ACCA na keryo bhaiya
کچھ دن زندگی میں ایسے آتے ہیں جو بعد میں بندہ سوچتا کہ نہ ہی آئے ہوتے تو اچھا تھا۔ان کے بغیر زندگی نے اچھا خاصا گزر جانا تھا۔ایک ایسے ہی ایک دن جو نہ آیا ہوتا تو اچھا تھا میرے دوست میاں نعیم صاحب میرے پاس آئے ۔ہم ان دنوں اکٹھے ورچوئل یونیورسٹی Virtual University سے کمپیوٹر انجئیرنگ کر رہے تھے۔میاں صاحب آ کر بولے کہ یہ بی ایس BS کر کے ہمیں کوئی نوکری ووکری نہیں ملنی۔ سی پلس پلس ++C دور کی بات میٹرک والی جی ڈبلیو بیسک GW Basic تک تو آتی نہیں ہمیں ۔اور سیکھ بھی لیں تو یہ ورچوئل یونیورسٹی کو کون پوچھتا ہے۔تیسرا جب تک ہم ڈگری مکمل کریں گے مارکیٹ کمپیوٹر انجئینروں سے بھر چکی ہوگی۔پندرہ سو تو ہمارے ساتھ ڈگری مکمل کر لیں گے۔ہمیں کس نے گھاس ڈالنی ہےبات تو سچ تھی مگر بات تھی ناک کٹائی کی۔ سچ کہوں تو مجھے اس وقت میاں صاحب کے تینوں نکات سے اتفاق کے باوجود اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ نوکری ملے گی یا نہیں ۔میں نے میاں صاحب سے پوچھ لیا پھر کیا کیا جائے؟وہ بولے میں تو اے سی سی اے ACCAکر رہا ہوں ۔میں بات کر آیا ہوں کالج میں اگلے ہفتے سے کلاسیں شروع ہیں آگے جو آپکی مرضی۔
اب میں نے تفشیش کی تو پتہ لگا یہ اکاؤنٹنسی کا ڈپلومہ ہے جو ایک سکاٹش یونیورسٹی دے رہی ہے۔اس کے بعد اکاؤنٹنٹ یا آڈیٹر لگ سکتے ہیں۔ایک ڈیڑھ لاکھ تو ہنستے ہنستے کمانے لگیں گے۔زندگی سنور جائے گی،راوی کیا چناب اور جہلم بھی چین ہی چین لکھیں گے۔میں نے مروتاً اپنے والد صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا نعیم کر رہا ہے تو آپ بھی کر لو۔اب میں جو کہیں سی پلس پلس کی کلاسیں لینے کی سوچ رہا تھا کہ سافٹ ویر انجئیرنگ کے بعد کم از کم پروگرامنگ تو آنی چاہیے اب اے سی سی اے کے بارے سوچنے لگا۔
بدقسمتی سے میں انجئیرنگ میں کیلکلس Calculus اور اس جیسے دوسرے ریاضی کے مضامین میں اے A لے چکا تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ بہتر ہے اکاؤنٹنٹ ببنے میں ہی قسمت آزمائی جائے۔حالانکہ تب تک وہ بینر عام نہ ہوا تھا کہ آپکو ایک سے دس تک گنتی آتی ہے؟ ہاں تو آپ اے سی سی اے کر سکتے ہیں لیکن سیانے بندے کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ وقت سے آگے کی سوچتا ہےاور سیانے کوے کی مانند گند پر گرتا ہے تو ہم یہی سمجھے کہ اے سی سی اے کرنا اتنا آسان ہے جتنا ایک سے دس تک گنتی کا آنا ۔
لیکن جس پر بیتتی ہے اسی کو پتہ چلتا ہے تو جب ہم مہنگی فیسیں بھر چکے تو ہماری آنکھیں کھلیں کہ کہاں آ پھنسے۔اس نے تو ہمیں ایک سے دس تک گنتی بھلا دی۔ادھر میاں صاحب تین ہفتے بعد گویا ہوئے" یار اس اے سی سی اے کے لیے خاصا وقت اور خاصی توجہ چاہیے اور میرے خاندانی مسائل کا تو آپکو پتہ ہی ہے تو میں اے سی سی اے چھوڑ رہا ہوں"۔ہمیں بروٹس ،چاہ یوسف سے صدا اور ایسی تمام کہانیاں یاد آنے لگیں لیکن کیا کیا جاسکتا تھا کہ میاں صاحب اپنے معاملات کے خود مالک تھے جبکے ہمارے سر پر والد صاحب کا ڈنڈا لٹک رہا تھا۔
میاں صاحب کی بیوفائی کے بعد ہم نے کوشش تو بہت کی پر ہماری ایک کیا آدھی بھی نہ چلی اور ہمیں کورس جاری رکھنا پڑا تو ہم نے سوچا کسی اور بندے سے دوستی کی جائے تاکہ اس کورس کا غم غلط کیا جا سکے۔ایک روز ایک اے سی سی اے کے کلاس فیلو کہنے لگے کہ اگلے ہفتے کی کلاس میں نہیں آ سکیں گے انہوں نے اپنے گاؤں جانا ہے۔مجھے نئی جگہوں کے بارے میں جاننے کا خاصا شوق ہے تو میں نے پوچھا "کہاں ہے آپکا گاؤں"؟
وہ بولے" بہاولپور"۔
بہاولپور تو ہمارے دودھیال کے بہت سارے رشتے دار رہتے تھے تو ہم پوچھ بیٹھے "بہاولپور کہاں"؟
انہوں نے جواب دیا کہ" بہاولپور سے تھوڑا آگے ایک چھوٹا شہر ہے وہاں"۔
میری تسلی نہ ہوئی تو میں نے پوچھا "کونسا"؟
وہ شرماتے ہوئے بولے" احمد پور شرقیہ"۔
لو جی میرے دادا احمد پور شرقیہ میں رہتے تھے اور میں خود بچپن کے چند سال وہاں گزار آیا تھا۔میرے چچا اب بھی وہیں رہتے تھے تو میں نے تفشیش جاری رکھی کہ احمد پور کہاں؟
وہ بولے "محلہ شکاری"۔
میں ہنس پڑا کیونکہ وہ احمد پور میں ہمارے ہمسائے تھے لیکن ہمیں گھر سے باہر نکلنے کا حکم نہ تھا لہٰذا ہم انکو نہ جانتے تھے۔
اصل میں احمد پور شرقیہ اتنا پسماندہ اور بدنام ہے کہ یہاں سے نکلنے والے یہ بتاتے شرماتے ہیں کہ انکا تعلق احمد پور شرقیہ سے ہے وہ یا تو بہاولپور بتاتے ہیں یا زیادہ بتانا ہو تو ڈیرہ نواب صاحب کہہ دیتے ہیں جو کہ احمد پور شرقیہ کے ریلوے اسٹیشن کا نام ہے۔بہرحال وہ میری اور تصور کی دوستی کی ابتدا تھی ۔وہ دوستی ایسی بڑھی کہ ہم پہلے دبئی میں اکٹھے رہے اور پھر تین سال پولینڈ میں اکٹھے گزار کر حال ہی میں ایسٹونیا آیا ہوں۔بس اے سی سی اے کی خواری میں صرف یہی بات اچھی ہوئی۔
اے سی سی اے کے پہلے دو پرچے کمپیوٹر پر ہوئے جو کہ معروضی قسم کے تھے ۔جس میں ہم رٹے بازی کی بجائے بنیادی چیزیں سمجھنے کی گندی عادت اور تکے بازی کے سبب اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے۔اس کے بعد تو واپسی کا راستہ ہی نہ بچتا تھا۔لیکن جب معاملہ اگلے پرچوں پر آیا تو جو جو حساب کتاب پر مبنی تھے اس میں ہم پاس ہوتے گئے اور جہاں تھیوریاں اور کہانی بازی کرنی تھی وہاں منہ کی کھاتے رہے۔
اسی طرح پاس فیل کھیلتے کھیلتے ہم نے ایک کے سوا پارٹ دوئم تمام پاس کر لیا۔
والد صاحب نے کہا آؤ دبئی اور آ کر نوکری ڈھونڈو اب۔ادھر میں بھی دل ہی دل میں اس پاس فیل کے منحوس چکر سے اکتا چکا تھا۔دل تو خیر میاں صاحب کے چھوڑجانے کے ساتھ ہی بھر گیا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح لگے رہے اور یہ موقع غنیمت جان کر ہم دبئی جا پہنچے۔دبئی آکر اے سی سی اے کے بے وقعتی ہم پر اس طور کھلی کہ ہم ہمیشہ کے لیے اے سی سی اے سے تائب ہوگئے۔
پہلا انٹرویو میرے والد کی ہی کمپنی میں ہوا۔انٹرویو لینے والے نے تو او کے کر دیا لیکن جی ایم صاحب نے کہا کہ ایک رشتے دار کے ہوتے دوسرے رشتے دار کمپنی میں نہیں آ سکتے یہ سہولت صرف عربیوں کے لیے ہے۔
اگلا انٹرویو شارجہ میں ہوا جس میں انٹرویو کی بجائے انہوں نے مجھے اس لیے نوکری پر نہ بلایا کہ انہیں شک گزرا میں اہل تشیع ہوں۔
اس کے بعد وہ معرکہ خیر و شر ہوا جس نے اے سی سی اے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔انٹرویو کے لیے پہنچا تو پندرہ بیس بندوں پر مشتمل کمپنی میں انٹرویو لینے والا بھارتی تھا۔اس نے چھوٹٹے ساتھ پہلا سوال کیا کہ" تم نے بی کام کیوں نہیں کیا اے سی سی اے تو فضول ہے"۔
دل تو چاہا کہ کہوں نا ہنجار کہاں کھوتا اور کہاں کھوتے کا کھر لیکن یہ ضرور کہہ دیا کہ "ہمارے پاکستان میں تو بی کام وہ کرتا ہے جو بی اے نہ کر سکتا ہو کہ بی اے کی 200 نمبروں کی انگریزی سے بچنے کا واحد طریقہ ہے کہ بی کام کرلیں"۔
اس نے اگلا حملہ کیا اور پوچھا " کہاں آئی ٹی انجیرنگ کہاں اکاؤنٹنگ ، ایک ہی فیلڈ کیوں نہیں چنی تم نے؟ یہ تو ایسے لگتا ہے کہ کنفیوز ہی رہے تم کہ کونسی فیلڈ میں جاؤؐں"-
میں نے دل میں سوچا میری اعلیٰ قابلیت سے سڑ گیا ہے تو جواب دیا" کہ اب تو اکاؤنٹ ہو ہی کمپیوٹر میں رہا ہے تو میرے خیال میں یہ کنفیوژن کی بجائے مثبت چیز ہے کہ مجھے سافٹ وئیر استعمال کرنا بھی آتا ہے اور اکاؤنٹنٹ تو ہوں ہی میں"۔
اب اس نے سوچا کہ بندے کو ٹیکنیکل مار دی جائے اور اس نے تین چار ایسی اصطلاحات پوچھیں جن کے جواب دینا تو درکنار میں نے کبھی وہ سنی نہ تھیں۔جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے اس نے کہا "آتا جاتا تو ہے نہیں کچھ ۔اے سی سی اے میں کیا پڑھا تھا"؟
اس کے ڈرون حملے کے جواب میں میں نے گھٹیا احتجاج کیا"یہ اکاؤنٹگ کا سوال ہے؟ ایسی چیزیں بی کام سے گھٹیا کورس میں پڑھاتے ہوں گے اے سی سی اے سے بین الاقوامی کورس میں نہیں"۔
اسکو غصہ آگیا وہ بولا"اچھا تم بتاؤ کونسے سوال ہوتے ہیں اکاؤنٹنگ کے"؟
میں نے ٹھک سےجواب دیا "اکاؤنٹنگ اسٹیٹمنٹ پوچھو، بلینس شیٹ بنواؤ،آڈیٹنگ کرواؤ یہ کیا بچوں کے سے سوال پوچھ رہے ہو"؟دل میں نے کہا بیٹا 65 کی جنگ کا بدلہ تو نہیں لینے دوں گا وہ 71 کا نیازی تھا یہ ہم ہیں۔
اس نے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے دراز سے بندوق نکال کر یہیں ہمارا اور اے سی سی اے کاکام تمام کردے گا۔لیکن بھارتیوں کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ ہماری طرح لڑتے بھڑتے نہیں اور انتہا درجے کے پروفیشنل ہوتے ہیں۔اس نے سوچا اتارو سر سے یہ بلا اور آخری سوال پوچھا گویا طنز کررہا ہو کہ یہ منہ مسور کی دال "اگر آپ کو رکھ بھی لیں ہم تو کتنی تنخواہ لوگے"؟
انٹرویو سے تو مجھے بھی پتہ لگ گیا تھا یہ کیا اس کی آنے والی سات نسلیں مجھے کیا آئندہ کسی پاکستانی کو انٹرویو تک کے لیے نہ بلائیں ۔"دس ہزار درہم کم از کم"۔میں نے خود کش حملہ کیا۔
ایک لمحے کو اس کا پارہ پھر آسمان پر چڑھا اور اس نے کہا"تجربہ ہے نہیں کچھ پھر بھی دس؟ اگر کچھ کم ہو تو"؟وہ آخر میں نواب صاحب ہونٹوں پر آتے آتے دبا گیا۔
میں نے کہا" میرا دس سے کم میں گزارہ نہیں"۔
مجھے لگا کہ وہ کہے گا کہ بیٹا دس تو میری تنخواہ نہیں لیکن اس نے کہا "چلو اگر ہمیں آپکی خدمات چاہییے ہونگی تو ہم رابطہ کریں گے" گویا دوسرے لفظوں میں کہ دفع ہو جاؤ اب۔
اس کے بعد میں نے کبھی اے سی سی اے کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔
بعد ازاں مجھے سفارش پر نوکری مل گئی اور سفارش تھی تو انکو اے سی سی اے سے بہتر کوئی کورس نظر نہ آتا تھا اور تنخواہ بھی منہ مانگی۔ وہ دوران انٹرویو یوں میری خدمت میں لگے تھے کہ اکاؤنٹنٹ کی بھرتی نہ ہو فائننشل کنٹرولر کی بھرتی ہو رہی ہو۔
جب دبئی ڈوبنے لگا تو ہم نے چوہوں کی مانند ڈوبتے جہاذ سے چھلانگ لگائی اور پولینڈ میں جہاں کسی ٹوفل ،آئیلٹس،جی آرای وغیرہ کے بغیر ہمارا ماسٹرز میں داخلہ ہو گیا اور ڈگری بھی بیک وقت ماسٹرز انٹرنیشنل اکنامکس اور ایم بی اے اکٹھی دے رہے تھے پولینڈ چلا گیا اور پھر پی ایچ ڈی کے لیے ایسٹونیا آگیا لیکن والد صاحب اے سی سی اے کی بنیاد پر نوکری نہ ملنے کو میری ناکامی ہی تعبیر کرتے رہے یہاں تک کہ میرے ایک دوست کا بھائی جس نے اے سی سی اے مکمل کیا ہوتا تھا دبئی نوکری کی تلاش میں آیا اور اس کو بھی میرے والے حالات کا ہی سامنا کرنا پڑا کہ بی کام کیوں نہیں کیا؟اس کے بعد والد صاحب کو یقین آگیا کہ ان کا جانشین تھوڑا بہت نکما ہے تو تھوڑی بہت خرابی اے سی سی اے میں بھی تھی۔پر سچ پوچھیں تو سچ یہ ہے کہ ہم اتنے فضول بھی نہیں جتنا وہ سوچتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔