پڑھنے سے پہلے نوٹ فرما لیں یہ سیاسی نہیں معاشرتی بلاگ ہے کہ معاشرتی سائنس میں ہم پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے
ہیں۔
جس نے ملتان میٹرو کا نقشہ بنایا ہے اس سے بڑا عملی مذاق یعنی پریکٹیل جوک کرنے والا شخص مجھے آج تک نہیں ملا۔ جس کسی کو زیگ زیگ Zig Zag کا مطلب نہیں آتا وہ میٹرو متاثرہ بوسن روڈ پر گاڑی چلا کر دیکھ لے- بل کھاتی سڑک جو پہاڑی علاقوں کی پگڈنڈی کا منظر پیش کرتی ہے کو مزید چار چاند اس کی چوڑا لگا دیتی ہے جو کہیں چالیس فٹ سے تجاوز کر جاتی ہے اور کہیں سکڑ کر دس فٹ سے بھی کم رہ جاتی ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ دس فٹ کے متوازی مخالف سمت ٹریفک والی سڑک چالیس فٹ چوڑی ہے- لیکن یہاں پر بس نہیں بلکہ اس الٹی سیدھی لکیریں لگانے کا توڑ یہ نکالا گیا کہ کئی جگہوں پر اب سڑک تین رویہ ہے- دو جانے والے ایک آنے والا اور تینوں کے درمیان ڈیوائیڈر منہ چڑا رہا ہے- ادھر بعض جگہوں پر سروس روڈ اصل روڈ سے چوڑا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا وجود ہی نہیں- بس ایک انجیرننگ کا شاہکار ہے جس دل کرتا ہے بندہ نقشہ نویس، نقشہ پاس کرنے والوں اور انجینیر صاحبان کے ہاتھ چومے- سنا ہے لاہوری میٹرو کے نتیجے میں درخت کٹنے پر رو رہے ہیں ان کو ملتان آکر ہنسنے کی دعوت ہماری طرف سے۔
دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نطام رائج ہے- مقصد اس کا بے ہنگم ٹریفک کی روک تھام اور عوام کو سستی سفری سہولیات مہیا کرنا ہیں تاکہ وہ ایک شہر میں با آسانی سفر کر سکیں اور آبادی کسی ایک جگہ جمع ہونے کی بجائے برابر پھیلتی رہے- یعنی کہ اگر دفتر یا اسکول شہر کے ایک حصے میں ہیں تو آپ جی جان لگا کر اسی کے آس پاس ہی گھر حاصل کریں کہ آنے جانے میں آسانی رہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ سے یہ فائدہ ہے آپ کہیں بھی سستا ، اچھا گھر لیکر رہ سکتے ہیں اور آنا جانا سرکار کے ذمے۔
پولینڈ میں ایک استاد صاحب ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ قانون دان تھے اور یورپ میں کمپنیاں خرید و فروخت ایجنٹوں کے زریعے کرتی ہیں جو کہ وکلا ہوتے ہیں اور وہ بڑی بھاری فیس لیتےہیں- وہ ایسے ہی ایجنٹ وکیل صاحب تھے جن کے پاس بی ایم ڈبلیو تھی- ایک دن بتانے لگے میں میٹرو (زیر زمین ریل) پر آتا جاتا ہوں- ہم حیران رہ گئے کہ کیوں؟ بولے اس لیے کہ کون ٹریفک میں سر کھپائے- سکون سے بیٹھ جاتا ہوں میٹرو میں اور گھر پہنچ جاتا ہوں۔
لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ پر راغب کرنے کے لیے حکومتیں کوششیں کرتی ہیں جیسے تالن میں پبلک ترانسپورٹ مفت ہے جہاں سے جہاں تک سفر کریں کوئی پیسے نہیں یا سٹاک ہوم میں پرانے شہر اور سٹی سنٹر میں کار لیجانے پر پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں یا بیشتر یورپی ملکوں میں جب فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے تو رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے آخری ہندسے کے مطابق ایک دن طاق کاریں نکلنے کی اجازت ہوتی ہے ایک دن جفت عدد کی کار۔
پوری دنیا میں زیر زمین ٹرین یا ٹرام چلتی ہے لیکن وہاں تعمیر کسی کو تکلیف دیے بغیر ہوتی ہے ایسے نہیں کہ جب تک بن نہ جائیں آپ باقیوں کا جینا بھی حرام کر دیں ادھر یہ حال ہے کہ سنتے ہیں کئی مشہور عمارتیں بیچ میں آرہی ہیں، منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ملتان میں ایک ہی سڑک پر دو یونیورسٹیاں بنا دی گئی ہیں، اسی سڑک پر کئی مال اور پلازے بغیر پارکنگ کی سہولت کے کھڑے کر دئے گیے ہیں اور اوپر سے وہی سڑک میٹرو بس کی تعمیر کے سلسلے میں بند ہے، باقی دنیا میں بھی تعمیر ہوتی ہے لیکن وہاں یہ سوچ کر کام کیا جاتا ہے کہ اس سے دیگر انسانوں کو تکلیف نہ ہو یہاں شاید اپنے علاوہ کوئی کسی کو انسان سمجھتا نہیں اس لیے پرواہ نہیں۔
پاکستان کے منصوبہ سازوں پر سر پیٹنے کا دل کرتا ہے کہ ہماری اقتصادی و معاشی پالیسیاں نجانے کون لوگ بناتے ہیں- پاکستان میں اگر یہ میٹرو اور پبلک ٹرانسپورٹ کم از کم پندرہ سال پہلے بن جاتے تو اصل فائدہ تھا۔ تب پیسہ کم لوگوں کے پاس تھا، سستا زمانہ تھا بلکہ بے نظیر کے پہلے دور تک لوگ پیسے اور اسٹیٹس کے پیچھے پاگل نہیں تھے۔ پھر جمہوریت کا ثمر پکنا شروع ہوا اور معاشرہ میں ایسی ہا ہا کار مچی کہ الامان الحفیظ- آج یہ حال ہے کہ آپ کی تب ہی عزت ہے اگر آپ کے پاس بڑی کار ہے، گھر ہے ، کپڑوں سے تکبر جھلک رہا ہے، چال میں نخوت طاری ہے، بات آپ عام بندے سے بھول نہیں کرتے تب ہی آپ کو پروٹوکول ملے گا وگرنہ شرافت، اخلاص، نرم روی، اور دیگر شخصی اچھائیاں اب آپ کو پاگل کہلوانے کا باعث ہیں۔ اب جس زمانے میں ہم سائیکل کا خواب نہیں دیکھا کرتے تھے اس عمر میں بچوں کو موٹر سائیکل مل جاتا ہے- ایک گھر میں چار چار کاریں آ گئی ہیں کہ ایک تو زرائع آمد و رفت ہی نہیں دوسرا اپنا بھرم بھی قائم رکھنا ہے- اب کیا خیال ہے ملتان میں میٹرو چلے گی تو لوگ کاریں ٹھہرا کر اس پر سفر کریں گے؟کاریں کیا موٹر سائیکل جو آبادی سے زیادہ ہوچکے ہیں انہوں نے نہیں تھمنا- میٹرو پر وہی سوار ہوں گے جو قسطوں پر موٹر سائیکل لینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
پہلی بات تو یہ یہ میٹرو اس تناظر میں بنائی ہی نہیں جا رہیں کہ عام آدمی کا فائدہ ہو یا ٹریفک معاملات و آلودگی کو کنترول کیا جائے لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اسٹیٹس کا بھوت بوتل سے نکل چکا ہے اور یہ اب سوچنے والوں کی خام خیالی ہی ہے کہ یہ کاریں، موٹرسائیکل اور آوارہ سوچیں واپس گھروں میں قید ہو سکیں گی۔ اور اگر بنائی جا رہی ہے تو کم از کم اس تناظر میں تو بنائی جائے کہ حقیقی لوگ جن کو اس کی ضرورت ہے وہ درست طور فائدہ اٹھا سکیں۔بس بات وہی رہ جاتی ہے کہ عوام کو جو کچھ مل رہا ہے اس پر شکر کرلیں کہ یہ بھی نہ ہوتا تو کیا کرلیتے
اصل بات یہ ہے کہ زمینی حقائق زمین پر رہنے والے ہی جانتے ہیں آسمانوں میں رہنے والوں کی سوچ روٹی نہیں تو کیک کھانے والی ہی ہوتی ہے۔
metro metro kerdi ni main