February 11, 2016

سلووینیا کا سفر



 سلووینیا Slovenia جانے کا سودا دماغ میں تب کا سمایا تھا جب کا پہلی بار اٹلی گیا تھا۔ اس میں زیادہ قصور میرے دماغ سے نقشہ نویسوں کا تھا جنہوں نے ایسے نقشے بنائے کہ تمام یورپ ایک بالشت میں سما جاتا ہے اور سلووینیا تو گویا وینس سے ایک پور دور تھا۔ لیکن جانا جب تک لکھا نہ ہو تب تک کیسے ہو تو اٹلی کے چکر لگا لگا کر جہاز گھس گئے یہاں تک کہ ایدریا ہوائی کمپنی نے لیوبلیانا سے براہ راست تالن کے لیے فضائی سروس شروع کر دی لیکن ہم جہاں نقد پر آدھا ادا کرنا ہو کو ادھار پر دوگنا ادا کرنا پڑے کو ترجیع دیتے ہیں اس ارادے پر قائم رہے کہ جائیں گے تو اٹلی سے براستہ سڑک جائیں گے کہ اتنے اچھے ہم بھی نہیں کہ براہ راست ٹکٹ خریدیں، ہوٹل بک کرائیں اور جائیں بھی کہاں؟ لوبییانا۔



اس بار آخر کار ہمارے میزبان تمام تر مشکلات کو پچھاڑتے ہوئے اور ہمارے اٹلی میں آمد کے آخری قابل قبول عذر کو مٹاتے ہوئے سلوینا جانے کو تیار ہوگئے اور ارشاد ہوا صبح تیار رہیے گا لیوبلیانا Ljubljana کو چلیں گے۔ میں کیا بتاتا اس کی تیاری تو میں چار سال قبل ہی کر چکا تھا۔

صبح اٹھے تو پادوا میں دھند تھی اور ہمیں ایسا لگا کہ انتظار ابھی ختم نہیں ہوا۔لیکن ہمارے میزبان کو ہمارے چار سالہ انتظار پر رحم آ گیا اور مستقبل کی میری آمد کا سد باب کرتے ہوئے انہوں نے خوش خبری سنائی کہ آج جا رہے ہیں اور ہم دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پادوا سے سلووینیا کی سڑک پر چل دیے۔ نیت نیک اور ہوتا دیکھ کا عملی سبق تب دیکھنے کو ملا جب
ادھر گاڑی سلووینیا کی سرحد میں داخل ہوئی ادھر دھند، بادل ہر شے غائب ہو گئی اور موسم انتہائی خوشگوار اور صاف ہو گیا۔

ہمیں امید تھی کہ ہماری خاصی تواضع ہو گی کہ مہاجرین سلووینیا پر ہر طرف سے دستک دے رہے تھے اور میرے خیال میں ہمیں سرحد پر تلاشی اور کاغذات چیکنگ جیسے حالات سے گزرنا پڑے گا لیکن ادھر سے تو ملتان باہر نکلتے زیادہ تلاشی اور چیکنگ ہو جاتی ہے۔ کوئی پوچھنے کو موجود نہ تھا کہ بھائی کدھر منہ اٹھائے چلے جا رہے ہو اور ہم خراماں خراماں سلووینیا میں داخل ہو گئے۔

 سلووینیا پہاڑیوں، گھاٹیوں اور وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں دل کرتا تھا کہ ہر موڑ پر، ہر منظر پر رک کر اس کو سکون سے دیکھا جائے اور قدرت کی کاریگری کی داد دی جائے لیکن وقت کی کمی تھی اور ہم نے آج واپس بھی آنا تھا اور یہ صاف موسم کی نعمت فقط سلووینیا میں موجود تھی لہذا ہم آہیں بھرتے گاڑی کو فراٹے بھراتے لیے چلے گئے اور ان کاموں اورخواہشوں کی فہرست میں جو کبھی پورا ہونے کا امکان نہیں میں ایک اور کا اضافہ کر لیا کہ سلووینیا کی تفصیلی سیر۔

ایسا راستہ ہو تو کس کو منزل کی فکر ہو




چونکہ لیوبلیانا کا پچھلے چار سالوں سے پروگرام بن رہا تھا لہذا قابل دید مقام زبانی یاد ہو چکے تھے کہ لیوبلیانا پرنے شہر میں رومن دیوار (Roman Wall)، لیوبلیانا قلعہ (Ljubljana Castle)، تہرا پل (Triple Bridge (Tromostovje))، دریائے لیوبلیانکا (River Ljubljanica )، پریسرن چوک ( Preseren Square) ، سینٹ نکولس کتھیڈرل (Cathedral of St. Nicholas) ، تیولی پارک (Tivoli Park)، اور سب سے بڑھ کر لیوبلیانا کا مقناطیس والا سوینئر لینا۔

لیوبلیانا پہنچے تو خیال آیا کہ لیوبلیانا پہنچتے چار سال لگ گئے اور ابھی تک اس کا درست تلفظ نہ آیا اور جب جب لکھنا پڑتا ہے تو گوگل انکل سے مدد لینی پڑتی ہے حتی کہ اب وہاں سے ہو کر آنے کے بعد بھی اس بلاگ کے لکھتے وقت ایک بار پھر گوگل سے مدد لینی پڑی تاکہ درست تلفظ لکھا جا سکے۔

شہر میں پہنچ کر کار پارک کی اور ایک شخص سے راستہ پوچھا۔ اس نے کہا بس یہ تھوڑا آگے جا کر رومن دیوار شروع ہو جائے گی اور وہاں سے ذرا سا آگے قدیمی شہر واقع ہے- میں نے دل میں سوچا کہ یہ مقامی لوگوں کا ذرا اکثر ہمارے نقشے کی پور ہی ہوتی ہے جو شیطان کی آنت کا زرہ ثابت ہوتا ہے لیکن ہمیں کیا پریشانی تھی کہ پیدل چلنے میں میرے ہمراہیوں کو تو اعتراض ہو سکتا تھا ہم تو یہاں سے پیدل اٹلی جانے کو تیار تھے بس کوئی ساتھ نبھانے والا ہوتا۔

رومن دیوار سے تو اگر ہم اپنے گھر کی کچی دیوار کو رومن دور کی قرار دے دیتے تو لوگ زیادہ آسانی سے یقین کر لیتے۔ لیکن اب لکھا گیا تو یقین کرنا پڑا اور رومنوں سے تھوڑا دل کھٹا ہو گیا کہ اٹلی میں تو کیا شاندار کھنڈر چھوڑ گئے اور ادھر چھوٹے ملک کے ساتھ انہوں نے بھی زیادتی کی اور ایک چھ فٹ کی چونے والی دیوار چھوڑ کر چل دیے اور رہی سہی کسر آنے والوں نے پوری کر دی جنہوں نےاس کے ساتھ عمارت کھڑی کر کے اس کی تھوڑی بہت عزت بھی اس بجری میں ملا دی جو دیوار کی بنیادوں کے ساتھ بچھائی گئی تھی۔

لیوبلیانا کی  رومن دیوار اور بجری 

دیوار کے اندر

ایک دروازہ جس کی اس دیوار پر چنداں ضرورت نہ تھی

 رومن دیوار پار کرکے شہر کے وسط میں داخل ہوئے اور پہلی تلاش ڈاکخانہ اور غسل خانہ تھی جہاں ہمارے ہمراہیوں کو ضروری امور سے نمٹنا تھا۔ دوران سفر اللہ کے کرم سے ہم ایسی ضروریات کی عیاشی سے پرھیز کرتے ہیں اس لیے ہم اسی دوران تماشائی بنے رہے اور شہر کی تصاویر کھینچتے رہے۔ ابھی پچھلی ضروریات کا معاملہ حل ہوا ہی تھا کہ میرے ہمراہیوں کو بھوک لگ گئی اور اب ہماری منزل کسی شوارمے (جس کو یورپ میں کباب کہتے ہیں) کی دکان کی تلاش تھی۔ دکان پر ایک ترک نسل کے شخص سے پوچھا کہ حضرت حلال ہے؟ انہوں نے ایسی طلسم پاش نظروں سے دیکھا کہ ہم حرام ہوتے بچے اور کھسیانے ہوکر کہنے لگے بھلے صورت حرام ہو، ہوگا حلال۔ ایک ایک کباب ہاتھوں میں تھامے وہاں سے نکلے اور پرانے شہر کے بیچوں بیچ اور فوارے کے کنارے بیٹھ کر ہم نے ان انکل کے بقول حلال کباب کو حلال کیا، کیمرہ سنبھالا اور آخر کار لیوبلیانا کے دیدار کو چل پڑے۔

مشرقی یورپ میں اب تک جن ممالک کی سیر کی تھی ان سب میں ایک ہی طرح کی طرز تعمیر کی جھلک دکھائی دی تھی۔ وارسا Warsaw ، پراگ Prague-، ولنیوسVilnius-، ریگا Riga-سب انیس بیس کے فرق سے ایک ہی شہر کے مخلتف حصے لگتے تھے تاہم تالن (ٹالنTallinn) آکر پہلی بار اس احساس سے چھٹکارا ملا تھا اور لیوبلیانا آکر ایسا لگا جیسے ایک اور تالن آ گیا ہوں۔ گویا مشرقی یورپ میں یہ وارسا قسم کے بعد دوسری قسم کے شہر تھے۔ کمیونزم کا بس نہ چلا وگرنہ مائیں بھی بچے ایک شکل صورت قد بت کے جنتیں۔

لیوبلیانا شہر کی سیر

جمہوری چوک / republic Square کو

سرکاری دفتر کے باہر- شاید وہاں کسی زمانے میں نکموں کو چن دینے کا رواج رہا ہو

پرانے شہر سے زرا باہر

ایک بازار جہاں سب کچھ بک چکا تھا





خدا جانے یہ مجسمے والے انکل کیا کررہے ہیں کہ اس زمانے میں تو سیلفی نہ ہوا کرتی تھی



روشنیاں جلتی ہیں





شام میں پہاڑی پر قلعہ اور نیچے خوبصورت عمارت

ہر پیڑ اک مندر ہے

اب پریشان کن صورتحال تب پیدا ہوئی جب قابل دید مقامات کی آدھی فہرست ایک ہی جگہ ختم ہو گئی۔ تہرے پل پر ہم کھڑے تھے نیچے دریائے لیوبلیانکا بہہ رہا تھا سامنے سینٹ نکولس کتھیڈرل تھا اس کے سامنے والا میدان پریسرن چوک کہلاتا تھا اور کمر پر قلعہ لیوبلیانا پہاڑ پر تنا کھڑا تھا۔ ایک شے کی طرف کمر کر کے دوسری شے کی تصویر کھینچی اور سوچا کہ پرانے شہر کی سیر کی جائے۔

پرانے شہر میں



تہرے برج کا ایک پل


پرینسن چوک




شطرنج کی بازی


لیوبلیانا چرچ



Preseren Square

ایک منظر میں سب کچھ

پرانا شہر بھی شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا تو قلعہ جو کہ پہاڑی پر تھا کو جانے کا ارادہ کیا اور لڑھکتے ڈھلکتے پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ قلعہ باہر سے خوبصورت تھا. عام طور پر ہم ایسی عمارتوں کے اندر جانے سے پرھیز کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ دوسرے ملک کے زرمبادلہ بڑھنے اور ہماری جیب کے مزید خالی ہونے سے ہوتا ہے  لیکن اب کی بار اندر یہ سوچ کر چل دیے کہ اب یہاں آ ہی گئے ہیں تو ٹکٹ بھی بھر کر اندر چلے جائیں گے لیکن حکومت کو بخوبی احساس تھا کہ یہاں ٹکٹ لگانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے لہذا اندر داخلہ مفت تھا لیکن اندر دیکھنے کو کچھ نہ تھا۔ قلعہ کو برباد کر کے وہاں ہوٹل دکانیں اور عجائب گھر بنائے گئے تھے اور ہم نے سوچا چلو شکر ہے اپنے ملک کے علاوہ کسی اور کو بھی شرف حاصل ہوا۔بھلے ہی انہوں نے اس کی بھلائی سوچی ہے لیکن اصل شے تو اصل ہوتی ہے۔ بس وہاں دیواروں سے لٹک لٹک کر ہم نے تصاویر لیں اور واپس اترنے لگے۔

قلعہ باہر سے دور پہاڑی پر

قلعہ کی چڑھائی

اور موسم بھی پت جھڑ کا تھا

کئی لوگ اور کئی پتے راستے میں ہمت ہار گئے تھے

قلعہ کی بلندی سے شہر کو دیکھو



لیوبلیانا شہر کا طائرانہ منظر

خوشی کا راستہ


لیوبلیانا قلعہ کا داخلہ


قلعہ کے اندر عمارات ہوٹل بن چکے تھے








قلعہ کی بیرونی دیواریں جو آدھی دوبارہ اٹھائی گئی ہیں




چلے تھے جہاں سے 

واپسی



نیچے پہنچ کر طے کیا گیا کہ وقت کی کمی کے باعث تیولی پارک جو کہ کئی ہیکٹر پر پہلا ہوا ہے کو رہنے ہی دیا جائےاور وایسی کا سوچا جائے کہ شام ہو رہی ہے اور اٹلی میں موسم بھی خراب ہے۔ لیکن جانے سے پہلے ایک تو ہم نے اپنا مقناطیسیی یادگار لی اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ ہم بھی بیسیوں لوگوں کی طرح دریا کنارے لکڑی کے تختوں پر بنے ہوٹلوں میں تھوڑی دیر بیٹھ لیں بھلے ایک کپ کافی ہی پی لیں۔

دریائے لیوبلیانکا-River Ljubljanica

وہاں بھی تالے تھے

محبت کی کنجیاں کھو چکی تھیں- پلوں پر فقط تالے کھڑے تھے

یہ صاحب تو کچھ زیادہ اتاولے ثابت ہوئے اور یہ زنجیر/ربڑ والا تالا ہی لگا گئے

دریائے لیوبلیانکا-River Ljubljanica




آخری منظر

وہاں دریا کی ایک شاخ میں سبز کائی زدہ پانی کے کنارے مچھروں کے نغمات سنتے ایک کپ کافی پی اور وہاں پر موجود اپنے حال میں خوش لوگوں کو چھوڑ کر ہم دھندلے مستقبل کی تلاش میں واپس چل دیے۔

Slovenia ka safar