September 16, 2011

ایک نہیں اور سو سکھ

aik nahe aur sou(100) sukh


دنیا کا سب سے بڑا موجد آ ئن سٹا ئن یا نیوٹن کو سمجھا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک دنیا کا سب سے عظیم ترین موجد اور سائنس دان وہ تھا جس نے لفظ نہیں ایجاد کیاتھا۔ عام طور پر میں سیاست دانوں کے بارے میں بات نہیں کرتا کیونکہ ان پر لکھ کرمزاح پیدا کر بھی لیا تو کیا کمال کیا یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی مزاحیہ فلم کی کہانی سنا کر لوگوں کو ہنسا کر داد وصول کر لیں۔لیکن ایک نہیں سو سکھ سے جان چھڑا نے کے سب سے بہترین تدبیر جنرل ضیا الحق نے کی تھی جنہوں نے اپنے ریفرنڈم میں سوال پوچھا تھا کہ کیا آپ جنرل صاحب کی اسلا م کے لیے کی گئی کوششوں کو سراہتے ہیں ؟ نہیں کر کے دیکھیے۔ووٹ ڈالنے والوں کو نہیں کی اہمیت کا احساس تھا یا نہیں تھا ڈلوانے والے اس سے بخوبی واقف تھے(اس بات کو سیاسی معنوں کی بجائے نہیں اور ہاں کے معنوں میں لیا جائے فقط)۔

 یقین مانیے دنیا میں وہی گھاٹے میں رہا ہے جو ہاں پر کاربند رہا ہے۔ جم کیری کی یس مین Yes Manپر نہ جایئے وہ تو ویسے کافروں کا پراپگنڈا ہے۔ایک صاحب ہیں خاصے اسمارٹ بنتے ہیں۔ انہی کی زبانی سنیے۔میرا ایک دوست تھا میرے ساتھ کام کرتا تھا کہ اس کی شادی طے ہو گئی ۔اب شادی جو طے ہو گئی تو وہ میرے پاس آیا کہ بھائی آپ کو پتہ ہے میری شادی ہے اور میرے مالی حالات ایسے اچھے بھی نہیں. آپ کھاتے پیتے بندے ہیں لہذا مجھ کو کچھ پیسے ادھا ر دے دیں میں ماہانہ بنیاد پر اپنی تنخواہ سے کٹواتا رہوں گا ۔ میں اسکی زبانی اپنی امارات کا سن کر ناں نہ کر سکا اور اسکو پیسے دے دیے۔ شروع کے تین چار ماہ میں نے پیسے ہی نہ مانگے بعد میں اتفاق سے وہ نوکری چھوٹ گئی تو اس رابطہ بھی ختم ہو گیا۔جس روز میری اپنی شادی تھی وہ صاحب دوبارہ وارد ہوئے اور بولے بھائی کچھ پیسوں کی ضرورت ہے دے دیں تو مہربانی ہوگئی۔ اب پہلی بار وہ نہیں کر دیتے تو ان صاحب کا بھی بھلا ہو جاتا کہ وہ شادی کے عذاب سے بچ جاتے اور یہ دوسری بار ادھار دینے کی تکلیف سے۔ لیکن اگر آپ اس بات کو گپ سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ کم از کم ہمارے کیس میں تو یہ حاتم طائی صاحب ادھار لینے والے ہی ثابت ہوئے اور ہر بار ہماری جیب کی حیثیت کےمطابق ہی ادھار مانگتے ہیں تاکہ نہیں کرتے بھی کم از کم ہمارا دل ضرور دکھے۔

 ایک نہیں اور سو سکھ پر حلقہ احباب میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک صاحب نے درفطنی چھوڑی کہ اس ضرب المثل کا ماخذ زراعت ہے۔ہم سب ہکا بکا رہ گئےانہوں نے وضاحت فرمائی کہ یہ سب سے پہلے ٹریکٹر کے پیچھے ٹرالیوں پر لکھا گیا ہے اور چونکہ ٹرالیاں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں لہذا اس کا ماخذ زراعت ہی ہے۔ ایک شریر طبع شخص اس انکشاف کو برداشت نہ کر سکا اور بول اٹھا کہ "جو ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا وہ"؟ وہ صاحب بھی اپنی تھیوری کو درست ثابت کرنے پر تلے تھے گویا ہوئے کہ "ان ٹرکوں پر صرف زرعی اجناس ڈھونے کا کام لیا جاتا ہے"۔ بس اس دن سے نجانے کیوں جس ٹرک کے پیچھے ایک نہیں سو سکھ لکھا ہو اندر جھانکنے کا دل کرتا ہے۔

 ایک نہیں سو سکھ کی کلاسیک مثال میرے دوست کا نوکر ہے جوچند روز قبل اپنے مالک یعنی میرے دوست کو کہنے لگا کہ "چوہدری صاحب! یہ شمو بڑی کمینی ہے"۔ اب ایک جوان لڑکی کے بارے میں پتہ چلے کہ وہ کمینی بھی ہے تو نوجوان چوہدریوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی خبر کیا ہوگی۔ چوہدری صاحب نے بہرحال اپنا وقار سنبھالتے ہوئے پوچھا "بھلا کیسے"؟ وہ بولا مجھے کہتی ہے "آئی لب یو" (آئی لو یو I love You)۔
" پھر"؟
" پھر کیا، میں نے اس کو اڑنگا دے کر نیچے گرایا اور ریت کی مٹھی بھر کر اس کے منہ میں ڈال دی اور کہا ہن کہہ کہ ویکھ۔۔چوہدری صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ یہ کُت خانہ ہے ایک نہیں تے سو سکھ۔"۔

 خود ہی سوچ لیں لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں اور کہانی ختم تے پیسہ ہضم۔ لڑکی اپنے والدین کے مرضی سے شادی کر کے دھڑادھڑ ملکی افرادی قوت میں اضافہ کی جارہی ہے اور لڑکا شاعر بن کر ان سب کو اردو کے پرچہ ”ب” میں فیل کرانے کا باعث جاتا ہے۔اب ادھر لڑکی نے ہاں کی نہیں اور زمانہ بیچ میں کودا نہیں اوربواسیر کے بعد سو بیماریوں کی دوسری بیماری کے مصداق شیطانی چکر شروع جس پر تمام مخرب الاخلاق اور ناہنجار ڈراموں فلموں کی بنیاد ہے۔ یارو اور تو اور نکاح کے وقت تین بار چانس دیا جاتا ہے کہ ایک نہیں تے سو سکھ۔۔