ہم نے اسی (80) کی دہائی میں ہوش سنبھالا تھا اور اس زمانے میں اکثر گھروں کی طرح ہمارے گھر میں بھی میوزک یعنی موسیقی کو میراث پوںڑاں (میراثی پن) ہی سمجھا جاتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم کوئی کٹر مذہبی گھر میں پیدا ہوئے۔ ہمارے والد خود بعض اوقات ہمیں فلمیں دکھایا کرتے تھے جیسے محمد علی کی آگ کا دریا یا ہندی سنگم- ویسے تو گھر میں ٹیپ ریکارڈر بھی تھا وی سی آر بھی لیکن بے مقصد یا محض ٹائم پاس کے لیے گانے سننا ایک بری بات سمجھی جاتی تھی۔بس شادی بیاہ کے موقع پر اس یار کا بے نقاب دیدار ہوا کرتا تھا۔
ملتان میں ہمارا ننھیال تھا اور بعد ازاں ہم ملتان شفٹ ہو گئے ۔ یہاں ہمارے ماموں، خالو اور دیگر رشتے داروں کی کار میں اکثر موسیقی چلتی تھی۔ گھروں میں کبھی کبھار ٹیپ پر گانے بھی چلا کرتے تھے۔ آڈیو کیسٹ سے باقاعدہ تعارف یہاں آ کر ہوا۔ لوگ شوق سے جا کر کیسٹ میں پسند کے گانے بھرواتے تھے۔ آہستہ آہستہ نئی نسل میں آڈیو کیسٹ ایسا فیشن بن گیا جیسے اب آئی فون کا ہے-
ہم ٹھہرے پہلے دن کے سیدھے سادے بچے۔ خالہ کے گھر کچھ دن رہنے گئے تو ان کی ایک نوکرانی تھی۔ نوکروں کو ہمارے ملتان میں بڑی اہمیت حاصل ہے کہ گزری جاگیرداری کی واحد نشانی کے طور پر ان کو بعض اوقات گھر والوں سے بھی اہمیت زیادہ دی جاتی ہے کہ کہیں چھوڑ نہ جائیں۔ چھوٹی بچیاں گھروں میں آتی ہیں اور مالکان ان کی شادی کرا کر ہی ان کو رخصت کرتے ہیں جبکہ کچھ زیادہ دور اندیش مالکان ان کی شادی بھی ایسے لڑکوں سے کراتے ہیں کہ وہ شادی کے بعد بمعہ شوہر وہیں رہ جاتی ہیں۔
ایک دن وہ کوئی گانا سن رہی تھی تو میں نے کہا بند کرو کیا فضول گانا ہے- گانے کے بول تو یاد نہیں کہ بول بھی بس ایسے ہی فضول سے تھے میں کونسا تب مرذا غالب تھا جو مجھے شاعری پر اعتراض ہوتا لیکن مجھے اس لیے برا لگا کیوں کہ اس گانے کے گلوکار کی آواز میرے ایک کزن سے ملتی لگی جو کہ تب میرا بڑا اچھا دوست ہوتا تھا۔ اب چونکہ گانا یا گانا گانا ایک معیوب سی چیز تھی اس لیے مجھے ذرا بھی اچھا نہ لگا کہ میرے دوست سے کوئی برائی منسوب ہو۔
اب ہوتا یہ تھا کہ چھٹیوں میں ہم کوئی تیس چالس کزن اکٹھے ہوتے تھے تو اس نوکرانی نے سب کو اطلاع پہنچا دی کہ مجھے اس گانے سے 'چڑ' ہے اور انہوں نے اپنی دانست میں میری 'چھیڑ ' رکھ دی۔ تین چار توتکار کے بعد جب ہم واپس لوٹے تو ہمیں یاد بھی نہ رہا اور چند سالوں بعد جب وہ گانا دوبارہ چلا تو کزن نے پوچھا کچھ یاد آیا؟ میں نے کہا نہیں تو اس نے بتایا یہ وہی گانا ہے- میں ہنس پڑا کہ وہ دوستی نہ رہی تو گانا کیا خاک یاد رہنا تھا۔
ہمارے تیس چالیس کزنوں میں سب سے بڑا کزن مجھ سے پانچ جبکہ ماموں چھ سال بڑے ہیں گویا ایک ہی جنریشن تھی اب میرے ماموں تو خیر نانا کی وفات کے بعد گھر کے بڑے تھے لیکن میرے چچا زاد بھائی بھی کیسٹ اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے تھے اور ان کے پاس بھی اچھی خاصی 'کلکشن' تھی۔ جنید جمشید جو تب مولانا نہ تھے پاکستانی نوجوانوں کے جان لینن John Lennon تھے- ہم نے بھی والدہ سے فرمائش کی کہ ہمیں مولانا کی کیسٹ لے دیں۔ اس کے بعد جو عزت افزائی ہوئی اس کے بعد ہماری آہ و زاری سن کر شاید اللہ میاں نے جنید جمشید کو مولانا بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اب ہم شوقین جنید جمشید کے اور علی حیدر کے لیکن جب ہم ماموں کی کار میں بیٹھیں جو تب ہماری موسیقی کی تسکین کا واحد ذریعہ تھا ماموں چلا دیں استاد نصرت فتح علی خان کی قوالیاں۔ ادھر استاجی راگ کھینچیں ادھر ہمارے صبر کا کچا دھاگا تڑک کر کے ٹوٹ جائے اور ہم ماموں سے منت کریں کہ ماموں پلیز کوئی روح کی غذا پوری کرنے کا بندوبست کریں روح کو مار کر غذا کا تکلف ہی ختم نہ کریں۔ لیکن ظلم کے آگے دہائی ہے – لیکن کہتے ہیں جو دوسروں پر بات کرتے وہ اس کے سامنے آتی ہے اور آٹھ دس سالوں بعد وہی ہم استاد جی کا ہر ہر لفظ سن سن کر ازبر کرچکے تھے
ملتان پبلک اسکول میں پہنچے تو الگ دنیا تھی۔ انگریزی گانے سنے جاتے تھے۔ راک اور ہارڈ راک سے آگاہی ہوئی- آگاہی بس نام تک محدود رہی کہ ہمیں تو سارا گانے سننے کے بعد دوست ہی بتایا کرتے تھے کہ یہ انگریزی زبان میں تھے۔ بلکہ کوئی زیادہ شوقین مزاج کسی اور زبان کا سنا بھی دیتے تو ہم یہی سمجھتے کہ انگریزی ہو گی اسی لیے سمجھ نہیں آئی۔ ہندی گانے سننے والے جاہل گنوار سمجھے جاتے تھے اور پاکستانی پاپ کو تھوڑی چھوٹ حاصل تھی اور ہم اس تھوڑی سے بھی تھوڑی چھوٹ کے حقدار سمجھے جاتے تھے کہ پاکستانی پاپ میں بھی ہم بس مولانا جنید جمشید ، علی حیدر قسم کے تھوڑے شریفانہ لوگ اور گانے پسند کرتے تھے۔ جنون و جنونی ہمیں کبھی ہضم نہ ہوئے جو کہ تب تک پاکستانی نوجوانوں کو اچھل کود کی مسخری کے زریعے مسخر کرچکے تھے۔
سنہ نناوے میں ہم نے خود کی کار لی۔ خود کی اس لیے کہ والد صاحب باہر جا چکے تھے اور اب گھر کے کرتا دھرتا ہم تھے۔ والدہ صاحب اب کے کار میں کیسٹ دیکھ کر چپ ہو گئیں کہ کار کا کچھ تو سائیڈ ایفکٹ بھی آنا تھا۔ بس پھر ہم نے بھی میراث پن کی کلکشن میں حصہ ڈالا اور تب زمانہ تھا سونک کمپنی کے البم کا۔ بس پھر ہر ہفتے پیسے بچا کر کیسٹ لیتے اس کو زبانی رٹتے اور پھر نئی کیسٹ۔ پھر غزلوں کا شوق پڑا، استاد جی سے یاری بنی اور ہم وقت سے پہلے بوڑھوں کے گانے سننے لگے۔
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ملک چھوڑ کر باہر آئے۔ پہلے پہل تو غزلوں کو رگڑا کہ کچھ بھی ہو اپنا ملک، اپنا ماحول اپنے لوگ چھوٹنے کا غم تھا۔ اسی دوران موبائیلوں کا دور آیا اور چلتا پھرتا موسیقی کا شیطانی ڈبہ آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔
ویسے تو میں نے کم کم ہی ایسے ہی چلتے پھرتے گانے سنے ہیں کہ اس سے سوچ میں دخل اندازی تھی لیکن جب جب لمبا سفر کرنا پڑا ہم بھی کانوں میں ٹونٹیاں ڈالے موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔ پھر ایک بار جہاز میں ایک بھارتی مسافر کے ساتھ سفر کرتے خیال آیا کہ ویسے تو ہم پاکستانی بھارت کے خلاف بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اگر کسی روز کسی نے پوچھ لیا کہ میاں کونسے گانے سن رہے تو کیا جواب دوں گا؟ بس وہ دن اور آج کا دن ہم نے کشمیر کی آزادی تک اپنے موبائل کو ہندی گانوں سے پاک کر دیا ہے اور اب ہم سنتے ہیں انگریزی گانے۔
ایسا نہیں کہ اب ہماری انگریزی بڑی اچھی ہو گئی ہے اب بھی ہم گانے کے ابتدائی بول دیکھنے کے گوگل انکل سے ہی مدد لیتے ہیں اور ویسے بھی ہندی گانے اب یویو ہنی سنگھ سے متاثرہ ہونے بعد کم از کم ہمارے ہاضمے کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں- اور جب بھاں بھاں ہی سننی ہے تو من ماں ایموسن جاگے رے ہوں یا سپر بیس super bass کیا فرق پڑتا ہے- سپر بیس میں کم از کم دل مطمعن اور اخلاقی شکست تو نہیں۔
mosiqi- beti