December 15, 2012

اسٹیشن کہانی

Station Kahani

وہ ایک چھوٹا سا ریل کا اسٹیشن ہے جہاں کا اصل رش اس کے جنکشن ہونے کیوجہ سے ہے۔وہاں سے لوگ ایک ٹرین بدل کر دوسری میں سوار ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اصل یہاں کے لیے ہی آتے ہیں۔میری طرح سب ایک ٹرین سے اتر کر اپنی اپنی ٹرینوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو انکو انکی اصلی منزل تک لے جاتی ہے۔چھٹیوں میں یہاں سے گزرنے والے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے جو شہروں سے واپسی اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور کام والے دنوں میں واپس شہرجاتے ہیں۔یوں تو میں جتنی بار اس اسٹیشن سے گزرا ہر بار اپنی منزل کے شہر کی ٹکٹ میں پہلے سے ہی لیکر چلتا تھا لیکن اس روز ٹرین کے بالکل تیار ہونے کیوجہ سے اور کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون کے کہنے پر میں نے یہاں تک کی ہی ٹکٹ خرید لی کیوں کہ اس خاتون کے خیال میں کے دوسری ٹکٹ کے پرنٹ کے نکلتے نکلتے ٹرین کے نکلنے کا ڈر تھا۔


وہاں پہنچ کر میں ٹکٹ خریدنے لاؤنج میں پہنچا تو تمام لاؤنج خالی پڑا تھا۔دوکان کے دروازے پر بھی تالا پڑا تھا۔میری اگلی گاڑی نے بیس منٹ بعد آنا تھا۔جب میں ٹکٹ لے کر فارغ ہوا تو میرے ساتھ اترنے والے باقی مسافر اسٹیشن پر کھڑی ٹرین میں سوار ہو کر جا چکے تھے۔میرے پیچھے ایک لڑکی تھی جو کاؤنٹرکی طرف بڑھ گئی۔تمام اسٹیشن پر میرے اس لڑکی اور ٹکٹ دینے والی خاتون کے علاوہ کوئی نہ تھا۔گارڈ بھی نجانے کہاں جا بیٹھا تھا۔میں باہر جانے کی بجائے وہیں لاؤنج میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔وہاں بیٹھتے تک میں تین منٹ گزار چکا تھا ۔باقی سترہ منٹ رہ گئے تھے۔

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں"؟یہ وہی ٹکٹ کی قطار میں میرے پیچھے کھڑی لڑکی تھی۔ اس کونے میں موجود واحد بنچ پر میں اور میرا سامان پڑا تھا۔میں جنوں بھوتوں چڑیلوں کے انسانی روپ میں آنے کی تمام تر کہانیاں ایکدم دماغ میں لپکنے کے باوجود انکار نہ کر سکا اور اپنا سامان کھسکا کر ایک طرف کر دیااور مصنوعی مسکراہٹ سے گویا فریضہ میزبانی ادا کر دیا۔ اس نے ایک ادھ بار سامان سے چھیڑ چھاڑ کی لیکن میں اپنے خیالات میں کھویا رہا۔ "آپ کا نام کیا ہے"؟اس نے مسکرا کر پوچھا۔ میں بے تکلفی پر حیران رہ جانے کے باوجود بولا "نام سے کیا فرق پڑتا ہے"۔وہ ہنس پڑی میں بھی اخلاقاً مسکرا دیا۔جنوں، بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں میں کیے گئے سحر مجھے یاد آنے لگے۔

"میں سال میں ایک بار جان بوجھ کر یہاں اس وقت آتی ہوں جب یہ اسٹیشن خالی ہوتا ہے۔کیا یہ پراسرار سا نہیں لگ رہا"؟اس کی مسکراہٹ قائم تھی۔بچپن کے بھولے بھٹکے قصے بھی دماغ پر دستک دینے لگے۔میں اپنی ضعیف العتقادی پر جی کڑا کر ہنس پڑا۔اس نے مجھ سے پوچھا" کیا آپ میرے تنہائی پسند ہونے کو رجحان کو پاگل پن سمجھ رہے ہیں یا مجھ سے خوف محسوس کر رہے ہیں"؟ وہ میری سوچ پڑھ سکتی تھی۔ مجھے وہاں کی مقامی زبان سیکھنے کے اپنے فیصلے پر غصہ آگیا-میں مجبوراً مسکرا کر بولا "جہاں تک تنہائی پسند ہونے کی بات ہے تو اپنے اپنے شوق ہیں اور خوف کی بات رہی تو اگر کوئی اس خوبصورتی سے خوف محسوس کرے تو وہ پاگل ہی کہلائے گا"۔میرے حساب سے بات ختم ہو چکی تھی۔میں نے غائب دماغی سے گھڑی کی طرف دیکھا۔میرا وقت دیکھنے کا ارداہ ہرگز نہیں تھا آپ اس کو لاشعوری حرکت کہہ سکتے ہیں۔اگر اس وقت وہ پوچھ لیتی کہ کیا وقت ہوا ہے تو مجھے دوبارہ گھڑی دیکھنی پڑتی۔"کتنی دیر مجھے اور برداشت کرنا ہوگا"؟اس کے لہجے کی معصومیت پر مجھے ہنسی آگئی۔اور میرے دماغ سے سب کچھ نکل گیا اور میں یورپیوں سا بن کر اس سے باتیں کرنے لگا۔

"کیا میں آپکا ہاتھ تھام لوں"؟ ایک لمحے کو میرا دل دھڑکا لیکن لوگ دنیا کی حقیقت جاننے کے باوجود اس کے پیچھے اس وجہ سے بھاگتے ہیں کہ وہ اس کی ظاہر ی خوبصورتی اور حسن سے مبہوت ہو چکے ہوتے ہیں۔کون کمبخت اس کی درخواست رد کر سکتا تھا۔اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھام لیا۔

جب وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلا رہی تھی تو مجھے ماسی منیراں کا لڑکا پیر بخش یاد آیا جس نے مجھے ایک بار خود اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ ایک چلہ کاٹتے ہوئے حصار توڑ بیٹھا تھا۔ویسے تو وہ ٹھیک ٹھاک تھالیکن کبھی کبھار وہ یونہی باتیں کرتے کرتے وہ لوگوں کو کہا کرتا تھا کہ تم لوگ جاؤ اب ہوائی مخلوق آنے والی ہے۔ایسے ہی ایک دن چوہدری منظور کو کہہ دینے پر جس کے بچے شہروں کے انگریزی اسکولوں میں پڑھتے تھے اور روز خلائی مخلوق کے قصے سنایا کرتے تھے اس کا پورا ہفتہ تھانے میں گزرا تھا۔جب وہ چھوٹ کر آیا تو اس کا نیل و نیل چہرہ دیکھ کر میں رہ نہ سکا اور اس سے پوچھ بیٹھا کہ "پیر بخشے! اب بھی آمد ہوتی ہے"؟ اس کا تمام غصہ تھانے والوں نے نچوڑ لیا تھا اس نے مسکرا کر مجھے جواب دیا کہ "شاہ جی تو کیا یہ حجامت آپکے خلیفوں نے بنائی ہے"؟پیر بخش کے مطابق پریوں کا غول اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔چونکہ اس نے چلہ کا احترام نہیں کیا تھا تو اب ان کی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرنی پڑتی ہیں۔جب میں نے ناجائز خواہشات کے بارے تفصیل جاننی چاہی تو اس نے کہا "جانے دو شاہ جی! آپ نہ جانتے ہوں گے تو اور کون جانتا ہو گا"۔میں اس جملے پر غور ہی کرتا رہا کہ وہ میرے اوپر طنز کر رہا ہے یا ابا جی کی پیری مریدی سے واقفیت کی بنا پر اس نے یہ بات کی تھی۔جب اس نے پوچھا" شاہ جی یہ بتاؤ کہ یہ خلائی مخلوق کیا بلا ہے جس کی وجہ سے مجھے تھانے میں پکڑا گیا تھا "؟ تو میں اتنا ہی کہہ سکا کہ "یہ دنیا والوں کی ہوائی مخلوق ہے جو انہوں نے باقیوں سے چھپائی ہوئی ہے"۔ 

ابھی میں پیر بخش کی پریوں کے غول کو بھلا کر اس کے پیار میں ڈوبنا ہی چاہتا جو وہ ہاتھ کے لمس سے میرے ہاتھوں میں انڈیل رہی تھی کہ مجھے خادم بلوچ یاد آیاجس کو ہوش سنبھالنے کے بعد جب دیکھا تھا تب اس کا ذہنی توازن بگڑ چکا تھا۔کہتے ہیں کہ ایک روز اس نے اپنے ایک دوست سے شرط لگائی تھی کہ وہ رات قبرستان میں اکیلا گزارے گا۔اس سے اگلی صبح وہ گاؤں سے تیس کلو میٹر دور نہر کنارے ادھ مویا پایا گیا تھا۔اس روز سے اس نے کوئی عقل والی بات نہیں کی تھی۔ اس کی ماں اس میں ہی خوش تھی کہ اس کے جوان بیٹے کی زندگی تو بچ گئی۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ دراصل رات قبرستان میں نہیں بلکہ نہر کے پار والے گاؤں میں اپنی معشوق سے ملنے نکل گیا تھا جہاں اس کے شوہر اور بھائیوں نے خادمے کو مار مار کر ادھ مویا کر دیا تھا لیکن خادم سے ہمدردی رکھنے والے لوگ یہ بتاتے کہ قبرستان میں صدیوں سے آباد جنوں کے خاندان نے اس کی یہ گت بنائی تھی اور اس کو باقی گاؤں والوں کے لیے عبرت کا مقام بنا چھوڑا تھا۔پر کچھ لوگ یہ بھی بتاتے تھے کہ خادم نے اس روز بہت سی چڑیلوں کو اپنے حسن کا اسیر کر لیا تھا اور وہ خادمے کے رنگ اور خادما ان کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔

پر جب میں نے اس کا نفیس اور ملائم ہاتھ تھاما تو نفسیات اور سائینسی تھیوریاں میرے دماغ میں گردش کرنے لگیں کہ جن ون سب جھوٹ ہے اور یہ کہ یہ سوائے مالیخولیا اور شیزوفرینا کے علاوہ کچھ نہیں۔لیکن جب اس کے ہونٹ میرے چہرے کی طرف بڑھنے لگے تومیں انتہائی خوبصورتی سے اس کو محسوس ہوئے بغیر پیچھے ہٹاتے ہوئے پوچھا کہ اس نے کہاں جانا ہے۔وہ ہنس پڑی اور بولی" اگر بتاؤں تو ساتھ چلو گے"؟ اس کی ہنسی سے ماحول جو سانس لینے کے قابل ہوا تھا اس کا جملہ ختم ہوتے ہی دوبارہ تن گیا۔خادم بلوچ اور پیر بخش میرے سامنے آکر بیٹھ گئے۔میں نے اپنے علم کے زور سے ان سے نظریں ہٹاتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں سیکنڈوں کی سوئی نہ ہونے کیوجہ سے گھڑی رکی ہوئی سی تھی۔کیا گھڑی چل بھی رہی ہے؟کیا وقت گزر بھی رہا ہے؟خادم بلوچ اول فول منترپڑھنے لگا،پیر بخش چیخنے لگا اور اس کے چٹاخ سے بوسے نے گویا میرے گال پر انگارہ رکھ دیا۔

حالانکہ اس وقت میں اپنے گاؤں،اپنے ملک سے بہت دور مشرقی یورپ کے ایک قصبے میں تھا اور نہ میں خادم بلوچ سا جاہل نہ پیر بخش سا فاتر العقل تھابلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا لیکن قبرستان تو یورپ میں بھی ہوتے ہیں اور خدا معلوم ان میں پریاں بھی ہوتی ہوں اور کسے پتہ کہ پریاں کونسے رنگ کی ہوتی ہوں گی؟ کہانیوں سننے کے بعد وہ میرے اندازے میں تو دودھ سی سفید رنگ کی لگتی ہیں بالکل ایسی جس رنگ کے ہاتھ نے میرا بھدا ہاتھ تھام رکھا تھا۔یقین مانیے میں ضعیف العتقاد ہرگز نہیں ہوں۔لیکن ماورائی مخلوق کی کہانیاں تو ہر کلچر میں پائی جاتی ہیں۔اور ایسے پراسرار ماحول میں جہاں ہم دونوں کے علاوہ ایک بوڑھی خاتون تھی جو ایسے چپ تھی جیسے اسی ڈرامے کا کردار ہوکہ اسی چڑیل نے ایک پری مجھے پھنسانے کو بھیجی ہو تو ہر کوئی شک میں مبتلا ہو سکتا ہے اور میں بھی ایک انسان ہوں ۔مجھے بھی ایک خوبصورت لڑکی کے غیر قدرتی رویے پر غیر قدرتی رویہ اپنانے کا پورا حق تھا۔

میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔ٹرین چلنے میں باقی ایک منٹ تھا۔گارڈ سیٹی بجا کر دروازے سے باہر جھانک رہا تھااور بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہا تھا۔اس نے ہاتھ تھام کر مجھے کھڑا کیا اور میرے ہونٹوں پر بوسہ لیا۔میں نے اس کا کوٹ اٹھا کر اس کو پہننے میں مدد کی اور اس نے میرا بیگ اٹھا کر مجھے تھمایا۔اس نے محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور میں نے گرم جوشی سے اس کا ہاتھ دبایا۔میں نے اس کی طرف پشت کر لی اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا ٹرین کے اندر پہنچ گیاجہاں خادم بلوچ اور پیر بخش پہلے سے بیٹھے مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔میں اس کی تمام تر خوبصورتی ، گرم جوشی ،محبت اور اپنی تمام تر عقلیت پسندی ،روشن خیالی ،سائینسی سوچ ،اعلیٰ تعلیم اور غیر توہم پرستی کے باوجودیہ نہ بھول پایا تھا کہ" پیچھے مڑ کر دیکھنے والااکثر پتھر کا ہوجا تا ہے"۔