January 9, 2024

فیکلٹی سلیکشن



پچھلے دنوں کئی ایک تحاریر دیکھنے کو ملیں کہ ان صاحب کو یونیورسٹی مدعو کیا گیا اور اور اساتذہ کے سلیکشن بورڈ میں بیٹھے اور انہوں نے مستقبل کے معماروں کے پیش نظر بہترین استاد چننے پر اپنا سارا علم تیاگ دیا تاہم انکو ان اساتذہ کے معیار پر سخت افسوس ہوا کہ وہ ظاہری و باطنی پندرہ بیس علوم (جو صاحب تحریر کو سارے کے سارے آتے تھے اور وہ ان تمام میں ماہر تھے)میں کورے تھے۔ 

جب مجھے ایک بار ایک یونیورسٹی ہیڈ کرنے کا موقع ملا تھا تو میرے ذہن میں یہی سوال آیا تھا کہ اساتذہ کی سیلکشن کیسے کی جائے۔ اس سلسلے میں تھوڑا پس منظر سمجھناہو گا۔ 

پی ایچ ڈی ایک ایسی ڈگری ہے جو تمام یونیورسٹیوں میں حتمی ڈگری سمجھی جاتی ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی تعلیمی ڈگری نہیں یعنی یہ تعلیمی سفر کا آخری اسٹیشن ہے-  پی ایچ ڈی دراصل آپکو کسی ایک مضمون کے خاص موضوع پر کرنی ہوتی ہے اور جب آپ وہ مکمل کرلیتے ہیں تو اصولا اس موضوع پر اب آپ سے بڑھ کر کوئی ماہر نہیں ہوتا۔ یاد رہے مضمون نہیں موضوع۔ ترقی یافتہ ممالک میں جن موضوعات پر پی ایچ ڈی کی جاتی ہے وہی مقالہ مضمون میں ڈھال کر طلبہ میں رائج کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اگر منیجمنٹ کی بات کریں تو ہم ابھی تک مارکیٹنگ، فائنانس، ہیومن ریسوس پر اڑے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک مارکیٹنگ سے اگے نکل کر ایک ایک موضوع کو مضمون بنا چکے ہیں جیسے فلم مارکیٹنگ سے کلچرل مارکیٹنگ پھر کلچرل مارکیٹنگ سے سنیما مارکیٹنگ، عجائب گھر مارکیٹنگ، ہالیڈے مارکیٹنگ وغیرہ وغیرہ تو مقصد یہ ہے جب کوئی بندہ پی ایچ دی کرتا ہےتو اپنے مقالے مین ہی وہ ماہر ہوتا ہے ناکہ اس سےیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایم بی اے بی بی اےکی تمام تعریفیں رٹ کر آیا ہے۔ 

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پی ایچ ڈی کو پرکھا کیسے جائے۔ اس سلسلے میں دو عوامل کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے کہ انہوں نے ڈگری کہاں سے لی ہے-اگر آپ مجھ سے اس کی درجہ بندی کرنے کو کہیں تو عمومی طور پر برطانیہ اور امریکہ کو اس سلسلے میں فوقیت دی جاتی ہے- اس کے بعد یورپی ممالک، پھر ملائیشیا ، پھر روس و چین اور آخیر میں اپنا پیارا ملک پاکستان۔ اسکے بعد ریسرچ پیپرز کا نمبر آتا ہے۔ جس کے جتنے بین الاقوامی جرنلز میں آرٹیکل چھپے ہوں اس کو اتنی فوقیت دی جائے – اس سلسے میں بھی کوئی سا بھی ماڈل چنا جا سکتا ہے بشمول ایچ ای سی کا جو کہ بہت ہی متنازعہ ماڈل ہے –

ہمارے ہاں جب کسی یونیورسٹی میں جاب کے لیے اپلائی کیا جاتا ہے تو جو تعلیمی کیرئر کے نمبرز دیے جاتے ہیں اس میں میٹرک، ایف ایس سی تک کے نمبر شامل کیے جاتے ہیں جبکہ اصل ڈگری اور ریسرچ کو بس ایک فرضی کاروائی گنا جاتا ہے یعنی آپ اسسٹںٹ پروفیسر منتخب کر رہے ہیں جس نے ریسرچ کرانی ہے اور اپنی مہارت کے مطابق چند مضامین پڑھانے ہیں اور دے رہے ہیں دس نمبر ریسرچ کے جبکہ چالیس تا ساٹھ نمبر پیش ڈاکٹریٹ کے۔ 

ہمارے ہاں جب یونیورسٹی استاد منتخب کیا جاتا ہے تو فوکس یہ ہوتا ہے کہ اس کے پڑھانے کا طریقہ کار کیاہے جس کو اصل میں ہمارے ادارے چنتے ہیں لیکن کیسے وہ خود ایک مضحکہ خیز عمل ہے- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں پی ایچ ڈی کو استاد نہیں بلکہ ریسرچر گنا جاتا ہے- اس لیے چند سکینڈے نیویائی ممالک میں آپکو پڑھانے کے لیے بی ایڈ جیسی ڈگری لازم کرنی پڑتی ہے لیکن ایک تو بی ایڈ خود ہمارے ہاں جیسی ہوتی ہے وہ کسی طور آپکی اس سطح پر استعداد بڑھانے سے قاصرہے- دوسرا جب آپ کو کہا جاتا ہے کہ ایک لیکچر تیار کرکے پیش کریں تو وہ لیکچر آپ سے آپ کے سینئر لوگ جانچ رہے ہوتے ہیں- ایک بی ایس کے طالب علم اور ایک پروفیسر کا ذہنی معیار قطعاً ایک سا نہیں ہوتا- اب آپ پسماندہ علاقوں میں انگریزی میں مشکل مشکل باتیں کر کے وی سی ڈین کو تو امپریس کر سکتے ہیں لیکن بچوں کو قطعاً نہیں – دوسرا پندرہ منٹ میں بیس منٹ کسی کی پنتالیس گھنٹے کی کارکردگی جانچنا بھی ایک مذاق ہی ہے- اکثر پرائیوٹ یونیورسٹیاں اس ڈیمو ماڈل پر چلتی ہیں جبکہ سرکاری پانچ منٹ انٹرویو پر جس میں سیبجکٹ سے متعلق جند سوالات پوچھ کر قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے- 

میں اپنی ذاتی رائے میں ڈیمو لینے کو کسی بھی پی ایچ ڈی کی توہین سمجھتا ہوں کہ آپ اب یہ ثابت کریں کہ آپ میں پڑھانے کی سکت ہے- جب کہ آپ کی سی وی پر درج کورسز و تجربہ ہی آپ کو جانچنے کے لیے کافی ہے- کسی اچھی یونیورسٹی و شہر میں دو تین سمسٹر پڑھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کلاس منیج کر سکتے ہیں کورس ڈلیور کرسکتے ہیں۔ 

ایک بار پھر لیکر کا فقیر ہونا یہاں بھی مداخلت کرتا ہے اور بجائے اس کے کہ آپ یہ دیکھیں کہ یہ بندہ نیا کورس بنا سکتا ہے اور یہ بندہ کتنا آپکے ادارے کے لیے نیا پن لا سکتا ہے آپ وہی دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ اس کا دماغ کتنا سلیبس حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ وہی بیس تیس والا سلیبس اگلے بیس تیس سال کامیابی سے چلتا رہے. دوسرا یہ کہ آپ یہ انیس سو نوے کے اصول کہ کلاس کو کنٹرول کر سکتا ہے یا نہیں کہ مطابق اسکا کلاس میں کنٹرول دیکھنا چاہیں تو اب بچے خود پڑھتے ہیں ان کو پڑھایا نہیں جاتا۔ 

 ہمارے ہاں ڈاکٹر رکھتے وقت اسکے رٹنے کی صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ اس بات پر پریشان ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی دماغی صحت انتہائی متاثر ہو جاتی ہے – اکثر لوگ آپ کو نیند اور ٹینشن کے مسائل سے دوچار نظر آئیں گے- ہاں گفتگو کا سلیقہ، بولنے کا انداز، چال ڈھال، مزاج اہمیت رکھتے ہیں لیکن آئن سٹائن بھی آجائے تو اس کو ہمارے فزکس ڈپارٹمنٹ والے رکھنے سے انکار کردیں۔ 

لہذا اگر آپ میں سے کسی صاحب کو ایسا موقع ملے تو اپنی قابلیت کا رعب جھاڑنے اور پی ایچ ڈی کو نیچا دکھانے سے پہلے ان عوامل پر ضرور غور کرلیں کہ پی ایچ ڈی جو کہ تعلیمی حتمی ڈگری ہے وہ کرنے والے بھی بس ایک مضمون کے ایک ذیلی شعبے میں مہارت حاصل کرپاتے ہیں تو ادھر ادھر سے پڑھ کر بغیر ڈگری کے حاصل کردہ یا خود ساختہ علم کو ان بیچاروں پر نہ آزمائیں- آپ بہت قابل اور بہت بڑے ہیں لیکن بڑائی کی عظمت یہ ہے کہ دوسروں کو وہ عزت دیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں- بھلے جس کو متخب کریں لیکن ان عوامل کو ضرور ذہن میں رکھیں جو اوپر پیش کیے گئے ہیں-