December 21, 2013

کانفرنس کہانی

Conference kahani 


 کسی بھی کانفرنس میں جانے کا اور فائدہ ہو نہ ہو یہ فائدہ ضرور ہو جاتا ہے کہ سمجھ چاہے ایک لفظ نہ آئے ایک بلاگ 
ضرور ہو جاتا ہے۔ بطور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہم سے امید رکھتی ہے کہ ہم یونیورسٹی میں منعقد کی جانے والی ہر کانفرنس میں ضرور شرکت کریں لیکن اللہ کی رحمت سے ہم بلاگ بس میں بیٹھ کر ، بستر پر لیٹ کر، چہل قدمی کرتے ہوئے الغرض کہیں بھی کبھی لکھ سکتے ہیں تو بندہ کانفرنس میں جانے کا تردد کیوں کرے جہاں لوگوں کی باتیں سننی پڑیں ان کے سوالات سمجھنے پڑیں اور سب سے مشکل کام دو تین گھنٹے ہوشیار باش ہو کر بیٹھے رہو۔ تاہم کبھی کبھی بندہ پھنس جاتا ہے اور جانے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچتی تو یہ کانفرنس بھی ایسی ہی کانفرنسوں میں سے نکلی اور ہمیں جاتے ہی بنی۔


ہماری یونیورسٹی ایسٹونین بزنس اسکول Estonian Business School کی پچیسویں تقریبات کے سلسلے میں انہوں نے برطانیہ سے ایک ڈاکٹر پروفیسر صاحبہ مدعو کی تھیں اور ہمیں پابند بنایا کہ ہم ان کے قیمتی الفاظ سنیں اور سر دھنیں۔وہ الگ بات رہی کہ ہم نے ہر دو کام سے حتی الوسیع گریز اختیار کیا۔

 کانفرنس کی مقرر صاحبہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں برطانیہ سے وارد ہوئی تھیں اور جسامت میں فردوس عاشق اعوان کی یاد دلاتی تھیں اور ایسی بلند آواز میں بولتی تھیں کہ ہم اپنے گھر میں ایسی آواز سن کر سہم جائیں جہاں ہماری آواز کو لاؤڈ اسپکیر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔


کانفرنس والی ڈاکتر کیرولین
 ان کی تقریر سکالر شپ آف پریکٹیس scholarship of practice پر مشتمل تھی یعنی مفروضوں اور تھیوری کا اصل زندگی میں استعمال جبکہ میں صرف پریکٹس آف اسکالر شپ Practice of Scholarship میں یعنی وظیفہ خواری میں دلچسپی رکھتا تھا اور اس امید میں آیا تھا کہ شاید بی بی ہم کو وظائف حاصل کرنے کے نت نئے طریقے بتائیں گی کہ سکالر شپ کا مطلب تو ہمارے نزدیک ایک ہی تھا کہ مینوں نوٹ وکھا میں پڑھنا شروع کراں یعنی وظیفہ۔ لیکن وہ اس ایجنڈے پر کام کر رہی تھیں کہ تنظیم (آرگنائزیشن Organization) میں کیسے منیجمنٹ کے اصول و نظریات نافذ کیے جائیں۔ المختصر کتابی علم کو کیسے عملی زندگی میں لاگو کیا جائے۔لہذا ہماری ہم آہنگی نہ بن سکی اور میں کھڑکی سے باہر پارک اور اس میں پڑی برف سے محضوض ہوتا رہا کہ برف تب ہی اچھی لگتی ہے جب آپ اندر بیٹھے ہیٹر سینک رہے ہوں۔

ہماری دوران کانفرنس کھڑکی سے باہر کی کھینچی گئی تصویر
کیرولین بی بی کا دبنگ پن دیکھ کر مجھے اپنے ہم جماعتوں پر حسرت سی آنے لگی جو میری طرح منہ اٹھا کر عین وقت پر نہیں دوڑے چلے آئے تھے بلکہ کوئی آدھ گھنٹا تاخیر سے پہنچا کوئی گھنٹہ تاخیر سے پہنچا۔اصل میں ہمارے لیے اس کانفرنس میں شرکت لازمی تھی۔ یہ ہمارے ہر سمسٹر میں ریسرچ سمینار کا حصہ تھا جس میں حاضری لازم ہوتی ہے اور اسی حاضری پر ایک اعشاریہ پانچ یعنی ڈیڑھ کریڈٹ گھنٹے آپ کے پاس شدہ مضامین میں جمع کر دیے جاتے ہیں۔

یہاں یورپ کے سرد ممالک میں خاص طور پر سردیوں میں ہر بار یہی کہانی ہوتی ہے کہ باہر سے آنے والے کپڑوں میں لدے مرد وخواتین اندر کمرے کی گرمی پا کر پہلے پہل تو تمام کپڑے اتار پھینکتے ہیں (تمام سے مراد اضافی کپڑے جو سردی سے بچاؤ کے لیے پہنے جاتے ہیں) لیکن جیسے جیسے کمرے میں یا ہال میں سردی بڑھتی ہے پھر آہستہ آہستہ ساتھ کی کرسی پر رکھے کپڑے لپیٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ لہذا کسی کانفرنس میں آپ داخل ہوں تو لوگوں کے کپڑے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کانفرنس کو شروع ہوئے کتنی دیر ہوئی ہے۔ پہلے پہل شالیں اوڑھیں گئیں، پھر سوئیٹر پہنے گئے پھر مفلر اوڑھے گئے اور امید تھی کہ اگر تھوڑی دیر اور کانفرنس چلتی تو لوگوں نے جیکٹیں بھی پہن لینی تھیں لیکن چونکہ میں نے عین ہیٹر کے سامنے نشست چنی تھی اس لیے ہم صرف تماشہ دیکھنے والے تھے تماشے کے شریک نہ ہوئے۔

دوران کانفرنس میں سوچتا رہا اگر مجھے اپنی ڈاکٹری کی ایسی سپر وائزر ملی ہوتی تو مجھے صد فیصد یقین ہے کہ میں ڈراونے خوابوں کی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہوتا اگر پی ایچ ڈی چھوڑ کر جا نہ چکا ہوتا۔ویسے بھی ایسٹونین نرم خو، دھیمے لحجے میں بات کرنے والے اور عاجزی و انکساری سے کام لینے والے افراد ہیں اور میری سپر وائزر ڈاکٹر کاتری کیریم ہو یا ہماری نائب ریکٹر ڈاکٹر روتھ ایلاس ہو ان سے مل کر بات کر کے خوشی محسوس ہوتی ہے کجا یہ بات بے بات ہتھوڑا گروپ کی رکن ڈاکٹر کیرولین۔

اپنی تقریر کے آغاز میں ہی محترمہ نے آتے ساتھ ہی ہماری یونیورسٹی کی بے عزتی کر دی کہ ان کے مطابق ای بی ایس EBS جو پچیسویں سالگرہ منا رہی ہے وہ اکیس سال ہوئے ہیں۔ بھائی ہماری یونیورسٹی ہماری عمر ہماری سالگرہ آپ کا کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ میزبانوں کی بینڈ بجادی۔ مجھے اس بندے پر غصہ آنے لگا جو اللہ میاں کی اس بلا کو ایسٹونیا لے آیا تھا۔ کہ بھائی اپنا لیکچر دو اور گھر جاؤ۔ ہم پچیسویں سالگرہ منائیں یا ایک سو پچیسویں آپ نے عمر کے حساب سے پیسے دینے ہیں کیا جو آپ چار سال پر تکلیف ہو رہی ہے۔ ہم نے تو کبھی میرا پر اعتراض نہیں کیا جو جب کی پیدا ہوئی ہے اکیسویں سالگرہ منا رہی ہے۔بندے کو کھلے دل کا ہونا چاہیے کیسے بھائی؟

ویسے آپس کی بات ہے میں تو کیرولین نام سن کر ہی ٹھٹھک گیا تھا کہ پولینڈ میں ایک کیرولینا بی بی متھے پڑ چکے تھی اور ان بی بی پر ایک بلاگ واجب الادا ہےلیکن اس ڈر سے نہیں لکھتا کہیں فحاش نگاری کا الزام نہ لگ جائے حالانکہ اس سے ہمارا تعلق استانی اور شاگرد کا تھا لیکن ان بی بی کے اعمال ہی واہ واہ قسم کے تھے۔

ان برطانوی کیرولین بی بی کا تعلق اوپن یونیرسٹی بزنس اسکول Open university business schoolسے تھا یعنی اسکول بھی اور یونیورسٹی بھی ان کو دیکھ کر ہر فن مولا ہونے پر یقین بھی آتا تھا۔

ان کے خطاب کے بعد بعد مباحثہ یعنی ڈسکشن شروع ہوئی اور ہمارا رہا سہا انترسٹ بھی ختم ہوگیا۔

پہلا سوال پوچھنے کی ہمت مولانا ٹیٹ صاحب Dr Tiit Elenurm  نے پوچھا۔ مولانا کا خطاب ہم نے ان کو ان کی شکل کی مناسبت سے دیا ہے ان کے علم کی مناسبت سے نہین۔ پہلی بار جب ان کو دیکھا تو میں دھوکا کھا گیا کہ یہاں قرآن کی تعلیم کا بندوبست بھی ہے کیا؟تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مولانا کی لمبی داڑھی ہے اور مونچھ مونڈتے ہیں۔

مولانا ٹیٹ ایلےنورم داہنے ہاتھ پر بیٹھے ہیں
بی بی صاحبہ نے مولانا کی میٹھی میٹھی بے عزتی کر کے جواب دیا تھینک یو فار ویری ایزی کوئسچنThank you for very easy question.۔ اور پھر پتہ چلا کہ یہ ان کا انداز ہے کہ ہر جواب سے پہلے سوال پوچھنے والی کی ہلکی سی جھاڑ پٹی کر دے جائے اور ہمیں اس کی بڑی افادیت تب محسوس ہوئی کہ تین چار کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی مزید سوال پوچھنے کی کہ عزت بہت سوں کو پیاری ہوتی ہے۔

ایک بی بی نے سوال پوچھا تو جواب دیا اس کا جواب تو ٹام بھی دے سکتا ہے۔ میں بے اختیار بول اٹھا"ہائیں ہائیں"۔ میں سمجھا کہ شاید ٹام ان کے کتے کا نام ہے لیکن ٹام صاحب ان کے پی ایچ ڈی کے طالب علم نکلے جن کے ڈاکٹر بننے میں دو سال رہتے تھے۔

 تاہم ڈسکشن مین ایک تجویز دی گئی کہ کمپنیوں کے منیجر بزنس اسکولوں سے پروفیسروں کو بطور کوچ اپنے ساتھ رکھیں مدد کے لیے جیسے کھلاڑی اپنے ساتھ کوچ رکھتے ہیں۔جو ان کو کسی بھی مسئلے کی صورت میں کتب میں موجود جوابات اور حل سے آگاہ کرے۔تجویز قابل عمل تو نہ لگتی تھی لیکن قابل قبول ضرور لگی کہ ہو جائےتو ہم جیسے ہزاروں بزنس اسکولوں کے پڑھنے والوں کی نوکری کا ایک نیا سبب نکل آئے گا۔لیکن ہم ایسے ہی خوش قسمت ہوتے تو کیا کہنا تھا۔

البتہ کانفرنس کی اچھی بات یہ ہوئی کے کانفرنس کے اختتام پر چائے کافی کیک بسکٹ کا دور چلا لیکن بری بات یہ ہوئی کہ ہم شرما شرمی میں محض ایک ایک کپ کافی و چائے ہمراہ سات ٹکرے کیک ہی کھا سکے کہ کیا پتہ ہمارے علاوہ بھی کوئی ہمارا کھانا گن رہا ہو اور آ کر کہہ دے بھائی صاحب شرم نہ کریں ابھی تو آپ نے محض پندرہ بار کیک لیا ہے۔
یونیورسٹی سے اطراف کی کھینچی گئیں مزید تصاویر


برف پگھل چکی ہے

یونیورسٹی میں موجود کرسمس ٹری