March 21, 2015

پیرس پیمائی



ایک بوڑھا شخص بہاولپور سے بس میں سوار ہوا اور اس نے قصبہ چنی گوٹھ جانا تھا تو جیسے کنڈیکٹروں کی عادت ہوتی ہے اس کو جھوٹ موٹ کہہ کہ کر بس پر چڑھا لیا کہ سیٹوں کے درمیان موڑھے نہیں رکھیں گے اور بس جگہ جگہ نہیں رکے گی بلکہ سیدھا چنی گوٹھ ہی رکے گی۔ لیکن ڈرائیور تو تب کے بدنام ہیں جب پولیس اور واپڈا بھی نیک نام ہوا کرتی تھی تو ایسے تو بدنام نہیں تھے چنانچہ تمام راستہ ہر بندہ دیکھ کر بس رکتی آئی اور موڑھے تو موڑھے چھت پر بھی سواریاں سوار کردی گئیں۔ راستے میں کنڈیکڑ نے اسی بوڑھے سے پوچھا
" چاچا حال سُنڑا ول" (چاچا! کیا حال ہے کیسا ہے سفر؟)
تواس نے جواب دیا "پتر! اے تاں چنی گوٹھ آسی تے گالیاں تھیسن ( بیٹا چنی گوٹھ آئے گا تو باتیں ہوں گی)۔ تو ایسے ہی ان تمام لوگوں سے جنہوں نے مجھے کہا تھا کہ پیرس میں کالے بہت ہیں، لٹنے کا خطرہ ہے، امن امان کی حالت مخدوش ہے ان تمام لوگوں سے عرض ہے کہ "چنی گوٹھ آسی تاں گالیاں تھسین۔"

لزبن آنے کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو کم از کم سستی پروازوں کی سہولت ضرور میسر آگئی کہ تقریباً ہر جگہ کے لیے سستی فضائی کمپنی کی پرواز ہے۔ دل تو میرا آئس لینڈ Iceland، ہنگری Hungary، جارجیا Georgiaاور آزر بائیجان Azerbaijan جانے کا ہے لیکن سب سے آسان اوقات سے باہر جانا ہے لیکن جیب خالی ہوتو بندے کو اوقات کی حدود پھلانگنے کا اکثر احساس ہوتا ہے کہ ان تمام جگہوں پر کوئی سستی پرواز نہیں جاتی اور پیسے ہمارے پاس نہیں آتے ۔

پیرس کی پرواز دیکھ کر دل مچل اٹھا کہ چلو پیرس بھی دیکھ آئیں کہ جو ملتا ہے یہ ضرور پوچھتا ہے کہ پیرس گئے ؟ ایفل ٹاور دیکھا؟ گویا میں پی ایچ ڈی کرنے نہیں ایفل ٹاور دیکھنے گیا ہوں۔ ستر یورو کی پرواز ملنے پر اب تک جو میں لوگوں کی سنی سنائی پر پیرس سے خفا سا رہا تھا مجھے پیرس سے پہلی بار محبت محسوس ہوئی کہ ہمیں تو لڑکی بھی وہ اچھی لگتی ہے جو خرچہ کرانے کی بجائے اپنے پلو سے کوکا پیپسی پلائے۔ لیکن دنیا کو ہماری خوشی ذرا نہ بھائی کہ ادھر میں نے اعلان کیا کہ میں نے پیرس جانا ہے ادھر شارلی ایبدو کا واقعہ ہوگیا کہ ہم کسی نہ کسی طرح پیرس نہ آ سکیں بس عقلمندی یہ ہوئی کہ میں نے ٹکٹ نومبر میں لے لی جبکہ جانا فروری میں تھا اور وہ ہمیں شاید جانتے نہیں کہ اپنے ستر یورو کی خاطر تو ہم افغانستان اور عراق چلے جائیں پیرس کس مرض کی دوا ہے۔ جانے سے قبل سب گھر والوں نے باری باری کہا کہ پیرس نہ جاؤ لیکن ستر یورو کا سوال تھا اور میری طبعیت تو یہ ہے کہ اگر کوئی کہتا کہ ستر یورو مجھ سے لے لو اور پیرس نہ جاؤ تو وہ ستر لیکر بھی ان ستر کا افسوس رہتا۔

آخرکار میں نے پیرس کو قدم بوسی کا اعزاز بخش کر ہی دم لیا اور چارلس ڈیگال ہوائی اڈے پر رات کو اترے اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ بے شک ستر یورو سے محبت اپنی جگہ لیکن میری بزدلی بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ مجھے خیال تھا کہ شاید سارے گورے ہاتھ میں چاقو تھامے انتظار میں ہوں گے کہ کوئی بدرنگا نظر آئے اور اس کو حلال کریں لیکن بظاہر سب کچھ ٹھیک ہی تھا۔ دوسرا ڈر یہ تھا کہ رات کو یہاں کالوں کا راج ہوتا ہوگا اورکوئی آتا جاتا انکی دسترس سے بچ نہیں پاتا ہوتا گا لیکن ایسا بھی کچھ نہیں نظر آیا کہ یہاں اکثر کالے الجزائر اور تیونس کے ہیں، مسلمان ہیں اور کسی حد تک خاص کالوں کے اثر سے محفوظ ہیں۔ اور ویسے بھی میں ایسے کالے سے جس نے چاقو تھاما ہو سے وہ گورا زیادہ خطرناک لگتا ہے جس نے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھامی ہو۔

جب گارے دو نور Gare du Nord یعنی پیرس کے شمالی اسٹیشن پر اترا اور وہاں سے میٹرو میں جانا تھا تو اتنے بڑے اسٹیشن اور اتنے سارے کالوں کو پہلی بار ایک ساتھ دیکھ کر ایک لمحے کو تو میرے ہاتھوں کے طوطے کیا کھوتے گھوڑے بھی اڑ گئے لیکن آہستہ آہستہ عادت پڑتی چلی گئی۔ کسی کو الو کا پٹھہ بنانا ہوتو میرا خیال تھا کہ اس کو  لڑکے لڑکی کے ایک جوڑے کے ساتھ بٹھا دو لیکن دوسرا طریقہ اب محسوس ہوا کہ اس کو پیرس میں میٹرو، بس اور آر ای آر RER کے اسٹیشنوں پر چھوڑ دو۔ کوئی شیطان کی آنت اسٹیشن تھے تاہم مہربانی یہ کی گئی تھی کہ کم از کم گاڑیوں کے روٹ اور اسٹیشن صاف صاف لکھے تھے ۔ اگر آپ انڈرگراؤنڈ سسٹم سے واقفیت رکھتے ہیں تو تھوڑی مشکل کے بعد آپ پیرس کے پبلک ٹرانسپورٹ کو قابو کرسکتے ہیں اگر عوامی مواصلات کے نظام سے واقف نہیں تو بس پھر عیاشی کریں۔

کچھ دن پہلے لزبن میں میری جاننے والی ایک لڑکی پیرس گئی تو مجھے کہنے لگی کہ پیرس میں بڑی سردی تھی بندا جمتا تھا۔ وہ لڑکی پولینڈ کی ہے اور میرا دل تو آیا کہ اس کو کہوں کہ پولینڈ سے بھی زیادہ سردی تھی لیکن اس لڑکی نے کچھ دن پہلے مجھے بتایا تھا کہ اس کے ایک ہم جماعت نے جو کہ ماشااللہ سے اپنے ہندی بھائی تھے نے اس کو فیس بک پر میسج کیا کہ تم بہت خوبصورت ہو۔ میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ یہ کام کسی پاکستانی نہیں کیا تو میں نے سوچا کہیں یہ نہ سوچے کہ میں بھی اپنے ہندی بھائی کے نقش قدم پر ہوں تو تب سے میں  اس کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتا اور ویسے بھی چلو خوبصورت ہو تو بات بھی ہے۔ لیکن جب میں یہاں پہنچا تو ایسٹونیا کی مشق کام آئی اور سردی اتنی خاص نہ لگی لیکن جس چیز نے مجھے جما دیا وہ قیمتیں تھیں۔ پرتگال میں، پولینڈ میں یا جہاں جہاں میں گیا (اسکینڈے نیویا چھوڑ کر) تقریباً ہر جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ماہانہ کرایہ تیس یورو ہے جبکہ ایسٹونیا میں تو مفت ہے لیکن پیرس میں کرایہ ایک دن کا تیس یوروتھا۔ میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچامیں سچی مچی بے ہوش ہوجاتا لیکن خطرہ تھا کہ کہیں کوئی سامان اٹھا کر نہ بھاگ جائے اور سامان میں میرا جان سے پیارا کیمرہ بھی تھا بلکہ اب تو ایک اضافی لینز Lens کی پخ بھی ساتھ لگ گئی ہے۔ مزید مزیدار بات یہ پتہ لگی کہ ایک دن کا مقصد یہ نہیں کہ جب پہلی بار استعمال کی اس کے عین چوبیس گھنٹے بعد تک بلکہ رات بارہ سے بارہ چاہے ٹکٹ صبح آٹھ بجے لیں یا رات گیارہ بس بارہ بجتے گئے اور ٹکٹ فارغ۔ میں نے سوچا یہ نظام کسی نے میری کہانی پڑھ کر ہی بنایا ہوگا۔  

ہوٹل پہنچا تو کمرہ الگ لیکن غسل خانہ مشترکہ تاہم مہربانی یہ تھی کہ ہر کمرے میں ایک بیس wash basin لگا تھا کہ ہاتھ دھونے کے لیے قطار بننانے کی ضرورت نہیں بس ضروری مواقع پر ہی باہر سردی میں کانپتی ٹانگوں اور ڈھڑکتے دلوں کو تکلیف دیں۔ ہوٹل کے سامنے ہی ایک دکان تھی جس پر گیا تو پتہ لگا کہ یہ بھارتی ملواری خاندان ہے جہاں والدہ، والد اور بیٹا تمام دن ملواری فلمیں دیکھتے۔ اس دکان میں سے ایسی خوشبو آتی تھی جیسی ملواریوں کی مشرق وسطی میں قائم دکانوں میں سے آتی ہے اور جسے غیر ملواری خوشبو نہیں کہتے۔ مجھے سمجھ آئی کہ دبئی میں کیوں کہا جاتا ہے کہ چاند پر جاؤ تو وہاں بھی ملواری نے ایک ڈھابہ لگایا ہوگا۔

دس یورو ہوائی اڈے کہ ٹکٹ کا تاوان بھرا اور اس کے بعد ایک یورو اسی سینٹ ایک سفر کے۔ صبح اٹھا اور بسم اللہ میں نے سوچا انسانوں کی بجائے جانوروں سے کرنی چاہیے اور میں چڑیا گھر پہنچ گیا۔ ایک تو مجھے پہلے ہی جانوروں پرندوں سے محبت تھی باقی جب کا بڑے زوم zoom والا لینز لیا ہے اور جانوروں پرندوں کا بلاگ شروع کیا یہ محبت عروج پر پہنچ گئی ہے۔ نقشے پر اچھا خاصا بڑا پارک تھا لیکن اس میں چڑیا گھر کہاں تھا یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ میں نے چلنا شروع کردیا۔ پھولوں کا پارک آیا، نباتاتی پارک آیا، گھڑدور کا پارک آیا، خچر سواری کا پارک آیا لیک مجال ہے جو چڑیا گھر کے اثار نظر آئیں۔ ویسے علاقہ سارا خوبصورت تھا ، عمدہ مناظر تھے تو مجھے بھی چڑیا گھر کی اتنی پریشانی نہ تھی میں درختوں کے جھنڈ میں ہی wildlife photography شروع کردی۔  چلتے چلتے پارک کی دوسری حد آ گئی لیکن چڑیا گھر کا نشان نہ تھا۔ آخر میں نے تیسرے شخص سے پوچھا تو اس نے کہا اللہ کے بندے آپ کے پیچھے یہ دیوار چڑیا گھر کی ہے بس اس کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ۔

چڑیا گھر کو

چڑیا گھر نہ سہی خوبصورت درختوں کی قطار سہی

شہر میں جنگل اور جنگل بھی وہ جس میں ڈاکو نہیں

باز آئیں گے کیا، چڑیا گھر مل نہیں رہا باہر اڑتے پرندوں کی تصاویر ہی سہی

برڈ کیپچرنگ

اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے

چڑیا گھر میں سب سے عمدہ شاہکار

پیرس کی عمارتیں




دریائے سین کا پہلا دیدار


پیرس کی جن باتوں سے ڈرایا گیا ان میں یہ بھی تھا کہ کوئی انگریزی نہیں سمجھتا اور فرانسیسی تلفظ انتہائی مشکل ہے تو میں نے تین بندوں سے بات کی دو کو انگریزی آتی تھی ایک کو نہیں آتی تھی لیکن وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور مجھے راستہ سمجھا دیا۔ باقی جہاں تک تلفظ کی بات ہے تو ہر لفظ میں جتنے الفاظ کو "ش" اور "ں" میں بدل کر ادائگی کر سکیں تو سمجھیں اتنا ہی فرانسیسی سے نزدیک ہیں۔

چڑیا گھر چھوٹا سا تھا لیکن اچھا بنا ہوا تھا۔ وہاں سے دوبارہ میٹرو پر بیٹھا اور اب منزل ناترے ڈیم Notre Dame کا گرجا تھا۔ ہنچ بیک آف ناترے ڈیم hunchback of notre dame جب کا سنا اپنے رنگیلا نے اس پر فلم بنائی ہے تب کا ناول دل سے اتر گیا لیکن اب پیرس میں تھا تو میں نے سوچا مشہور جگہ ہے چلو اس کی بھی تصویر لیے چلیں کیا یاد کرے گا کس سخی سے پالا پڑا تھا۔ لیکن میں اکیلا سخی نہ تھا بلکہ یہاں تو حاتم طائی تھے جو کلو میٹر لمبی قطار میں کھڑے تھے کہ کچھ ہو جائے ٹکٹ بھر کر اندر ضرور جانا ہے۔

ناترے دیم


ناترے دیم کا ایک اور رخ


یہ سارے پیرس کا منظر ہے کہ اویں ہی گندی ماری عمارت ہو گی اور باہر دس کلو میٹر لمبی قطار جو ٹکٹ الگ بھر کر اندر جا کر گرجے، عجائب گھر دیکھیں گے ٹکٹ کی مالیت کا اندازہ میرے بتائے گئی پچھلی قیمتوں سے خود کر لیں۔

ناترے دیم سے اپنی خواہشوں کی گٹھڑی اٹھائے یہ کبڑا چلا اور منزل ایفل ٹاور تھی۔ راستے میں چھوٹے بڑے کئی گرجا آئے، کئی تاریخی عمارتیں آئیں، کئی مجسمے آئے ، کئی ایسی یادگاریں آئیں جو ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے سوچا تھا وہ مر جائیں گے تو دنیا ختم ہو جائے گی لیکن خود پسندی کی بھی چولیوں کی طرح کوئی انتہا نہیں اور میں نے سوچا ہم پر بھی لوگوں نے ہنسنا ہے لہذا میں ان سے حساب برابر کرلوں اور میں دل ہی دل میں ان پر ہنستا چار گھنٹے پیدل خوار ہو کر میں ایفل ٹاور پہنچ گیا۔

تالے تالے پر لکھا ہے چاہنے والے کا نام

ایفل ٹاور براستہ ناترے دیم

سائیکل کرایے پر

راستے میں 

پینتھئیون


ایک میوزم اور سہی

دریا کے پار

اسٹیمر بھی چلتے ہیں آپ پیسے بھرنے والے بنیں

دریا پار کا قلعہ




محل


لورین



ایک طاق



پل پر تالے زباں پر تالوں سے بہتر ہیں

اسمبلی ہال

وہ دور جھولا شانزے لیزے کا شروعاتی مقام ہے

ریلوے ٹیشن


ایفل ٹاور کی کوئی دس بارہ زاویوں سے تصویریں اتاریں اور میں نے سوچا لو بھئی ہوگئی پیرس کی سیر اب سکون ہے۔ ایفل ٹاور محبت کے لیے مشہور ہے لیکن ہم جیسے لوگ کیا کرتے نہ کوئی پیار کرنے والا نہ کوئی بندہ جس کے لیے بندہ دریا کے پلوں پر تالے لگائے۔ پیرس کے ہر پل پر جہاں جہاں ممکن ہے محبت کرنے والے تالے لگا گئیں کہ یہ لگا تالا محبت کا اور چابی دریا برد۔ لیکن جلد ہی پھر کسی چابی ساز وکیل کو بلا کر انہیں چابی لگوانی پڑتی ہے کہ جن کو میسر ہو ان کے سر میں درد ہے ایک ہی کے ساتھ رہیں۔ ویسے بھی بیوی بھی حکومت کی طرح جلد ہی بری لگنے لگتی ہے۔ یورپئیوں کے case میں گرل فرینڈ بھی بیوی کا ہی کردار ادا کرتی ہے۔

آگیا وہ شاہکار جس کا انتظار تھا




ایفل ٹاور پر بتیاں بھی جلتی ہیں



لیکن ابھی طاق فتح arc de triomphe رہتی تھی اور میں تھکن سے بے حال ہونے باوجود وہاں کے لیے چل پڑا۔ وہاں جا کر اس کی خوبصورت تصاویر اتاریں اور مجھے احساس ہوا کہ چلنا حلال ہو گیا ہے۔ اگلے روز میری واپسی کی پرواز تھی لیکن پرواز رات 9 بجے تھی۔ تب تک سوچا پھر خواری کی جائے۔ میں نے سوچا چلو دوپہر مین ایفل ٹاور اور طاق فتح دیکھ لوں اور شانزے لیزے جس سے پاکستانی کیا دنیا کے بڑے لوگ متاثر ہیں کا بھی دیدار کر آؤں۔
روانگئی طاق فتح


طاق فتح




واپسی






میٹرو میں بیٹھا اور شانزے لیزے جا اترا۔ شانزے لیزے کے اسپیلینگ (Champs-Élysées) ہی بندے کے لیے کافی ہیں لیکن ہم عقلمند ہوتے تو اشارے سمجھتے جبکہ اپنے تئیں ہم اشارے اس لیے نہیں سمجھتے کہ والدین نے بچپن میں کہا تھا اشارے گندے بچے کرتے ہیں تو کبھی اشارہ بازی پر توجہ نہیں دی خواہ ٹریفک کا ہو یا لڑکی کا۔ شانزے لیزے شاہراہ The Avenue des Champs-Élysées ایک پنجرے والے جھولے سے شروع ہو کر طاق فتح تک سڑک ہے۔ میں نے سوچا ایسا کرتا ہوں یہ جھولا تو کل دیکھ گیا تھا اس کے آس پاس گھوم کر جھولے کے عین نیچے سے شانزے لیزے پر سفر شروع کرتا ہوں۔

جب میں نے اطراف میں گھومنا شروع کیا تو مجھے یاد آیا کہ کل ایک گرجا دیکھا تھا جس کے مینار پر کتے بلے پر لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اس کی تصویر کل تھکاوٹ اور وقت کی کمی سے نہیں کھینچ سکا آج کھینچتا ہوں۔ اب جو چلنا شروع کیا ناترے ڈیم سے کوئی چار پانچ کلو میٹر آگے جا کر دم لیا لیکن وہ چرچ ایسے غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ میں نے سوچا لعنت بھیجو بس نہیں ملتا تو نہ ملے خود ہی میرے کیمرے اور کمپیوٹر میں محفوظ ہونے کے اعزاز سے محروم رہا ہے میرا کیا جاتا ہے اور واپس شانزے لیزے کو چل پڑا

واپسی میں راستے میں پتہ چلا کہ وہ پروں والے کتے بلے کسی گرجا پرنہیں بلکہ ایک مینار پر تھے اور وہ مینار میں جاتے وقت دیکھ کر ہی گیا تھا لیکن اس کے ایک طرف کتے بلے ہیں دوسرے طرف بندے بنے ہیں اس لیے نہیں پتہ لگا۔ بہرحال میں نے دو فوٹو کھینچے اور دو حرف بھیجے کہ ایک حرف کسی اور شے کے بچا کر رکھ لیا اور شانزے لیزے کی طرف چل پڑا۔

جب تک شانزے لیزے پہنچا ایک گھٹنہ مسلسل کڑک کڑک کیے جا رہا تھا جیسے سائیکل کی چین میں کچھ پھسنا ہو ، رات کھائی پیناڈول کا اثر ختم ہو چکا تھا اور پاؤں میں ایسے درد ہورہا تھا جیسے ابھی ابھی کسی چیز کے نیچے آیا ہو۔ایک پاؤں میں ایسے گومڑ ابھر آیا تھا جیسے پلاسٹک کے کھلونے پرندوں کی ایک ٹانگ چھوٹی یا بڑی ہو جاتی ہے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ کھڑے نہیں ہوسکتے اور ہو بھی جاتے ہیں تو ان کی کمر نوے درجے کی سلوپ بنا رہی ہوتی ہے ایسے ہی میں ایک قدم ایسے رکھتا تھا جیسے ایک جوتے میں کیل ابھرا ہو۔ آخر کار طاق فتح آئی اور میں دل ہی دل میں مزید ایک یورو ساٹھ سینٹ خرچ کر کے ایفل ٹاور دیکھنے کے مشورے پر بچا ہوا حرف بھیجا کہ پیدل چلنے تو کیا پیدل چلنے کا سوچنے کی سکت نہ تھی۔

اگلا روز

وہی عجائب گھر وہی محلات





شانزے لیزے

شانزے لیزے دوسری طرف








کتوں والے گرجا کی تلاش میں

طلائی مجسمہ






وہ منحوس ٹاور جس کے دوسری طرف وہ کتے تھے جن کی تلاش میں تھا




یہاں تک پہنچ کر دل میں دفع کرو واپس چلیں


یہ رہے اس طرف سے کتے بلے پر لگائے


پیرس پیمائی





تحفے لیں پیسے دیں

آگئی طاق فتح



میٹرو سے ایفل ٹاور کا آخری نظارہ

ہوٹل پہنچا وہاں سے سامان لیا اور مزید دس یورو کا خون کر کے ہوائی اڈے پہنچا جہاں سے علی پور کا بورا کھٹ کر (سرائیکی میں علی پور کا بورا کھٹنا کسی ناکامی کی صورت میں کہا جاتا ہے) واپس لزبن کے لیے چڑھ بیٹھے۔ لیکن ویسے اس میں کوئی شک نہیں پیرس خوبصورت شہر ہے ۔ اگر آپ کے پاس پیسے ہوں، اچھے خاصے ہوں  اور خرچ کرنے کا دل کرتا ہو تو پیرس سے بہتر شاید ہی کوئی اور جگہ یا مقام ہو۔ کہ اچھے خاصے کا احوال یہ ہے کہ جتنے میں ایک پیرس گھوم آیا اتنے میں تو میں دو ڈھائی ملک گھوم سکتا تھا۔