August 12, 2016

میٹرو میٹرو کردی نی میں



پڑھنے سے پہلے نوٹ فرما لیں یہ سیاسی نہیں معاشرتی بلاگ ہے کہ معاشرتی سائنس میں ہم پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے 
ہیں۔


جس نے ملتان میٹرو کا نقشہ بنایا ہے اس سے بڑا عملی مذاق یعنی پریکٹیل جوک کرنے والا شخص مجھے آج تک نہیں ملا۔ جس کسی کو زیگ زیگ Zig Zag کا مطلب نہیں آتا وہ میٹرو متاثرہ بوسن روڈ پر گاڑی چلا کر دیکھ لے- بل کھاتی سڑک جو پہاڑی علاقوں کی پگڈنڈی کا منظر پیش کرتی ہے کو مزید چار چاند اس کی چوڑا لگا دیتی ہے جو کہیں چالیس فٹ سے تجاوز کر جاتی ہے اور کہیں سکڑ کر دس فٹ سے بھی کم رہ جاتی ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ دس فٹ کے متوازی مخالف سمت ٹریفک والی سڑک چالیس فٹ چوڑی ہے- لیکن یہاں پر بس نہیں بلکہ اس الٹی سیدھی لکیریں لگانے کا توڑ یہ نکالا گیا کہ کئی جگہوں پر اب سڑک تین رویہ ہے- دو جانے والے ایک آنے والا اور تینوں کے درمیان ڈیوائیڈر منہ چڑا رہا ہے- ادھر بعض جگہوں پر سروس روڈ اصل روڈ سے چوڑا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا وجود ہی نہیں- بس ایک انجیرننگ کا شاہکار ہے جس دل کرتا ہے بندہ نقشہ نویس، نقشہ پاس کرنے والوں اور انجینیر صاحبان کے ہاتھ چومے- سنا ہے لاہوری میٹرو کے نتیجے میں درخت کٹنے پر رو رہے ہیں ان کو ملتان آکر ہنسنے کی دعوت ہماری طرف سے۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

August 1, 2016

موسیقی- بیتی



ہم نے اسی (80) کی دہائی میں ہوش سنبھالا تھا اور اس زمانے میں اکثر گھروں کی طرح ہمارے گھر میں بھی میوزک یعنی موسیقی کو میراث پوںڑاں (میراثی پن) ہی سمجھا جاتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم کوئی کٹر مذہبی گھر میں پیدا ہوئے۔ ہمارے والد خود بعض اوقات ہمیں فلمیں دکھایا کرتے تھے جیسے محمد علی کی آگ کا دریا یا ہندی سنگم- ویسے تو گھر میں ٹیپ ریکارڈر بھی تھا وی سی آر بھی لیکن بے مقصد یا محض ٹائم پاس کے لیے گانے سننا ایک بری بات سمجھی جاتی تھی۔بس شادی بیاہ کے موقع پر اس یار کا بے نقاب دیدار ہوا کرتا تھا۔ 

مزید پڑھیے Résuméabuiyad