meri chand khamian
یوں تو ہر انسان میں خوبیا ں خامیاں ہوتی ہیں پر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنکو احساس ہو کہ ان میں کیا کیا خامیاں ہیں۔اور وہ ان کو دوسروں کے سامنے بتا بھی سکیں۔
اپنا تو یہ حال ہے کہ اسکول کے زمانے سے ہی اگر کسی مضمون پر اٹکے تو وہ تھا
Myself
مائی سلف یا مابدولت بقلم خود۔
یونیورسٹیوں میں اپلائی کرتے وقت سیکنڈ ڈویژن لکھتے نہیں جھجکا پر جہاں پر آیا ایک پیرا گراف اپنے بارے میں لکھیں تو وہاں اپنی بس ہو گئی۔کیونکہ اپنا ایک اصول ہے کہ خوبیاں دوسروں کے منہ سے اور خامیاں اپنے منہ سے بیان ہوں تو اچھی لگتی ہیں۔
ویسے تو لاکھوں خامیاں ہیں مجھ میں پراتنی آپکے سامنے رکھتا ہوں جتنا میں ہضم بھی کر سکوں۔
مجھے چہرے کبھی یاد نہیں رہتے۔جب میں پنڈی میں انجئنرنگ کر رہا تھا تو تب ایک دوست تھا رمیز۔پشاور سے تعلق تھا اور موصوف بھی ان لوگوں سے ہیں جنکی تعریف کے لیے بلاگوں کی سیریز چاہیے۔بہرحال وہ ہماری کلاس کے سی آر تھے میرے ہاسٹل میں ہم کمرہ تھے ۔چوبیس میں سے بائیس گھنٹے اکٹھے گزرتے تھے ۔انکی بڑی زبردست نوید قمر مارکہ مونچھیں تھیں۔ایک روز جب میں سو کر اٹھا تو ایک کلین شیو لونڈا نما لڑکا میرے ساتھ والے پلنگ پر اور ہم جماعت سے پوچھ رہا تھا مجھے پہچانا ہے؟میں سوچ میں پڑ گیا یہ کون ہے۔مجھے اٹھتا دیکھ کر وہ میرے پاس آیا اور پوچھا پہچانا ہے؟اتنی دیر میں مجھے سوچنے کا موقع مل گیا اور میں نے کہا یار آواز تو رمیز کی ہے میں نے جواب دیا ہاں اوئے ہاں پہچان لیا ہے ایڈا تو کرنل فریدی۔بہر حال نام میں نے پھر بھی نہیں لیا تھا کہ انداذہ غلط ہی ثابت نہ ہو جائے۔اگر اس دن رمیز صاحب زیادہ فری نہ ہوتے تو میں ان کو نہیں پہچان سکنا تھا۔
عام طور پر میں لوگوں کو کپڑوں سے، چال ڈھال سے، حرکات و سکنات سے، انکی خوشبو سے پہچانتا ہوں۔چھ مہینے ہونے کو آئے ہیں ابھی تک کلاس کے لڑکوں لڑکیوں کی شکلیں یاد نہیں ہوئی۔دبئی میں قیام کے دوران پنڈی کے ایک کلاس فیلو نے فون کیا کہ یار میں آیا ہوں جب ملنے گئے تو میرے ساتھ جانے والے میرے دوست نے پوچھا کہ کیسی شکل ہے اس کی کیسے پہچانوں گے تو میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا یار اس نے ڈھیلے ڈھالے سے شلوار قمیص پہنی ہو گی جیسے اپنے بڑے بھائی کے کپڑے ہوں اور پتلی پتلی مونچھیں ہیں اور امید واثق ہے کہ پائوں میں چپل ہو گی۔اور اسی حلیے کی بنا پر ہم دونوں نے اس کو پہچان بھی لیا۔
پر نام یاد رکھنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی پہلی کے ہم جماعتوں کے نام آج بھی یاد ہیں پر شکلیں ؟ ہیروئینیں فلموں میں ہیر اسٹائل تبدیل کر کے آتی ہیں تو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہندسے یاد رکھنا میرے لیے ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔سال یاد نہیں ہوتے، تاریخیں یاد نہیں ہوتیں، ابھی گھڑی دیکھی ہو آپ وقت پوچھ کر دیکھیں مجا ل ہے جو بتا سکوں۔پیسے یاد نہیں رہتے کہ پرس میں کتنے ہیں آج تک اپنی عمر یاد نہیں ہو سکی جب بھی کوئی پوچھتا ہے ہر بار گننا پڑتا ہے۔اور ظلم دیکھیں کہ بیچلر میں اے گریڈ لیا تو ریاضی کے مضمونوں کیلکلس وغیرہ میں لیا۔
اگر مجھے بد حواسی کی انتہا پر دیکھنا ہو تو فون پر کسی سے بات کرتے دیکھیں۔ہیلو، کیاحال ہیں سے آگے چھٹی ہو جاتی ہے۔ جب میں دبئی میں اکائونٹنٹ تھا تو مجھے ٹریننگ دینے والی فلپائنی خاتون نے رسیدوں میں گڑ بڑ ہونے کی صورت میں فون کرنے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی۔ایک آدھ بار اللہ میاں سے دعا مانگتے کوشش کی کہ یا اللہ کوئی نہ اٹھائے ،یا فون
مصروف ہو یا نمبر ہی بدل گیا ہوپر اللہ میاں بھی کتنے فون خراب کرواتا ۔
سائٹ والے ہوں یا گاہک دونوں ہی ٹکا سا جواب دے دیا کرتے تھے ۔جس میں میری اپنی خامی کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ وہ پہلے ایک چٹی چمڑی والی لڑکی سے بات کیا کرتے تھے اور مجھ جیسے کریہہ الصوت کو کون گھاس ڈالتا۔آخر دنوں میں وہ خود ہی انتہائی ایمرجنسی میں فون کر کے معاملہ سیدھا کر لیتی اور ہم کوئی بہانہ مار دیتے تھے۔
جب میں چھوٹا تھا ہماری خالہ کے گھر ایک فون تھا جس پر لوکل کالیں مفت ہوا کرتی تھیں۔میرے سارے کزن ملکر رات کو رانگ نمبر ملا کر دوسروں کو تنگ کیا کرتے تھے میں نے بھی ایک آدھ بار ٹرائی کی کانپتے ہاتھوں اور سینے سے باہر نکلتے دل کو میں نے شرافت اور اور تمیز کی آڑ دے کر توبہ کر لی۔تب ہی ہمت کر لیتا تو آج نئے سے نئے ماڈل کے اپنے موبائیل کے بجنے پر ہاتھ ،دل، ٹانگیں اور زبان کانپنے نہ لگ جاتی کہ گھنٹی تو موبائیل کی بج رہی ہے اور وائبریشن پرہم لگے ہیں۔
استاد کی مار اور ڈانٹ سے آج بھی جان جاتی ہے۔جب میں پہلی کلاس میں تھا تو ایک روزاستاد صاحب کا ڈنڈا ہی پار کر آیا جس پر لکھا تھا "ستر بیماریوں کا ایک علاج"۔ اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ آج باری آئی کہ کل۔
لاہور میں جب میں چھٹی جماعت میں پڑھا کرتا تھا تو کلاس میں ایک لڑکا ہوتا تھا نعمان۔آج تک اس سے زیادہ میں اپنے کسی ہم جماعت سے متاثر نہیں ہوا۔اس کی خوبی یہ تھی کہ پڑھتا ورھتا وہ ککھ بھی نہیں تھا اور جب مار کھانے کا وقت آتا تھا تو بڑے سکون سے ہاتھ آگے کرتا تھا گویا ڈنڈے نہ پڑ رہے ہوں بلکہ چاکلیٹیں مل رہی ہوں۔ایک دن میں نے اس سے پوچھا نعمان آ پکو درد نہیں ہوتا کہنے لگا ہوتا تو ہے پر کیا کریں۔آخر میں استادوں نے اس کو مارنا ہی چھوڑ دیا ۔
نویں جماعت میں کیمسٹری کے استاد صاحب تھے صفدر صاحب۔جماعت میں پڑھاتے پڑھاتے جو پڑھا چکے ہوتے تھوڑی دیر قبل اس میں سے سوال پوچھتے اور جواب نہ دہنے پر لتر پریڈ ہوتی۔میرا دوست میاں نعیم ان کا پسنیدیدہ شکار ہوا کرتا تھا اور اسی خوف سے کہ آج نہیں تو کل اپنی باری ہےمیں اسکول نہ جانے کے بہانے کرنے لگا کیونکہ ماشاءاللہ سے پڑھائی میں ہم خاصے کند ذہن واقع ہوئے ہیں اور ہم کلاس کے نچلے دس لڑکوں میں شمار ہوتا تھے۔میری حاضری اتنی کم ہوگئی کہ لڑکوں نے مذاق بنا لیا کہ علی حسان اور ذیشان ارشاد بیک وقت دو اسکولوں میں پڑھتے ہیں کچھ دن یہاں کچھ دن وہاں۔پر ان کو کون بتاتا کہ بھائی ایک کو تو پورا ہو جائیں ۔آج بھی استاد کلاس میں ذرا سا ڈانٹ دے تو اپنی بس ہو جاتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ بندہ ٹھیک ہو جاتا ہے پر ساری عمر جھک مار کر اب کیا خاک سدھریں گے۔ تو بھائیو اگر پڑھنے والوں میں اگر میرے استاد ہیں تو ان سے گزرش ہے کہ پڑھاتے وقت ہتھ ہولا رکھا کریں، اور نمبر یاد کرنے کے لیے نیٹ استعمال کرنے دیں، اور دوستوں یاروں سے گزارش ہے کہ یار مل لیا کرو، ای میل کر لیا کرو فون نہ کیا کرو ہاں ایس ایم ایس میں کوئی ہرج نہیں اور اگر کبھی کسی کو پہچاننے سے انکار کردوں تو وہ دل میں گندی گندی گالیاں نکالنے سے پہلے اپنا تعارف کرا دیں تو دونوں کو آسانی رہے گی۔