April 14, 2010

صبح کی سیر-اردو مضمون-نظر ثانی شدہ

Subuh ki sair-urdu mazmon-nazar sani shuda


جب ہم اسکول میں پڑھا کر تے تھے تو ٹریڈ مارک رٹا مضامین میں سے ایک صبح کی سیر بھی ہوا کرتا تھا جو امتحان میں آنا متوقع ہوتا تھا اور میرا بہترین دوست کے بعد دوسرے نمبر کے آسان کیٹیگری میں پڑنے کے باعث خاصا مقبول تھا۔کل اتفاق سے ایک کتاب نظر سے گزری جس میں صبح کی سیر کا مضمون بھی تھا تو لگا کہ یہ تو اس کا پرانا ورژن ہے آج کل کے حالات کے مطابق اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔میری بساط میں جو نظر ثانی کی جا سکتی تھی وہ پیشِ خدمت ہے باقی اپنے اپنے تخیل کا گھوڑا دوڑائیے ویسے کبھی کسی استاد نے آج تک ایک ہی گائیڈ سے مضمون رٹا مار کر من و عن لکھنے پر نمبر تو نہیں کاٹے۔

مضمون کچھ یوں شروع ہوا کرتا تھا کہ کسی عظیم مفکر کا کہنا ہے کہ اگر لمبی زندگی چاہتے ہو تو سبزے کو دیکھو، بہتے پانی کو دیکھو،دنیا گھومو وغیرہ وغیرہ۔لیکن  یہ ٹریڈ سینٹر کے حملوں سے قبل تک تو ٹھیک تھا پر اب تو بات کچھ یوں نظر آتی ہے کہ اگر لمبی زندگی چاہتے ہو تو گھر سے باہر نہ نکلو،ٹی۔وی دیکھو،بال بچوں کے ساتھ دن گزارو وغیرہ وغیرہ۔


آج کے زمانے میں یقین کریں کہ صبح کی سیر گھاٹے کے سودے کے علاوہ کچھ نہیں۔چھوٹے موٹے نقصانات جو صبح کی سیر کے باعث لوگوں نے اٹھائے ان کو آپ قسمت کا چکر قرار دے کر دلیل دے سکتے ہیں کہ اسٹریٹ کرائم کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہو سکتا ہے تو اگر چند لوگوں کے موبائل ،پرس اور پیسے صبح کی سیر کے چکر میں چھن بھی گئے تو کیا ہوا۔لیکن یہاں میں ایک کلاسیک مثال مرقوم کروں گا جو سراسر صبح کی سیر کے باعث ہوا۔میرے دوست کے والد کی کار صبح کی سیر کے باعث چوری ہو گئی۔آپ حیران ہوں گے یا مجھے دروغ گو قرار دیں گے تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ وہ گھر سے کار میں بیٹھتے اور پارک میں جا کرکار باہر ٹھہراکر پارک میں چہل قدمی کرنے جایا کرتے تھے۔ایک روز جب وہ سیر کر کے پارک سے باہر نکلے تو انکو چہل قدمی کا دائرہ تھوڑا مزید وسیع کر کے گھر تک چہل قدمی کرنی پڑی کیونکہ کار غائب تھی۔اب اگر وہ صبح کی سیر نہ کیا کرتے تو ان کی کار کبھی چوری نہ ہوتی۔اب اگر آپ ان کو دوش دیں کہ یہ کیا طریقہ ہے یا یہ کیا نوابی انداز ہے تو آپ کو بھی یاد ہو گا کہ ہر مضمون میں سیر یا نہر کنارے کی جاتی تھی یا باغ میں۔اب ملتان میں نہر ہے نہیں تو وہ بیچارے پارک نہ جاتے تو اور کہاں جاتے۔

اب حالانکہ یہ مضمون صبح کی سیر کے متعلق ہے میرے دوست کے والد کی کار کی سوانح نہیں لیکن ہو سکتا ہے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ یہ سوچیں کہ ان کی کار ملی یا نہیں تو پہلی گذارش ہے وہ مضمون پر توجہ دیں ادھر ادھر کی باتوں میں نہ بھٹکیں اور دوسری یہ کہ پاکستان کے قانون کے حساب سے اگر وہ بڑے آدمی ہیں تو مل گئی ہو گی اور اگر میرے جیسے عام سے شہری ہوں گے تو پھر ناممکن ہے۔ویسے انکی عادات و اطوار تو کم از کم بڑے آدمیوں والے ہیں عام شہریوں والے نہیں۔کیا خیال ہے؟

پر سچ پوچھیے تو یہ چوری چکاری بھی پرانی بات ہو گئی ہے اب تو بات دہشت گردی تک آن پہنچی ہے۔سری لنکن ٹیم پر حملے کو دیکھ لیں۔کس نے کہا تھا اتنی صبح کھیلنے کے لیے چل پڑیں۔اور اب تو یہ مزیداری بھی ہے کہ آپ دہشت گردی سے بچ بھی گئے تو پولیس گردی کا شکار ہونے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔وہ بھی سچے ہیں بیچارے کہ اتنی صبح صبح یا تو آپ پاگل ہیں یا دہشت گرد جو اس وقت باہر گھومتے پھر رہے ہیں۔

 پرانے صبح کی سیر میں ہلکا سا تڑکہ ایک دوست کا بھی ہوتا تھا۔کہ آپ اس کے گھر جاتے ہیں ۔اس کے والد کسی اچھے سرکاری عہدے پر ہیں ۔وہ آپکے اس اقدام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور صبح کی سیر کے چند فوائد مجمع بازنیم حکیموں کی طرز پر بیان کرتے ہیں اسی دوران آپکا دوست آجاتا ہے اور آپ بادلِ نخواستہ ان کی پند و نصائح کے پلندے کو چھوڑ کر دوست کے ہمراہ نہر کنارے یا کسی باغ/پارک جا پہنچتے ہیں جہاں انکل کی کار چوری ہوئی تھی اور جہاں لوگوں کے غول کے غول آئے ہوتے ہیں اور جب گھر واپس آتے ہیں تو ایسے تازہ دم ہوتے ہیں کہ شریں کہے تو تیشے بغیر ہی نہر کھود ڈالیں،لکڑ ہضم پتھر ہضم ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے باقی ماندہ برسوں میں چند ایک کا اضافہ کرچکے ہوتے ہیں۔پر آج کل کے حساب سے بات کچھ جچتی نہیں۔آج کے زمانے کی بات کریں تو آپ کا وہ دوست جسے والد کسی اونچے سرکاری عہدے پر ہیں صبح چار بجے تک تو موبائل نائیٹ پیکج پر ایس ایم ایس کرتے کرتے سویا ہوگا ۔جو آج تک کالج پہلے لیکچر میں نہیں پہنچ سکا وہ صبح کی سیر کے لیے خاک اٹھے گا۔صبح پانچ بجے یا چھ بجے کوئی سرکاری افسر آپ کو صبح کی سیر کی افادیت پر لیکچر نہیں دے سکتا کیونکہ دس بجے اس نے دفتر پہنچنا ہوتا ہے اس لیے وہ نیند کے اس آخری خمار سے قطعی دستبردار نہیں ہونا چاہے گا۔اور آپ اتنے تابع فرمان کہاں سے آئے کہ صبح کی سیر کی افادیت پر لیکچر سن سکیں آپ تو اپنے والد صاحب کی پیاد سے سرزنش برداشت نہیں کرسکتے کجا دوست کے والد صاحب۔ہاں آپ صبح چھ بجے نیند میں بے وقت کے خلل پڑنے کے باعث ڈانٹ ضرور سن سکتے ہیں۔یقین نہ ہو تو میرے دوست میاں نعیم سے پوچھ لیں اس نے سات بجے فون کیا تھا۔آپ بھی کوشش کریں۔اگر وہ بہت ہی خوش اخلاق بھی نکلے تو اگلے روز اپنے دوست سے ضرور سن لیں گے کہ یار کیا عذاب پڑ گیا تھا صبح صبح۔کیوں ابو کی نیند خراب کر دی تھی۔ابو کہہ رہے تھے عجیب شریف بندہ ہے تمھارا دوست جس کو آداب ہی نہیں کہ کس وقت دوسروں سے ملا جا سکتا ہے اور کس وقت نہیں۔اور یوں پرانے مضمون میں آپکو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل بنانے والا فعل اب آپکو مشکوک نظروں سے دیکھے جانے کے واجب بنا سکتا ہے۔

پرانے مضمون میں آپ جب پارک میں پہنچتے تھے تو وہاں لوگوں کے غول کے غول آئے ہوئے ہوتے تھے۔بھائی صاحب برا نہ مانیں تو پوچھوں کہ خیر ہے آپکو۔کیوں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔او میرے بھولے بھائی اس سے بہتر جگہ دہشت گردوں کو کیا ملے گی ۔سردیاں تو سردیاں صبح کی سیر کے وقت آپ گرمیوں میں جیکٹ پہنے رکھیے کسی کو شک نہیں پڑنا۔اور کسی کو کیا پتہ کہ کونسی جیکٹ سردی کی وجہ سے پہنی گئی ہے اور کونسی دہشت گردی کے لیے۔بس ہونا یہ ہے کہ آپ ہر شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھنے کے باعث اور مسلسل ٹینشن کے باعث آپ کی عمر چند روز نہ بھی گھٹے تو کم از کم آپ بد ہضمی کے شکار ضرور ہو جائیں گے۔ لیجیے ہو گئی صبح کی سیر۔

عقلمند وہ ہے جو اشارہ سمجھ جائے۔میرے بھائی لمبی زندگی چاہتے ہیں تو گھر پر رہیں،رات دیر تک ٹی۔وی دیکھیے اور صبح دیر سے اٹھیں۔لیکن آپ صبح جلد ی اٹھنے کے مرض میں مبتلا ہیں تو جو پروگرام دیر رات ٹی ۔وی پر دکھائے جاتے ہیں وہ صبح ہی نشر ہو تے ہیں۔تو رات کو نادیہ خان شو دیکھنے کی بجائے صبح اٹھ کر براہ راست دیکھیں اور سیاسی مزاحکرے (یہ مزاکرے کم اور مزاحکرے زیادہ ہیں)صبح اٹھ کر نشرِ مکرر کے طور پر دیکھیں اور بقول اکبر الہ آبادی خوشی سے پھول جائیں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ نوٹ:درج بالا تمام سطور نیک نیتی اور خلق خدا کی بہتری کے واسطے احاطہ تحریر میں لائی گئی ہیں۔اگر آپکو ان سے اتفاق نہیں تو صبح کی سیر جاری رکھیں مصنف آپکے لیے دعا گو ہے پر مہربانی کر کے مصنف کو بھارتی یا اسرائیلی پروپگنڈا کار نہ سمجھا جائے۔