December 1, 2010

بحیرہ روم کے کنارے

Bahera rome ke kinary


یوں تو فٹ بال سے میری پہلی واقفیت 90 کے ورلڈ کپ میں ہوئی تھی جب میرا ڈونا کی ارجنٹینا مغربی جرمنی سے فائنل ہار گئی تھی۔وہ دن اور آج کا دن جرمنی سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔لیکن کلب فٹ بال سے میرا رومانس تب شروع ہوا جب میدرد (جب اسپینش میدرد بولتے ہیں تو ہم انگریزوں کی نقل میں میڈرڈ کیوں بولیں)نے کلب ٹیم کو ورلڈ الیون بنا ڈالا۔حالانکہ میرا ڈونا بارسلونا کی طرف سے کھیلتا رہا ہے لیکن اس پر میرے بعد کے پسندیدہ کھلاڑی زیڈان،فیگو،رونالڈو،رابرٹو کارلوس،کاسیئس حاوی رہے اور تب کاریال میدرد میرا پسندیدہ کلب رہا ہے۔

یورپ آمد پر میرا ایک ہی خواب رہا ہے کہ ریال میدرید فٹبال کلب دیکھ سکوں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔پہلی سلام دعا میونخ میں بائرن میونخ سے ہوئی اور اس کے بعد گیا بھی تو کہاں ،بارسلونا فٹ بال کلب،ریال میدرد کا ہمیشہ کا حریف۔اور بارسلونا کے بعد اسپینیول فٹ بال کلب اور پھر ویلنسیا فٹ بال کلب بھی دیکھ ڈالا لیکن ریال میدرد کا ابھی تک نمبر نہیں آیا۔ حالانکہ بحیرہ روم کے کنارے بارسلونا جانے کا مقصد قطعاً فٹ بال کلب دیکھنا نہیں تھا لیکن مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔

یورپ کے اس کنارے پر واقع اسپین نجانے اب تک کیوں متحد ہے ۔بارسلونا اور میدرد کی مثال لے لیں کہ فٹ بال میچ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ پاکستان اور انڈیا۔ اسپین گئے تو ویلنسیا جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ویلنسیا بحیرہ روم کے کنارے نقشے پر نیچے کر کے ایک بڑا سا شہر ہے۔شہر کے بیچوں بیچ ایک کلو میٹر چوڑی کھائی سی ہے جو درختوں سے بھری ہوئی ہے اور شہر کی اہم ترین سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور نئے اور پرانے شہر کے درمیاں حد فاضل سی ہے۔بارسلونا سے ویلنسیا تک سڑک کے بائیں کنارے بحیرہ روم بہتا ہے۔آپ ویلنسیا جاتے ہوئے دائیں طرف دیکھیں تو سر سبز پہاڑ اور زیتون اور مالٹوں کے باغ نظر آتے ہیں اور بائیں طرف بحیرہ روم کا نیلگوں پانی دکھتا ہے۔ویلنسیا اور بارسلونا کو چھوڑ کر دل کرتا ہے کہ بس یہیں رہ جائیں۔

 اسپین میں دو قومیں اکثریت میں پائی جاتی ہیں ایک اسپینی اور دوسرے منڈی بہاالدینی۔بارسلونا سا بڑا شہر ہو یا ویلنسیا کا دور دراز کا ساحلی شہر یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔آپ کو انگریزی بولنے والے ملیں یا نہ ملیں پنجابی اور اردو بولنے والے منڈی کے لوگ لازم مل جائیں گے۔اور مزے کی بات کہ اکثریت غیر قانونی طور پر مقیم ہے۔اور یہ غیر قانونی منڈی کے لڑکے سڑکوں پر بتیوں والے جہاز بیچتے جا بجا نظر آتے ہیں۔کچھ وزٹ ویزا لے کر آئے اور وہیں رہ گئے اور کچھ لانچوں اور کنٹینروں کے زریعے۔ان کی اکثریت باقی یورپ کے جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی طرح ہی رات نائٹ کلبوں اور دن کو غمگین گانے سن کر غریب الوطنی کا غم غلط کرتی ہے اور سب اس امید پر رہ رہے ہیں کہ آج نہ تو کل اسپین امیگریشن کھول کر ان کے ہاتھ میں اسپینی پاسپورٹ تھما دے گااور ان پندرہ پندرہ لاکھ کے عوض پاکستان سے اسپین میں محض انٹری کرنے والوں کو گلے لگا کرایک نئے اسپین کا آغاز کرے گا لیکن سرمایہ دار جو کام ان غیر قانونی لوگوں سے دس میں کرا رہا ہے وہ ان کو پاسپورٹ دے کر بیس میں کیوں کرائے۔

 ایک گھر میں جہاں میرے دوست کے جاننے والے رہتے تھے اور ان سے اس کو کام تھا داخل ہونے والے آٹھویں پاکستانی نے اپنا تعارف کروایا کہ میرا نام زید ہے اور بدقسمتی سے میرا تعلق بھی منڈی بہاالدین سے ہے(آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پہلے سات اشخاص بھی منڈی کے تھے)میرے منہ سے ہنسی پھوٹتے پھوٹتے رہ گئی ۔باہر نکل کر میں کمینگی سے باز نہ آ سکا اور دوست سے جسکی وجہ سے آئے تھے سے بولا السلام و علیکم ،میرا نام علی ہے اور خوش قسمتی سے میں منڈی بہاالدین سے نہیں ہوں۔میرے دوست نے جواب دیا وہ تو ظاہر ہے ورنہ یا آپ منڈی بہاالدین میں رہتے یا اسپین میں رہتے کم از کم پولینڈ میں نہ ہوتے۔

وارسا میں ہم اس بات کو پیٹتے تھے کہ غسل خانوں میں پانی نہیں ہوتا اور گھر سے نکلتے وقت ضروری سامان میں بوتل بھی شامل ہے اگر برداشت کی حد قابل رشک نہیں ہے لیکن اسپین آکر یہ پتہ چلا پانی تو پانی یہاں کنڈی کا بھی کوئی چکر نہیں۔آپ خود سوچیں کہ آپ بڑی توجہ سے رفع حاجت میں مصروف ہیں اور ایکدم دروازہ کھلتا ہے اور پاردون کہہ کر بند ہوجاتا ہے ، کس کافر کوحاجت رہتی ہو گی اور کس کافر فراغت کا خیال ۔ویسے تو کہتے ہیں بیت الخلا میں چپ چاپ رہنا چاہیے لیکن یہاں اگر چپ رہنا ہے تو پھر دعا کرتے رہیں کہ آپ کے ہوتے کسی اور کو ضرورت محسوس نہ ہو۔

بارسلونا کا ایرپورٹ بہت ہی خوبصورت بنا ہواہے۔کالے پتھر اور آتشی سرخ پتھروں کی سل سے بنا فرش نظر نہیں ٹکنے دیتا۔اور لوگ ڈیوٹی کی اتنے پابند کہ دس بجے رات کہ پہنچنے پر ڈیوٹی فری بھی بند پائی۔ویسے یہ تو تمام یورپ کی کہانی ہے۔وارسا میں بھی رات سات بجے کے بعد سوائے شراب کے کوئی اور دکان کھلی نہیں ملے گی۔

اسپین کے پاس دو چیزیں ہیں جو باقی یورپ میں نہیں۔بحیرہ روم اور دھوپ۔گوریوں کو اور کیا چاہیے۔ساحل پر کپڑے پہنے ہوئے لوگوں کو ایسے تو وہ حیرانگی سے نہیں دیکھتے ناں۔

اسپین نے پرتگال،یونان اور ائرلینڈ کے ساتھ مل کر یورو کی تراہ نکلوائی ہوئی ہے۔دیکھیں یورو کہاں تک گھسٹتا ہے ویسے میری ناقص رائے میں مرکزی حکومت کے بغیر مرکزی بینک فضول ہی ہے۔

میں تمام رات ہوائی اڈے پر یہ سوچتا رہا کہ لوگ کیوں نہ پندرہ پندرہ لاکھ دے کر جانوں کو خطرے میں ڈال یہاں آنے کی کوشش کریں جہاں مجھ جیسے شخص کو جو تمام دنیا میں دہشت گردی کے لیے مشہور قوم سے تعلق رکھتا ہے اور اسپین میں مزدور طبقہ اور غیر قانونی قوم جانی جاتی ہے سے ہونے کے باوجود تمام رات بغیر کسی روک ٹوک کی ہوائی اڈے پر گزارنے دی جبکہ رات کو کوئی فلائیٹ بھی بارسلونا سے نہیں جاتی۔کسی نے آکر نہیں پوچھا ٹکٹ دکھاؤ،سامان چیک کراؤ،جبکہ ملتا ن ایر پورٹ پر ہم کو ہمارے ہی لوگ کاروں سے اتار کر تلاشی کر رہے ہوتے ہیں۔

اسپین کی تمام سابقہ نوآبادیات کا اسپین میں داخلے کے ویزا نہیں ہے۔ایک ہمارے انگریز حاکم تھے جنہوں نے ہمیں انگریزی کی لت بھی لگائی اور اب تعلیمی ویزے دینے سے بھی ان کی جان نکلتی ہے۔کیمرون صاحب اب بھاگتے کہاں ہیں۔سنا ہے بیس سالوں میں برطانیہ میں گورے اقلیت میں ہو جائیں گے۔اور ہندوستان پر قبضہ کریں۔ہن آرام اے؟

شروع شروع میں جیت کے نشے میں اسپینیوں نے بڑی کوشش کی مسلمانوں کی ہر یادگار کو نیست و نابود کر دیں لیکن پھر کسی کے عقل دلانے پر انکو ہوش آیا اور انہوں نے چیزیں محفوظ کرنا شروع کیں۔کھجور کا درخت مسلمانوں کی سب سے بڑی نشانی ہے اور اسپین کے ہر علاقے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔عبد الرحمان الداخل نے عرب کی یاد میں وہاں سے کھجور کے درخت منگوا کر یہاں لگائے اور یہ ایسے پھولے کہ مسلمانوں کے جانے کے بعد بھی یہاں رہ گئے۔ اسپین جائیں اور قرطبہ جس کو اسپینی اب کاردوبا کہتے ہیں نہ جائیں تو اسپین ادھورا لگتا ہے۔ویلنسیا تک تو ہو آیا سویلارہ گیا۔لیکن آج نہیں تو کل اسپین دوبارہ جانا ہے۔مسجد قرطبہ میں ایک اور بے بس تجھ تک آؤں گا۔تیری دیوار سے لگ کر رونے میں ایک اور ابو عبداللہ آؤں گا۔مسجد قرطبہ میں آؤں گا۔مسجد قرطبہ میں ضرور آؤں گا۔