Agli manzil Lisbon
میری پروفیسر کا حکم ہوا کہ ایسا کرو کہ دوسرا سپر وائزر Supervisor ڈھونڈو جو کہ آپ کے ہی شعبےکا ہو تاکہ آپ کو پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے آسانی ہو۔ میں نے پروفیسر ڈھونڈنا شروع کیے اور ان کی تلاش میں دو چیزیں مد نظر رکھیں کہ ایک تو وہ برطانیہ England یا امریکہ America کے نہ ہوں دوسرا ایسٹونیا Estonia کے اور ایسٹونیا کے قریبی ممالک کے ساتھ کے نہ ہوں اور آخر میں نے ایک فہرست جس میں آسٹریلیا Australia، پرتگالPortugal، ترکی Turkey اور فرانس France کے پروفیسر شامل تھے اپنی سپر وائزر کو تھما دی۔ اس نے کانٹ چھانٹ کر ایک پرتگالی پروفیسر کو چنا اور میں نے دل میں سوچا پی ایچ ڈی اپنی جگہ پرتگال کا چکر پکا ہو گیا۔
یونیورسٹی نے اکتوبر سے باقاعدہ سپروائزری کا وقت مقرر کیا لیکن میں نے نئے پروفیسر صاحب کو پیشکش کی کیوں نہ ہم پہلے ہی گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ایک ملاقات کر لیں تاکہ اکتوبر میں جو کچھ کرنا ہو وہ پہلے ہی طے کر لیں۔ پروفیسر صاحب نے حامی بھر لی اور جون کا تیسرا ہفتہ ملنا طے پایا۔
میں نے جمعہ کو ٹکٹ لی اور اگلی رات کی پرواز ملی۔ میں نے پروفیسر صاحب کو ای میل کر دی کہ بھائی میں آ رہا ہوں اور معافی کہ ایک روز پہلے مطلع کر رہا ہوں لیکن آپ نے خود ہی کہا تھا کہ تیسرے پفتے میں ملیں گے اور پیر سے تیسرا ہفتہ ہی شروع ہو رہا ہے۔
اتوار رات ہیلسنکی Helsinki کے ہوائی اڈے پر گزاری۔ کچھ فلمیں دیکھیں کچھ میچ دیکھا اور رو رو کرصبح کے چھ بجائے اور جہاز میں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کے میرے ساتھ دو گوریاں بیٹھیں تھیں نیند کو پیارا ہو گیا کہ اب اگلی نیند کا موقع کم از کم دوپہر چار بجے کے بعد ہی ملنا تھا جب ہوٹل کی بکنگ کا وقت شروع ہونا تھا۔ پرتگالی فضائی کمپنی ٹیپ پرتگال Tap Portugal میں پہلی بار حفاظتی ویڈیو لگی بندھی نہیں تھی۔ بلکہ اس کا آغاز ایسے ہوتا تھا جیسے فٹ بال کا میچ شروع ہو رہا ہو اور وہ کسی ریفری کے انداز میں ہی ہدایات دیتے تھے۔
لزبن پہنچا اور ہوٹل روانہ ہوا اور ایک بار پھر وہی کہانی تھی کہ میں جلدی پہنچا تھا اور ہوٹل والوں کے مطابق کمرہ لینے کا وقت چار بجے تھا۔ تاہم میں اب ایسے موقع کا عادی ہو چکا تھا اور میں نے کہا یہ سنبھالو بیگ میرا اور میں چلا لزبن گھومنے۔
پہلی منزل میں نے چڑیا گھر چنی اور پیدل ہی چل پڑا حالانکہ ہوٹل استقبالیے پر کھڑی خاتون نے خاصی کوشش کی کہ میں بس یا میٹرو پر چلا جاؤں پر میں سمجھ گیا تھا کہ لزبن کی پبلک ٹرانسپورٹ کی سازش ہے کہ ہمارے یورو خرچ کرائے جائیں۔
|
شہر گردی |
|
چڑیا گھر کا بغیر ٹکٹ والا گیٹ |
|
کالا راج ہنس |
|
پیلی چھاتی والا بندر |
|
اصل شیر یہ ہوتا ہے |
|
پینگوئن |
|
سیل یعنی اوود بلاؤں کا کھانا اور ناچ گانا |
|
سفید دم والا بندر |
|
نوجوان ریچھ |
|
پیلیکان یعنی سارس جنکے بارے کہتے ہیں کہ خوراک نہ ملنے پر وہ اپنا گوشت اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں |
|
گینڈے کا بچہ |
|
عربی اوریکس |
|
الو کا پٹھہ |
|
اوکاپی |
|
فلیمنگو |
|
میرکات۔ اس جانور کی ہر ادا مزاح سے بھرپور ہے |
|
ممتا تو کچھوے میں بھی پائی جاتی ہے |
|
شکرے کا کرتب |
|
لال پر والا طوطا دیکھو |
|
بہت تلخ ہیں طوطا چڑیا گھر کے اوقات |
|
ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا |
لیکن اللہ جانے نقشے میں خرابی تھی ، رات بھر جاگنے کی وجہ سے دماغ گھوماؤ کا شکارہو چکا تھا یا لزبن ہی کوئی ٹیڑھا میڑھا تھا کہ پہلے دو چوک گزرنے کے بعد ہی نہ کچھ نقشے کی سمجھ آرہی تھی نہ کچھ راستے کی۔ دو کلو میٹر میں چار لوگوں سے پوچھ کر بالآخر چڑیا گھر پہنچا لیکن ایک اور مشکل کا سامنا تھا مجھے جب میں دو کلومیٹر کی مشکلات پار کر کے آیا۔ چڑیا گھر کے گیٹ پر کوئی ٹکٹ والا نہ تھا اور اندر داخل ہو کر کالا ہنس راج اور پیلی چھاتی والا بندر خوش آمدید کہنے کو بیٹھے تھے اور مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ کیا چڑیا گھر مفت ہے؟ کیا میں صبح جلدی آگیا ہوں اور ابھی ٹکٹ والے نہیں پہنچے۔ اس سے قبل رات بھر کی بے خوابی مزید بے وقوفانہ خیالات دماغ میں انڈیلتی ٹکٹ کاؤنٹر آ گیا اور ٹکٹ بھی صرف اٹھارہ یورو۔ میرا دل کیا کہ جہاز پکڑ کر واپس تالن ہی چلا جاؤں ۔ اٹھارہ یورو اتنا ظلم۔ مجھے اب سمجھ آئی کہ پہلے گیٹ پر ٹکٹ کیوں نہیں کہ وہ گھیرنے کا ایک طریقہ تھا کہ ایک بار بیٹا اندر تو آؤ۔
اور آپ جانتے ہیں کہ مروت نرا گھاٹے کا سودا ہے اور مروت میں آکر ایک بار پھر اٹھارہ یورو ادا کیے اور چڑیا گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
چڑیا گھر سے فارغ ہو کر میں نے سوچا قدیمی شہر کی سیر کی جائے اور پیدل آگے کو چل پڑا۔ اس کے بعد مجھے کچھ پتہ نہیں کہاں گیا کہاں نہیں گیا بس ایک مسجد آئی ، ایک لزبن میں داخلے کے گیٹ آئے اور ایک مجسمے پر پہنچ گیا۔ اب نقشہ میری سمجھ سے بالاتر ہو چکا تھا لہذا اندازے سے ایک طرف چلتا اور اندازے پر قدیمی شہر پہنچ گیا۔ مزید سر کھپانا میرے لیے ناممکن ہو چکا تھا لہذا میں نے میٹرو اسٹیشن جا کر 6 یورو کی ایک روزہ ٹکٹ لی اور میٹرو پر ہوٹل واپس روانہ ہوگیا۔ ہوٹل والے اسٹاپ پر اتر کر ہوٹل ڈھونڈنے لگا اور ہوٹل ندارد۔
|
لزبن مسجد |
تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گھوم گھام کر احساس ہوا کہ میں جس کو مغرب سمجھ رہا تھا وہ مشرق ہے اور واپس چل کر کسی طرح ہوٹل تلاش کر ہی لیا اور ہوٹل جا کر پہلا کام بستر میں گھسنے کا کیا۔
ہوٹل جا کر پتہ لگا کہ یہاں انٹرنیٹ ہی نہیں اور اگر استعمال کرنا ہے تو نیچے استقبالیے کے پاس آکر استعمال کریں۔ یہ کونسا ملک اور کونسے سال کا ہوٹل تھا۔ غصہ تو بڑا آیا لیکن پی گیا کہ کہیں باہر ہی نہ نکال دیں اور میں نے طے کیا کہ اس ہوٹل کے بارے ہوٹلوں کی سائیٹ پر برا تبصرہ نہ کیا تو کچھ نہ کیا۔
دوسرے روز دوپہر میں پروفیسر صاحب سے ملنا تھا تو میں نے سوچا ذرا سیر ہی کر لیں اور میں پہلے نقشہ دیکھتے ہوئے ایک پارک میں پہنچا جونباتاتی botanical پارک ہونا چاہیے تھا۔ وہاں پہلی بار یورپ میں میں نے ماسکووی بطخیں جنکو گونگی بطخیں بھی کہا جاتا ہے سے ملاقات ہوئی۔ میں نے گھر میں یہ بطخیں پالی ہوئی تھیں لیکن وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں تو مجھے لگا وہ اگلے جنم میں مجھ سے ملنے یہاں آ گئی ہیں اور میں جذباتی ہو کر ان کو گلے لگانے ہی والا تھا کہ احساس ہوا کہ یہ نباتاتی پارک نہیں بلکہ کوئی اور ہی پارک ہے تو میں نے محبت فقط تصاویر کھینچ کر پوری کی اور اصل بوٹینیکل پارک چل دیا۔ وہاں بھی ٹکٹ تھی اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ڈرتے ڈرے پوچھا تو جواب ملا دو یورو۔ ساتھ پوچھا طالب علم ہیں ؟ میں نے کہا ہوں تو سہی پر یہاں نہیں اس نے کیا کیا فرق پڑتا ہے لائیں ایک یورو دیں۔ ایک بار پھر میں حیران رہ گیا اور ایک یورو دے کر میں پارک سے لطف اندوز ہونے لگا۔
اب میٹرو کی پہلے دن کی ٹکٹ تو لے لی لیکن جب دوسرے دن کے لیے ٹکٹ لینے کا مرحلہ آیا تو پتہ چلا کہ میٹرو کی ٹکٹ والی مشین دس یورو سے بڑا نوٹ قبول ہی نہیں کرتی اور میرے پاس بیس یورو کا ایک نوٹ تھا۔ اب کیا کروں۔ بندہ کوکا کولا ہی خرید لیتا ہے لیکن عجیب بات یہ تھی کہ یہاں کوکا کولا صرف ٹن میں میسر تھی جبکہ میں تو آدھ لیٹر والی ایک بوتل لے کر اس کو تین دن تک چلانے کا عادی تھا۔ ٹن تو ایک بار کھل جائے تو بس ختم کریں۔ صرف کوکا کولا کی بوتل کا مسئلہ ہی نہ تھا بلکہ یہاں باقاعدہ ہوٹلوں کی بجائے زیادہ تر کنٹین قسم کے ہوٹل تھے جہاں سموسے پکوڑے قسم کی چیزیں پڑیں ہوتیں اور آپ وہاں سے چن کر بھوک کا علاج کر لیں جو کہ میرے بس کا کام نہ تھا کہ کون پوچھے کہ بھائی کس کس میں گوشت نہیں کس کس میں شراب نہیں۔ آخر میں تین حرف بھیجے اور کارڈ ایک دن کے لیے مزید بڑھانے کا فیصلہ موخر کر کے چوبیس گھنٹے مکمل ہونے سے قبل ہی قدیمی شہر پہنچ کر وہاں آوارہ گردی کرنے لگا۔ وہاں سے میں پہاڑ پر واقع قلعہ میں گیا سمندر کنارے گیا اور رات دس بجے ڈیڑھ یورو میں یک سفری ٹکٹ خرید کر واپس ہوٹل آگیا۔
لزبن Lisbon میں فٹ بال کے شوق کا یہ عالم تھا کہ جگہ جگہ بڑی اسکریںیں لگی تھیں اور وہاں لوگوں کے گروہ کے گروہ میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جہاں تین چار لڑکے بالے جمع تھے وہ فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے۔ شہر میں دو یونیورسٹیاں محض کھیلوں کی تعلیم بارے مخصوص ہیں۔
|
ورلڈ کپ کے لیے لگائی گئیں بڑی سکرینیں |
تیسرے روز میری روانگی تھی اور میں نے سوچا جانے سے قبل ایک چکر سمندر کا ہو جائے کہ نقشے میں ایک واسکو ڈی گاما کا مجسمہ لگا تھا میں نے سوچا چاچے گامے کو سلام نہ کیا تو پرتگال آنے کا کیا فائدہ۔ ساحل پر پہنچ کر پتہ لگا کہ ایک تو واسکو ڈی گاما شاپنگ سینٹر ہے اور جب جس کو مجسمہ سمجھ کر میں تین کلو میٹر چل کر گیا تھا وہ پتہ لگا ایک بیس منزلہ ہوٹل ہے اور مجسمہ نہیں بلکہ وہاں سے سمندر اور شہر کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ پہلے ہی میں ٹکٹ کی قیمتوں سے بد ظن ہو چکا تھا لہذا میں نے مزید ٹکٹ کا پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور دنیا کی بے ثباتی اور دھوکے دہی پر افسوس کرتا ہوائی اڈے پہنچ گیا جہاں پرواز میں آٹھ گھنٹے کی تاخیر میری منتظر تھی۔
|
واسکو ڈی گاما کی تلاش |
|
واسکو ڈی گاما مال ہی سہی |
|
ہم جسے واسکو ڈی گاما کا مجسمہ سمجھے تھے |
پتہ چلا کے ہمارے سفر کو یادگار بنانے کو فرانسیسی ہوائی بازی کے عملے نے ہڑتال کر رکھی تھی اور مجھے تمام رات جنیوا Geneva ہوائی اڈے پر گزارنی پڑی جہاں ایک بار پھر سوئیٹزرلینڈ Switzerland کے متعلق برے مفروضوں نے حقیقت اختیار کی۔ پرتگالی ہوائی اڈے والوں نے تاخیر ہونے کے سبب 16 یورو کا کھانے کی رسید دی کہ کسی بھی دکان سے کچھ بھی لے کر کھا لیں ۔ میں پیزا ہٹ گیا اور پوچھا کہ یہ ڈیل تو 7 یورو کی ہے تو کیا باقی پیسے واپس کریں گے؟ جواب ملا واپس کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا پھر پکڑو یہ 16 یورو کی رسید اور دے دو جو کچھ اس میں آتا ہے۔ تاہم جنیوا والوں کی میزبانی کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگا جنہوں نے متبادل ٹکٹ دیتے وقت کہا کہ ہمیں آپ کی تکلیف کا بخوبی احساس ہے لہذا یہ پانی کا ایک گلاس لے لیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ اگر دوبارہ پیاس لگے تو ہم مزید آدھ گھنٹہ بھی یہاں بیٹھے ہیں فقط آپ کی خاطر۔