?kuch ilaj ae charah giran is khushki ka bhe hai ke nahe
یوں تو اللہ میاں نے پہلے خشکی بنائی پھر انسان بنایالیکن میری تخلیق کے وقت لگتا ہے خاص اہتمام سے خشک مٹی منگوائی گئی اور مجسمہ بنانے کے بعد اسکو مزید دھوپ میں رکھا گیااور دھوپ بھی ملتان جیسے کسی علاقے کی تاکہ رہی سہی نمی کی ایک آدھ بوند بھی اچھی طرح نچڑ جائےاور پھر اس میں روح ڈالی گئی۔ہمارے پکے رنگ کو دیکھتے ہوئے یہ بات موزوں بھی لگتی ہے کہ اگر ہم کسی کو کہیں کہ ہمارا تعلق نائجیریا یا ویسٹ انڈیز ہے تو اسکو کوئی خاص تعجب نہ ہوگااور ان سب انتظامات کے بعد ہی کوئی جلد اتنی خشک ہو سکتی ہے جتنی ہماری ہے۔
ویسے تو سب سے خطرناک خشکی دماغی خشکی ہوتی ہے جسکا علاج لتریشن کے علاوہ کچھ نہیں اور ایسے لوگوں کا خاطر خواہ علاج نہ کرنے کی صورت میں خاصے برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہےہماری اکثر فلم ایکٹریس اور سیاستدان اس خشکی میں مبتلا لگتے ہیں۔اور نہ صرف مبتلا لگتے ہیں بلکہ لا علاج بھی لگتے ہیں۔
ایک بار دو دوست جہاز پر سفر کر رہے تھے کہ کیپٹن نے اعلان کیا کہ ہم اس وقت خط استوا کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوست نے فٹافٹ دوربین نکالی اور لگے کھڑکی سے معائنہ کرنے ۔وہ کوئی ہماری طرح ہی ذہین تھے تھوڑی دیر بعد بولے ،"نیچے تو کوئی لکیر کیا نشان تک نہیں، کاہے کا خط استوا"؟دوسرے دوست جو ساتھ بیٹھے تھے نے سر سے ایک بال کھینچا اور انکی دوربین کے آگے کردیا۔وہ چیخے"وہ رہا خط استوا،اس پر ایک بھینس بھی چل رہی ہے"۔اب اگر اس دوست نے ہمارا بال کھینچا ہوتا تو وہ کہتا"ہاں ہاں جس پر سفید پہاڑ ہیں"۔لیکن بالوں کی خشکی کو بھی کبھی ہم نے درخوراعتنا نہیں سمجھا۔دماغی خشکی کے بعد یہ دوسرے نمبر کی خطرناک ہوتی ہے اور ہم اس میں بھی خاصے خود کفیل ہیں لیکن یہ تب ہی خطرناک ہے جب آپ شمپو کے اشتہار باقاعدگی سے دیکھیں ۔ویسے بھی اسکا علاج کوئی مشکل نہیں ۔سب سے آسان ہے ٹوپی پہننا شروع کر دیں۔فیشنی پہنیں یا دینی، معاملہ چھپ جاتا ہے۔لیکن وہ لوگ جو دوسروں کو ٹوپی پہنانے میں لگے رہتے ہیں وہ یا تو شمپو اور تیل لگائیں یا پھر استرا لگوا کر ہر طرح کے وبال سے نجات حاصل کر لیں۔شاید اسی لیے فلموں میں ولن حضرات گنجے ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو ٹوپی پہنائیں کہ خود اوڑھیں۔
لیکن ہمارا آج کا موضوع ہے جسم کی خشکی یا خشک جلد۔ سنتے آئے ہیں کہ تین طرح کی جلد ہوتی ہے ایک خشک، ایک چکنی اور ایک حساس لیکن ہم پرجو گزری ہے اس کے بعد اس میں ایک اور اضافہ نوٹ کر لیں ہماری طرح کی جلد یعنی انتہائی انتہائی خشک جلدسے بھی کوئی اگلی قسم کی جلد -
ڈاکٹروں کو دکھایا، یونانی خمیرے پییے، جراحوں کے در پر خوار ہوئے، ہومیوپیتھی کی میٹھی ٹکیاں چوسیں،کڑوے گھریلو نسخے پھانکے، نیم حکیموں سے جان خطرے میں ڈلوائی،نیم ملاؤں سے ایمان خطرے میں ڈلوایالیکن مجال ہے جو انیس بیس کا فرق پڑا ہو نتیجہ وہی خشکی کی خشکی۔
ایک ایسی جلد اوپر سے ہماری عادات گویا سونے پر سہاگہ۔ہم تو منہ پر لوشن تب لگاتے ہیں جب لگتا ہے ہر مسام میں خار گھس گیاہو کجا سارے جسم پر لوشن یا کریم لگانا۔
ایک ڈاکٹر صاحب نے فرمایا جسم میں پانی کی کمی ہے لہٰذا روز کم از کم ایک لیٹر پانی پیا کریں۔اب کوئی پوچھے ان ڈاکٹر صاحب سے کہ ایک تو ہم دو گلاس پانی پی لیں تو ایسا لگتا ہے واٹربورڈنگ ہو گئی ہو ہر سانس سے کابن ڈائی آکسائیڈ کی بجائے پانی بر آمد ہورہا ہوتا ہے اور دوسرا ادھر یورپ میں رہتے ہوئے وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ اب تو پاکستان میں بھی جب جب دنیا کی دوسری اہم ترین حاضری لگتی ہے تو بیت الخلا جانے کی دعا کی بجائے خالی بوتل کا دھیان آتا ہے تو اتنی سردی میں جہاؐں بندہ فارغ ہو کر بھی باہر نکلے اسکو دوبارہ بیت الخلا یاد آ جا تا ہے تو ایک لیٹر پانی کے خاص اہتمام کے بعد جیسے مواقع پر بوتل وہ فراہم کریں گے۔
ہماری خشکی اب گرمی سردی ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ سردی میں تمام جسم میں چبھن ،خارش اور کپڑوں کا جسم سے لپٹنا قابل ذکر ہیں۔ بندہ خود سے بیزار پھر رہا ہوتا ہے اور ایسے مواقع پر کسی انتہائی چکنی کریم لگانے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے دس پندرہ کلو وزن کسی نے ہم سے اتار پھینکا ہو۔اور گرمیوں میں یا ٹھنڈے میٹھے موسم میں یہ ہوتا ہے کہ دھوپ پڑی نہیں یا پسینہ آیا نہیں لگتا ہے کسی نے جسم پر پڑے بارود کو آگ لگا دی ہے۔اکثر گرمیوں میں یا کم سردیوں میں ہم ٹھنڈی ہوا کی تلاش میں پاگل پھر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سے تو ٹھنڈ پڑے۔ہم نے تو اب کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کا تکلف ہی چھوڑ دیا ہے کہ اسکے بعد لوشن کہاں سے لگائیں گے لہٰذا وہی چکنے ہاتھ جلد پر مل کر ایک پنتھ دو کاج سر انجام دے دیتے ہیں۔
جب چھوٹے تھے تو سردیوں میں اکثر منہ پر خشکی سے پک کر کھرنڈ سے جم جاتے تھے تب 70 بیماریوں کا ایک علاج کے مصداق تبت سنو کریم یا تبت ویزلین کی چھوٹی سی ڈبیا آیا کرتی تھی جسکو دو تین بار لگا نے سے ہی جلد ٹھیک ہوجایا کرتی تھی۔کبھی کبھی جب خارش سے بے حال ہو جاتے تھے تو نیند سے اٹھ کر رات کو ایک بار ویزلین جسم پر لگاتے اور کم از کم مہینے بھر کے لیے خشکی سے خلاصی پا لیتے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری جلد اور تبت کی کوالٹی خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور اب تو یہ حال ہے ڈھٹائی سے ہی کام چل رہا ہے ورنہ تو پیٹرولیم جیلی اور سرسوں کا تیل لگا کر بھی معاملہ اگلے روز تک بمشکل ٹلتا ہے۔اور لگتا ہے ہمکو بھی کسی ایسی لڑکی کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے جس کی تصویر دیکھتے ہوئے اسکی دوستوں نے پوچھا تمھاری جلد اتنی نرم ہے جیسے پھول ہوں۔ گروپ فوٹو میں تم ہی نمایاں ہوتی ہو آخر تم کیا استعمال کرتی ہو۔جواب ملا"ایڈوب فوٹو شاپ"۔شاید یہی آخری علاج رہ گیا ہے خشکی بھگانے کا۔
دیکھیے پاتے ہیں بیمار مزاروں سے کیا فیض کہ اس بار ایک جلد کی کریموں کی مہنگی دوکان پر جا کر کہا کہ سب سے خشک جلد کے لیے جو کریم ہے وہ دے دو تو اس نے جو کریم دی ہے گھر آ کر گوگل ٹرانسلیٹر پر اسکا مطلب دیکھا ہے تو وہ ہے "بھنگ کے بیج سے تیار کی گئی کریم"۔اب اگر کوئی صاحب بھنگ سے شغف رکھتے ہیں تو بلا جھجک تبصرے میں بھنگ اور خشکی کے باہمی تال میل پر روشنی ڈالیں انکا نام خفیہ رکھا جائے گا۔ویسے جسمانی خشکی ایک طرف پر ہمارے چند چرسی دوست جو چرس پی پی کر دماغی خشکی کی شکایت کرتے تھے اکثر اسکو رفع کرنے کے لیے بھنگ کے بھرے گلاس لیے لگے ہاتھوں اکثر بھنگائی بھی بن جاتے تھے۔
جیسے جیسے سردیاں آتی ہیں ہماری جلدی خشکی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور گرمیوں میں خشکی میں کسی حد تک افاقہ ہوجاتاہے۔خشکی سردیوں میں ایسی شدید ہوتی ہے کہ میں ہر سال کی طرح یہ پیش گوئی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ لوگوں کو کینسر،ہارٹ اٹیک،ہارٹ فیل ہوتا ہے لیکن میں دنیا میں پہلا شخص ہوں گا جو اگلے جہان خشکی کی وجہ سے جائے گا۔اللہ خیر کرے-