July 11, 2012

صوتی ڈرامہ کیسے نہیں بنانا چاہیے



Souti (Audio) drama kaisay nahe bnana chahiye

پس تحریر: ڈرامہ کا لنک درج زیل ہے۔
https://www.dropbox.com/s/76ro1q23impcfv1/Final%20Campus.lite.mp3
صوتی ڈرامہ ڈائونلوڈ کریںڈراپ باکس
https://drive.google.com/open?id=0ByP38Bgi3zyqV0t4Y0lwSzcxVU0
صوتی ڈرامہ ڈاؤنلوڈ کریں گوگل ڈرائیو

آپ نے یہ تو کئی جگہ پڑھا ہو گا کہ فلاں کام کیسے کیا جائے ،ڈھمکاں کام کرنے کے طریقے لیکن آج ہمکو ذاتی زندگی سے ایک مثال کے زریعے بتائیں گے کہ صوتی یعنی آڈیو ڈرامہ کیسے نہیں بنانا چاہیے۔ امید ہے یہ واقعات پڑھ کر اگر آپ آئندہ کبھی آڈیو ڈرامہ بنانے لگیں گے تو ان چیزوں سے بچائو کا اہتمام پہلے ہی کر لیں گے.


بہا الدین زکریا یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کرتے ہوئےاچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی ،کبھی کبھار ایک آدھ اچھا جملہ دماغ میں آنے پر اسکی مت مار کر آزاد نظم بنا کر خوش ہو لیتے تھے کہ ایک روز ہمارے ایک پروفیسر صاحب ایک موٹے تازے گورے چٹے لڑکے کو ساتھ لیکر آئے آج یہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے سوچا کہ آپ سے ملوائوں یہ وہ ہیں جنہوں نے ماس کام میں پہلا اور آخری آڈیو ڈرامہ بنایا تھا جو کہ ویلنٹائن کے موضوع پر تھا اور آج بھی ایک ریڈیو چینل پر ہر ویلنٹائن کے موقع پر چلتا ہے۔نتیجہ ظاہر ہے ساری کلاس ان پر واری ہوئے جا رہی تھی۔

میرے عزیز از جان دوست میاں نعیم صاحب کلاس کے بعد کہنے لگے کہ چھا گیا ہے بندہ یار، اب میری زندگی کا اصول رہا ہے کہ کسی سے کبھی امپریس نہیں ہونا خواہ وہ کے ٹو پر موت کا کنواں ہی کیوں نہ پرفارم کر کے آیا ہو تو میں نے کہا یہ کونسا کمال ہے، آڈیو ڈرامہ بنانا کونسا مشکل کام ہے؟ اس پر میاں صاحب کا پارہ 500 سینٹی گریڈ کے نزدیک نزدیک پہنچ گیا اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسوقت میں ان کو تھرمامیٹر لگاتا تو تھرمامیٹر کا وہی حال ہوتا جو ایک بار میں نے 108 سینٹی گریڈ پارہ دیکھنے کی چاہت میں تھرمامیٹر جلتی آگ میں گھسیڑ دیا تھا ۔
وہ غصے میں کہنے لگے یہی تو تمھاری باتیں ہیں خود کر کے دکھا دو اگر اتنا ہی آسان ہے۔

 دس دن بعد میں میاں صاحب کے پاس گیا اور کاغذوں کا ایک پلندہ تھماتے ہوئے بولا یہ پڑھیں یہ کیا ہے؟ آڈیو ڈرامے کا اسکرپٹ ہے۔ اب آگے بھی میاں صاحب تھے بولے انہوں نے تین چار صفحے پڑھے اور بولے اسکرپٹ میں جان تو ہے میں نے کہا یار پورا تو پڑھ لو بولے بھائی ہم تو برقع دیکھ کر لڑکی کا حسن بیان کر سکتے ہیں۔ جس پر ہم نے چپ چاپ ڈرامے کی ہدایت کاری انکو سونپ دی۔

ہوسکتا ہے میرے سابقہ کلاس فیلوز انکو ہدایت کار بنانے کا سبب اس واقعے کی بجائے کلاس میں میرا کوئی اور قریبی دوست نہ ہونا کو قرار دیں مگر ایسی باتوں پر غور نہ کریں تو اچھا ہے۔

 اب دوسرا اور سب سے مشکل مرحلہ یہ تھا کہ کردار یا صدا کار کہاں سے آئیں؟ ڈرامے میں پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں چاہییں تھیں اب لڑکے تو مل ہی جاتے پر لڑکیوں کا ہمارے ساتھ ایسا سلوک تھا کہ ہم مصطفیٰ کھر ہوں بلکہ ان سے بھی نو دس لڑکیاں راضی ہوں گئی تھیں یوں سمجھیں کہ ہم بلال کھر ہوں جس نے لڑکیوں پر تیزاب پھینکا ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے میرے دوسرے عزیز ترین دوست نعمان خانصاحب میدان میں اترے جو ہمارے چار سالہ انجینرنگ کرنے کے دوران بی اے کر کے ماس کام میں ہمارے سینئر ہوگئے تھے ۔انہوں نے اپنے ایک نیک نام کلاس فیلوکو یعنی ایک اور ہمارے سینئر کو جنکو اس کہانی میں سینئر صاحب لکھا جائے گا کو آگے کیا جو ویسے تو لڑکیوں کے معاملے میں خاصے بدنام ہو چکے تھے لیکن لڑکیاں پھر بھی ان پر اعتماد کرتی تھیں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی اپنے ایک اور کلاس فیلو کی اور چار لڑکیوں کی خدمات پیش کیں اور ہمارے ڈرامے کی ریہرسل شروع ہو گئی۔

تاہم ہمیں ڈرامہ صداکاروں کے ملنے کی خوشی سے زیادہ اس بات کا افسوس تھا کہ چاروں لڑکیاں ہماری ہم جماعت تھیں گویا ہمارے سے زیادہ پرائے قابل اعتبار تھے۔ دوسرا اس بات کا بھی افسوس تھا کہ وہ سینئر صاحب اپنی ہم جماعت لے آتے تو شاید ادھر ہی کوئی دال شال کے گلنے کا امکان پیدا ہوجاتا مگر اپنی ایسی قسمت کہاں ۔

 ادھر ڈپارٹمنٹ میں جسکو پتہ لگتا کہ ہم آڈیو ڈرامہ بنا رہے ہیں یا تو حسرت بھی آہ بھرتا گویا ہم راجہ اندر بن گئے ہوں یا پھر جل کر کہتا لڑکی پھسانے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ اب ریہرسل شروع ہوئی تو ہمار ے سینئر صاحب اس معاملے میں بھی ہمارے سینئر نکلے کہ وہ ریڈیو پر چند ایک پروگرام کر چکے تھے اوپر سے وہ شعر لکھتے اور ادیب بھی بنتے تھے لہذا انہوں نے ہمارا دل رکھتے ہوئے یکسر تو ہمارا اسکرپٹ مسترد نہ کیا البتہ یہ اعتراضات ضرور داغ دیے کہ ڈرامہ 45 کی بجائے 30 منٹ کا ہونا چاہیے ڈرامہ میں شعر نہ ہونے چاہیں ڈرامہ میں کمرشل ازم کی شدید کمی ہےاور انہوں نے ایسی تصویر کھینچی جیسے آیوڈین کی کمی والے اشتہار میں مریل سا بچہ ہوتا جسکو دیکھ کر اسکی اماں جان بھی کہہ اٹھتی ہیں میرا بچہ ایسا کیوں ہے؟

اوپر سے انہوں نے ریہرسل میں ہدایات بھی دینا شروع کر دیں اب چونکہ ہم خود بھی اپنی مثال آپ ہیں کہ تب ہمیں وصی شاہ یا امجد اسلام امجد صاحب بھی آکر کہتے کہ بیٹا آپکے اسکرپٹ میں فلاں فلاں غلطیاں ہیں تو ہم انکو بھی ہوں ہاں کر کے اپنی پسند کا ہی ڈرامہ بناتےتو ہمارے سینئر صاحب کس قطار میں تھے ۔جب انہوں نے ہماری ہٹ دھرمی دیکھی تو وہ ہمکو ایک ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر کے پاس لے گئے تاکہ میری غلطیاں مزید نمایاں ہو سکیں ۔ اب خدا معلوم وہ بھی ان سے تنگ تھا یاکوئی اور وجہ تھی اس نے تمام اعتراضات کو یکسر مسترد کر دیا اور ہمارے اسکرپٹ کو ایک دم فٹ قرار دے دیا۔ واپسی پر ہم نے بھرپور کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو کھلی پیشکش کرتے رہے کہ بھائی جان آپ کہیں تو تبدیلیاں کر لیتے ہیں۔لیکن وہ ان پروڈیوسر صاحب پر ایمان لا چکے تھے کہ ہم لکھنے لکھانے سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔

اس کے بعد ہم نے میاں صاحب کی شرافت کے پیش نظر ہدایات عارضی طور پر اپنے ہاتھ میں لیں اور ان سینئر صاحب کی دخل اندازی کو چند سخت جواب دے کر بند کر دیا۔ حالانکہ ہم کو ڈر تھا کہ کہیں وہ ڈرامہ چھوڑ ہی نہ دیں اس صورت میں ہمکو چھ سات بندوں کا نقصان اٹھانا پڑتا لیکن تب تک ان کو نعمان خان نے بھی ٹھنڈا کیے رکھا اور پھر انکو بھی یقین آگیا کہ یہ لڑکی پھنساؤ پراجیکٹ نہیں اور آہستہ آہستہ ہم نے باقی لوگوں کا بھی اعتماد حاصل کر لیا اور لڑکیوں کو یقین آگیا کہ ہم اچھے خاصے شریف انسان ہیں اور لڑکیاں کھانا ہمارا مشغلہ نہیں۔

سچی پوچھیں تو اگر ہم اب ڈرامہ پروڈیوسر بنیں تو ان 9 میں کم از کم 7 کو تو ریڈیو اسٹیشن میں ہی نہ گھسنے دیں لیکن تب ہمارے پاس کوئی اور آواز نہ ہونے کے باعث ہمکو وہی ضیا محی الدین سے کسی طور کم نہ لگتے تھے- لڑکیوں کو ایک ایک لفظ پر محنت کرائی گئی کہ یہاں تک کہ انکو اور ہمکو انکا اسکرپٹ زبانی یاد ہوگیا۔ لڑکے البتہ اپنے عشقیہ مناظر کے جملوں کے مزے لے لے کر خوش ہوتے رہے۔

لڑکیوں میں ایک لڑکی باقی تین کی لیڈر قسم کی سہیلی تھی اور وہ جب بھی ناراض ہوتی دھمکی دیتی کہ کل سے ہم چاروں ریہرسل پر نہیں آئیں گی۔انکی آپس میں لڑائی ہوتی تو تین کہتیں اس ایک جس سے لڑائی ہوئی ہے کو نکالو وگرنہ ہم تین نہیں آئیں گی۔ تو ہمیں اکثر انکے درمیان نہ صرف صلح صفائی بھی کرانی پڑتی بلکہ آپسی لڑائی سے بچنے کی افادیت پر بھی تبلیغ کرنی پڑتی اور سب سے بڑھ کر اس لیڈرنی کو خوش بھی رکھنا ہوتا تھا۔

تمام تر مسئلوں کے باوجود ڈرامہ بن ہی گیا۔ جب ڈرامہ بن گیا تو ہم نے ایک بار سنا دوسری بار سنا تیسری بار سنا جب دس بارہ بار سن کر بھی کوئی خاص بوریت نہ ہوئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ کلاس والوں کو بھی اس شہکا ر کا نظارہ کرایا جائے۔ اور ڈرامہ کلاس میں ایسا پسند آیا کہ ڈپارٹمنٹ کی ہر کلاس کے ہر بیچ میں سنوایا گیا۔ البتہ ہماری پی آر PR چونکہ تب بھی صفر تھی اب جب مارکیٹنگ میں PhD کر رہا ہوں تب بھی صفر ہے لہذا اسکو ایف ایم پر بیچنا تو دور کی بات مفت بھی نہ چلوا سکے۔

شکرہے میاں صاحب کو کبھی خیال نہیں آیا ورنہ وہ کہتے اب بیچ کر بھی دکھاؤ ناں لیکن یہاں پر بھی ہم نے ایک گھڑا گھڑایا جواب تیار کر رکھا ہے کہ کبھی بیچنے کے مقصد سے بنایا ہی نہیں تھا اس لیے پہلے ڈرامے کو ہمارے ڈرامے پر 25 ہزار کے عوض بکنے کے باوجود کوئی فوقیت نہیں ہے۔

ڈرامہ سننے کے بعد اکثر لوگوں نے کہا کہ سب سے بڑی کمزوری ہماری سینئر صاحب کی آواز تھی جو کسی طور ہیرو کی آواز کو مناسب نہ لگتی تھی۔البتہ ہم ایسا نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے خیال میں آوازیں تو اکثر ہی فارغ تھیں البتہ ان سینئر صاحب نے دوست کچھ زیادہ بنا چھوڑے تھے

ڈرامہ چلنے کے بعد ہمیں کوئی اس چٹے گورے موٹے تازے لڑکے سی شہرت تو نہ ملی پر اکثر سننے والوں نے ڈرامے کو اچھی کاوش قرار دیا۔البتہ ہم اپنے آپ سے وہ لڑکی پھنساؤ لیبل پوری طرح نہ اتار سکے۔ ایک حضرت نے مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا لڑکی پھنسانے کی اچھی کوشش کی ۔ ویسے کتنی پھنسیں پروڈیوسر صاحب۔ اب ایک ڈرامے کی بے عزتی اوپر سے مفت کا الزام کہ ادھر تو کسی کلی کیا مینڈکی نے آنکھ بھر کر نہ دیکھا (مینڈکی سے مراد میرے ڈرامے کی خواتین صداکار ہرگز نہیں)،جی تو آیا کہ ایک چھوٹا موٹا ڈرامہ اور چلا دیا جائے لیکن میری بزدلی جسکو میں نے غیر متشددانہ طبعیت کا نام دے رکھا ہے حسب معمول آڑے آئی اور میں چپ کر گیا۔ پر سنا ہے وہ صاحب آج کل خود ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر ہیں۔ مما سچ کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے