March 10, 2012

ایستونیا گئے کیوں اب رہوایستونیا کوئی دن اور

Estonia gae kiyo ab raho Estonia koi din aur


 جب چھوٹے تھے تو ہر دوسرے ماہ ایک کہانی ایسی بچوں کے رسالے میں پڑھنے کو مل جاتی تھی کہ جس کا آغاز یوں ہوتاتھا "جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب ہماری شامت آئی تو ہم نے یہ کیااور ہم نے وہ کیا"۔ بڑی خواہش تھی کہ ہم بھی ایک کہانی لکھیں جو ایسے ہی شروع ہو۔حالانکہ کافی عرصہ تو ہمیں سمجھ بھی نہیں آئی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔پر جیسے ہے نہ کہ دو شخص لڑرہے تو ایک گزرتے بندے نے پوچھا کیوں لڑ رہے ہو یار؟ ایک نے جواب دیا اس نے مجھے دو سال پہلے گینڈا کہا تھا۔اس گزرتے بندے نے کہا تو آج لڑنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تو لڑنے والے نے جواب دیا میں نے گینڈا آج ہی دیکھا ہے۔ 

تو ہمیں بھی اب سمجھ آئی کہ گیدڑ کی شامت کا مطلب کیا ہے لہذا میرا آج کا بلاگ ایسے شروع ہوتا ہے کہ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور ہماری شامت آئی تو ہم نے بھی شہر کا رخ کیا۔ شہر تھا تالین،مہینہ تھا جنوری اور درجہ حرارت تھا منفی پچیس۔ 
تالین(تالِن) ایستونیا(انگریزی:ایسٹونیا) کا دارالحکومت ہے ۔آپ یہ نہ پوچھیں کہ ایستونیا کہاں واقع ہے کیونکہ طول بلد اور عرض بلد کبھی مطالعہ پاکستان میں پاکستان کے یاد نہیں کر سکے۔پر کچھ کچھ اندازے کی خاطر بتا دیں کہ مشرقی یورپ میں روس سے نو آزاد ریاستوں میں سے ہے اور بحیرہ بالٹک کے کنارے واقع ہے۔روس کا زمینی اور فن لینڈ کا سمندری ہمسایہ ہے۔ آبادی دس لاکھ اور رقبہ ضلع ملتان کے لگ بھگ ہے۔(ضلع ملتان کو نقشے میں خود دیکھ لیں)۔

 بہرحال وہاں پہلا قدم رکھتے ہی اللہ یاد آگیا۔ ناں ناں ہم ایسے نیکو کار نہیں ہیں نہ ہی وہاں خوبصورتی جنت کا نمونہ پیش کر رہی تھی بلکہ یہ سردی تھی جس نے ہماری تراہ نکلوا دی تھی۔اب ویسے تو وارسا بھی کم سرد نہیں پر منفی دس اور منفی پچیس میں کوئی فرق ہے کہ نہیں۔شاید یہی تراہ نکال نکال کر ایستونین میں ہیلو کو تیرے کہتے ہیں۔(ایستونین زبان کو مقامی اِیستی بلاتے ہیں)۔

 سردی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دو دن تک کمرے میں بیٹھا رہا باہر نکلنے کی ہمت دلاتا رہا آخر تیسرے روز کمر کسی اور شہر دیکھنے نکل پڑا اور آدھے گھنٹے میں ہی کسی کمر ڈھیلی ہونے لگی اور قدیم شہر دیکھ کر سمندر جب ایک سڑک پار کے کر تھا اس کو وہیں سے سلام کیا اور واپس کمرے آ گیا کہ گرمیوں میں آ کر دیکھ لوں گا کہیں بھاگا تھوڑی جا رہا ہے۔ تین دن دھوپ کی دعائیں مانگنے کے بعد جب چوتھے دن دھوپ نکلی تو وہ اس روشنی سے چنداں مختلف نہ تھی جسکو دیکھ کر تمام رات ایک پاگل نے برف میں بغیر کپڑوں کے گزار دی اور جب انعام لینے کی باری آئی تو اس نے بتایا بس دور ایک کھڑکی میں موم بتی جل رہی تھی میں اسی کو دیکھتا رہا جس پر شرط ہارنے والے نے کہا چل بے ایمان کوئی پیسے ویسے نہیں بس سورج دیکھ کر ہمارا دل بھی کیا کہ اس کو کہیں چل بے ایمان لیکن کپکپاتے دانتوں اور کانپتے بدن کے ساتھ یہ ممکن نہ تھا۔ 

 ہر وہ بندہ یا بندی جو ہم سے پیار سے ہنس کر بات کر لے ہمیں خوبصورت لگتا ہے خواہ وہ مس یونیورس ہو یا جے سوریا کی بہن ۔اور اکثر ایستونین اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ انگریزی بولتے ہیں اور اس سے اچھی بات یہ ہے کہ ہم جیسی یعنی پوری صوری ہی بولتے ہیں لہذا بے فکر ہو جیسی آتی ہے انگریزی میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔ 

یورپ میں اکثر راہ چلتے آپکو ٹُن فقیر یا بے گھر یا پھر رات گئے ڈگمگاتے قدموں والے نوجوان مل جاتے ہیں۔یہاں تالین میں بے گھر تو کم ہیں لیکن پالٹی باز نوجوان اکثر مل جاتے ہیں۔ سوتے ہوئے گلیوں سے رات گئے عطا اللہ اسٹائل میں تیرے سامنے بہہ کے رونا دکھ نی او دسنا قسم کے راگ بھی سنائی دیتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ غم غلط کرنے کی کوشش میں غم ٹھیک کر بیٹھتے ہیں۔ 

 مارکیٹ سے لوٹتے ہوئے ایک فقیر صاحب متھے پڑ گئے۔پہلے ایستونین میں مانگا پھر روسی میں پھر پولش میں پھر فنش میں پھر اطالوی اور اسپینش بھی بول ڈالی پر میرا بہرہ پن دیکھ کر آخر وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ کونسی زبان جانتے ہو بھائی صاحب؟میں نے کہا انگریزی تو انگریزی میں بولے ایک یورو تو دے دوپلیز۔میں اس کی زبان دانی کو تو داد دے سکتا تھا پر ایک یورو اس پر قربان کرنا ۔۔توبہ کریں۔اگر صنف مخالف ہوتی تو سوچ ضرور سکتا تھا کہ عورتوں کا احترام ہم پر واجب ہے پر دینے کے امکانات اس کو بھی نہیں تھے اور یہ تو ہٹا کٹا بندہ تھا۔بہرحال بعد میں خیال آیا اس کو کہنا انگریزی کی بجائے اردو کہہ دیتا کیا پتہ وہ ہندی فلموں کا شوقین نکلتا اور کہہ دیتا "اے بیڑو ایک یورو دے دے"۔ 

 بہرحال بھائیوں تالین نہ جانا اور جانا بھی سہی تو جون جولائی میں جانا۔ہماری مثال سے سبق سیکھیں کیونکہ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور ہماری شامت آئی تو ہم نے بھی شہر کا رخ کیا ۔شہر تھا تالین۔ مہینہ تھا جنوری اور درجہ حرارت تھا منفی پچیس۔