August 11, 2013

اصل،نقل

Asal, Naqal

ہم تین دوست تھے۔۔۔ تینوں ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔گاؤں تو خیر بڑے شہر والے کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک چھوٹا شہر ہے۔ ایک غیر معروف تحصیل ہے۔اور ہم تینوں سولہویں کرنے ایک بڑے شہر کی یونیورسٹی میں آئے تھے۔چھوٹے شہروں سے آنے والے عام طور پر اس پانی کے ریلے کی مانند ہو تے ہیں جو مٹی اور پتھر کے ڈالے گئے بند سے ٹکراتا پھر رہا ہوتا ہے اور جہاں پشتہ کمزور ہوتا ہے وہاں سے بہہ نکلتا ہے۔ہم تینوں کو کلچر اور ثقافت کے دامن میں پناہ ملی اور ہمارا یونیورسٹی میں کم اور ادبی ثقافتی محفلوں میں اُٹھنا بیٹھنا زیادہ ہو گیا۔ گلوکاری،شاعری،طبلہ نوازی،کہانی نویسی و مکالمے اور ا ن کو بولنے کا ڈھنگ۔یہی کچھ ہمارا اُوڑھنا بچھونا تھا۔ 

معاشرتی سائنس میں ماسٹرز کرنا ویسے بھی کوئی ایسا محنت طلب کام نہیں۔۔۔ اور ہوتا بھی سہی تو ہمیں کون صحیح غلط کی تلقین کرنے والا تھا۔ لہٰذا پڑھائی اور شوق ساتھ چل پڑے اور آہستہ آہستہ ہم پر یہ راز منکشف ہوگیا کہ عام طور پر لوگوں کے دلوں میں ادب و ثقافت کی بڑی چاہ ہے۔۔۔ ان لوگوں کو دل ہی دل میں بڑی عزت دی جاتی ہے جو اس شعبے سے منسلک ہوتے ہیں۔دل میں طلب مزید بڑھ گئی۔ طلبا عام طور پر کھانا کھانے کی ایسی جگہیں تلاش کرتے ہیں جہاں ان کے پیسے بھی کم لگیں اور کھانا بھی پیٹ بھر کر مل جائے،ایسی جگہیں عام طور پر اندرونِ شہر بکثرت پائی جاتی ہیں۔
اندرون رہنے والوں کی زندگی بھی عجب ہوتی ہے،گھروں اور چوباروں کا لا متناہی سلسلہ جو ایک دوسرے سے اس طور متصل ہوتا ہے کہ نہ شروع ہونے کا پتا چلے۔۔۔ نہ ختم ہونے کا۔اپنی جداگانہ حیثیت کھوئے ہوئے بے ڈھنگے ،بے ڈھبے سے کسی سمندر کے کنارے کی مانند۔۔۔ جو کھاڑی کی صورت میں جہاں جہاں تک جگہ ملتی ہے وہاں وہاں خشکی میں گھستا چلا آتا ہے۔

اندرونِ شہر قائم اکثر دُکانیں بھی دراصل گھروں کے کمرے ہی ہوتے ہیں جو گلی میں دروازہ ہونے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دکان کے طور استعمال کر لیے جاتے ہیں۔جس دُکان میں ہم رات کا کھانا کھانے جایا کرتے تھے وہاں بھی کچھ ایسی صورتحال تھی۔ دُکان کا پچھلی طرف والا دروازہ جو ہمیشہ بند ملا کے پار میں سمجھتا رہا کوئی اسٹور ہے جہاں ہوٹل کا سامان اور پکانے کی اشیا کا ذخیرہ رکھا جاتا ہے۔۔۔ جو بعد میں کھٹ کھٹ کی آوازوں سے گیراج کے خیال میں بدل گیا اور بعد ازاں مکمل خاموشی کے باعث غیر آباد مکان میں ڈھل گیا۔لیکن دراصل وہ ایک رہائشی کمرے کا دروازہ تھا جو اکثر کرایے پر اُٹھا دیا جاتا تھا اور جس کو ایک چٹخنی لگا کر کمرشل اور رہائشی میں تفریق کی علامت بنا دیا گیا تھا۔انسان کی اکثر ایجادات ضرورت کے تحت ہی ظہور میں آئیں۔

رہائشی کمرے ہونے کا ثبوت اس روز ملا جس دن ہم تینوں رات کا کھانا کھانے وہاں پہنچے اور فرمان نے گانا گانا شروع کیا۔فرمان کو یونیورسٹی میں ہر کوئی جانتا ہے۔نچلا بیٹھنا اس نے جانا ہی نہیں۔اس کا شوق ہے گانا۔۔۔ کوئی راگ ہو، راگنی ہو، کلاسیکل ہو، غزل ہو، قوالی ہو یا پاپ۔۔۔ خاموشی اس کی سرشست میں نہیں۔ہر وقت گانے کی دُھن۔ حتیٰ کہ لیکچر لیتے وقت بھی وہ ہلکی آواز میں کچھ نہ کچھ ہمیں سناتا ہی رہتا ہے۔اس روز فرمان نے کہا آج ایک غزل سنی ہے،گانے والے نے ایسی گائی ہے کہ جیسے ابنِ انشا خود اپنے دل کا حال بیان کر رہے ہوں۔ ’’فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں۔۔۔‘‘ اس نے تان لگائی۔ابھی وہ لے پکڑ ہی رہا تھا کہ دروازے پار طلسم ہوش رُبا سے آواز آئی جیسے بہت سی چڑیاں چہچہا رہی ہوں۔پتا نہیں فرمان نے سنا نہیں۔۔۔ یا غزل کا مزہ کرکرا ہونے کے ڈر سے اَن سنی کر کے غزل جاری رکھی۔۔۔ ’’فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں ۔۔۔‘‘ ادھر فرمان کی آواز ختم ہوئی ادھر پھر چڑیوں کی آواز۔میں اب تک پہچان چکا تھا کہ یہ دراصل موبائل کے بجنے کی آواز تھی۔ ایک مصنف کو اتنی تو سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ اس نے معاشرے کے بارے میں لکھنا ہوتا ہے۔ میں نے قلم سنبھالا ہوا تھا۔

فرمان کی ایک اور بڑی خوبی اس کے دماغ کا پھسلنا بھی ہے۔یعنی ابھی وہ مشرق کی بات کر رہا ہوگا اور ابھی مغرب جا پہنچے گا۔ڈوانچی کوڈ کی بات کرتے کرتے اللہ بخش کے گول گپوں کو لے بیٹھے گا اور اسے سمیٹنے سے قبل اسٹاک ایکسچینج چھیڑ بیٹھے گا۔یہ خوبی اس کے گانوں میں بھی جھلکتی ہے۔شاید وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بول ڈالنا چاہتا ہے۔ فرض کرو سناتے سناتے بولا عالم لوہار کو سنا ہے کبھی اور پھر ’اساں ہن ٹر جانا‘ شروع کر دیا۔ اس نے گانے میں توقف کیا تو اندر سے پھر وہی آواز سنائی دی۔ہم تینوں اس وقت تک اس آواز سے متاثر ہو چکے تھے۔

اب باری کریم کی تھی اسے اردو ادب پر بڑی گرفت تھی۔اس نے اندر سے ردِ عمل دیکھ کر بات چھیڑی ’اشفاق صاحب کے بعد افسانے کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔۔۔‘‘ اور تباہ حال ادب پر اس نے ایک لیکچر جھاڑ دیا۔ اندر سے وقفے وقفے سے آنے والا جواب اس کے لیکچر کی گھمبیرتا کو بڑھاتا چلا گیا۔

میں نے اس موقعے پر اپنا تازہ افسانہ اور غزل سنا ڈالی۔اب کی بار دروازے کی درز سے ایک کاغذ برآمد ہوا۔ اب ہماری گفتگو میں معقولیت کم ہو چکی تھی۔ ہم تینوں بار بار بے چینی سے دروازے کی طرف دیکھتے اور کرسی پر رُخ بدل لیتے۔جیسے ہی کھانے کا بل ادا کیا تینوں اس کاغذ کی طرف لپکے اور اسے وہاں سے یوں اُڑا کر بھاگے جیسے کچھ چوری کر کے بھاگے ہوں۔دو تین کلو میٹر دور جا کر ہانپتے ہانپتے کاغذ کھولا،لکھا تھا’’ کیا آپ مجھ سے ابھی مل سکتے ہیں؟ ۔۔۔صائمہ۔‘‘ مایوس و بے مراد تینوں ہاسٹل کی طرف چل پڑے۔

اگلے روز تینوں ایک خط لکھ کر جس میں ہم نے گزشتہ روز کی تمام تفصیل،غلط فہمی اور معذرت تحریر کی اور ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کھانا طلب کر اسے دروازے کی درز میں پھنسا دیا۔۔۔ لیکن کا غذ کا وہ ٹکڑا ہمارے کھانا ختم کرنے کے بعد بھی آدھ گھنٹے تک جب جوں کا توں کھڑا رہا تو دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے ہاسٹل واپس آگئے۔

تیسرے روز جب ہم وہاں کھانا کھانے پہنچے تو وہاں اس کا غذ کے پرزے کا نام و نشان تک نہ تھا۔ہم جوابی خط کے انتظار میں دُکان بند ہونے تک بیٹھے رہے لیکن سوائے دروازے کے پار سے آہٹوں کے کچھ برآمد نہ ہوا تو بوجھل دل سے ہاسٹل واپس آگئے۔ تینوں دل ہی دل میں سوچتے رہے کہ کون قصوروار ہے۔۔۔؟ بہرحال خط کا جواب آتا یا نہ ۔۔۔کھانا تو وہیں سے ہی سستا ملتا تھا سواگلے روز پھر وہاں جا پہنچے۔۔۔ لیکن ہم تینوں کی نگاہیں وقفے وقفے سے وہیں اُٹھ جاتیں۔ پتا نہیں میں نے پہلے دیکھا تھا،کریم نے ، فرمان نے یا ہم تینوں نے اکٹھے دیکھا تھا۔ بہرحال دروازے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا نمودار ہو چکا تھا۔کریم نے اچھل کر کاغذ پکڑااور فوراًکھول کر پڑھا۔لکھا تھا ’’کیا آپ مجھ سے ابھی مل سکتے ہیں؟ صائمہ۔‘‘ میں نے کاغذ کی پشت پر جھٹ لکھ کر واپس پھنسایا کہ ’’ آپ ہم میں کس کو بلانا چاہ رہی ہیں اور اندر آنے کا راستا کون سا ہے؟‘‘ دُکان کے اسینے میں عام طور پر ہم تینوں ہی بیٹھا کرتے تھے لہٰذا ہم اس خط و خطابت کے پکڑے جانے کی فکر سے آزاد تھے۔ کچھ دیر بعد جواب آگیا’’تینوں آجائیں،دروازہ باہر نکل کر داہنے ہاتھ پر پہلا والا ہے۔۔۔ کُھلا ہے آجائیں۔‘‘

صائمہ اتنی خوبصورت تھی یا نہیں یہ بات کچھ صحیح طور یاد نہیں کیونکہ ہلکی ہلکی روشنی،دبیز میک اپ اور پہلی بار کسی لڑکی کا اکیلے میں ساتھ پاکر ہمارے حواس کچھ جگہ پر نہ تھے۔ اگرچہ ہمیں اس جگہ کا ماحول مصنوعی لگ رہا تھا اور کوئی چیز ہمارے اندر کھٹک رہی تھی لیکن ہم اسے اپنی جھجک سمجھ کر جھٹکتے رہے۔ شروع میں تو ہم اس کی شخصیت سے مبہوت رہے لیکن بعد ازاں کُھل گئے اور آہستہ آہستہ صائمہ بھی مہذب پن کے خول سے نکل آئی اور اس بے تحاشا میک اپ کے پیچھے ایک نیم پڑھی لکھی لڑکی ہمیں زیادہ پیاری لگی۔

ایک گھنٹہ گپ شپ کے بعد صائمہ نے کہا اب ہمیں جانا چاہیے۔ صائمہ سے دوبارہ ملنے کا پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئی بولی ’’بڑے معصوم ہیں آپ لوگ۔۔۔ جب مرضی آئیں۔‘‘ تینوں ہی اس کی صحبت اور اپنی معصومیت کے نشے میں مخمور کمرے سے نکل کر چھوٹی سی حویلی پار کرتے تک تینوں باقی دو کو اپنے حق میں دستبردار کرنے کے دلائل تیار کر ہی چکے تھے کہ دروازہ جس سے ہم گھر میں داخل ہوئے تھے کے پاس اچانک ایک بازو اس طرح سامنے آگیا کہ ہمارا وہاں سے گزرنا ناممکن ہو گیا۔

ہماری جیسے کسی نے جان سلب کر لی ہو۔ پہلی بار کسی شہری لڑکی کے گھر گئے تھے اور پہلی بار ہی پکڑے گئے تھے۔ زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور ہلکی سردی سے ہی ہم تینوں کانپنے لگے۔ تینوں کے چہرے فق ہو گئے۔اب کیا ہوگا۔۔۔؟ایک ہی سوال ہم تینوں سوچ رہے تھے۔ ’’نکالو پانچ پانچ سو۔۔۔‘‘،ایک ہٹا کٹا، کالا کلوٹاآدمی سامنے آکر بولا۔
’’کس چیز کے؟‘‘ ہم تینوں جو ابھی ایک صدمے سے نہ سنبھلے تھے اس آدمی کی جسامت دیکھ کر اور اس کا مطالبہ سن کر مزید گھبرا گئے تھے، ڈرتے ڈر تے بولے۔
 ’’نکالو پانچ پانچ سو چپ کر کے اگر جان پیاری ہے تو۔۔۔۔گھنٹہ لگا کر جا رہے ہو تینوں،بہن لگتی تھی تمھاری سالی۔۔۔؟؟؟‘