September 21, 2013

چشمہ طلسم بحر طلسم

chashma e talism baher e talism


یوں تو زندگی میں کم ہی ایسی چیزیں گزری ہیں جن سے میں متاثر ہوا ہوں البتہ مجھے جتنا چشمے نے متاثر کیا ہے کبھی کسی چیز نے اتنا متاثر نہیں کیا ۔ جب میرے ہم عمر کمپیوٹر، ٹی وی اور ویڈیو گیموں Video games کی تمنا کرتے تھے میری ہر ممکن کوشش رہی تھی کہ کسی طرح چشمہ لگ جائے۔

اب خدا جانے میں چشمے سے کب اور کیسے متاثر ہوا کہ میرا مقصد بن کر رہ گیا کہ کسی طرح عینک لگ جائے کئی بہانے کیے کہ سر میں درد رہتا ہے، دھندلا نظر آتا ہے، آنکھوں میں جلن ہوتی ہے، چکر آتے ہیں، پڑھا نہیں جاتا لیکن ہر بار ڈاکٹروں نے بڑی سفاکی سے میرے ارمانوں کا خون کیا اور ہر مجھے نظر کے بالکل درست ہونے کا پروانہ تھما کر روانہ کیا۔


میں بچپن سے ہی کچھ ایسا سادہ دل رہا ہوں کہ کبھی اسکول سے چھٹی مارنے کو پیٹ درد کے علاوہ کوئی بہانہ نہ کر سکا ڈاکٹروں کے سامنے رمیز سی ہیرا پھیری کیسے کر سکتا کہ اس عینک کی خواہش میں میں اکیلا ہی نہیں تھا بلکہ میرا ایک دوست رمیز جس کا تعلق پشاور سے تھا کے بقول اس کو چھوٹی عمر سے ہی عینک پہننے کا شوق تھا تو والدہ کو جھوٹ بول کر آنکھوں والے ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گیا ۔وہاں مختلف نمبروں کے شیشے پہننے کے دوران اس نے ایک شیشے پر کہا ہاں اس سے مجھے درست نظر آرہا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے بھی کمال کرتے ہوئے اس کو اسی نمبر کی عینک لکھ کر دے دی اور چھوٹی عمر سے ہی غلط نمبر کی عینک پہننے کی وجہ سے اب اس کی عینک کا اب نمبر خاصا زیادہ ہے لیکن عینک سے اس کی دوستی مستقل ہو گئی ہے۔

 میرے بنائے گئےدو عزیز ترین دوستوں میں سے ایک نعمان خان سے دوستی کا سبب اسکی عینک بھی رہا ہے کہ ہمیں ہر وہ لڑکا معزز لگتا تھا جو عینک پہنا کرتا تھا خواہ وہ نعمان خان ہی کیوں نہ ہو جو اسکول میں دادا کے نام سے جانا جاتا تھا اور پائے گئے دوستوں میں سر فہرست علمدار صاحب بھی عینک بردار نکلے اور رہ گیا تو میں بیچارہ۔باقی لڑکیوں کی تو بات ہی الگ ہے کہ مجھے تو بھینس عینک پہنے خوبصورت لگتی ہے۔ ایک بار میں نے اپنی والدہ کو کہا تھا مما جس لڑکی سے بھی میری شادی کرنا مجھے کوئی اعتراض نہیں بس اس کو عینک لگی ہو اور اس کے بال گھنگریالے ہوں جس پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا بے فکر رہو ہم زیرو نمبر کی عینک لگوا لیں گے اور بال گھنگریالے ایک بیوٹی پارلر کے چکر کی مار ہیں۔ لیکن بعد میں ایک بندے کی بات سے آنکھیں کھلیں کہ کار پر جتنے مرضی اسٹیکر لگا لیں جتا مرضی شکل تبدیل کر لیں آخر میں نکلنی وہی مہران کی مہران ہے۔ لیں جی ہمارے جذبات کوئی احساس ہی نہیں رکھتے۔

زیرو نمبر کی عینک میں نے خود بھی کئی بار پہننے کی کوشش کی ہے لیکن اس کو لگا کر ہمیں فراڈ حکیموں ، مجمع باز بازی گروں اور خود میں کوئی خاص فرق نہیں نظر آیا کہ باقی لوگ جانیں نہ جانیں دل کو تو پتہ ہے کہ زیرو نمبر کی عینک پہن رکھی ہے۔

تاہم عینک کی یہ محبت محض نظر والی عینک تک محدود رہی ہے دھوپ کے چشمے نے کبھی ہمیں اپنی طرف نہیں لبھایا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ اگر اتنا ہی عینک کا شوق ہے تو سن گلاسزsun glasses پہن لو لیکن ایک تو یہاں ایسٹونیا یا پولینڈ میں کون سورج کی عینک پہنتا ہے کہ جہاں سال میں دس بیس دن کُل سورج کا دیدار ہوتا ہو۔دوسرا جب دبئی میں رہتے تھے تب بھی عینک سے پرہیز کرتے تھے کہ خود ہم نے سورج سے بچاؤ کی عینک پہننے والوں پر وہ پھبتیاں کسی ہیں کہ خود پہنتے شرم آتی ہے۔

بے پناہ کوشش کے باوجود اب تک ہمیں عینک نہیں لگ سکی ۔اندھیرے میں کتنے ڈائجسٹ پڑھ ڈالے، 18،18 گھنٹے نان اسٹاپ ٹی وی دیکھتے رہے ہیں اب بھی دن کے 14،16 گھنٹے کمپیوٹر پر گزرتے ہیں مگر مجال ہے جو نظر کو کچھ ہوا ہو۔ہر بار یورپ سے واپسی پر ایک نئی امید کے ساتھ لوٹتے ہیں کہ اس بار نظر ضرور کمزور ہو چکی ہو گی لیکن ہم بھی وہ قسمت کے دھنی ہیں کہ پاکستانی ٹیم کا ساتھ دیں تو وہ زمبابوے سے ہار بیٹھتی ہے۔عینک کہاں سے لگنی تھی۔

جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسی آنکھیں ویسے ماہر کہ مجھے آگے ڈاکٹر بھی وہ ملے ہیں کہ نہ پوچھیے۔ آئی اسپیشلسٹEye Specialists سے شدید شکایات ہیں کہ بھائی جب آپ کو فیس دے رہے ہیں تو آپ انسانوں کی طرح چیک کرو۔جاتے ساتھ پہلا سوال ہوتا ہے کہ کیا کرتے ہیں اور جب ہم بتاتے ہیں کہ ابھی ہم طالب علم ہیں اور سر میں درد رہتا ہے یا دھندلا نظر آتا ہے یا آنکھوں میں جلن رہتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں پڑھائی سے بھاگنے کا بہانہ ہے ۔ اب کوئی ان کو سمجھائے کہ یار اسکول سے اور پڑھائی سے بھاگنے کا ہمارا مخصوص بہانہ پیٹ کا درد ہے سر کا نہیں ۔

لیکن ہم بھی کہاں ہمت ہارنے والے ہیں کہ ہر بار پھر ڈاکٹروں کے در پر حاضری دینے پہنچ جاتے ہیں۔ آخری بار جب ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو میں نے کہا "سر میں درد رہتا ہے تو نظر چیک کرانا چاہتا ہوں"۔
 بولے" کیا کرتے ہو"؟
 میں نے کہا "طالب ڈگری ہوں"
 بولے "سمجھ گیا"۔
گویا ڈاکٹر صاحب نہ ہوئے پیر صاحب ہوگئے۔
انکے سمجھنے کے ساتھ میں بھی سمجھ گیا کہ ایک بار پھر مشورہ فیس ضایع۔ اور ڈاکٹر صاحب لگے بے دلی سے آنکھوں میں جھانکنے جیسے ثانیہ مرزا کی تصویر دکھا کر عائشہ صدیقی سے شادی کر دی گئی ہو۔
پھر پوچھا "کیا پڑھتے ہو"؟
میں نے دل میں سوچا اب آیا نہ مرغا ہاتھ میں، جواب دیا "پی ایچ ڈی"
حالانکہ تب میں ماسٹرز کر رہا تھا لیکن غصہ تو نکالنا تھا۔ جواب سن کر کچھ انکی چیک کرنے میں دلچسپی واپس آئی جب پوچھا "کہاں" تو جواب دیا "پولینڈ"۔
اب وہ پورے انہماک سے چیک کرنے لگے اور میری والدہ کے ساتھ ہونے کےبھی باز نہ رہ سکے اور بول اٹھے "یار بڑا خوبصورت ملک ہے پولینڈ اور لوگ تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں"۔

تب تک ہمارا ان آنکھوں کے ماہر سے رہا سہا دل بھی اٹھ گیا۔ حالانکہ انہوں نے ہماری دلجوئی کو بعد میں دو تین ٹیسٹ اور بھی کیے لیکن اس وقت تک ہمارا تمام ملتان کے ماہر نظریات سے دل بھر گیا تھا۔

 میرے ایک دوست نے پولینڈ میں نظر چیک کرائی تھی اور اس نے خاتون ڈاکٹر کی مرض میں دلچپسپی کی ایسی کہانی سنائی تھی کہ میرا دل بھی للچا اٹھا کہ میں بھی اب یورپ میں کسی ڈاکٹر کو آنکھوں دکھاؤں تاہم ایک تو اس میں پیسے خاصے لگتے ہیں اور پیسے خرچ نہ کرنا ہمیں نظر کی عینک سے بھی پیارا ہے دوسرا ان دوست صاحب کا صنف مخالف بارے ٹریک ریکارڈ خاصا مشکوک ہے اور ہمارا ٹریک بالکل سادہ اسی لیے ڈر لگتا ہے کہیں یورپ میں بھی وہی کافر صنم نہ نکلے کہ
" پڑھتے ہو"؟ 
 "سمجھ گیا۔۔۔۔"