October 21, 2013

بکرے کی بک بک

Bakry ki bak bak


صاحبان، قدر دان، قصائیان و مالکان میں ایک بکرا ہوں اور بِک رہا ہوں ۔ اگر آپ یہ فضول سوال پوچھیں کہ میں بکرا کیوں ہوں اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ چونکہ میں ایک بکری کے ہاں پیدا ہوا لہذا میں بکرا ہوں۔ کیونکہ انسان کے علاوہ اور کسی جاندار میں یہ طاقت نہیں کہ وہ جس کے ہاں پیدا ہوا ویسا نہ ہوا کہ بکرے کے گھر بکرے کا بچہ اور گدھے کے گھر گدھے کا بچہ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن انسان کا کوئی پتہ نہیں کہ انسان کے گھر پیدا ہونے والا انسان کا بچہ ہی ثابت ہو گا یا کچھ اور۔ اور اس سوال کے جواب میں کہ میں بِک کیوں رہا ہوں تو اپنے گریبان میں جھانک لیں پاکستانی ہو کر ایسے سوال۔ بہرحال میری فروخت کا معاملہ میرے یا میرے رشتے داروں دوست یاروں کے پیسے کمانے سے تعلق نہیں یہ سرا سر عید قربان کی وجہ سے خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ یہ سیانوں کی باتیں ہیں اور بکرے کے مغز کا سوائے بھون کر کھانے کے اور کوئی استعمال نہیں لہذا ایسی باتیں کیوں کی جائیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

October 11, 2013

روپیہ واقعی رو پیا؟

Ropiya waqee Ro piya


فرانسیسی کہاوت ہے کہ کرنسی چھاپنے والے پریس کے پیچھے پھانسی گھاٹ ہے۔ فرانسیسی واقعی دور رس نگاہ رکھنے والی قوم ہے جب ہی اتنی صدی آگے دیکھ لیا جب آگے ہمارے حکمران نوٹ چھاپ چھاپ کر گھر لیے جا رہے ہیں اور پیچھے عوام پھانسی گھاٹ پر قطار بنائے کھڑی ہے۔

کرنسی نوٹ سب سے پہلے چھاپنے کا ذمہ چینیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے آئی ایم ایف IMF اور ورلڈ بنکWorld Bank سے پہلے بلکہ کافی پہلے یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی پہلے ہی نوٹ چھاپے تھے لیکن تب سیانے لوگ دنیا میں موجود تھے اور ان کا کہا مانا بھی جاتا تھا تو انہوں نے سمجھا بچھا کر نوٹ چھپوانے بند کر دیے۔

دنیا میں شروع میں بارٹر نظام چلا کرتا تھا کہ کسی شے کے بدلے کوئی اور شے۔ اس میں چیز کی قیمت سودا لینے والے اور دینے والے پر منحصر ہوتی تھی یعنی میرے پاس سونا وافر ہے اور کسی ساتھی بلاگر کے پاس انڈے وافر ہیں تو میں خوشی خوشی دس گرام سونے کے بدلے ایک درجن انڈے لے لیا کرتا تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

October 1, 2013

میرے بچپن کی یادگار شرارتیں

Mere bachpan ki yadgar shrartain


حالانکہ بہت سے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں بچپن میں انتہائی بیبا، باادب اور معصوم بچہ تھا اور آج کل کے بچوں کو دیکھتے ہوئے تو ہماری شرافت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم بھی پورے سورے تھے بس خدمت کا موقع نہیں ملا اور والد صاحب کے ڈر سے اکثر کاموں سے باز رہتے اور لگے رہتے ہوائی قلعے بنانے جس میں ہم اکثر فاتح عالم بنتے یا اکیلے پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوا آتے بعد میں کافی عرصہ ہم خیالی جاسوس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔انہی سوچوں میں گم رہنے کی بنا پر کئی لوگوں نے ہم کو بے وقوف مشہور کرنا چاہا لیکن اللہ کے فضل سے اپنی شہرت بچپن سے ہی اچھی رہی ہے اور اتنی اچھی رہی ہے کہ کبھی رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے تو یہ کہہ کر چھوڑ دیے گئے علی ایسا نہیں کر سکتا یہ کسی اور کی شرارت ہو گی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad