November 24, 2014

ادلی کی بدلی- پانچ کی کھینچ کھانچ

adli ki badli - panch ki khainch khanch



اس سے پہلے پڑھینے کے یہاں کلک کریں

جتنی دیر یہ سوتا ہے اتنی دیر تو اصحاب کہف بھی نہیں سوئے ہوں گے۔ باہر سے آواز آئی اور میں دیکھے بغیر ، پوچھے بغیر شرطیہ کہہ سکتا تھا کہ یہ آج کے والد صاحب ہی ہوں گے۔ مجھے فقیر ابا کا طمانچہ یاد آیا اور میں خود سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا کہ جو سوتا ہے وہ کھوتا اور نہیں بھی کھوتا تو جو پاتا ہے وہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں ہوتا لہذا اٹھ ہی جائیں تو اچھا ہے۔ ویسے بھی اب تک میں ہر رنگ میں جلنے کےلیے تیار ہو چکا تھا یہاں تک کہ چار ٹانگوں والا گدھا بن کر بھی جاگتا تو حیرانی نہ ہوتی حالانکہ دس منٹی صاحب یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کم از کم گدھے بنے بھی تو دو ٹانگوں والے ہی بنیں گے یعنی انسان کے جامے میں ہی رہیں گے لیکن انسان بڑی بے اعتباری شے ہے کوئی پتہ نہیں کب جامے اور پاجامے سے باہر آجائے۔



باہر نکلا تو عجیب منظر تھا ایک ہی جیسی شکل کے لگ بھگ ایک ہی جیسے عمر کے پانچ لڑکے ساتھ ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے کہا سرکس ہے کیا تماشہ ہے لیکن پھر خیال آیا کہ اگر ان کے ساتھ بیٹھ جاؤں تو عین ممکن ہے کہ چھ ایک جیسے لڑکے بیٹھے ہوں گے فرق یہ ہوگا کہ پانچ تو کھانا چبا رہے ہوں گے جبکہ چھٹا دانت چپا رہا ہوگا۔ میں نے سوچا یہ تو پاکستان کے بہت سے گھروں کا منظر ہے لہذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اور دوسری بات یہ میرے بھائی ہیں میری محبوبہ کے بھائی نہیں جو ان سے ڈرنے کی ضرورت ہو۔

ابو باہر ہر ابو کی طرح غصے میں تھے اور امی ہر ماں کی طرح ان کو ٹھنڈا کرنے میں مصروف تھیں حالانکہ ابو کے غصے کی اصل وجہ امی ہی ہوتی ہیں کہ پہلے شادی کیے بنا نہیں رہ پاتے اور پھر شادی ہوجانے پر بیوی کے خرچوں پر غصہ بیچارے بچوں پر نکالتے رہتے ہیں۔ دنیا میں بھی بڑی نا انصافی ہے بنا شادی کی لڑکیوں کو دیکھ لیں ، شادی شدہ مردوں کو دیکھ لیں، اور ہم بچے تو ویسے ہی ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں اور میں تو اس ناانصافی کی قطار کا ونگ کمانڈر بن چکا تھا۔

کھانا زہر مار کرنے بیٹھا اور کرتا ہی چلا گیا۔ کھانا تھا ہی اتنا مزیدار- ویسے بھی میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ بندہ پریشانی میں ہوتو زیادہ کھاتا ہے اور میں تو عام حالات میں بھی زیادہ ہی کھاتا تھا بس کوئی دینے والا ہو۔ آخر جب امی نے پراٹھا اٹھانے پر ہاتھ پر چمٹا مارا تو بھوک تو نہ مٹی لیکن طلب ضرور مٹ گئی۔ میں سوچنے لگا سچ ہے بندہ اصل نہیں چھوڑ سکتا کہ چاہے کسی بھی بھیس میں بھی رہا ہوں روز کی بے عزت افزائی کی مقدار نہیں گھٹنے پائی۔

دیکھیں آج دس منٹی سے کس حال میں ملاقات ہو۔ میں نے سوچا اللہ میاں آج تو کوئی خوبصورت دوشیزہ کے روپ میں آجائے۔ دوشیزہ لفظ اس لیے مجھے اچھا لگتا تھا کہ عورت اور لڑکی تو واحد نام تھا جبکہ دو شیزہ میں جمع کا صیغہ لگ سکتا ہے۔ لیکن پھر کل کی بے عزتی اور خواری یاد آئی تو میں نے کہا چلو اللہ میاں زیادہ خوبصورت نہ ہو بےشک۔ سچ ہے کتے کی دم اور انسان کی عادت نہیں سدھر سکتیں۔

لیکن اگر ہماری تمام خواہشیں پوری ہونے لگ جائیں تو دنیا کی بربادی میں باقی جو چند ایک سال بچے ہیں وہ بھی پورے ہو جائیں ۔ ابو کی دکان کو آج شرف بخشیں گے نواب صاحب؟ مجھے تو پہلے ہی شک تھا میں فیصل آباد میں ہوں۔ ابو کی دکان؟ امی یہ کپڑوں کی دکان سنی تھی، پلاسٹک کی دکان سنی تھی، اور تو اور شیطان کی دکان سنی تھی یہ ابو کب سے بکنے لگے۔ حرام خورو اپنے باپ کا تو احترام کر لیا کرو۔ ہم چھ کے چھ منہ پھاڑ کر ہنسنے لگے۔ جائیں گے کیوں نہیں جائیں گے، کہ ہم نہ جائیں گے تو کون جائے گا۔ بھلا کہاں پر پائی جاتی ہے وہ دکان؟ میں نے سوچا کوئی پیسے پار کرتا ہوں کہ لوگ اگلی زندگی کے لیے اہتمام کرتے ہیں اور میں اپنی اصلی زندگی کے لیے کوئی اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ امی سمجھیں مذاق کر رہا ہوں تو انہوں نے بھی پتہ بتایا کہ جو تیری جاگیر ہے ناں اس میں جو بازار ہے وہاں کسی سے بھی پوچھ لے ولی عہد کے کپڑوں کی دکان۔ میں نے دل میں سوچا امی تم بھی فیصل آبادی ہی نکلیں۔

باہر تو نکلا لیکن پوری تیاری کے ساتھ کہ گھر کا اتا پتہ سب تفصیل سے لکھ لیا کہ کسی پارک میں نشئیوں کی ہم رکابی سے اچھا ہے کہ ابو کی تلخ و تند باتوں سے رات گرمائی جائے۔ جیب میں ہاتھ مارا تو بٹوا موجود تھا۔ لوگ بٹوے میں دوسروں کی تصاویر رکھتے ہیں اور میرے جسم والے بھائی صاحب نے میری یعنی اپنی ہی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا یہ بھی ٹھیک ہے بندہ آئینہ دیکھنے کی بجائے جب چاہا بٹوے میں جھانک کر تصویر آپ دیکھ لے۔ کنگھی کرتے وقت کون شیشہ ڈھونڈتا پھرے، نکالی تصویر ماری بالوں میں کنگھی تے چل پائی۔ میں نے سوچا یہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی شہدی قسم کی تصاویر فیس بک پر لگا کر خود ہی لائیک بھی کرتے ہیں اور کمنٹ بھی کرتے ہیں کہ اللہ نظر بد سے بچائے حالانکہ کہنا یوں چاہیے اللہ نظر بد کو ان سے بچائے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ میں کونسا ایسا شہزاہ گلفام تھا۔ اپنا کالا رنگ اور سنہری سر (گنجا سر) یاد آیا اور میں نے بٹوے میں اپنی تصویر رکھنے کے تبصرے کو وہیں روک کر تلاشی لینا جاری کر دیا اور جلد ہی محنت رنگ لائی اور ایک خفیہ خانے میں چند خفیہ رسیدوں کے پیچھے سے ہزار کا نوٹ برآمد ہوگیا۔ رسیدیں خفیہ ان کے تعلق کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کی حالت دیکھ کر لگتا تھا۔ 

مجھے یاد آیا جب کا میں اس کوئلوں کی دلالی میں پھنسا ہوں میں نے پرائے پیسے خرچے ہی نہیں جبکہ جن دنوں میں ٹھیک ٹھاک تھا (کم ازکم بدن بدلنے کی حد تک) تو جب تک روز اماں کے دس پندرہ روپے پار نہ کرتا تھامجھے سکون نہ آتا تھا۔ میرا اماں کے لیے دل بھر آیا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ اماں کے لیے نہیں بھرا تھا بلکہ پیسوں کے لیے بھرا تھا اور دل کے ساتھ ساتھ اب میرا بٹوا بھی بھرا تھا۔ مجھے اپنی محنت کے پیسے کھونے کا خیال آیا کہ کس محنت سے بھیک مانگی تھی کم از کم اللہ میاں پیسے تو ساتھ ترسیل  کر دیا کرے۔ پتہ نہیں چچا غالب کیسے بندے تھے جنہوں نے کہا ہزاروں خواہشیں ایسی جبکہ ادھر تو لاکھوں کروڑوں خواہشیں تکمیل کو مچل رہی تھیں۔ میں نے دل ہی دل میں چچا غالب کو انتہائی صابر انسان قرار دیا اور آوارہ گردی جاری رکھی۔

میں اپنے خیالوں مین گم تھا کہ ایک دکان کے پاس نیچے بیٹھے موچی نے مجھے اشارہ کیا۔ اب اشارہ تو قطعاً فحش نہ تھا لیکن دماغ میں گند بھرا ہوتو کیا کیجیے اور گند بھی ساتھ ساتھ منتقل ہورہا تو کیا ہی کہنے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ چھوٹے شہروں اور پسماندہ علاقوں میں ابھی تک بچے اغوا ہوتے ہیں حالانکہ اگر اغوا ہو بھی جاتا تو رات بارہ کے بعد پھر اس حبس بے جا نے جا بے جا ہوجانا تھا لیکن اپنی عزت خواہ وہ نام کی ہی کیوں نہ سب کو پیاری ہوتی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا لیکن وہ بھی کوئی ایسا چمٹو تھا جیسے یونیورسٹی کے لڑکے ہوتے ہیں۔ آخر کار جب اشارہ بازی سے کام نہ چلا تو خود اٹھ کر میرے پاس آگیا۔ آئیں کوئی چائے پانی ہو جائے۔ مجھے اس کی ڈھٹائی پر بڑا غصہ آیا اور میں نے کیوں میرے ماتھے پر کچھ لکھا ہے۔ وہ مسکرایا ہاں جی دو میل دور سے نظر آرہا ہے کہ گواچی گاں۔ اوہ تیری خیر دس منٹی، مجھے جو اس جسم کے کردار پر شبہ ہورہا تھا وہ رفع ہوگیا۔ دو میل دور سے؟ تمھیں تو دور بین کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہو گی میں نے شرمندگی سے اتنا ہی کہا۔

اب میں جا کر اس موچی کے تھڑے پر بیٹھ گیا اور گفتگو شروع کی ۔ کیا نام ہے تمھارا ؟
کیا فرق پڑتا ہے ۔ تمھیں اپنا نام پتہ ہے؟
میں نے جواب دیا ایک ہو تو بتاؤں۔ وہ ہنسنے لگا۔
میں نے پوچھا بھائی کچھ تو بتاؤ کیا مسئلہ ہے ، کب تک چلے گا کیسے جان چھوٹے گی۔ اتنے تو ایک گانے میں ہیروئنیں کپڑے نہیں بدلتیں  جتنے میں جسم بدل چکا ہوں۔
وہ ہنسا اور بولا یہ کہانی شروع ہوئی امریکہ سے۔
میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اس کے سامنے ہاتھ باندھے اور بولا بھائی یہ میرے بندھے ہاتھ دیکھو اور اب امریکی و یہودی سازش نہ سنا دینا۔ میں باز آیا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ جو کتا ہمارے گھر کے عین سامنے رات کو بھونکا کرتا تھا اس میں بھی امریکی سازش تھی۔
وہ پھر ہنسنے لگا۔ بولا یا یقین کرو یا سکون کرو۔
میں نے سوچا اویں ہی بونگیاں ماری جا رہا ہے دفع کرو سکون کر لیتے ہیں۔ لیکن میں ایک دن کے لیے لڑکی بھی رہ چکا تھا کیسے چپ رہتا۔ بولا یار یہ دس منٹ جو ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے میں دس منٹ بعد چلا جاؤں اور پھر تھوڑی دیر میں واپس آؤں اور دس منٹ مزید بات چیت کر لوں۔
وہ بدستور منہ پھلائے بیٹھا رہا۔ میں نے سوچا یہ بھی پکا ایک آدھ لڑکی بن کر گزار چکا ہے۔
میں ہنسا اور بولا چل بھائی معاف کردے مجھے نہیں پتہ تھا تمھارے دل میں اتنا درد ہے گوروں کے لیے۔
وہ مسکرایا ہاں میرے سالے لگتے ہیں ناں۔
 اچھا بتاؤ ناں۔
 یہ پورے چوبیس گھنٹے میں دس منٹ کا چکر ہے۔ پر میں نے بھی سنا ہے اصل تو بنانے والوں کو پتہ۔
 بنانے والوں کو؟ کیا مطلب؟ یہ قدرتی نہیں؟
اس نے مجھے دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں نے تو جانا نہیں تو اس نے تھیلا اٹھایا اور چل پڑا۔ جاتے جاتے بولا یقین تو کیا نہیں اب سکون ہی کر لو۔ پھر بولا آج تک کوئی ایسی عجیب و غریب آفت قدرتی آئی ہے کیا۔ سب حضرت انسان کے کارنامے ہیں۔
میں نے آواز لگائی تمھارا سامان؟
 اس نے جاتے ہوئے اشارہ ہاتھ اٹھا کہ نہیں کا اشارہ کیا۔ 
میں نے آواز لگائی ہاں کونسا تمھارے پلے سے لگے ہیں پیسے۔
 مجھے بیچارے اصل موچی سے ہمدردی ہوئی اور میں اس کے سامان میں جھانکنے لگا ۔ کچھ بھی کام کا نہ ملا۔ دس منٹی ہے یا دس نمبری۔ پیسے اٹھانا نہیں بھولا۔ ہونہہ میں کونسا پیسوں کے لیے مرا جا رہا ہوں میرے پاس اپنے ہزار روپے ہیں ۔  میں لاپرواہی سے آگے چل پڑا۔

میں ہزار روپے خرچنے کا سوچ کر آئس کریم کی دکان میں گھس گیا۔ حالانکہ میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس خیال سے خرچنے لگا کہ جیسے کہیں جانے پر سفری اخراجات ملتے ہیں تو ایسے ہی یہ میرا سفری خرچہ ہے اور ہو سکتا ہے نہ خرچنے کی صورت میں کہیں بیچارہ اصلی جسم والا ناراض ہی نہ ہوجائے ۔ ہزار روپیہ برباد کرکے پیٹ الم غلم اشیا سے بھر کر ، لوگوں سے پتہ پوچھ پوچھا کر گھر پہنچ گیا۔

گھر میں اپنے کمرے میں جانے لگا کہ پانچ میں سے ایک آکر بولا بھائی کھانا کھا لیں۔ حالانکہ اس وقت تک میں اتنا کھا چکا تھا کہ ہوا کھانے کی بھی جگہ نہیں تھی لیکن مفت کی شراب تو قاضی نہین چھوڑتا تو میں بسم اللہ کر کے پھر کھانے پہنچ گیا اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع بھی کر دیا۔

کھانا شروع ہوا تو امی بولیں دکان پر گیا تھا؟ میں خاموش بیٹھا کھاتا رہا۔ امی نے پوچھا وہ جو پیسے دیے تھے باجی کو دے آیا۔ کس کی باجی آپ کی باجی یا میری باجی؟ میں بے اختیار پوچھ بیٹھا، حالانکہ سوال یہ پوچھنا چاہیے تھا کونسے پیسے اور کتنے پیسے؟ وہ والے جو میں خرچ کر آیا۔ بس یہی کہنے کی دیر تھی کہ امی کا پارہ اسی آسمان پر پہنچ گیا جس پر اکثر میری اماں کا پایا جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں میں کہتا ہوں امائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ لیکن اصل کمینگی ان پانچ میں سے ایک نے کی جو جھاڑو اماں کو پکڑا دیا۔ حالانکہ میں ایسے مواقع کا ماہر ہوچکا ہوں اور عین موقع پر کھسک لیتا ہوں لیکن شاید یہ جسم گردی نے میری صلاحیت کو گہنا دیا تھا جو میں اماں کے ہاتھ آ گیا اور ایسا آیا کہ بس آیا گیا ہو گیا۔ مجھے لگا امی آج یا تو ابھی مجھے کسی اور جسم میں پہنچا دیں گی یا اس عارضی دنیا کی عارضی جسم بدلی سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں گی۔ اماں پیٹتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں آج تیرا دم نکال کر رہوں گی آخر امی نے تب بس کیا جب میں بمشکل اتنا ہی کہہ پایا امی بس کردے دم نکلے یا نہ نکلے پیشاب ضرور نکل گیا ہے میرا۔
(کہانی چالو ہے، آہو)

اس مسلسل مزاحیہ سائنس فکشن کی سابقہ اقساط یہاں پڑھیں