April 11, 2016

میں وی 'مہران' لئی سی


پاکستان میں ہمارے ہوش سنبھالنے کے بعد سوزکی مہران کار جو تب آلٹو Alto کہلاتی تھی سے اور جس نے سوزکی ایف ایکس  Fx کی جگہ لی تھی سے آشنائی کا سفر شروع ہوا۔ اس زمانے میں کاریں خال خال ہوا کرتی تھیں اور ایف ایکس بھی بڑے رتبے اور اونچے خاندان کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ پھر ایف ایکس بدلی مہران آئی اور اس کی وقعت و معیار ہماری اخلاقی قدروں کی طرح گرتے چلے گئے۔ جب مہران جو تب آلٹو کہلاتی تھی کا پہلا ماڈل آیا تو اس میں اور ایف ایکس میں چند ایک تبدیلیاں کی گئیں جیسے مہران کا بونٹ نیچے کو جھکا بنایا گیا، اسٹیرنگ کے ساتھ ہوا پھینکنے کے لیے روائیتی بٹن یا لیور کی بجائے گول پہیے لگائے گئے، ایف ایکس کا خاص بسکٹی رنگ ختم کر کے آلٹو مختلف رنگوں میں آ گئی۔


بس وہ دن اور آج کا دن ، بارہ پندرہ سال گزر گئے ، دنیا مریخ پر پہنچ گئی پر پاکستانی وہی مہران انیس بیس کے فرق کے ساتھ دھکیلتے پھر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں معاشی ترقی ماپنے کا پیمانہ اسٹاک ایکسچینج یا جی ڈی پی ہوا کرتی ہے لیکن پاکستان میں اس ترقی کو مہران کار سے ماپا جا سکتا ہے- 1999 ، 2000 کی مہران کو آج سے تقابل کر لیں آپ کو پاکستانی معیشت کا گراف بخوبی سمجھ آ جائے گا۔بلکہ جیسا میں نے کہا یہ نہ صرف معاشی بلکہ ہماری زندگی کے ہر معیار میں ہمارا آئینہ بنی ہے اور آئینہ بھی وہ والا جو ہمارے بے تکلف دوست ہماری الٹی سیدھی حرکتوں سے تنگ آکر ہاتھ کی پانچوں انگلیاں پھیلا کر کہا کرتے تھے کہ یہ شیشہ دکھ لے۔ لیکن اس کے باوجود مارکیٹ کی حالت یہ ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کا پیچھا کرنے والے اوباشوں کے بعد مہران دوسری سب سے زیادہ پائی جانے والی شے ہے۔

ایک کہانی میں پڑھا تھا کہ ایک شخص دوسرے کو موٹر سائیکل خریدنے کے مشورے پر ہنڈا ففٹی کی ایک خوبی یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے سپئر پارٹس پان کے کھوکھے پر بھی مل جاتے ہیں- مہران پر بھی یہ بات صادر آتی ہے بلکہ اگر آپ غور کریں تو ورکشاپ ایرایاز میں کوڑے کرکٹ میں بھی عام مل جاتے ہیں۔ ادھر ہماری پاکستانی قوم لگتا ہے اسی کہانی میں گم ہے کہ کار بعد میں خریدتی ہے اس کو اضافی پرزہ جات یعنی سپئر پارٹس کی فکر پہلے پڑ جاتی ہے بھلے ساری عمر گاڑی کا اطراف والا شیشہ لائل پوری بکرے کے کان کا سا لٹکتا رہے لیکن سستے اضافی پرزہ جات کی خوشی میں کار مہران ہی خریدتے ہیں۔ ویسے بھی کم از کم ملتان میں پچھلے سالوں میں رواج یہ رہا ہے کہ یار کونسی کار خریدوں؟ جواب ملتا ہے مہران خرید لو اس کی ری سیل بڑی اچھی ہے ۔ اور مشورہ کرنے والا مہران خرید لیتا ہے گویا اس کے کار خریدنے کا مقصد اس پر سواری نہیں بلکہ اس کو دوبارہ بیچ کر مشورہ دینے والے کا امتحان مقصود ہے اور قسمت دیکھیے کہ منحوس بک بھی اچھے داموں ہی جاتی ہے۔ ابھی تو قابل شکر بات یہ ہے کہ مہران کی ڈکی نہیں وگرنہ یہاں جیسے موبائل ٹارچ بتی کی وجہ سے خرید لیا جاتا ہے ایسے کی گاڑی اپنی ڈکی کی وجہ سے خریدی جاتی ہے جیسے کار نہ ہوگئی سامان ڈھونے والی ریڑھی ہوگئی-

ایسا نہیں کہ مہران ہمارے سیاستدانوں سی جوں کی توں ہے بلکہ جیسے ہمارے پرانے سیاستدانوں کی بچائے ان کے بَچے بُچےمیدان سیاست میں ٹپک پڑے ہیں ایسے ہی حاسدوں کی دن رات سازشوں کے باجود دنیا کے ترقی کے ساتھ مہران بھی ترقی کر ہی گئی اور پرانے پتلے کالے بھجنگ بمپروں کی جگہ نئے موٹے اور گاڑی کے رنگ سے ملتے رنگ کے بمپر آ گئے۔ مزید برآں یورو ٹو Euro2 انجن نے تو چار چاند لگا دیے، رہی سہی کسر گاڑی میں نصب اے سی اور ٹیپ نے پوری کر دی ہے جو اب کبھی کبھار چل بھی پڑتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ مہران کے پرزہ جات کے لیے ٹنڈر ایسے ہوتے ہیں کہ
  • ایسے سپیکروں کی ضرورت ہے جو بٹن چلانے پر آواز دینے لگ جائیں بھلے وہ سپیکر کی بھاں بھاں کی ہو۔
  • ایسے پتلے ٹائروں کی ضرورت ہے جو نہ ہی کار میں ڈلتے ہوں نہ ہی موٹر سائیکل یا سائیکل میں۔ جن کے پاس ضائع ہو رہے ہوں سوزوکی کے پاس مفت جمع کرادیں – کرایے کے پیسے نہیں دیے جائیں گے۔
  • ایسے ٹھیکدار جن کے پاس تارکول سڑکیں بنانے سے بچ گیا ہے سوزوکی کو سستے داموں بیچ دیں کیونکہ ہماری تحقیق میں تارکول بھی چپکانے کا کام سراانجام دے سکتا ہے بلکہ گوند اور میجک سے بہتر دیتی ہے۔
  • وہ کباڑیے جو گھی کے خالی ٹین کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں وہ سوزکی سے رابطہ کریں، کار کی باڈی کے لیے ٹین کی ضرورت ہے۔ مارکیٹ سے پورے دو روپے فی من قیمت زیادہ دی جائے گی۔
  • وہ زیرو کے پیلے بلب جو ایل ای ڈی LED بتیوں کے آنے سے بے کار پڑے ہیں سوزوکی خریدنے میں انٹرسٹڈ ہے- جو حضرات کرائے کی قیمت میں بیچنا چاہتے ہوں سوزوکی سے رابطہ کریں ہم نے ہیڈ لائیٹس لگانی ہیں۔


 المختصر اگر سائنس کا کرشمہ اور انسانی دماغ کی عظمت دیکھنا ہو تو مہران کو دیکھیں کہ کیسے چار ٹائروں پر ایک باڈی بٹھا کر انجن سے جوڑ کر چل رہی ہے- اگر جاپانی پاکستان آ کر مہران کو دیکھیں تو تمام دنیا سے دست کش ہو کر تمام انڈسٹریاں پاکستانی قابل کار مالکان اور صابر عوام کے نام کر جائیں۔

کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس لیے اس صنعت کو نہیں چھیڑا جاتا کہ بہت سے لوگوں کا کار کارخانوں سے روزگار وابستہ ہے جس کی وجہ سے حکومت نئے کارخانوں یا درآمدی کاروں کو آنے نہیں دیتی اور ان بہت سے لوگوں چونکہ اس وقت کے وزیر بھی ہوتے ہیں لہذا کون اپنے پیٹ پر لات مارے اور عوام کا کیا ہے یہ تو بلیک میں مہران خریدنے سے نہیں رہتی۔

ایک صاحب کے مطابق مہران کار کی حالت بدلنے کا ایک کلیہ یہ ہے کہ اس کا نام نیویارک، شانزے لیزے، ٹوکیو وغیرہ رکھ دیا جائے کیوںکہ جیسا کہ ہم مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ نام کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے تو جن لوگوں نے وادی مہران کی زبوں حالی دیکھ رکھی ہے وہ مہران کار دیکھ کر یہی کہتے ہیں واقعی اسم با مسمی ہے ہم البتہ ابھی تک وادی مہران کی زیارت سے محروم ہیں لہذا مہران کار کی اسلام مزید پکا کرنے کی اس سعادت سے فی الحال محروم ہیں۔

پچھلے دنوں فیس بک پر ایک پوسٹ میں دیکھا کہ اگر حکومت اورنج لاین پر ممکنہ سفر کرنے والے ڈھائی لاکھ افراد کو ایک ایک مہران بھی دے دے تو بھی اورنج لائن کے بجٹ سے اچھے خاصے پیسے بچ جائیں گے۔اور اس سے مزید کوئی اسپتال، اسکول وغیرہ وغیرہ بنائے جا سکتے ہیں۔ یوں تو ہمیں فیس بک کی طرح کسی حکومتی بات کا اعتبارنہ ہے اور نہ ہی مہرانی بات کا لیکن اس کے باوجود ہمارے دخل در غیر معقولات قسمی مشورہ یہ ہے کہ سب کو مہران کاریں دے کر باقی جو پیسے بچ جائیں ان سے ایک نیا کار کا کارخانہ لگا دیا جائے۔ اب سیاستدانوں سے تو جان چھوٹتی نہیں کم از کم مہران سے تو چھوٹے۔

پ- ت :یہ بلاگ مہران کار کی ہرزہ سرائی میں ہے اس لیے نہیں کہ وہ قیمت کی سستی اور عام آدمی کی کار ہے بلکہ اس لیے کہ وہ معیار سے سستی اور عام سی کار ہے۔

main vi mehran lae si