April 21, 2015

ایک بلاگ کتے بلوں کے لیے



اگر آپ نام پڑھ کر یہ سوچ رہے ہیں شاید یہ دو ٹانگوں والے کتے بلوں کے لیے لکھا گیاہے تو آپ کی سوچ غلط ہے یہ بلاگ جانوروں کے لیے ہی لکھا گیا ہے۔

 نہیں یاد کب جانوروں سے دلچسپی ہوئی لیکن امید واثق ہے جب انسانوں نے ہمیں گھاس ڈالنا چھوڑ دیا تو ہم نے خود گھاس خوروں سے دوستی کر لی۔ جب چھوٹا تو والد صاحب ایک کتاب لے آئے تھے جس میں پرندوں کی رنگ برنگ تصاویر تھیں اور ان کے بارے معلومات تھی۔ لیکن وہ انگریزی میں تھی اور انگریزی تو اب تک کسی نک چڑھی لڑکی کی طرح ہمیں سہلاتی رہتی ہے ہے تب کیا لفٹانا تھا۔ لیکن پھر وہ کتاب کہیں کھو گئی تاہم چڑیا گھر جانے کا شوق اس کتاب کے آنے اور کھونے سے بھی پہلے کا تھا۔
پہلا چڑیا گھر بہاولپور کا تھا جو تین چار بار تب ہی دیکھ لیا تھا جب یہ بھی پتہ نہ تھا کہ لازم نہیں جانور کی چار ٹانگیں ہوں اور انسان اور گدھے میں مشترک چیز سینگ کا نہ ہونا ہے- بعد میں لاہور کا چڑیا گھر بھی گھوم آیا یعنی جو کچھ میرے بس میں تھا وہ تب بھی کرڈالا۔ لیکن اصل شوق تب پیدا ہوا جب میں یورپ آیا اور تصویر کھینچے کی لت پڑی۔ پہلا چڑیا گھر جو یورپ میں میں نے دیکھا وہ پولستانی شہر گدانیا کا تھا۔ اس کو گھوم کر اپنے لاہور اور بہاولپور کے چڑیا گھر چڑیا گھر کی بجائے چَریا گھر لگنے لگے۔ وہاں پہلی بار پینگوئن کا بھی دیدار ہوا۔ لیکن تب میرے پاس کیمرہ نہ تھا اس لیے اس کی تصاویر نہ کھینچ سکا لیکن یا وہ واقعی اتنا اچھا تھا یا پہلا اچھا دیکھا تھا ابھی تک وہ میرے پسندیدہ چڑیا گھروں میں شامل ہے۔

پہلا تصویری چڑیا گھر جرمن شہر اشٹوٹ گارٹ کا تھا۔ جہاں میں پہلی بار ایمزان ہاؤس اور تتلی گھر جیسی چیزوں سے آشنا ہوا کہ ایک بڑے ہال میں قدرتی ماحول پیدا کر کے سب کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ پرندے تتلیاں یوں اڑتی پھرتی ہیں جیسے آپ کسی جنگل یا باغیچے میں ہوں اور تصاویر برباد کرنے والی جالیاں بھی نہیں آتیں اور آپ پرندوں کی واضح تصاویر اتار سکتے ہیں۔ اشٹوٹ گارٹ میں ایک اور حیران کن چیز وہاں کی اود بلاؤ تھیں۔ مجھے یاد ہے بہاولپور میں جہاں اود بلاؤ کا پنجرہ تھا وہاں سے آپ ناک پر چار پانچ کپڑے رکھے بنا نہیں گزر سکتے۔ لیکن یہاں اشٹوٹ گارٹ میں وہ سوئمنگ پول جیسے پانی میں تیرتی پھر رہی تھیں اور نہ صرف تیرتی پھرتی تھیں بلکہ کرتب بھی دکھاتی تھیں اور روز شام کو ان کو مچھلیاں ڈالتے وقت ایک جھمگٹ وہاں جمع ہوتا ہے ان کی حرکات و سکنات سے محفوظ ہونے کو۔ لزبن چڑیا گھر اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پرندوں سے کرتب دکھاتا ہے۔ کھلے میدان میں بڑے میکاؤ طوطے، الو، عقاب ایسے اڑتے پھرتے ہیں جیسے ہمارے گاؤں میں آوارہ کتے۔ ظاہر ہے جو خیال کرے گا وہ کیوں نہیں وہاں رہنا پسند کریں گے۔ جیسے تالن چڑیا گھر میں گرمیوں میں بہت سارے پرندے ایسے بھی آجاتے ہیں جو اس چڑیا گھر کے مکین نہیں لیکن مفت کی خاطر داری کس کو بری لگتی ہے۔

اس کتے بلے کے شوق کو مزید مہمیز میرے 70-300 ایم ایم کے لینز نے دی جس نے دور پرندوں اور جانوروں کی کلوز اپ لینا شروع کر دیں اور میں خود ساختہ وائلڈ لائف فوٹو گرافر بن گیا کہ پاکستان سے باہر جہاں گیا وہاں کے چڑیا گھر کا پھیرا شروع کر دیا اور پاکستان میں جب دیکھو کیمرہ کندھے پر اور ایک بار تو میری والدہ نے تنبیہ کر دی اب یہ کیمرہ اٹھائے دیکھا تو پھر آپ کو کیمرہ نہیں ملنا۔ حالانکہ میں نے بہتری کوشش کی کہ ان کو سمجھا سکوں کہ جنگلی حیات کتنی اہم ہے اور میں ان کی تصاویر اتار کر آنے والی پاکستانی نسلوں پر کتنا احسان کر رہا ہوں لیکن ماں کو فقط اپنی نسل کا احساس ہوتا ہے پرائی نسل سے اس کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔

بہرحال ہوا یوں کہ پاکستان سے باہر وارسا (پولینڈ)، اشٹوٹ گارٹ (جرمنی)، تیان جن (چین)، ناگویا( جاپان)، ویرونہ (اٹلی)، لزبن (پرتگال) ، تالن (ایسٹونیا) دبئی (متحدہ عرب امارات) اور پیرس (فرانس) کے چڑیا گھروں کی تصاویر جمع کر لیں اور پاکستان میں تو ہزاروں کے حساب سے کھینچ گئیں تو سوچا کیوں نہ ان کو کسی کام لگایا جائے کہ ایسا تو ہونے سے رہا کوئی آئے اور کہے کہ آپ 20-25 ملکوں کی تصاویر جمع کر چکے ہیں ان کی کتاب چھاپتے ہین یا ان کی نمائش کرتے ہیں تو مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا اور نتیجہ اس بلاگ کی صورت نکلاجہاں اب تک تقریباً 300 سے زائد مختلف جانوروں اور پرندوں کی تصاویر اور تفصیل شایع ہو چکی ہیں اور روز چار مختلف چڑیا گھروں سے ایک ایک جانور یا پرندے کی تصویر اور تفصیل اپلوڈ کرتا ہوں ۔یوں میں نے پرندوں اور جانوروں کا بلاگ https://birdsanimals.wordpress.com/ کے نام سے بنا دیا۔

ابھی تک شوق تھما نہیں اور آئندہ دنوں میں کوشش رہے گی کہ برلن (جرمنی) کا چڑیا گھر دیکھ سکوں جس میں یورپ میں سب سے زیادہ انواع کے جانور پائے جاتے ہیں اور سنا ہے کہ کیوی بھی پایا جاتا ہے جو کہ اب تک نہ دیکھا جانے والا میرا سب سے مشہور پرندہ ہے جبکہ میتس (فرانس) کا بھی فہرست میں ہے کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑایورپی چڑیا گھر ہے اس کے علاوہ ہیلسنکی (فن لینڈ) کا چڑیا گھر بھی ذہن میں کہ سنا ہے کہ وہ ایک الگ تھلگ جزیرے پر بنا ہے۔

اب تصویر تو اتاری لی اور بلاگ بھی بنا لیا لیکن بڑا مسئلہ ایک تو تصویر پہچاننے کا تھا کہ یہ جانور کونسا ہے کہ ہم تو ایک بگلا، بطخ یا چڑیا کہہ کر عہدہ برآ ہو گئے ادھر بیسیوں نسل کی بطخیں، بگلے، کونجیں خوار ہوئے پھرتی ہیں صرف میری ہی سائیٹ پر اب تک کونج کی قسمیں یہاں کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں گوگل بھائی نے مدد کی اندازً ڈھونڈا اور پھر کچھ ایسی سائیٹ ملیں جو برطانیہ اور امریکہ میں پائے جانے والے پرندوں کی پہچان بتاتی ہیں کہ آپ بتائیں اس کا جسم ایسا تھا، رنگ ایسا تھا، چونچ ایسی تھی تو وہ اس سے ملتی جلتی تمام انواع کی تصویر آپ کو دکھا دیتا ہے یا پھر اگر آپ کو پکا پتہ ہے کہ یہ قاز ہے تو گوگل بھائی سے قاز کی قسمیں ڈھونڈنے کو کہیں اور کوئی نہ کوئی آپ کی طرح ویلا مل ہی جائے گا جس نے قاز کی تمام نسلوں کی تصویری اقسام اپلوڈ کر رکھی ہوں گی۔

دوسرا مسئلہ یہ کہ اردو ناموں کا کیا کیا جائے۔ہم نے ایک لفظ چڑیا لیا اور ہر چھوٹا پرندہ چڑیا بنا دیا۔ جس کو انگریز مینا کہتے ہیں ہم اس کو لالی کہتے ہیں اور جس کو مینا کہتے ہیں اس کو انگریز اسکارلٹ کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وکی پیڈیا اور انگریزی اردو لغت سے کام لیا اور عربی، فارسی اردو کا تڑکا لگا کر کچھ قابل قبول قسم کے نام بنائے اور کالا سر پیلی چونچ سفید پیٹ پڑھ کر جو چند ایک قارئین آئے وہ حیران رہ گئے لیکن کیا کریں انگریز کام ہی ایسا کرتا ہے کہ ہم گنجی ٹنڈ، ایک بازو، لنڈی دم ، کالی زبان انسانوں کو کہتے ہیں اور وہ اس سے جانوروں کو پہچانتے ہیں۔

حیران کن یا افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک بلاگ پر لائیک، ٹریفک ، وزیٹر زیادہ تر انگریزوں کے ملکوں سے آئے ہیں جبکہ بلاگ بنانے کا اصل مقصد ان تمام جانوروں کو اردو میں پیش کرنا تھا اور شروع میں تو مین ان کی تفصیل لکھنے کے موڈ میں بھی نہیں تھا لیکن پھر بجائے اس کے کہ مایوس ہوتا میں نے سوچا کہ کتنے فوٹو گرافی کے بلاگ بنائے، اس طرف سے کو پانچ سال ہوگئے، کتاب لکھ ماری تو کیا ملا لہذا بس چپ کر کے لکھی جاؤ اور اب تو بندہ نیٹ پر بھی آہ نہیں کر سکتا کہ پتہ لگے سائبر کرائم ہو گیا اور قانون کی ذد میں ہم جیسے ماڑے بندے ہی آتے ہیں۔

تاہم شروع میں میری خواہش تھی کہ صرف پاکستانی پرندوں اور جانوروں کی سائیٹ ہو لیکن سب کو برابر موقع فراہم کیا تاہم اب تک جتنے بھی پاکستانی پرندے جانور تصویروں میں اتارے تھے ان کو یہاں شایع کرنا شروع کیا اور 60 سے زاید پاکستانی جانور/ پرندے شایع ہو چکے ہیں یاد رہے کہ یہ تمام پرندے جانور میں نے اپنے گاؤں کے آس پاس ڈھونڈے ہیں تو اگر آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں پرندوں کی آبادی ہے تو میری میزبانی کر کے آپ بھی اس نیک کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں اور بدلے میں اپنے دل کی تسلی اور میرے سے شکریے کے دو بول وصول پا سکتے ہیں۔

جب یہ تجربہ کامیاب ہو گیا (کامیابی یعنی دل کو بھا گیا) تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اب یہاں لزبن میں باہر جا کر پرندوں کی تصاویر اتاری جائیں-چونکہ یورپ اور امریکہ میں برڈنگ ایک بڑا مقبول مشغلہ ہے اس لیے لزبن شہر میں ایسی جگہ جہاں پرندے مل سکتے تھے نیٹ سے ڈھونڈ کر وہاں پہنچا اور لگا تصاویر اتارنے۔ لیکن وہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ بندے کو اقات سے باہر نہیں نکلنا چاہیے کہ 300 ایم ایم کا لینز چڑیا گھر یا پندرہ ایک گز تک تو تصویر اچھی کھینچ سکتا ہے اس سے دور کھینچنے کے لیے یہ ناکافی ہے۔ اس لیے بوجھل دل سے واپس آیا لیکن پکا ارادہ بنایا ہے کہ 600 ایم ایم والا لینز نہ لیا تو کچھ نہ کیا۔ بس اب بڑا ہو کر وائلڈ لائف فوٹو گرافر بننا ہے۔ مک گئی بس۔

Aik blog kutto or billo ke liye