November 11, 2013

بطخ کی اداسی اور جھیل گاردا

Batakh ki udasi or jheel Garda

ایسٹونیا سے ہم جیکٹ ویکٹ پہن کر چلے تھے اور اٹلی میں لوگوں کا بس چلتا تو شرٹ بھی اتار پھینکتے۔ لیکن آج بارش نے 
سب کے دماغ ٹھکانے لگائے ہوئے تھے اور اللہ کی ہی مہربانی کے باعث فحاشی میں کمی واقع ہوئی تھی کہ خنکی کے پیش نظر اطالوی بیبیوں کو لحاظ آیا اور انہوں نے کچھ پورے کپڑے پہنے۔ راجہ صاحب اٹلی والے تو پنجابی زبان اور اطالوی زبان کے دور کے اکثر رشتے نکالتے رہتے ہیں جس کو ہم دل میں ناجائز رشتے کا نام دیتے رہے پہلی بار ان کے قائل ہوئے کہ پاکستانیوں کو بھی اللہ ہی نیک کرے تو کرے کسی انسان کے بس کا کام نہیں ایسے ہی اطالویوں کو بھی اللہ ہی نے سیدھا کیا ورنہ ساحل ہو ، گوری ہو اور پورے کپڑوں میں ہو تو خود کو چٹکی بھریے آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔

پچھلے کئی روز کی گرمی کا حساب برابر کرنے پر تلی ہوئی بارش پہلی بار مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی ویسے تو میں بھی ان لوگوں میں ہوں جنہوں نے کچے مکانات کے باوجود بارش سے دوستی رکھی اور ہمارے کچے مکان کی تفصیل یوں ہے کہ پولینڈ اور ایسٹونیا میں درجہ حرارت منفی چالیس خود بھگت چکے ہیں لیکن پھر بھی بارش ہوتے ہی دل چاہتا تھا کہ اس میں بھیگیں ضرور لیکن اب ایک روز کے لیے اٹلی کی سب سے بڑی جھیل گاردا(اطالوی:لاگو دی گاردا Lago di Garda )جو کہ شمالی اٹلی میں واقع ہے کے کنارے اس بطخ کو دیکھنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر اایسی ہی کسی منحوس بطخ کا دیدار مقصود تھا تو اپنا گاؤں برا تھا۔ خود میں نے پندرہ بیس بطخیں پال چھوڑی ہیں۔اور اگر میرا یہ حال تھا تو ہمراہیوں کے دل کی بات تو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

اٹلی کی سب سے بڑی جھیل کے کنارے ایک میں اداس تھا اور ایک بطخ اداس تھی۔ اب خدا جانے بطخ اداس تھی یا نہیں یہ شوشہ ہمارے میزبان راجہ صاحب اٹلی والے نے چھوڑا تھا اور اچھے مہمان کا فرض ہے کہ میزبان کی بتائی ہوئی لکیر پر چڑھ جائے اور اس کے باوجود وہ ڈنگر ڈاکٹر نہیں بلکہ ہومیو پیتھی ڈاکٹر ہیں ہم ان کی بات پر ایمان لے آئے۔ خیر بطخ تو کھانا نہ ملنے کی وجہ سے اداس تھی کہ دور دور سے آنے والے لوگ اس بیچاری پر ایک ڈبل روٹی کی مہربانی کرنے سے انکاری تھے جبکہ میں اس لیے اداس تھا کہ بارش کے باعث تصاویر نہ اتار سکتا تھا جھیل میں کشتی رانی نہ کر سکتا تھا اور جھیل کنارے ٹہل نہ سکتا تھا۔

جھیل ایک زمانے میں موسولینی صاحب کا مسکن ہوا کرتی تھی مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی ملاح تھے یاکسی بطخ سے دوستی پال رکھی تھی یا جھیل کنارے ایک جھونپڑی ڈال کر یاد اللہ میں مصروف رہتے تھے بلکہ انہوں نے جھیل کنارے عالیشان محل تعمیر کرائے تھے جہاں وہ اپنی محبوبہ صاحبہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کو عوامی نام ریسٹ ہاوس کا دیا گیا -

موسولینی جن کے بارے سنا تھا کہ انہوں نے اپنا دفتر ایسا بنایا تھاکہ ہر شخص کو ان کے پاس آنے سے پہلے پچاس ساٹھ میٹر چلنا پڑتا تھا۔ اس دفتر میں اور کچھ نہیں ہوتا تھا صرف دروازے سے داخل ہوتے ہی پچاس میٹر دور ایک میز کرسی ہوتی تھی جس پر موسولینی صاحب براجمان ہوتے تھے اور وہ فاصلہ طے کرتے کرتے بڑے بڑے موسولینی کی ہیبت سے ڈول جاتے تھے لیکن میسولنی صاحب کا دل ایک خاتون پر ڈول گیا اور آج ان محلات اور جھیل کنارے موسولینی صاحب سے زیادہ ان کی محبوبہ کا ذکر ہے گویا تاج محل بنانے والا شاہ جہان خوار اور ممتاز تاج محل سے مشہور۔ کب تک آخر عورت ذات مرد پر ظلم کرتی رہے گی؟؟

ریسٹ ہاؤس کی تعمیر میں آپ موسولینی صاحب کی پسند کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جنہوں نے کھمبوں کی جگہ خواتین کے مجسمے تعمیر کرائے جنہوں عمارت کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے- ہم کوئی خواتین کے حقوق کے دعویدار ہرگز نہیں جو خواتین پر اس ظلم پر احتجاج کریں اور کہیں کہ ان خواتین کو ہٹا مردوں کو عمارت اٹھانے کا ذمہ دیا جائے ہمیں اعتراض یہ ہے کہ لاکھوں خرچ کرا کے خواتین کے مجسمے بنوا لیے تھے سینکڑوں اور لگا کر ان کے مناسب کپڑے بھی بنوا لیے ہوتے۔ اس ریسٹ ہاؤس کو دیکھ کر ہمیں بہاولپور کا وسپرنگ ہل یا اسی سے ملتے جلتے نام کا ریسٹ ہاؤس یاد آ گیا۔ وہ بھی کچھ اسی انداز میں بنا تھا کہتے ہیں وہ بھی ایک وزیر اعظم نے اپنی محبوبہ کے لیے بنوایا تھا لیکن فرق یہ تھا کہ ہمارے وزیر اعظم کی محبوبہ ہر ہفتے اور ہوتی تھی باقی جھوٹ سچ اللہ جانے۔

بہرحال محبوباؤں سے ہوشیار کرنے کو ہم ہٹلر کی خود کشی کا اصل سبب جو آج تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہا سامنے لائے دیتے ہیں تاکہ ان تمام زن مریدوں اور گرل فرینڈ مریدوں کو عبرت ہو کہ خود سوچیں کہ آپ کو ایک بنکر میں ایک عورت کے ساتھ رہنا پڑ جائے یا تو آپ پاگل ہو جائیں گے یا خود کشی کر لیں گے۔پاگل پن کے اقدام ہٹلر پہلے ہی کر چکا تھا جس سے جرمن افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا دوسرا پاگل پن خاتون کے ساتھ بنکر میں رہائش پذیر ہونا تھا اور امید واثق ہے کہ اس کی گرل فرینڈ نے اس سے ایک گھنٹے میں ایک سو بارہویں بار پوچھا ہوگا کہ آخر تم باہر کب جاؤ گے۔ ہٹلر نے تنگ آ کر پوچھا ہوگا آخر کیا کام ہے باہر۔ اس نے جواب دیا ہوگا کام تو کوئی نہیں بس جب جانا دہی لیتے آنا۔ آخر وہی ہوا کہ تنگ آ کر اس نے کہا کہ لعنت ہے ایسی زندگی پر اور خود کشی کر لی۔

موسولینی صاحب کو بھی خدا جانے جھیلیں بھائیں یا بطخیں بھائیں یا ان کا دماغ بھی ان کی محبوبائیں کھا گئیں کہ مرنے کے لیے بھی انہوں نے ایک جھیل کا انتخاب کیا اور جھیل کومو (اطالوی :لاگو دی کومو lago di como )کے کنارے ان کے پھانسی دے دی گئی۔

 پرانے زمانے کے حکمرانوں کے بھی مزے ہوتے تھے جس کو جو جا پسند آ گئی وہاں شہر بسا دیا جو شہر پسند آگیا وہاں دارالحکومت بنا ڈالا۔لیکن مزے آج کل کے حکمرانوں کے بھی کم نہیں جو پسند آ گئی اس سے شادی کر لی خیر یہ تو بات سے بات نکل آئی لیکن موسولینی صاحب کو اللہ جانے اس جھیل میں کیا پسند آیا کہ یہاں آ بسے۔ کیا پتہ اس بطخ کی دادی پردادی کی اداسی انہوں نے بھی دیکھی ہو اور چونکہ فرنگی لوگ جانوروں کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ بندے بھلے مر جائیں کتے بلے کو کچھ نہ ہو تو وہ اس بطخ کی دل جوئی کو وہاں آن بسے ہوں۔ البتہ ہماری تو کبھی اپنے گھر میں نہیں چلی ملک میں کیا خاک چلے تو ہم اس بیچاری بطخ کی دلجوئی کو کیا کر سکتے ہمارے تو اپنے پاس ایک چھتری تھی اور تین بندے تھے۔کرتے تو راجہ صاحب اٹلی والے کرتے کہ راجہ بھی ہیں اٹلی کے بھی ہیں۔ ہم نے تو فقط ان کے پیسوں سے دو کافیاں پیں، بارش کو زیر لب برا بھلا کہا، اوندھی موندی فوٹو کھینچیں اور بستہ اٹھا کر ہوائی اڈے کو چل پڑے کہ جام سفال سے میرا جام جم اچھا ہے ہم اپنے فلیٹ میں بیٹھ کر باہر کی فوٹو کھینچ لیں گے اور فیس بک پر گوگل سے سرچ کر کے گاردا جھیل کی تصاویر لگا دیں گے کہ مقصد حاسدیں کو ساڑنا اور سند فراہم کرنا ہے کہ ہم اس جھیل کا دیدار کر آئے ہیں ۔ کیا ہوا سند جعلی ہو تو کورس تو ہم نے پڑھا ہے ناں۔کیوں جی میں کوئی جھوٹ بولیا؟