Misar aur hum
اصل میں بات کیا ہے کہ ایک تو ہمیں عربی خواتین کی جسامت سے ڈر لگتا ہے دوسرا عربوں کی پولیس کے ڈنڈے سے ڈر لگتا ہے لہذا ہم نے عربی خواتین کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔چاہے ممیاں ہوں یا بیٹیاں ہمیں دونوں سے ہی ڈر لگتا ہےاوپر سے ہم بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں کہ ایک دیہاتی اپنے گاؤں کسی عرب ملک سے ہوکر آیا تو کہنے لگا کہ بڑے نیک ہوتے ہیں عربی۔ میری ایک عربی سے لڑائی ہوگئی تو میں اس کو گالیاں نکالوں وہ مجھے قران مجید سنائے۔ اور اگر عرب ممالک میں جا کر اگر یہ بات دماغ سے نکل بھی گئی تو ہمیشہ اپنی نام نہاد عزت کا اتنا خیال رہا کہ کبھی کسی سے اپنی محبت کا اظہار اس ڈر سے نہ کر سکے کہ عورت ذات کے پیٹ میں کبھی کچھ ٹکا ہے ۔ بات پورے شہر میں پھیل جائے گی اور اپنی بے عزتی ہوجائے گی۔
تو کبھی کسی عربی ملک میں بطور سیاح جانے کی خواہش نہیں رہی اور پھر میرے چچا تقریباً تمام مشرق وسطی میں کام کر چکے ہیں اور میں خود بھی دبئی میں نوکری کرچکا ہوں تو مجھے عرب ملکوں میں دوسرے درجے کے شہری ہونے کا بڑی شدت سے احساس ہے۔اور ابھی تو دبئی کوئی عرب ملک کم برصغیر کا حصہ زیادہ لگتا ہے کہ عربی بھی اردو بول رہے ہوتے ہیں اور سنا ہے کہ عجمیوں کے معاملے میں سب سے کم متعصب ہیں۔
اگر آپ دبئی میں یا کسی اور عربی ملک میں رہتے ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ مصریوں کو خود عربی بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک صد دس فیصد مصری داکتور اور مہندس ہونے کے باوجود انسانیت سے عاری ہیں۔
پر ہماری یورپ نے آمد نے ہمیں تھوڑا سا روشن خیال بن دیا اور ہم دو چار ملک گھوم کر خود کو ابن بطوطہ کا جانشین سمجھنے لگے اور مصر جانے کے خواب ایسے دیکھنے لگے کہ پولینڈ سے اکثر گروہ مصر یاترا کو جاتے تھے اور اس کے سفری اخراجات بھی اتنے خاص نہ ہواکرتے تھے لیکن تب میں اور میرا دوست کسی گروہ کے ہمراہ جانے کے حق میں نہ تھے بلکہ ہم نے سوچا کہ خود ہی جاتے ہیں اور ہم خاصے پیسے بچا لیں گے۔ بات پتے کی تھی اور پھر میں کونسا اکیلا تھا میں نے حامی بھر لی اور ٹکٹ دیکھنا شروع کردی۔ ادھر میں نے ٹکٹ دیکھنا شروع کیں ادھر ہنگاموں نے مصر کا منہ دیکھنا شروع کیا اور جب سستی ٹکٹ ملی تب تک عرب بہار زور پکڑ چکی تھی اور ہمارا ممکنہ دورہ سیاست کی نظر ہو گیا۔
لیکن دل ہی دل میں مصر جانے کی ہلکی سی خواہش تھی کہ دل میں معمولی سی بھی فرعونیت ہو تو فرعون سے ملاقات کا دل چاہتا ہے کہ اس کمینگی کے جد امجد کا دیدار بھی کرآئیں کہ حضور آپ تو جہنم رسید ہو گئے لیکن دیکھیں ہم نے موسی کے گروہ سے ہونے کے باوجود بنی اسرائیل سے افضل امت ہونے کے باوجود کیسے آپ کا نام زندہ رکھا اور جہاں جہاں موقع ملا وہاں آپ کی خاصیت دکھائی۔ لہذا آپ کے مرنے کے باوجود جہان پاک ہم جیسوں نے نہ ہونے دیا۔
یوں تو قارون سے بھی یار لوگوں کو خاصی انسیت ہے لیکن اس کے لیے پیسہ ہونا ضروری ہے لہذا اللہ میاں نے اس آزمائش سے محفوظ رکھا اور ہماری تمام تر خواہش کے باوجود بھی کم از کم ہمارے سر پر قارون کے خزانوں کی کنجیوں کا بوجھ نہ ڈالا۔
تاہم ہوا کچھ ایسا کہ ہمیں ایسٹونیا کے سفارت خانے میں کام پڑگیا جو کہ پاکستان میں نہ ہونے کے باعث نزدیک ترین مصر، چین ،بھارت میں قائم تھا۔ اب ہم بھی اکثر مسلمانوں کی طرح اسلامی تعلیمات پر عمل کریں یا نہ کریں اسلامی بھائی چارے کے گیت ضرور گاتے ہیں تو ہم نے مصر چن لیا کہ برادر اسلامی ملک ہے۔ اسلامی بھائی کو ہاتھوں ہاتھ ویزا دے دے گا۔ تاہم اس میں اسلام کے عود کر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت کا ویزا نہیں ملنا تھا دوسرا دے بھی دیتے تو بھائی ہمیں بڑا ڈر لگتا ہے پکڑ کر کہیں کہ یہ تو دہشت گردی کرنے آیا تھا۔اچھے بھلے معزز سید کو قصاب بنا دیں اور اس آوارہ گردی میں عزت سادات جو تھوڑی بہت بچی تھے جانے کا خطرہ تھا۔ اوپر سے ہمارے بلاگ کا اور پچاس ساٹھ آدھے پورے افسانوں کا کیا ہوگا کی سوچ الگ؟؟ اور چین پاکستان کا بہترین دوست سہی لیکن پاکستانیوں کے لچھنوں سے خوب واقف ہے لہذا اس نے ویزے پر خاصی سختی کر رکھی تھی اور ایک ایجنٹ بمشکل اسی ہزار میں راضی ہوا کہ ویزا دلا دے گا تو ہم نے سوچا کہ جب مسلمان بھائی ہیں تو کیوں باقیوں کی منت کی جائے۔ اور ایسٹونیا والوں سے مصر میں کاغذات لینے کا کہہ دیا۔
ایک مسلم برادر ملک، دوسرا تمام دنیا کے سیاحوں کی پہلی پسند تیسرا ہم بچپن سے مصری شوق سے کھاتے آئے ہیں جس کو ہم مصر کی پیداوار سمجھتے رہے ہیں لہذا ہم نے سوچا ویزا تو گھر فون کر کے دیں گے اور پھر اہرام مصر دیکھ کر آنے کے بعد نہ صرف ہمارے قدم تیسرے براعظم پر پڑ جائیں گے بلکہ ایک عجوبہ دیکھ کر ہماری ڈینگوں میں مزید وزن پیدا ہو سکے گا۔
لیکن تمام مسلمانیت دھری کی دھری رہ گئی جب انہوں نے ٹکا سا جواب دے بھگا دیا کہ جب تک مصر میں امن و امان قائم نہ ہوجائے ہم ویزے جاری نہیں کرتے۔
ہم نے دل ہی دل میں اخوان کے انقلاب کی حمایت کی وہ بےشک اپنے خاندان کے لیے مبارک رہا ہو ہمارے لیے تو دشمن ہی قرار پایا۔ چند ہی دنوں بعد اخوان کی حکومت آ گئی اور اب کہ ہم چوڑے ہو قطب شہید کی کتب تھامے ویزا لینے پہنچے اور ایک بار پھر وہی جنرل ٹکا والا جواب ہمارا منتظر تھا اور ہماری اخوان سے محبت بجھ کر رہ گئی۔ ہم نے سوچا کہ پوچھیں کہ اگر اگلے چار سال امن قائم نہ ہو ویزے نہیں دو گے لیکن چونکہ بات چیت بذریعہ ڈاک تھی اس لیے ان کی تحریری تھی اور میری خیالی۔
مسلمانوں کا بھائی چارہ دیکھ کر بےچارے غیر مسلم ملک ایسٹونیا نے میرے لیے چین کا ویزا دلوانے میں مدد کی تاکہ ایک مسلمان بچہ پی ایچ ڈی جاری رکھ سکے اور وہ مسلمانوں پر اچھا تاثر قائم کرسکیں۔بہرحال یہ الگ کہانی ہے۔
کچھ عرصہ بعد ہوا یوں کہ ایک مصری سفارتخانہ دیکھ کر میں ویسے ہی اندر گھس گیا ۔ اندر عربی بیٹھا تھا جس نے ڈنڈنے مارنے کے انداز میں عربی بولنا شروع کر دی تو اس کو بتایا بھائی ہوش کی دوا کر لا تکلم عربی۔ الباکستان۔
پاکستان سن کر وہ ٹھنڈا پڑ گیا اور بولا کیا ہے؟
پوچھا ویزا لگوانے کا طریقہ کار کیاہے۔
بولا ایسٹونین رہائشی کارڈ ہے ؟ جواب دیا ہاں۔
بولا پاسپورٹ ۔ میں نے اس کو جتاتے ہوئے بولا پاکستانی ۔
بولا دکھاؤ۔ میں نے دکھایا۔
بولا لاؤ بیس یورو نکالو ۔
میں نے کہا کس چیز کے ؟ بولا ویزے کے۔
میں نےکہا وہ تو نہیں لایا۔ کہنے لگا جب لگوانا ہو ویزا 20 یورو لیتے آنا۔
بس؟
اس نے گھور کر دیکھا اور کہا ہاں بس۔
میں نے باہر نکل کر کہا اپنے پاس رکھو ویزا نہیں چاہیے ہمیں بھی اس 20 یورو سے ہم کوئی اور نہ کام نہ کرلیں باقی فرعون کا کیا ہے کہیں نہ کہیں وہ اپنے چیلوں سے ملاقات کر ہی لے گا۔ وگرنہ اللہ میاں عبرت کے واسطے کہیں اس کا حشر دکھا دے گا۔ اور پھر پہلے ملک میں امن تو قائم کر لو۔ نہیں چاہیے ویزا۔ پہلے آپ کا انکار تھا اب ہمارا انکار ہے کہ عزت نفس بڑی شے ہے جہاں میں اور ہمیں تو اس کو استعمال کرنے کا موقع بھی کبھی کبھی ملتا ہے بھلا کیوں جانے دیتے ایسا موقعہ؟ آہو