Nagihani
جگہ کی کمی کے پیش نظر درخواست کی جاتی ہے کہ براہ کرم ایک ہفتے تک مرنے سے احتراز کیجیے۔خلاف ورزی کرنے والے کے ورثا کو حوالہ پولیس کر کے انتہائی سخت سزا دی جائے گی۔ قبرستان میں توسیع و ترقی کا کام تیزی سے جاری ہے جیسے ہی کام مکمل ہو گا مرنے پر سے پابندی اٹھا لی جائے گی۔
یہ نوٹس محض شہر کے واحد قبرستان کے باہر آویزاں نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہر ممکن طریقے سے اسکی تشہیر بھی کی گئی تھی۔ بات صرف وال چاکنگ ،پمفلٹ اور اخباری اشتہاروں تک محدود نہیں رکھی گئی تھی بلکہ گھر گھر آگاہی مہم کے ذریعے ہر زندہ فرد تک یہ حکم نامہ پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔آخر حکومت کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت کا فرض تھا کہ ہر زندہ فرد تک حکم ناموں کی رسائی ممکن بنائی جائے اور کم از کم اس معاملے وہ کامیاب ہوئی تھی۔
لوگ جو یونہی بلا وجہ مرنے کے عادی تھے بلبلا اٹھے تاہم ایک بار پھر وہ احتجاج کرنے کی بجائے محتاط ہو گئے۔ لوگ تو ویسے بھی احتجاج کو اچھا نہ جانتے تھے اور اس معاملے میں تو دوہرا مسئلہ تھا کہ حکم رانوں کی خفگی اپنی جگہ کہیں احتجاج کرتے ہنگامے پھوٹ پرتے ، پولیس فائرنگ کر دیتی اور کوئی جان ہاتھ سے دھو بیٹھتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
اس روز سے لوگوں نے آہستہ ڈرائیونگ شروع کر دی کہ مبادا کسی کی یا اپنی جان نہ چلی جائے،ملاوٹ کرنے والوں نے ملاوٹ سے ہاتھ کھینچ لیا،بجلی اور گیس کے بل بھی درست آنے لگے،کارپوریشن کا عملہ بھی مستعد ہو گیا اور سارا شہر صاف ستھرا ہو گیا،اسپتالوں میں ڈاکٹر یوں مستعد ہو کر بیٹھتے کہ ابھی صور اسرافیل پھونکا جائے گا،تمام بوڑھے افراد جو خود کو قبر میں ٹانگیں لٹکائے دیکھتے تھے نے ٹانگیں سمیٹ کر چوکڑی سی مار لی، ڈپریشن کے مریض دن رات سکون آور ادویات پھانکتے رہتے ، نوجوان جنہیں خود کشی پر کشش لگتی ہے اور جو معاشرے کے باغی بھی ہوتے ہیں موت کے ساتھ ایسا طریقہ کار بھی سوچنے لگے جس سے انکا جسم بھی ٹھکانے لگے اور وہ اپنے ورثا پر بوجھ نہ بنیں۔
تمام شہر عجیب ہراس کا شکار تھا۔موت کا خوف جو اس سے قبل مختلف حیلوں سے عجب بہانوں سے ذہنوں سے جھٹکتے آئے تھے اب مرنے سے ممانعت کے اعلان نے انکے ذہنوں میں از سر نو جگا دیا تھا۔ہر شخص کی ایک ہی کوشش تھی کہ کم از کم ایک ہفتہ تک تو وہ نہ ہی مرے۔
انسان انتہائی بے بس مخلوق ہے اور غریب تو پھر دائرہ انسانیت سے باہر کہیں پایا جاتا ہے۔ تو محمد اسلم کی لا چاری کا اندازہ تو لگا ہی سکتے ہیں جو تمام تر احتیاط کے باوجود محض 37 سال کی عمر میں رات اپنے بستر پر سویا تو صبح اٹھ نہ سکا۔اس عمر میں بھی بھلا کوئی مرا کرتا ہے اور پھر وہ بھی ایسے وقت میں لیکن وہ مر گیا۔ اسلم کے باپ کو اسلم کے یتیم ہونے والے تین چھوٹے بچوں کی فکر سے زیادہ اسلم کی لاش کا غم کھائے جا رہا تھا۔اس کا جوان بیٹا جو اس کا بازو تھا اب اس کی بدنامی کا باعث بننے جا رہا تھا۔ابھی تو مرنے کی آزادی ملنے میں چار دن باقی تھے اور حکومت خواہ امیروں کو چھوٹ دیتی رہی ہو پر غریبیوں کو سزا دینے کے بارے میں ضرب المثل تھی۔اور پھر چار دن بعد بھی جگہ ملے یا نہ ملے کہ پہلا حق امیروں کا تھا جب تک اسلم کی باری آنی تھی کیا پتہ قبرستان سرکاری ملازمتوں کی طرح اپنوں کی بندر بانٹ کے بعد دوبارہ پابندی کا شکار ہو جاتا۔ جب پرچی والے افراد بھرتی ہو جایا کرتے ہیں تو ملازمتوں پر دوبارہ پابندی لگ جاتی ہے اور اسلم کی لاش کمرے میں گلتی سڑتی رہتی ہے۔ اور اسلم کے باپ کے پاس نہ پیسے تھے نہ تعلق جو وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی قبر کی پرچی حاصل کر پاتا۔
اسلم کے مرنے پر کم از کم اسلم کے باپ کی زندگی میں پہلی بار ایک ماں اپنے جواں سال اکلوتے بیٹے کے مرنے پر ماتم کناں نہیں ہوئی ، اسلم کی نوجوان بیوی جو کہ اب نوجوان بیوہ بن چکی تھی سانس بھی ہلکے ہلکے لیتی تھی کہ کہیں کوئی آہ نکل جائے اور کسی کو اسلم کی موت کا شک ہو جائے ۔موت کی تاریکی سے زیادہ زندگی کی روشنی کا خوف چھایا ہوا تھا۔اسلم کے باپ کے ذہن میں ایک ہی بات خیال بدل بدل کر حملہ آور ہو رہی تھی کہ" چار دن"۔اسلم نے سن رکھا تھا کہ پارسی اپنے مردے پرندوں اور جانوروں کے نوچنے کو چھوڑ دیتے ہیں اور ہندو جلا دیتے ہیں۔ وہ تو خود اپنے بیٹے کے ہمراہ ستی ہونے کو تیار تھا مگر اس شہر میں اسلام کا بول بالا تھا اور کبھی کوئی کافر شہر میں رہا بھی کرتا تھا تو وہ بفضل خدا مسلمان کر لیا گیا تھا۔
اور مرنا تو بادشاہ نے بھی ہے تو سیٹھ سلمان بھی تمام بڑے ڈاکٹروں کی جاں توڑ کوششوں کے باوجود فوت ہو گیا۔جو کہتے تھے پیسے سے سب کچھ نہیں خریدا جا سکتا اس روز ہکا بکا رہ گئےجب شہر کے تمام برف کارخانوں سے برف سیٹھ کے لواحقین نے خرید لی اور ائیر کنڈیشن کوٹھی میں ایک عارضی سا سرد خانہ قائم ہو گیا۔ اور ویسے بھی قبرستان کھلنے کے بعد اس کا پہلا مکین سیٹھ سلمان نے ہی ہونا تھا۔ تب تک سیٹھ سلمان کا جسد خاکی سرد خانے میں عام دیدار کو رکھ دیا گیا اور عین ممکن تھا سابقہ الیکشن میں پارٹی کو فنڈ دینے کے عوض سیٹھ سلمان کی قومی خدمات کو پہچان کر خصوصی طور پر دفن کرنے کی اجازت دے دی جاتی۔
سیٹھ صاحب کا ذہین بیٹا جو حال ہی میں امریکہ سے تعلیم مکمل کر کے اپنے والد کے کاروبار کو وسعت دینے ملک واپس آیا تھا کے دماغ میں نئے کاروبار نے راہ نکالی اور اس نے اگلے روز اخبار میں اشتہار دلوایا کہ " موت سے مت گھبرائیے۔ کسی ناگہانی کی صورت میں عارضی طور پر سرد خانہ موجود ہے۔ چوبیس گھنٹے سہولت میسر ہے"-
اسلم کا باپ اپنے گھر، عزت اور سرد خانے کی قیمتوں کو جمع تفریق کرنے لگا۔عین ممکن تھا کہ ایک ہفتے کی پابندی مزید توسیع حاصل کر لیتی کہ آخر سیٹھ سلمان کے بیٹوں نے والد کی خدمات کا معاوضہ تو وصول کرنا تھا۔پہلی بار امیروں کو موت کی بد دعائیں دینے والے، ان کو کوسنے والے اور ان کے ظلم کے ستائے غریبوں نے سوچا کاش سیٹھ نہ مرتا۔ مرا سیٹھ بھی ان کے لیے سوا لاکھ کا ثابت ہوا تھا۔