February 11, 2015

فلورنس میں نائیٹ اینگیل



 پتہ نہیں کیوں جب میں فلورنس (Florence) ( Italian: Firenze) کا نام سنا کرتا تو فلورنس نائیٹ اینگیل  Florence Nightingale دماغ میں گونجتا اور ایک عورت ابھرتی جس نے کندھے پر بلبل بٹھایا ہوتا اور اس زمانے میں ہمارا بلبل سے واحد تعلق بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی تک محدود تھا لہذا دماغی پرواز کو بھی بلبل کا بچہ میں نے اڑایا واپس نہ آیا سے بچانے کے لیے کسی اور طرف منتقل کر دیتا۔

یورپ میں آ کر انٹرنیٹ پر میں نے کتنے ہی مضامین پڑھیں جس میں فلورنس کو اگر سب سے نہیں تو کم از کم دس خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک قرار دیا گیا۔ اور خوبصورتی اگر انسانی شکل کی نہ ہو تو ہمیں ہر حال میں اچھی لگتی ہے لہذا ہمارے اندر کا "سیاہ " (اعمالوں طفیل اندر بھی ظاہر کی طرح سیاہ ہی ہے) انگڑائیاں لینے لگا کہ فلورنس چلیں لیکن کیسے کہ خواہش تو ہمیں آئس لینڈ Iceland اور کینیا Kenya کی بھی ہے لیکن پیسے ہمارے پاس اتنے نہیں ہوتے کہ نیٹ کا اچھا کنکشن لے کر ان کا آن لائن نظارہ ہی کرلیں۔

لیکن شکر خورے کو شکر دینے کا وعدہ ہے اور لزبن سے پیسا کی پرواز گویا ہماری اسی خواہش کے لیے ہی شروع کی گئی تھی۔ پیسا پہنچ گئے اور جو کہ آپ سے بیان کر چکے ہیں تو اس بے لذت گناہ کی گھر جا کر گناہوں سے معافی کی نفلیں بھی پڑھ لیں۔ تاہم وعدے کے اور معمول کے عین مطابق ہمارے میزبان ہمیں سیلوینا Slovenia نہ لے گئے البتہ انہوں نے ویرونا Verona میں واقع ایک سفاری پارک کی سیر ضرور کرا دی جو کہ ہمارے حیوانی ذوق کے عین مطابق تھا۔ مزید انہوں نے پاس میں واقع ایک قصبہ آرکوآ پیترارکا Arquà Petrarca کی بھی سیر کرائی جو پہاڑی پر واقع ایک خوبصورت قصبہ تھا اور اس لیے مشہور ہے کہ وہ مشہور اطالوی شاعر فرانسیسکو پیتراک (Petrarch (Francesco Petrarca کا گھر تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اور دانتے Dante Alighieri ہی اصل میں موجودہ اطالوی زبان کے بانی ہیں۔ 

اب چونکہ میں بھی خود کو کسی بڑے ادیب سے کم نہیں سمجھتا اس لیے اپنے قبیلے کے ایک رکن کے گھر کے باہر سے دیدار کر کے خوشی ہوئی باہر سے اس لیے کہ اندر جانے کا چار یورو لگتا تھا اور ہم ویسے ہی اس کی باقیات اور نام کے تقدس کو دیکھ کر اندر ہی اندر جل چکے تھے کہ ایک یہ قوم ہے جنہوں نے اپنے مشاہیر کی یوں قدر کی ہے ایک ہماری ہے کہ ابھی تک نام بھی حسن اور حسان میں پھنسی ہے لہذا اس جلن کے مارے ان چاریورو سے کوکا کولا پی کر غم غلط کرنے کی ٹھانی۔

اتنے سے بیرئر پر ٹرین کا انتظار کرنے والے قوم

ارکوا پیتراکا 

غروب آفتاب

پہاڑیوں کے درمیان قصبہ


اس گھر کے مالک کانام چاند ہو سکتا ہے

وادی میں شام


روشنی پھیلانے کا وقت




پہاڑوں پر گرتی شام







مزید برآں ہمیں بسامو دل گراپا Bassano del Grappa بھی گھمایا گیا جس کی وجہ شہرت وہ پل ہے جو جنگ عظیم میں چند ایک بار لاشوں سے بھر گیا تھا۔ ہمیں اس قوم پر انتہائی ترس آیا کہ ابھی تک جنگ عظیم پر پھنسے ہیں ہمیں دیکھیں پلوں کے پلوں پر کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ کئی ایک بار تو خود پل گرا کر نہ صرف پل بلکہ نچلی سڑک بھی لاشوں سے بھر دیں لیکن مجال ہے جو کبھی غرور کیا ہو۔ ہونہہ شوخی قومیں۔۔۔

بسامو دل گراپا کا پل




واپسی کا وقت آیا اور تین سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا۔ میرے میزبان نے مجھے ایک تیز رفتار ٹرین پر بیٹھا دیا جس نے کوئی سوا گھنٹے میں مجھے فلورنس پہنچا دیا جہاں سے مجھے بس پکڑ کر پیسا جاناتھا۔ تاہم اس بار پیسا مینار دیکھنے نہیں بلکہ واپسی لزبن کے لیے لیکن پیسا تو بعد میں جانا تھا کہ صبح کے چھ بجے تھے کیمرہ اور وقت دونوں میرے پاس تھے اور فلورنس میرے قدموں میں۔

چونکہ ماشااللہ سے طبعیت ابو شاہ والی پائی ہے کہ جو سب کو پسند ہے وہ ہمیں ناپسند ہے لہذا فلورنس کو چونکہ باقی لوگ انتہائی پسند کر چکے تھے لہذا امید واثق تھی کہ مجھے پسند نہیں آنا تو میری نظروں میں اچھا مقام پانے کو فلورنس کو ویسے ہی سخت مقابلہ درپیش تھا۔ 

اگر آپ گوگل پر فلورنس کو ڈھونڈیں تو ایک اڑے ہوئے سرخ رنگ کا گنبد نظر آتا ہے جو کہ فلورنس کے بیچوں بیچ واقع کتھیڈرل یا بڑے گرجا گھر کا دروازہ ہے۔ تاہم سب سے مشکل یہ درپیش آئی کہ آخر اس گنبد کی تصویر کیسے کھینچی جائے۔ عمارتوں کی بھرمار تھی اور کہیں اتنی جگہ میسر نہ تھی کہ عمارت کی بمعہ گنبد تصویر کھینچی جا سکتی۔

صبح صبح ہی لوگوں کا رش تھا اور ابھی تو ٹھلیے والے اور دکانوں والے ہی نہیں آئے تھے لیکن گلیاں آباد ہو چکی تھیں جن میں اکثریت مشرقی ایشیائی باشندوں کی تھی۔ ایسٹونیا کے بعد اتنے مشرقی ایشیائی پہلے بار میں کسی غیر ملک میں دیکھے تھے جس سے احساس ہوا کہ فلورنس چنکوں (چینی و ملتی جلتی قومیں) کی پسندیدہ جگہ ہے اور مجھے شک پڑا کہ سب سے خوبصورت کا شوشہ انہوں نے ہی چھوڑا ہوگا میں نے طے کیا گھر جا کر نیٹ پر ڈھونڈوں گا کہ ان تحاریر کا مصنف کون تھا لیکن فیس بک پر کیا پتہ لگتا ہے جیسے امریکہ میں اصل والد کا پتہ چلا مشکل کام ہے ایسے ہی فیس بک پر اصل مصنف کا نام تلاش کرنا ناممکن۔

جتنا قدیمی شہر میں گھوم سکتا تھا گھوما لیکن کچھ ایسا نظر نہ آیا جس سے دل سے واہ نکلتی تاہم چل چل کر آہ ضرور نکلنے لگی۔ اب دریا آگیا اور دریا کنارے لوگ پاگلوں کی طرح تصاویر اتارنے میں مشغول تھے۔ اکثر یورپی شہر دریا کناروں پر ہیں تو یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ وارسا میں جہاں میں تین سال رہا وہاں بھی دریا تھا لیکن کبھی کسی نے اس کو نہیں لفٹایا۔

دریا سے فارغ ہو کر ایک بار پھر اندرون شہر کا رخ کیا کہ کیا پتہ دوسری نظر میں کچھ اچھا لگ جائے لیکن مجال ہے جو کوئی جگہ متاثر کن لگی ہو۔ اور تو اور جو ہر شہر کے مقناطیس جمع کرنے کا شوق لگا ہوا ہے وہ بھی دس دکانیں دیکھنے کے بعد ایک بھی دل کو نہ بھایا اور مجبوری میں ایک عام سا ہی مقناطیس لیا کہ پیسا والی بس نکلنے کو تیار تھی۔

جس کسی نے بھی فلورنس کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا ہے یقین مانیں اس نے کبھی لزبن Lisbon، وی آنا Vienna، پیرس Paris اور تو اور ریگا Riga نہیں دیکھا۔ یا دیکھے بھی ہیں تو اس رات اس کو فلورنس میں مفت شراب ملی ہوگی اور اسی نشے میں لوٹ پوٹ ہو کر اس نے حرام حلالی کرتے ہوئے فلورنس کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر قرار دے ڈالا ہے کہ مجھ سے دس کیا بیس خوبصورت شہروں کے نام پوچھیں تو فلورنس نہ آئے۔ فلورنس سے تو اپنانوے کی دہائی کے اسلام آباد اور بہاولپور خوبصورت ہیں قسمے۔ بس ہمارا بھی وہی حال ہوا کہ فلورنس میں بلبل کا یہ بچہ پھر کبھی واپس نہ آیا۔ عیاشی کرے فلورنس-

تصویریں دیکھیں اور خود فیصلہ کریں



مشہور زمانہ سرخ گبند












دریا کنارے



















بگھی کی سیر اکثر یورپی شہروں میں میسر ہے













ریلوے اسٹیشن