July 7, 2014

نیا قانون

Niya Qanon


خبر:پاکستان کی قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے نئے قانون ’پروٹیکشن آف پاکستان بل 2014 ‘ کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بل دو سال کے لیے نافذ العمل ہو گا
مطابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ترمیمی بل کے تحت گریڈ 15 سے کم کے افسر کو جدولی جرائم میں ملوث کسی مشکوک شخص پرگولی چلانے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا اور کسی کی موت واقع ہونے کی صورت میں اس کی عدالتی تحقیقات لازمی قرار دی گئی ہیں۔
جدولی جرائم
خود کش حملے اور آتش زنی
جوہری تنصیبات، فوجی چوکیوں، اور دفاعی تنصیبات پر حملے
محکمۂ صحت کے ارکان پر حملے
ڈیموں اور بجلی کے نظام اور مواصلاتی نظام پر حملے
یرغمال بنانے یا یرغمال کرنے کی کوشش
سائبر کرائم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق

مجھے شاہ رخ جتوئی سے انتہائی ہمدردی ہے۔ مجھے رینجر کے ان حکام سے بھی دلی ہمدردی ہے جنہوں نے کراچی میں پارک میں ایک بے گناہ شخص کا قتل کیا اور مقدموں کی زد میں آگئے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر شخص سیکھتا ہے اور ہماری حکومت بھی رینجرز حکام کی سزاؤں اور جتوئیوں کے کروڑوں روپے خرچ کرا کر معاملہ سمجھ گئی ہے اور آخر کار نیا قانون پاس کرا دیا گیا ہے جس کی رو سے سترہویں گریڈ سے اوپر کا کوئی بھی افسر کسی مشکوک شخص کو گولی مارنے کا حکم دے سکتا ہے۔

چونکہ ہمارے ملک میں حزب مخالف بھی ہے اور حزب مخالف اکثر عوام کے درد میں پہروں جاگتی رہتی ہے لہذا انہوں نے شدید احتجاج کیا اور آخر حکومت کو ان کے سامنے جھکنا پڑا اور قانون میں ترمیم کی گئی جس کی رو سے اب گولی کھا کر مرنے کے بعد اس کی عدالتی تحقیقات بھی ہوں گی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارا ایک کزن بڑا زود رنج تھا بات بے بات روٹھ جاتا تھا اور آپ کو پتہ ہے ایسے شخص کو دوسرے لوگ زیادہ ہی تنگ کرتے ہیں ، جب اس کو غصہ آتا تھا تو وہ کہتا تھا میرے بابا کے پاس بندوق ہے لے آؤں؟ شکر ہے ہم اب بچے نہیں اور اس کے بابا سترہویں گریڈ کے افسر نہیں ۔۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

اب اگر جب شاہ زیب کا قتل ہوا اور یہ قانون ہوتا تو کتنی آسانی ہوتی کہ ایک سترہویں گریڈ کا افسر جو کالج میں پڑھانے والا استاد بھی ہو سکتا ہے کہتا کہ بھائی بندہ ہی مشکوک تھا۔ اتنی خوبصورت لڑکی کو لے کر جارہا تھا مجھے کیا پتہ بہن ہے میں سمجھا اغوا کر کے لے جارہا ہے میں نے گولی مار دی۔ لوجی نہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور پیسے بھی بچ گئے قانون کا بھی بول بالا ہو گیا اور بچوں کی ٹشن بازی بھی قائم کی قائم۔

بہت سارے لوگوں نے وڈیرے کا بیٹا سن رکھا ہوگا اب انہیں تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کی اہمیت معلوم ہوگی اور انہیں احساس ہوگا وڈیرے کا بیٹا ہونے سے سترہویں گریڈ والے کا بیٹا ہونا زیادہ کارآمدبات ہے۔

مشکوک افراد کی تفصیل میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سائبر کرائم کر رکھا ہے۔ اب کبھی نہ کبھی آپ نے کسی لڑکی کو ایڈ کرنے کی کوشش کی ہوگی، کسی کو الٹ پلٹ ای میل کی ہوگی، انٹرنیٹ پر الٹے سیدھے کام کیے ہوں گے اور نہیں بھی کیے ہوں گے تو کروانا کون سا مشکل کام ہے تو بس آپ کا مشکوک ہونا بھی ثابت ہو گیا۔ یوں ایسے لوگ جن کو کمپیوٹر پر مہارت حاصل ہے کی بھی اہمیت اجاگر ہو گی اور ان کی وقعت اور قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوگا کہ آخر گولی مارنے کے بعد عدالت کو ثبوت بھی تو دینے ہوں گے۔

سائبر کرائم کے علاوہ جو لوگ محکمہ صحت کے ملازمین کو تنگ کرنے یا ان کے کاموں میں رکاوٹ بنتے وہ بھی مشکوک ہیں تو گویا آئندہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنی بہنیں سمجھیں وگرنہ۔ تو بھائیو پہلے جو کام غیرسرکاری طور پر ہوتا تھا اب وہ سرکاری طور پر ہوگا ۔ آج کے بعد کسی سے لڑائی سوچ سمجھ کر کریں، کسی سے تلخ کلامی سے گریز کریں، گاڑی چلاتے ہوئے ریس لگانے سے باز آجائیں، کسی لڑکے کو آؤٹ کرنے کے بعد یا ہرانے کے بعد نہ چڑائیں، جس لڑکی پر دوسروں کی نظر ہو اس سے دور رہیں، کلاس میں فرسٹ آنے سے گریز کریں، کوئی قطار توڑ کر آگے نکلے تو چپ کر کے کھڑے رہیں، بڑی گاڑیاں دیکھ کر مودبانہ رویہ اختیار کر لیں، بڑے لوگوں کے قریب جانے سے گریز کریں کہ کوئی بھی غصہ کھا کر آپ کو مشکوک قرار دے سکتا ہے اور مشکوک کا ایک ہی علاج ہے درد کا حل دو گولی نئے قانون کی۔۔۔۔

اب اگر یہ قانون صرف آرمی یا رینجرز والوں کے لیے ہوتا تو سمجھ آتی تھی لیکن سترہویں گریڈ میں تو کالج کا پروفیسر بھی آتا ہے۔ تو گویا ہر مسئلے کا ایک ہی حل ۔۔۔۔

قانون کا نام ہے تحفظ پاکستان بل اور ہے بھی درست کہ پاکستان ہے ہی امیروں کا، وڈیروں کا، افسروں کا، بڑے لوگوں کا، بڑے لوگوں کے بچوں کا۔ لہذا میرے بھائیو اور بہنو آئندہ دو سال احتیاط کا دامن تھامے رکھیں۔

پس تحریر: میرے بھلا کون کون سے پیارے رشتے دار سترہویں گریڈ سے اوپر کے افسر ہیں؟؟
مزید پس تحریر: اگلے ہفتے سے سفرناموں کی واپسی ہو گی