May 1, 2011

الوداعی پالٹی

Alvidai Palty


پاکستان ہو یا پولینڈ اللہ جانتا ہے پالٹی خواہ کسی نوعیت کہ کیوں نہ ہو سے میری جان جاتی ہے۔شادی ہو، ہلا گلا ہو، سالگرہ ہو یا گیٹ ٹو گیدر۔چونکہ میں دیہاتی ہوں ، گنوار ہوں،بد تمیز ہوں اس لیے پارٹی کو پالٹی کہتا ہوں۔انگریزی P-A-R-T-Y- کو میں اردو پ۔۱۔ل۔ٹ۔ی۔کے نام سے جانتا ہوں۔اسی لیے جب میری استانی نے مجھے بتایا کہ بسلسلہ روانگی ماسکو وہ ایک الوداعی پالٹی دے رہی ہے اور میں پہلا شخص ہوں جس کو اس نے دعوت دی ہے اور مجھے لازم آنا ہو گا تو میری جان نکل گئی۔ اس پہلے گزرنے والے دو سالوں میں کاشا نے مجھے بار ہا مواقع پر دعوت دی لیکن ہر بار میں کوئی بہانہ کر کے ٹالتا رہا لیکن بھائی صاحبان آپ جانتے ہیں کہ مجبوری دنیا میں ہر برائی کی جڑ ہے اور بس دعا کریں کہ کبھی کسی سے کام نہ پڑے اور چونکہ مجھے کاشا سے کام پڑ چکا تھا اس لیے کوئی بات بنائے بن نہ سکی اور ایک فیصدی بھی خواہش نہ ہونے کے باوجود حامی بھرنی پڑ گئی۔

 کاشا نے بتایا کہ پالٹی فلاں ہوٹل میں ہے اور چونکہ وہاں شراب کی فروخت کی اجازت نہیں لہذا ہر کوئی اپنے پینے پلانے کا سامان ساتھ لائے گا۔ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا کہ پولینڈ میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں شراب نہیں بکتی۔ قربِ قیامت پر یقین آ گیا۔ میں نے طنز بھرے لہجے میں پوچھا کہ کیا پولینڈ میں شراب بیچنے کے لیے اجازت کی ضرورت ہے؟ چونکہ وہ بھی بادہ خوار ہے اور بادہ پینے میں خدائی خوار ہے لہذا میری بات نہ سمجھ سکی اور تفصیل بتانے لگی کہ شراب بیچنے کے لیے لائسنس ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ جو کہ میں لکھنے سے قاصر ہوں ۔دراصل اس وقت میں خود بھی اس کی باتیں بظاہر ہی سن رہا تھا کیونکہ اس وقت میں اپنے ہاسٹل کے ہر کمرے میں بننے والے وودکے کی کپیوں کے لائسنس ڈھونڈ رہا تھا۔ 


بہرحال پالٹی ہوئی اور وقت مقررہ پر ہی ہوئی پر میں سات کی بجائےآٹھ بجے پہنچااس لیے نہیں کہ میں پاکستانی ہوں اور دیر سے پہنچنا ہماری شان ہے بلکہ اس لیے کہ میں نے سوچا کہ جب پہنچوں گا تو پالٹی آخری دموں پر ہو گی اور میں الٹے پاؤں لوٹ آؤں گا۔لیکن آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ حسرت ہے ان غنچوں پر۔۔۔۔ میں چوتھا یا پانچواں فرد ہی تھا جو وہاں پہنچا تھا گویا ابھی کچھ شروع ہی نہیں ہوا تھا۔

 میری استانی جو ساری عمر کمیونسٹوں ، روسیوں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہے ایک وقت میں روس کی نو انٹری فہرست میں شامل تھی اب اپنے بوائے فرینڈ کے ماسکو تبادلے کے بعد وہ بھی ماسکو رہنے جا رہی تھی۔ پالٹی میں مزے کی بات یہ تھی کہ استانی صاحبہ تو بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ان کے بوائے فرینڈ صاحب دائیں بازو کی جماعتوں کے نزدیک ہیں ۔اب وہاں ایک دوسرے کے مخالف سیاستدان اکٹھے ہو گئے تھے اور مجھ جیسے تماشبین کسی تماشے کا انتظار کرنے لگے لیکن نہ تو وہ پاکستانی سیاستدان تھے اور نہ کسی ٹی وی مذاکرے میں آئے تھے لہذا سب کچھ امن و امان سے گزر گیاجس پر میرے جیسے لوگ اس بات پر متفق ہو گئے کہ سیاستدان اصل میں ایک ہی ہیں۔جماعتیں وغیرہ سب ڈرامے بازی ہے۔

 کاشا نے باری باری سب سے میرا تعارف کروایا ۔اسوقت تک محض بوڑھے سیاستدان ہی آئے تھے جو کسی طور انگریزی بولنے پر تیار نہ تھے اور پولش بولنے میں میرا حال فعل مستقبل بعید کا ہے۔میں چپ چاپ بیٹھا دیواروں پر ٹنگی تصاویر دیکھتا رہا۔ایک صاحب چاکلیٹ کا ڈبہ لائے تو میں نے دو انکے سامنے اور تین آنکھ بچا کر پار کر لیں۔جب چاکلیٹ بھی ختم ہو گئی تو دیوار پر لگے کتے کی تصویر پر کالے دھبے گننے لگا۔اسکی ٹانگ پر سینتیس کالے دھبے تھے۔میں دوبارہ گننے لگا اورسوچنے لگا کہ تین بار گن کر چلا جاؤں گا لیکن دوسری بار گنتی ابھی چوبیس پر پہنچی تھی کہ ایک ایسا بندہ آگیا جس کو میں جانتا تھا۔اس کا نام یاسک تھا جو کہ انگریزی جیک کا پولش ورژن ہے۔

 یاسک نے مجھے ایک بار بتا یا تھا کہ اس نے سنا ہے جاپان میں سال بادشاہوں کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں۔اس نے بھی اپنی زندگی کے سال اپنی گرل فرینڈوں پر رکھ چھوڑے ہیں۔اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو یاد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے دوسرا تعداد گننے میں بھی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن یاسک نے یہاں یہ بات صاف کرنا بہتر سمجھا کہ اس کا ایک گرل فرینڈ سال تین عیسوی سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں کاشا کی ایک سہیلی آگئی جس کو میں جانتا تھا۔ مونیکا نہ صرف مجھے جانتی ہے بلکہ انگریزی بھی اچھی بولتی ہے۔ وہ بھی اسی خیال سے دیر سے آئی تھی کہ میری طرح ہاتھ لگا کر واپس چلی جائے گی۔

 کاشا نے اپنا فلیٹ یاسک مونیکا اور ایک تیسرے صاحب کو کرایے پر دے دیا تھا۔تیسرے صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ احتجاج کرنے اور جلسے جلوسوں وہ کاشا سے بھی ایک نمبر آگے ہیں۔ان کے بارے میں ایک قصہ سن لیں کہ ایک بار کام سے کسی دوسرے شہر جانا پڑا واپسی پر انکے ایک دوست نے پوچھا بھائی صاحب ٹور کیسا رہا؟بولے اچھا رہا دو بندوں سے کام تھا وہ ہو گیا،ایک دوست نے کھانا کھلا دیا اور واپسی پر ایک جلسہ ہو رہا تھا تو اس میں بھی شرکت کر لی۔ یہ صاحب آزاد فلسطین کے حامی ہیں اور یاسر عرفات والا مفلر ہر وقت گلے میں ڈالے رہتے ہیں۔ایک بار طیش میں آ کر وارسا کے ایک چوک پر ایک مصنوعی درخت پر چڑھ کر اس کو یاسر عرفات کا مفلر اوڑھا دیا اور پولیس والے بےچارے سمجھتے رہے کہ ترقیاتی کام چل رہا ہے۔

 ان کے باقی دو ہم فلیٹ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ موساد نے اپنا دائرہ کار یورپ تک پھیلانے کا اعلان کیا ہے اور یہ صاحب تو کونے والے آخری کمرے میں رہتے ہیں اگلی صف میں وہ دونوں ہیں اور موساد والے تو پہلے بندہ مارتے ہیں پھر نام پوچھتے ہیں(اس طرح آسانی یہ رہتی ہے کہ آپ کے کسی سوال کا جواب نفی میں نہیں ملتا)۔

 ان دونوں کی معیت میں میں بھی کھانے والے ہال میں چلا گیا اور چھ زواتی کا خون کر کے ایک چائے منگوا لی۔اب بندہ منہ دیکھتا بھی تو اچھا نہیں لگتا ناں۔ تھوڑی دیر بعد ان دونوں کے اصرار پر نیلی بیری اور کیلے کا مشترکہ جوس بھی پینا پڑ گیا۔گویا فائدہ فوداہ کوئی نہیں بل بھرا اٹھارہ زواتی۔ کچھ دیر کے لیے وہ دونوں کہیں چلے گئے تو کاشا نے مجھے اکیلے پا کر بتایا کہ ایسی پالٹیوں میں طریقہ یہ ہے کہ کسی کو فارغ پا کر اس سے گفتگو شروع کر دو۔اب سب خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں تو بڈھے سیاستدانوں نے گھیری ہوئی تھیں اور وہ ان پراس بھر پور طریقے سے رال ٹپکا رہے تھے کہ مجھ جیسے نو آموز کی دال گلنی ممکن نہ تھی۔میں دور سے گھاس نہ ڈالنے کے اشارے دیکھ کر نیلی بیری کے شیک سے ہی پیٹ بھرتا رہ گیا۔

ایک لڑکی ہی فارغ بیٹھی تھی لیکن وہ آتے ہوئے اپنے ساتھ دو کتے لیتی آئی تھی اور انہی کی ناز برداریوں میں مصروف تھی۔اب اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالیے گا کہ میری اہمیت کتوں سے بھی بدتر تھی بس بات یہ تھی کہ کتے اس کو مجھ سے پہلے مل گئے تھے ورنہ جرات تھی بھلا کتوں کی۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ پولینڈ میں ایک اچھی جان پہچان والا ، ملنے ملانے والا بندہ تھا وہ بھی ماسکو گیا۔جان چھوٹی۔