December 8, 2012

ریگا میں چلتی لاتیں

Riga main chalti latain

اگر ایک جگہ سب سے زیادہ شراب پینے والے افراد دیکھنے ہوں تو رِ یگا(رِگا) آ جائیں۔اتنے شرابی تو پولینڈ اور شراب خانوں میں بھی نہیں ہوتے ہوں گے جتنے یہاں پر ہیں۔ہر تیسرا چوتھا بندہ دو دو لیٹر والی کوکا کولا یا پیپسی کی پلاسٹک کی بوتل ام الخبائث سے بھر ے سڑک پر پیتا جارہا ہےاور کیا بوڑھا کیا جوان، کیا مرد کیا عورت ہر مال دو دو لیٹر۔

عام طور پر میں جس چیز کو پہلی نظر میں مسترد کر دوں جلد یا بدیرمجھے اس کی خوبی تسلیم کرنا پڑتی ہےایسے ہی جو شے پہلی نظر میں بھا جائے اس کی پسندیدگی کے دن تھوڑے ہوتے ہیں خواہ وہ کوئی بندہ ہو ، کوئی فلم ہو ، کوئی گانا ہو، کوئی کھانے کی چیز ہو یا کوئی جگہ ہو۔


 البتہ 2010 میں جب میں پہلی بار ریگا Riga (لیٹویا Latviaکا دارالحکومت) گیا تھا تو تب بھی میرا یہی خیال تھا اور اب 2012 میں بھی یہی خیال ہے کہ ریگا کے لوگ بڑے بُرے ہیں۔حالانکہ ان دو چکروں میں اگر کسی نے شہر میں مجھ سے بات کی ہے تو وہ دوسرے چکر پر دو لڑکیاں تھیں جو ویلکم ٹو ریگاWelcome to Riga کہہ کر مجھے ایک کتابچہ تھما کر چلتی بنیں۔آپ ہی بتائیے کہ بندہ کتنا ہی مومن کیوں نہ بنے ایک انجان ملک میں انگریزی بولنے والا اوپر سے لڑکی اور پھر گوری تو وہ پیسوں سے ہی کیوں نہ بیچ رہی ہوتی انکار تو بنتا ہی نہیں تھاحالانکہ اس میں چھپی ہوئی اشیا خریدنے کا میرا پروگرام شاید اگلے دس سال تک نہ بنےکیونکہ اب میں نے خواتین کے چمڑے سے بنے بیگ لیکر کیا کرنا ہے اوراس میں چھپا نقشہ بھی میرے کچھ کام کا نہ تھا کیونکہ 2010 کے لگائے ہوئے پھیرے کیوجہ سے راستے مجھے اب تک یاد تھے اور کسی نقشے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ لیکن گوریوں کی اس نوازش کے باوجود کچھ چیزیں آپ سمجھے بنا ہی جان جاتے ہیں تو ریگا کے لوگوں کے بارے میرا خیال ایسا ہی ہے ۔

 اگر آپ نے اب تک ریگا یا لیٹویا نہیں سنا تو یہ سراسر آپکی نااہلی ہے میرا اس میں قصور نہیں حالانکہ حالیہ ناٹو والی رسد بند کرنے کے بعد متبادل رستے کے طور پر زور و زشور سے لیٹویا اور ریگا کی بندرگاہ کا نام لیا گیا جہاں سے مال اتار کر وسطی ایشیا کے راستے افغانستان پہنچایا جانے کا منصوبہ تھا۔ویسے آپکی آسانی کے لیے بتاتا چلوں ایستونیا جہاں میرا آج کل قیام ہے یہ اس کے ہمسائے میں واقع ہے۔ لیٹویا کے ہمسائے ایستونیا اور لیتھوانیا کے لوگ ان کے برعکس بہت خوش مزاج اور کھلے دل والے ہیں لیکن آپ جیسے ہی ریگا پہنچے آپ کے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دینی ہے۔

 ریگا بڑا عجیب شہر ہے۔جب میں پہلی بار وارسا سے ریگا آیا تھا تو مجھے لگا تھا کہ میں لاہور سے کوٹ رادھا کشن آگیا ہوں، اسلام آباد سے بہاولنگر آ گیا ہوں، ملتان سے دائرہ دین پناہ آگیا ہوں۔اپریل کا مہینہ تھا ٹوٹے پھوٹے مکانات، پرانی پرانی اترے رنگوں والی عمارات، اور برف باری کے غم میں ڈوبے ہوئے ٹنڈ منڈ درخت۔گویا اجڑا دیار کی عملی تفسیر تھااوپر سے لوگ جو ہمیں ایسے دیکھتے تھے گویا ہم نے ہی روس کو مشورہ دیا ہوکہ وہ پچاس سال لیٹویا دبا کر بیٹھا رہے۔ ایک بار دیکھا ہےاور تن من ٹھار بیٹھا ہوں کے مصداق ہم دوبارہ لیٹویا جانے سے تائب ہوگئے۔

لیکن ہماری سوچ سے تو کبھی ہم خود نہیں چلے نظام کہاں سے چلے۔جولائی 2012 میں ہم ایک بار پھر بس کا دروازہ کھول کر ریگا کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے۔ لیکن جولائی اور اپریل میں بڑا فرق تھا۔بسیں، ٹرینیں ، بحری جہاز، ہوائی جہاز بھر بھر کر سیاحوں کو ڈھو رہے تھے جسکی وجہ رونق میلہ لگاہوا تھا۔کافی عمارتیں اچھی حالت میں آچکی تھیں ،پھول ہی پھول کھلے تھے، درختوں سے سبزہ اچھل اچھل کر باہر گرتا تھا گویا پرانے جوتوں کو کسی خان کی گریس والی پالش سے چمکایا گیا ہو- تاہم مقامی لوگ اب بھی ہماری نظر میں مشکوک ہی رہے اور ہم اپنی تمام کوششوں کے باوجود ان کے بارے اچھا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے۔اور ہمیں تو ڈر لگا رہا کوئی ہماری کوٹاس (مار) لگا کر ہی نہ بھاگ جائے تو ہم ایسی جگہوں پر پھرتے رہے جہاں خاصی تعداد میں لوگ ہوں۔تنہائی اور اندھیری جگہ آتے ہی ہمارے چلنے کی رفتار تیز اور ڈگمگ سی ہونے لگتی تھی۔اب پتہ نہیں ہم سا خوبصورت نوجوان دیکھ کر وہ جل گئے یا اس رنگ کا بندہ انہوں نے کبھی دیکھا نہیں اور وہ ہم کو خلائی مخلوق سمجھ رہے تھے یا کے جی بی KGB کے ایجنٹ اسی رنگ کے ہوتے تھے بات سمجھ میں آئی نہیں۔کبھی کسی لیٹوین بندے یا بندی سے تفصیل ہوئی تو آپکو بھی مطلع کر دیں گے۔

اور پھر اگست 2012 میں ایک بار پھر ریگا آنا پڑ گیا اور اس تیسرے چکر میں مجھے احساس ہوا کے عمارتیں انتہائی خوبصورت اور کلاسیک قسم کی ہیں۔گویاہم نے پہلی نظرپر اعتبار نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی۔لیکن میرے قارئین جو عام طور پر رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں کو گارے پتھر کی عمارتوں سے کیا لینا دینا یہ تو ہم جیسے گوریوں کے دھتکارے ہوئے لوگوں کے شوق ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں اگر آپ کی حس لطیف اگر زندہ ہے اور پنجابی اسٹیج ڈراموں کی حد تک نہیں گری ہوئی تو ریگا کی ہر عمارت دیکھنے سے قابل ہے۔ ہر ایک دوسری سے مختلف اور ہر ایک دوسری سے خوبصورت۔ کچھ لوگ پراگ کو بہترین عمارتوں کا شہر کہتے ہیں لیکن پراگ میں ایک ہی نقشے کی عمارتیں ہیں جبکہ یہاں ہر عمارت جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔

 بہرحال دوسرے چکر میں فرق یہ رہا کہ اب کوئی ہم سے پوچھے کہ ریگا کیسا ہے تو ہم کہیں گے اگر کوٹ رادھا کشن کو خوبصورت بنا دیا جائے،بہاولنگر کو صاف کر دیا جائے یا دائرہ دین پناہ میں درخت لگا دیے جائیں۔باقی لوگ ابھی بھی ہمارے خیال میں ایک نمبر کے بہیودے ہیں۔

 لیٹویا کی کرنسی بھی لوگوں کی طرح ہی ہے۔اسکا نام ہے لیٹوین لاتLatvian Lat۔اب کوئی اپنے دوست سے کہے یار ایک لات تو دینا اور مانگنے والا پتہ لگا اپنی تشریف سہلاتا زمین بوس ہوا پڑا ہے اور قبل اس سے کہ وہ غصہ کرے مارنے والا پوچھے دوسری لات بھی دوں؟یہاں ادھار لینے والا ادھار دینے والے سے منہ چھپاتا پھر رہا ہوگا کہ یار میں نے جو تمھیں لاتیں دیں تھیں وہ مجھے واپس نہیں چاہییں اور واپسی کرنے والا اصرار کرے گا یہ کیسے ممکن ہے چلو تین چار تو لیتے جاؤ۔

والد اپنے بچوں کو کہتا ہوگا یار آج تو تم بچاس لاتیں کھا گئے ہو بندے ہو کیا ہو؟لیٹویا میں چار ٹانگوں والے گدھوں اور گھوڑوں کی خاص اہمیت ہو گی کیونکہ دونوں لاتیں جھاڑنے میں خاصے مشہور ہیں۔اور ویسے بھی لات لینے جائیں تو لات ہی پڑتی ہے کیونکہ ایک لیٹوین لات تقریباً دو سو پاکستانی کے برابر ہے۔اور لیٹویا کے تیسرے چکر سے واپسی پر ہم ایک پرانا شعر دوہراتے واپس ہوئے کہ عرض کیا ہے
 ؎ یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
 دل یہ لگتی ہے لات بکری کی

پس تحریر: یکم جنوری 2014 سے لیٹویا میں یورو رائج ہو رہا ہے یوں وہ اٹھارہواں ملک بن جائے گا جس کی کرنسی یورو ہے اور یہ لات ہمیشہ کے لیے منسوخ ہو جائے گی۔ لہذا لات کی طرح ہمارا یہ مضمون بھی کلاسیک میں شامل ہوجائے گا کہ قدیم اشیا اور ان پر لکھی گئی تحاریر کلاسیک کا درجہ ہی پاتی ہیں۔