November 1, 2013

شکار آہو توسط انسان

shikar aaho tawasut insaan



خوش قسمتی فقیر پر ہمیشہ مہربان رہی ہے اور نادیدہ قوتوں نے ماسوائے بورڈ کے امتحانات کے ہر گام پر غیبی امداد بہم 
پہنچائی ہے جن کی مہربانی سے زندگی کی تیس گرمیاں دیکھنے سے قبل ہی ایسے نادر تجربات و حواداث کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر ان کو احاطہ تحریر میں لایا جاوے تو خلقت کے واسطے باعث برکت و عبرت قرار پاویں۔ 

 کچھ سرگشتہ خمار رسوم و قیود قسم کے افراد یہاں پر دور کی کوڑی کے مصداق اعتراض اٹھائیں گے کہ درست محاورہ زندگی کی بہار ہے زندگی کی گرمی نہیں تو ایسے لکیر کے فقیروں کو سمجھانے کی ناکام کوشش کے واسطے عرض ہے "پتر کدی ملتان تے آؤ، بہار مہار سب بھول جاؤ گے" کہ شہر ملتان شریف واقع بیرون حدود لاہور و اندرون صوبہ پنجاب کہ وجہ شہرت ہی اس کے موسم کی سختی ہے کہ کسی صاحب حال کیا صاحب حال، ماضی و مستقبل نے تحریر کیا ہے اور اس صاحب بلاگ نے نقل کیا ہے کہ ایک شہر جو ہند سند میں واقع دریاؤں سے ایک دریا جس کا واحد مقصد محبت کی راہ میں روڑے اٹکانا رہا ہے المشہور چناب کے کنارے ہے اور ملتان کہلاتا ہے کا موسم ایسا ہے کہ بادشاہ وقت نے کسی کو جیل ڈالنا ہو اس کو ملتان کا قصد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور وہ تمام عمر شمس کی ہمسائیگی میں گزار دیتا ہے کہ اس عجوبہ بے روزگار شہر میں دو موسم پائے جاتے ہیں اول موسم گرما دوم موسم شدید گرما۔ 


امید ہے کہ درج بالا حکایت پڑھ کر فقیر کے جملے بارے اعتراضات اٹھانے والے ناقدین اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے اور اگر نہ بھی لے سکے تو تو یاد رہے کہ " مصنف اپنے بلاگ پر ناشائستہ تبصروں کا ہٹانے یا نہ چھاپنے کا مجاز ہے"۔ کچھ کہہ کر دیکھو۔۔۔ 

یہ سب گذارش کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کچھ حاسدین نے افواہوں کا بازار گرم کر رکھا ہے کہ مصنف "دل کا پتلا" واقع ہوا ہے اور ہر اس شے سے خوف کھا تا ہے جس سے بلند آواز آنے کا اندیشہ رہا ہو جبکہ حقیقت فقط یہ ہے کہ امن پسندانہ طبعیت اور بوقت پیدائش دائی کے "مبارک ہو کاکا ہویا اے" کی چیخ نے دل پر کچھ ایسے اثرات مرتب کیے ہیں کہ ادھر ذرا سا شور ہو ادھر ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں ، زبان پر لکنت طاری ہو جاتی ہے اور پہلا خیال دماغ میں کوندتا ہے کہ بیت الخلا کہاں ہے اسی واسطے جیسے اڑن کھٹولے المعروف ہوائی جاج پر سافر ہونے والوں کو بتلایا جاتا ہے کہ پہلے سے محتاط رہیں اور ہنگامی در کو یاد رکھیں کہ کس رخ واقع ہے ایسے ہی یہ ناچیز بھی کہیں جائے اولین قابل دید شے بیت الخلا کا محل و وقوع قرار پاتا ہے۔ اب بھلا ایک قدرتی بیماری کو بنیاد بنا کر کسی حضرت انسان کامذاق اڑانا کہاں کا انصاف ہے کہ مذاق کرنے کی شے ہے اڑانے کی نہیں۔ باقی ڈر اور خوف سے فقیر کی طبعیت کا علاقہ کہاں کہ میں بھی ڈرتا ورتا کسی سے نائیں ہوں۔ 

لیکن دو طرفہ تماشہ یہ ہے کہ خاکسار کو اہلیان علاقہ نامور شکاری کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں ۔اب ایک طرف تیر و تفنگ سے خوف دوسری طرف لچ و لفنگ کی شہرت، تو آج بروز جمعۃ المبارک جمعہ کی نماز قضا کر کے حیات کے گرم سرد کے اس راز کو افشا کیے دیتا ہوں کہ سند خواہ رہے نہ رہے یار لوگوں کے کام آتا رہے۔

تین یا چار سال قبل چند احباب بسلسلہ ملاقات میرے گھر آئے لیکن درحقیقت وہ بسلسلہ ملاقات کم اور بسلسلہ خرابات زیادہ آئے اور چند روز کے لیے شہر سے باہر جانے کی باتیں کرنے لگے۔ میں جو حال ہی میں دنیا میں آخرت کا امتحان یعنی پرچے دے کر فارغ ہوا تھا سوچے سمجھے بغیر ان کے ساتھ جانے کو حامی بھر بیٹھا اور بعد میں احساس ہوا کہ سمجھ بوجھ سے کام لینا کیسے سو بلاؤں کو ٹالتا ہے لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ سمجھ سے کام لینے کے واسطے سمجھ کا ہونا بھی لازمی ہے۔ 

قصہ مختصر جب ہم روانہ ہوئے تو پتہ چلا کہ منزل سفر ایک شکار مہم ہے۔اس روز احساس ہوا لڑکیاں عزت لٹنے کے ڈر سے خود کشی کیوں کر لیتی ہیں۔ کہ نہ جائے ماندن نہ پائےرفتن۔ آخر ہم اس جا پہنچ گئے جس کو میرے ہمراہی شکار گاہ قرار دے رہے تھے اور اس ناچیز کو وہ ایک لق دق صحرا لگ رہا تھا جہاں چرند و پرند کیا کسی شجر و جھاڑی تک کا نام و نشان نہ تھا۔ یہاں پر سوائے اپنی ذات کے کچھ قابل شکار نہ لگتا تھا لیکن میرے ہمراہ خود ساختہ شکاری و جم کاربٹ دوئم و سوئم اپنے کہے پرڈٹے تھے۔ 

 کچھ عقلمندی کا تقاضا تھا کچھ کسلمندی کا کہ ہم نے ہاں میں سر ہلا دیا اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا گیا کہ ناں کی صورت میں بھی پڑاؤ ڈالنا تھا ۔ اس فقیر کی کس نے سننی تھی اور وہ بھی دوست نما دشمنوں سے جن کے بارے کہانیوں والے بڑے بڑے بھالو تک فرما گئے ہیں کہ دوست وہی اچھا جو مصیبت میں کام آئے ورنہ پیسے دیکھ کر تو پولیس والے اور واپڈا والے بھی کام آ جاتے ہیں۔ 

اندھیری رات، ہو کا عالم، صحرا کا سناٹا جسم تو کانپ ہی رہا تھا دماغ نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ اور میں اکیلا اپنے خیمے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میاں محمد بخش نے بھلا کیا کہا تھا دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے اس بے فیضے بھنگی کولوں بہتر یار اکیلے یا اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے۔ ہمارے ننھے سے دماغ میں شکار سے متعلق پڑھی گئی تحاریر آئیں اور ہم سوچنے لگے کہ گر مچان ہوتی تو کم ازکم ہاتھی کے سوا باقی تمام درندوں سے تو بچاؤ ممکن تھا۔ تمام ہمراہی اگلے محاذ پر جہاں شکار پائے جانے کا امکان تھا وہاں جا چکے تھے اور ہم اکیلے خیمے میں رہ گئے تھے اور عذر یہ رکھا کہ میں پشت کی سمت سے دھیان کروں گویا شکار نہ تھا محاذ جنگ تھا اور میں پشت کی حفاظت پر معمور تھا۔ شکار کی تفصیل یہ تھی کہ گیدڑ، یا سور اور خوش قسمت رہے تو بھیڑیا یا لومڑ۔ اب چونکہ خآکسار کو خآک چاٹنے کو اکیلا چھوڑا گیا تو حفاظتی تدابیر ذہن نشین کرائی گئیں کہ سور کے پیچھے لگنے پر سیدھے نہ بھاگیں بلکہ موڑ کاٹتے رہیں کہ سور موڑ ایک دم نہیں مڑ سکتا جس پر ہمیں ایک گونہ اطمنان ہوا کہ سیدھے کبھی ہم زندگی کی راہ میں نہ چلے تھے سور سے بچاؤ کو کب دوڑتے۔ گیدڑ کی آمد کی صورت میں یہ بتایا گیا کہ ایک ہوائی فائر کر دیں وہ بھاگ جائے گا اور اس ہوائی گولی چلانے پر ہمارا کیا حال ہونا تھا اس بارے وہ سوچ کر ہنستے بھی اور سمجھاتے بھی۔ البتہ بھیڑیے کی آمد کی صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ خود پر تعوذین پڑھ کر پھونک لوں۔ رہے نام اللہ کا 

میں آدھا سر نکالے باہر جھانک رہا تھا کہ دور ایک گولی چلنے کی آواز آئی اور ایک بلا سی اڑتی اڑتی میرے خیمے کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔ لیکن کہتے ہیں نہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کہ وہ وہاں کھڑے کھڑے ڈھیر ہو گئی۔ مجھے جتنی صورتیں یاد تھیں میں نے پڑھ لیں اور جب اس میں کوئی جنبش نہ ہوئی تو میں نے ڈرتے ڈرتے باہر پاؤں رکھا۔ میرے ہاتھ ایسے کانپ رہے تھے جیسے زلزلہ آیا ہو جسم ایسے سرد تھا گویا تمام رات دو کپڑوں میں سائبیریا میں گزار کر آیا تھا ہوش ایسے کھوئے تھے کہ سیاست دانوں میں ایمانداری۔ 

جب ٹارچ سے روشنی ڈالی تو وہ ہرن تھا۔ اتنی دیر میں میرے ہمراہی کہلانے والے دوڑتے ہوئے واپس چلے آئے کہ ان کو
 شک پڑا کہ شاید بندہ نا چیز نے گبھرا کر خود کشی نہ کر ڈالی ہو۔ ہرن دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تم نے مارا ہے؟ میرے اوسان خطا سہی لیکن ایسا موقع تو ارسطو جیسا سچا آدمی بھی نہ چھوڑتا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور دی گئی گولیوں میں سے ایک پار کر لی۔

 آگے کی باتیں غیر اہم ہیں کہ بس خاکسار کو اہلیان علاقہ نامور شکاری کی حیثیت سے بھی جاننے لگے کہ علاقہ میں یہ وہ واحد شخص تھا جس کو ہرن جیسے جانور کے شکار کا اعزاز حاصل ہوا۔ لیکن میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اس ہرن کا جو میرے سامنے آکر موت سے ہمکنار ہوا اور اس شکاری کا جس نے اصل میں گولی چلائی اور مہربانی کرکے وہ ہرن کی تلاش چھوڑ دیں اور اپنا دہن بند ہی رکھیں تو اچھا ہے ورنہ بندہ ایسے حاسدین سے نمٹنا خوب جانتا ہے