے میں خوبصورت،رنگ برنگے، سینکڑوں خوبیوں کے حامل مگر استعمال میں انتہائی ناقص اور ناپائیدار ہوتے ہیں لیکن دوستی کی خوبصورتی یہ ہے کہ تاریخ میں بروٹس کے علاوہ اور کسی دوست نے دوستی کے نام پر دھبہ نہیں لگایا اور لگایا بھی ہے تو کم از کم جنکے ساتھ بے غیرتی کی گئی انہوں نے غیرت دکھائی اور دوستی کے نام پربٹہ نہیں لگنے دیا۔اب یہ بروٹس والا بھی بیچارہ سیزر تو چپ چاپ مر گیا شیکسپیر صاحب نے بروٹس کا ڈھنڈورہ پیٹ ڈالا۔

اچھا دوست وہی ہوتا ہے جسکو آپکے گھر والے ناپسند کرنے کے باوجود بھی آپکو اس سے دوستی کرنے سے نہ روک سکیں۔امریکہ اور پاکستان کی دوستی کی مثال سب کے سامنے ہے۔خوش قسمتی سے اللہ میاں نے مجھے ایسی خوشامدانہ طبعیت سے نوازا ہے کہ مجھے کبھی دوستوں کی کمی محسوس نہیں ہوئی تاہم آج کل ریاض کو آپ میرا بہترین دوست کہہ سکتے ہیں۔یوں تو اس سے دوستی کے لیے یہ وجہ ہی کافی ہے کہ اس کے ابا پولیس میں انسپکٹر ہیں لیکن ریاض کی شاہ خرچی، عادات ، حرکات اور چال چلن اس کو باقیوں سے ممتاز بناتا ہے اور اب تو اس کے والد نے اور اس نے اپنے نام کے ساتھ سید بھی لکھوانا شروع کر دیا ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 25, 2013

تالن میں مفت پبلک ٹرانسپورٹ

Tallinn main muft public transport

خبر: مشرقی یورپ کے ملک ایسٹونیا Estonia کے دارالحکومت تالِن Tallinnمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو تالِن کے شہریوں کے لیے مفت قرار دے دیا گیا۔ شہریوں کے لیے ایسی سہولت اس سے قبل چند یورپی شہروں میں مہیا کی گئی تھی تاہم تالِن یورپی یونین ملکوں کا پہلا دارلحکومت ہے جہاں شہریوں کےشہر کے اندر سفر کا تمام خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔

حد ہوگئی۔بندہ اپنا سر پیٹ لے۔یورپیوں نے کئی سال ہم ایشیا و افریقہ المعروف تیسری دنیا کے ممالک پر حکمرانی کی ہے پر مجال ہے جو کچھ سیکھا ہو۔جب انگریزسے ہم نے آزادی حاصل کی تو ہم عوام اتنے انگریز مخالف نہیں تھے جتنے افغان حکمران تھے جنہوں نے روسیوں کی بچھائی ہوئی پٹری تک اکھاڑ پھینکی کہ کافر کی یادگار ہے اور آج تک وہاں ٹرین دوبارہ نہیں چل پائی۔ اور ہمارے راہنما خواہ سیاسی ہوں یا سماجی ہوں وہ تو سب کے سب دل ہی دل میں انگریز سے شدید متاثر تھے کسی نے انگریزوں کی ذہنی غلامی قبول کی ،کسی نے امریکیوں کی مالی غلامی اپنائی تو کسی نے روسیوں کی فکری غلامی میں نام لکھوایا اور گورا صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے کالا صاحب کا کلچر فروغ دیا جو آج بڑی عمدہ طرح رائج پا چکا ہے
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 19, 2013

زندگی گزارنے کے چند راہنما اصول

zindgi guzarny ke chand rahnuma asool

زندگی کے ہر شعبہ میں چند قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور پھر انکی بیخ کنی کر کے زندگی گزاری جاتی ہے۔جب کہ حیران کن طور پر ہماری اپنی زندگی کسی بھی اصول و قانون سے بے بہرہ نظر آتی ہے۔جبکہ ہونا تو یہ چاہیے ہم سب سے پہلے اپنی زندگی گزارنے کے اصول مقرر کریں اور پھر ان اصولوں کو پامال کرتے ہوئے زندگی گزاریں کہ جو مزہ اصول توڑؑ کر جینے میں ہے وہ عام جینے میں کہاں۔خالی روڈ پر جتنی رفتار سے دوڑا لیں جو مزہ مقرر کردہ رفتار سے تیز رفتاری یا اشارہ توڑنے میں ہے وہ صاحب یار لوگ ہی جانتے ہیں(کہ یار ہی بعد میں بچانے کا بندوبست کرتے ہیں)۔لیکن ہر اصول ایسا نہیں ہوتا کہ جس کو بنا کر پچھتایا جائے کہ صبح چھ بجے اٹھوں گا، پڑوسی کے بچوں کو کرکٹ کھیلنے پر گالیاں نہیں دوں گا وغیرہ وغیرہ۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 13, 2013

چھل

Chal

جب پہلی بار چھل قصبے پہنچی تھی تو میری کاغذ کی کشتی سب مقابلے جیت گئی تھی اور ملکوں کے لڑکے جو شہر کے اسکولوں میں پڑھتے تھے کمیوں کے منہ نہ لگنے کا بہانہ کر کے مقابلے سے کترانے لگے تھے۔بارہ سال بعد جب دوبارہ پانی قصبے پہنچا تو اس بار اس نے بڑے بڑے مکان گرا دیے تھے اور اس بار میں اصلی والی کشتی چلا کر لوگوں کو دریا پار کروانے لگا۔ پچھلی بار ٹخنوں ٹخنوں پانی کو حضرت شاہ پاک کے دربار کی برکت قرار دیا کہ انہوں نے پانی کو دم نہ مارنے دیا تھا ورنہ ایسا پانی بڑے بوڑھوں نے ساری زندگی نہ دیکھا تھااور مولوی صاحب نے اسے خدا کے عذاب کی ایک جھلک قرار دیا تھا اور جس جمعہ ملکوں سے کوئی مسجد نہ آیا انہوں نے لوگوں کو گناہ سے تائب ہونے کا حکم دیا تاکہ آئندہ کچھ ایسا نہ ہو۔ان کی نظر میں ان کے علاوہ سب گناہ گار تھے ملکوں کو حاکم ہونے کی وجہ سے البتہ چھوٹ تھی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 7, 2013

گدھے اور گورے

Gadhy or gory

گدھا اچھا بھلا عزت دار جانور تھا سامان ڈھوتا تھا، سواری کے کام آتا تھا، جنگوں تک میں حصہ لیا کرتا تھا کہ پنجابی زبان ایجاد ہو گئی اور گدھا "کھوتا" قرار پایا۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سرائیکی نے تو حد ہی کردی۔کھوتے کو "گڈھیں" بنا دیا۔کبھی کسی سرائیکی بولنے والے سے گڈھیں سن کر دیکھیں، بندہ پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گڈھیں سن کر گدھا بھی کہتا ہوگا اس ذلت سے تو اچھا تھا میں انسان ہو گیا ہوتا خواہ پاکستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوتا۔

جیسے ہم نےگوروں کے پروفیسر الو کو کالے جادو اور الو کا پٹھہ بلانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے ایسے ہی گدھا ہم نے دوسروں کی بے عزتی کرنے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ہاں کبھی کبھار کوئی گدھےکا مالک اس پر ڈنڈے برسانے کا کام بھی لے لیتا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 1, 2013

اردو مضمون -مسئلہ کشمیر

Urdu Mazmoon (essay) masla kashmir

 مسئلہ کشمیر وہ کمبل بن چکا ہے جسے اب بندہ تو چھوڑنا چاہتا ہے مگر کمبل اسکو نہیں چھوڑتا۔

 جب پاکستان بنا تو پاکستان مخالف قوتوں کے پیٹ میں عمل تبخیر کا طوفان سا اٹھا اور انہوں نے سوچاکہیں یہ سچ مچ کی اسلامی ریاست نہ بن جائے تو انہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے میں مختلف قسم کے طوق ڈالنے شروع کر دیے کہ یہ سکون کا سانس نہ لے سکیں اور مسائل کا انبار کھڑا کردیا اور مسئلہ کشمیر ان میں سے ایک تھا۔ حالانکہ پاکستان کے مسائل پیدا کرنے کے لیے پاکستانی سیاستدان اور پاکستانی قوم ہی کافی تھی لیکن تب تک ہماری صلاحیتیں دنیا پر آشکار نہ ہوئی تھین۔قائد اعظم سیاستدانوں سے ہی نمٹ رہے تھے کہ ہم نے پہلی فرصت میں ان سے نجات حاصل کرلی اور پھر ہم نے مسئلوں کو گھسیٹنا شروع کر دیا کہ کہ مسائل فوری حل ہونے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ انکو سالوں گھسیٹا جاتا ہے تاکہ انکی اہمیت اجاگر ہو سکے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad