May 1, 2012

ملتان سے لاہور

Multan se Lahore

ملتان سے لاہور جانا ہو تو ہر وہ راستہ جو شہر سے باہر جاتا ہے گھوم پھر کر لاہور کو ہی جاتا ہے۔ لاہور روڈ تو ویسے ہی لاہور جاتا ہے پر بہاولپور ،مظفر گڑھ یا بند بوسن والے رستوں پر جائیں تو لاہور پہنچنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی۔شاید کوپر نیکس کو بھی لاہور جانا پڑا تھا جس پر اس نے دریافت کیا تھا کہ دنیا گول ہے ۔اور کسی بھی شہر میں جا کر اس شہر کا کوئی علاقہ پوچھیں تو آپ کو شاید تسلی بخش طور پر راستہ نہ سمجھا سکیں پر لاہور کا راستہ سب جانتے ہوں گے۔

لاہور سے ملتان کا فاصلہ چاہے جتنا ہو جانا ہے تو برداشت کرنا پڑے گا نہیں جانا تو سامنے والی سڑک کے پار ہی کیوں نہ ہو بے معنی ہے اور کسی نے کہہ دیا کہ 340 کلومیٹر ہے تو آپ انچی ٹیپ لیکر ماپنے سے تو رہے اب۔


جب ہم نے لاہور کے بارے میں اسطرح کی تمام معلومات حاصل کر لی تو اپنا بوریا بستر سمیٹا اور گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا اور خود لاہور کی طرف عازم سفر ہوئے۔

اب اگر آپ سوچیں کہ ہمارے لاہور آنے کا مقصد کیا تھا تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا تو بدقسمتی سے ہم نے بھی یہ سن رکھا تھا لہذا ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ عمر کے پچیسویں سال میں وقت آ گیا ہے کہ ہم کو پیدا ہو جانا چاہیے۔

لاہور اور ملتان کے راستے میں دو چائے کے ڈھابے ، 2 ٹرک اسٹیشن ،تین لاری اڈے اور 2 پیٹرول پمپ قابل دید مقامات آتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارا سامی طیارہ سواریوں کے لین دین نہ ہونے کے باوجود وہاں کیوں رکتا؟
خدا خدا کرکے لاہور پہنچے اور واقعی خدا کی مہربانی سے صیح سلامت پہنچے اور ہمیں احساس ہوا کہ پیدا ہونا کتنا مشکل کام ہےاور ہمیں تمام عورتوں سے ہمدردی سی ہونے لگی۔لیکن میرے ہمسفر میری نیک تمنائوں کو دو سیٹیں پیچھےبیٹھی خواتین کی مہربانی سمجھ رہے تھے جنکو مسلسل تکنے کی چاہ میں ہم گردن کا بل نکلوا چکے تھے۔

پرانے زمانے میں لاہور شہر کے گرد فصیل ہوا کرتی تھی جسکو دیکھ کر پتہ لگ جاتا کہ لاہور آگیا ہے لیکن حکومت نے عوامی مفاد کی خاطر اینٹوں کی بجائے سی این جی اسٹیشنوں کی فصیل تعمیر کروا دی ہےکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے لیکن چونکہ ہم پہلی بار آئے تھے اس لیے یہ سند ہمارے کام نہ آسکی اور ہمیں تب پتہ چلا جب ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں نہ بادام تھے اور نہ باغ تھا پر کہلاتا بادامی باغ تھا۔جہاں پہنچ کر کنڈیکٹر نے لوگوں کا سامان دھڑادھڑ باہر پھینکنا شروع کردیا اور ہمیں الہام سا ہوا کہ یا تو بس میں آگ لگ گئی ہے یا پھر لاہور آ گیا ہے۔

لاہور جائیں تو سب سے پہلے سی این جی اسٹیشن آتے ہیں ، پھر ٹریفک کا اژدہام آتا ہے، پھر بڑی بڑی کوٹھیاں جہاں کمرے زیادہ اور بندے کم ہیں پھر چھوٹے چھوٹے مکانات جہاں ایک ایک کمرے میں درجن بھر افراد رہتے ہیں ۔

لاہور شہر کا نام لا ہور کیوں ہے اس بارے میں سینکڑوں مفروضے پائے جاتے ہیں پر مجھے جو دل کو لگا وہ یہ تھا کہ جب بھی لاہوری کھانا کھاتا ہے تو ایک ہی آواز سننے کو ملتا ہے کہ لا ہور لا ہور۔
مال روڈ پر جائیں تو چڑیا گھر، گورنر ہائوس ،الحمرا تھیٹر، اسمبلی ہال اور عجائب گھر ساتھ ساتھ بنے ہیں کہ تفریح کے تمام زرائع ایک ہی جگہ میسر ہوں پر میرے جیسا بندہ الحمرا تھیٹر کی بجائے اسمبلی ہال جا نکلتا ہے اور ڈرامے کی تعریف کے ڈونگرے برساتا باہر آتا ہے اور تمام جگہوں کے چکر کے بعد سوچتا ہے کچھ جانور چڑیا گھر کی بجائے کہیں اور کیوں بند کیے گئے ہیں۔

لاہور شہر جس رفتا ر سے پھیل رہا ہے لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب ملتان اور لاہور ہمسائے ہو جائیں گے۔

لاہور میں دو دن رہنے کے باوجود جب نہ لاہور کا بھید کھلا اور نہ ہی اس بات کا کہ لاہور اور پیدائش کا تعلق کیا ہے تو لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق ہم بغیر باداموں اوربغیر درختوں والے بادامی باغ پہنچے اور سامی طیارے کے موڑھے پر سوار ہو کرواپس ملتان کو روانہ ہو گئے کہ بخشو بی مانو چوہا لنڈورا ہی بھلا ہم بغیر پیدا ہوئے ہی اچھے ہیں۔ (کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ یہی سوچ تو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہماری ولادت با سعادت ہو چکی ہے)۔