November 16, 2016

سٹاک ہوم تک دو بحری سفر


پوچھا گیا کہ کیا سوئیڈن چلیں گے؟ میں نے جواباً پوچھا کون کون جا رہا ہے؟ پتہ چلا کہ تین چار لوگ اور دلچسپی ظاہر کرچکے ہیں۔ بس جہاں پاکستانی جمع ہوئے وہاں میں نے ہتھیار ڈالے۔ 


ہمارے ایک دوست جو ڈیڑھ سال کے لیے اسٹونیا Estonia میں ریسرچ پر آئے تھے سامان سمیٹ کر واپس اپنی اصلی یونیورسٹی جو کہ سٹاک ہوم میں تھی جہاں سےوہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے جانے کی تیاری میں تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے بحری جہاز میں ایک کمرہ بک کرایا تھا۔ کمرے میں چار اشخاص رہ سکتے ہیں اور بحری جہاز کی ٹکٹ ایسی ہوتی ہے کہ ایک روز وہ تالِن Tallinn سے نکلتا ہے اگلے روز صبح سٹاک ہوم Stockholm پہنچتا ہے، سارا دن وہاں گزار کر شام کو واپس چلتا ہے اور تیسرے روز واپس تالِن پہنچ جاتا ہے- میرے دوست نے تو وہاں رہ جانا تھا اور ٹکٹ وہ لے چکے تھے قطع نظر اس سے کہ آپ یک طرفہ سفر کریں یا دو طرفہ ، اکیلے سفر کریں یا چار لوگ، کرایہ ایک سا تھا- 

اب بحری جہاز کا سفر، سٹاک ہوم کا اولین دیدار بھی مجھے اپنی طرف ملتمس نہ کرسکا اور میں نے کہا چلیں دیکھتے ہیں یعنی کہ فی الحال ناں ہی سمجھیے۔

جانے سے چار دن قبل پتہ لگا کہ سب جانے والوں کے کام نکل آئے ہیں اور مسافروں میں فقط وہ ہی بچے ہیں- میں نے حامی بھر لی- تاہم جاتے وقت تک ایک اور صاحب بھی راضی ہوگئے لیکن بھلے ان سے بچپن میں لنگوٹ بدلی نہ کیا تھا پھر بھی وہ ان میں سے نہ تھے جن کے ساتھ جانے کو میں نے گھر بیٹھے رہنے کو ترجیع دی تھی۔ 

بندرگاہ پہنچے تو دوست نے متنبہ کیا کہ اب آپ ترجیحی سلوک کے لیے تیار ہو جائیں اور وہ سلوک یہ تھا کہ خاص طور پر ہمارے پاسپورٹ اور ویزوں کی جانچ پڑتال۔ ابھی مہاجرین کی آمد کا زور نہ ہوا تھا لیکن تالِن جیسے ملک میں ہم بد رنگے ابھی بھی خال خال ہیں اس لیے بندرگاہ جیسے حکام جن کا ہم جیسوں کے ساتھ کم پالا پڑتا ہے اپنے فرائض میں قطاً کوتاہی نہیں برتتے اور بھرپور اطمنان کے بعد میں ہمیں جانے کی اجازت مرحمت کرتے ہیں۔ 

بحری جہاز میں سوار ہوگئے- اکتوبر کا مہینہ تھا اور سمندر میں سردی اتنے زوروں پر تھی کہ ہم جیسے "ترسی ہوئی مخلوق" بھی دس منٹ بعد عرشے کے نظارے سے بیزار ہو گئے اور کانپتے کانپتے واپس کیبن میں آگئے۔ ہمارے دوست جن کو ہم الوداع کرنے جا رہے تھے اس سفر کے ماہر تھے کہ وہ پچھلے ڈیڑھ سال سے اسی رستے سے سٹاک ہوم آ جا رہے تھے بولے کہ رات بارہ بجے تک انتظار کریں اصل پروگرام تب ہوگا۔ تب تک پہلے کھانا کھا لیتے ہیں پھر جہاز میں آوارہ گردی کی جائے گی- 

تالِن بندرگارہ 

بحری جہاز کے اندر باہر






کھانا کھانا شروع کیا تو ہم تینوں کچھ نہ کچھ بنا کر لے آئے تھے۔ میرے ہمراہی اوون میں پکے مرغی کے پیس بنا لائے تھے جبکہ میں چونکہ کھانا پکانے میں انتہائی نکما واقع ہوا ہوں لہذا خانہ پوری کو ایک میٹھا کیک کم روٹی لے آیا۔ پیس تو ہم سب نے مل کر کھائے البتہ میٹھا مجھ اکیلے کو ہی کھانا پڑا اور میں دل ہی دل خوش ہوتا رہا کہ شکر ہے میٹھا اکیلے ہی کھانے کو ملا- 

اب جہاز کا معائنہ شروع کیا- ایک کونے میں دو یتیم سے گلوکار چوتھی قبل مسیح کے زمانے کے گانے گا رہے تھے اور خود ہی گارہے تھے اور خود ہی سن رہے تھے۔ آگے ایک ہوٹل نما تھا جہاں لوگ یوں کھانے میں مصروف تھے جیسے گھر سے کچھ کھانے کو نہ ملا ہو۔ ہمارے دوست کم گائیڈ بولے کہ جہاز والوں کو اصل آمدنی یہاں سے ہی ہوتی ہے کہ ٹکٹ تو انتہائی کم قیمت ہے لیکن باقی اشیا کے پیسے کھاتہ پوارا کرلیتے ہیں۔ ہم مزید خوش ہوئے کہ ہم نے کم ازکم کھاتہ نہیں کھولنے دیا۔ آگے ایک ڈیوٹی فری شاپ تھی جس کا واحد فائدہ یہ بتایا گیا کہ یہاں سے شراب اور سیگرٹ سوئیڈن سے کم قیمت پر ملتے ہیں اس لیے لوگ جتنا زیادہ سے زیادہ کوٹہ ہو اتنی شراب اور سیگرٹ خریدتےہیں اور ہمیں متنبہ کیا گیا کہ آپ کی ٹکٹ پر بھی سیگرٹ خریدے جائیں گے بعد میں زیادہ مسلمانی نہ دکھائیے گا۔ سیگرٹ تو اب ہم مسلمانی کا حصہ سمجھتے ہیں اس لیے کیا بگڑنا تھا البتہ احسان چڑھا دیا کہ آپ سے اب بھلا اصول پیارے ہیں۔ 

آگے ایک طرف کریاکی karaoke جاری تھی جس میں میوزک بچ رہا ہوتا ہے اور الفاظ لکھے آ رہے ہوتے ہیں اور آپ نے پڑھ کر گانا ہوتا ہے- ہم سے پوچھ گیا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا ہمارے آواز صرف اور صرف قوالیوں کے ہمنواؤں پر فٹ بیٹھتی ہے – عقلمند تھے انکار سمجھ گئے پوچھا نہیں کہ پھر میں انکار سمجھوں۔ 

اس سے آگے ایک تمباکو نوشی کا کیبن تھا۔ کمروں میں پینا منع تھا کہ کمرے میں پینے سے صحت تو جو خراب ہو گی سو ہوگی تنہائی الگ تکلیف دہ۔ لہذا یہاں آ کر پیئیں ، دوست یار بنائیں اور دھوئیں کو دھوئیں سے ماریں گویا سیگرٹ پیئیں اور نوشی سے گپ شپ اڑائیں۔ ہم چونکہ سیگرٹ اور نوشی دونوں سے دور رہتے ہیں لہذا ہمیں باہر کھڑا کر کے ہمارے دوست اندر سیگرٹ پینے چلے گئے۔ اس سے آگے ایک ڈانس فلور تھا جہاں اس وقت کچھ بچے ورزش نما ڈانس کررہے تھے- ہمیں بتایا گیا کہ بارہ کے بعد یہ دوسرا اہم مقام ہے جہاں آیا جائے گا۔ آگے بارہ بجے والا مقام تھا جوکہ ایک نیم تھیٹر تھا۔ پتہ چلا یہاں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ 

جہاز میں ایک سن شائن پوائنٹ یعنی مقام چمک سورج بھی تھا جہاں اس وقت سردی سے ہر شے منجمد ہو چکی تھی اور فقط ہمارے جیسے لوگ جو زندگی میں پہلی بار بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے تصاویر بناتے پھر رہے تھے اور پانچ دس منٹ بعد ہی ان کا شوق مدہم ہو جاتا اور وہ واپس اندر چلے جاتے۔ پتہ چلا کہ یہ مقام فقط گرمیوں میں جو کہ بمشکل ایک آدھ ماہ آتی ہیں کے لیے ہے لیکن لوگوں کی دلجوئی اور امید (کہ ایک دن گرمیاں آئیں گی) کے لیے باقی سال ویسے ہی رہنے دیا جاتا ہے۔ 

 بارہ بجے اور ہم کیا تمام لوگ جوق در جوق اس بارہ بجے والے مقام یعنی نیم تھیٹر میں پہنچ گئے اور فنکاروں نے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا- جو فن کا مظاہرہ کم اور فنکاری زیادہ لگ رہا تھا یعنی چھوٹے کپڑوں میں بڑی اچھل کود۔ مختلف انگریزی گانوں پر مخلتف تھیم بنا کر ڈانس کیا جاتا تھا- پتہ لگا کہ ہر دو ماہ بعد نیا گروپ اپنی فنکاریاں دکھانے آ پہنچتا ہے۔ آدھے گھنٹے کا شو ٹوٹا تو اب دوسرے بارہ بجے والے مقام پر پہنچے لیکن خلاف از معمول وہاں اب وہ بچے تک موجود نہ تھے۔ ہمارے گائیڈ صاحب نے اس کو جہاز میں نوجوانوں کی کمی سے تعبیر کیا اور کہا کبھی کسی تہوار کے دنوں میں سفر کرکے دیکھیں یہاں کیا حال ہوتا ہے- ہم نے انکی نصحیت پلے باندھ لی اور کبھی تہوار کے اریب قریب سفر نہیں کیا۔ 

ٹکٹ میں ہم دس یورو بوفے کے بھی بھر چکے تھے لہذا اگلی صبح چھ بجے ہم بوفے ہال میں پہنچے تو پتہ لگا ابھی پانچ منٹ دیر ہے۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ آدھ گھنٹہ پہلے نہ آگئے تھے کہ دس یورو حلال کرنے کے چکر میں ہمیں نیند ہی نہ آئی تھی۔بوفے میں جو کچھ کھانے کے قابل تھا ہم نے کھایا یہاں تک کہ کچی سالمون یا سالمن Salmon مچھلی تک کھا لی- ہوا یوں کہ ہم بالٹک Baltic (بحیرہ بالٹک سے ملحقہ ممالک مثلاً پولینڈ، لیتھوانیا، لیٹویا، ایسٹونیا وغیرہ) میں مچھلیوں سے بڑے تنگ ہیں کہ ایک تو کہتے ہیں کہ زیادہ نہ کھائیں کہ جرمنوں کی دوسری جنگ عظیم کی بمباری کے باعث پانی کسی حد تک زہریلا ہے اور زیادہ مچھلی کھانے سے آپ بے ہوش یا ٹرجعون یعنی فوت تک ہو سکتے ہیں دوسرا یہ لوگ اکثر کچی یا نیم پکی کھاتے ہیں اور بو کے معاملے میں ہمارا ناک ایسا ہے کہ کوئی معمولی سی خوشبو لگا کر پاس سے گزرے تو ہمارے سر میں درد پڑ جاتا ہے یا کسی گھر جا کر ہم با آسانی بتا سکتے ہیں آج انہوں نے کیا پکایا ہوگا یا ہمارے کپڑے دو بار دھلتے ہیں کیوںکہ مجھے ان میں سے بو آتی ہے- ایسے میں مچھلی کہاں سے کھائیں لیکن جب دوست کو کھاتے دیکھا تو پوچھا کیا یہ اچھی طرح پکی ہے؟ کہنے لگے نہیں سالمن ہے کچی کھائی جاتی ہے دہی میں مصالحہ بنا کر اس میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں اور جب رچ جاتا ہے تو وہی کھاتے ہیں۔ مجھے ابکائی سی آئی اور میں نے پوچھا آپ کو بو نہیں آتی ؟ کہنے لگے جب دس یورو نہ بھریں ہوں تب آتی ہے۔ بس دس یورو تو ہم نے بھی بھر رکھے تھے لہذا ہم نے بھی سالمن سے ناک میں کپڑا ٹھونس کر خوب انصاف کیا- 

سٹاک ہوم پہنچ کر شہر کی سیر شروع کی- حسب معمول قدیمی شہر سے آغاز کیا لیکن ابھی آغاز ہی نہ ہواتھا کہ انجام ہوگیا- پتہ لگا کہ بس یہی کچھ باقی بچا ہے باقی جدید شہرہے-اور جو باقی تھا وہ بھی بس ایسے ہی تھا اور ہمیں سٹاک ہوم پہلی ہی نظر اور پہلے ہی تعارف کے بعد بھانا ختم ہوگیا۔ اوپر سے وہاں پر اتنے دیسی اور افریقی گویا کسی سرد دبئی میں پھر رہے ہیں۔ 

سیر سے فارغ ہو کر (جو کہ سیر کے نام پر دھبہ تھی) کھانے کے لیے ہمیں پاکستانی نہاری اور ایرانی کھانے کی پیشکش کی گئی ہم نے ایرانی کو ترجیع دی اور اس کے بعد ہمیں ایک دکان پر لے جایا گیا- دکان کیا تھی بس کسی اندرون شہر پرچون فروش کی دکان سمجھ لیں (اگر آپ کبھی کسی پرچون فروش کی دکان پر نہیں گئے تو یہ آپکا قصور ہے)۔ وہاں پر شان مصالحے، ہمدرد اور جام شریں، نیشنل اچار، پاکستانی لائف بوائے، رسیلی سپاری، الغرض ایسی چیزیں پڑی تھیں جو پاکستان میں اب نہیں ملتیں۔ جس سے ہمارا دل سٹاک ہوم سے مزید برگشتہ ہوگیا کہ سٹاک ہوم نہ ہوا پرانا کراچی یا انار کلی ہوگیا۔ 

سٹاک ہوم میں خزاں تھی





ہالووین کی آمد آمد تھی


ٹیلی نار- یہاں بھی





گرمیوں میں اس تالاب میں پانی ہوتا ہے فوارے اچھلتے ہیں اور سردیوں میں اچھے دنوں کی یادوں سے ہی ہاتھ سینکے جاتے ہیں 














بتایا گیا کہ اس عمارت میں نوبیل انعامات بانٹے جاتے ہیں- پاکستان میں نوبیل انعام کی بری شہرت کے باعث ہم نے اس عمارت کی تصویر بھی ڈرتے ڈرتے کھینچی



قدیمی شہر کا آغاز




تنگ گلیوں مین بلند میناروں کا مقصد سوائے فوٹو گرافروں کو خوار کرنے کے اور کچھ سمجھ نہیں آیا آج تک

آئے ہیں اس گلی میں تو 'ٹرول' ہی لے چلیں


کسی کے انتظار میں۔۔۔۔

پرانے شمع دانوں میں  نئے بلب


اور پھر وہاں سمندر کیسے نہ ہوتا


بالٹک کا نیلا پانی


دل ہے بھئی کسی پر بھی آ سکتا ہے

تصویر ترچھی نہیں سڑک ڈھلوان پر بنی ہے

یہ چھوٹے جہاز بطور پبلک ٹرانسپورٹ آس پاس کے جزیروں کو ملاتے ہیں



کشتی تڑ گئی ٹیشن توں




ان سیڑھیوں پر چڑھنا ہے


بلندی سے شہر کو دیکھو






پیار کا تالا



شام ڈھل گئی اور بتیاں جل گئیں کیونکہ وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی





بچ کے رہنا تے ہم پر نہ رہنا

واپسی کا سفر سکون سے گزرا اور بارہ بچے والا پروگرام بھی نہ ہوا جس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ پروگرام ایک طرف ہوتا ہے ایک طرف نہیں۔ ابھی ہم واپس تالِن پہنچے ہی تھے کہ ہمیں پتہ لگا کہ سٹاک ہوم میں چڑیا گھر بھی ہے- 

ہم نے دوبارہ ٹکٹ خریدی اور انہی گائیڈ صاحب کو مطلع کر دیا کہ ہم آ رہے ہیں اور چڑیا گھر دیکھیں گے- انہوں نے کہا خوش آمدید۔ جانے کے لیے تین لوگ تیار ہوئے لیکن ہوا یہ کہ جانے سے ایک دن پہلے شدید سمندری طوفان آیا اور اس دن جس بحری جہاز نے جانا تھا اس میں پانی بھر آیا اور وہ حادثے سے بال بال بچ گیا۔ اس پر ہمارے ایک ممکنہ ہمسفر "ڈاکٹر صاحب" جن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی نے جانے سے انکار کر دیا کہ بیگم نہیں مانتیں۔ ہم نے کہا "بیگم ہے بڑی چیز جہانِ تگ دو میں ۔۔۔۔۔" اور ان کے فیصلے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے اپنے پرانے ہی ہم سفر کے ساتھ اس متاثرہ جہاز میں طوفان جو کہ ابھی جاری تھا میں سوار ہو گئے کہ ہمارا کیا تھا کہ کچھ ہو بھی جاتا تو ہم کونسا زندگی اور دنیا کو کندھوں پر اٹھائی پھر رہے ہیں- 

بس اس دوسرے سفر میں واحد اچھی بات یہ ہوئی کہ ہم نے جانوروں کی تصویریں کھینچیں۔ باقی تمام سفر جھومتے جھامتے گزرا کہ جہاز کو کسی طور قرار نہ تھا- طوفان کی وجہ سے بارہ بجے والا پروگرام بھی منسوخ کر دیا گیا- نیکی و گناہ کے مقصد سے نہیں بلکہ اس لیے کہ سیدھا ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا کجا اچھا کود کرنا- چڑیا گھر بھی اوپن ائیر میوزیم open air museum کم چڑیا گھر نکلا (شمالی یورپ میں اوپن ائیر میویزم عام ہیں جہاں قدیم تہذیب کے پورے گاؤں بسا کر نمائش کی جاتی ہے کہ انیسوین صدی کے یہ حالات تھے، اٹھارویں کہ یہ حالات تھے وغیرہ وغیرہ)جہاں واحد کام کی چیز مچھلی گھر تھا جس کی ٹکٹ میوزیم کی ٹکٹ سے علاوہ تھی۔ 
دسمبر کا مہینہ تھا اور گھاس جل چکا تھا




اک راہ اکیلی سی











کرسمس کی تیاریاں




آگئی ٹرین اور وقت روانگی ان پہنچا


واپسی پر البتہ پروگرام جس کا نام سائیڈ پروگرام زیادہ مناسب ہو گا کہ کپڑے مزید کم اور اچھل کود مزید زیادہ ہو گئی تھی ہوا اور تیسرے روز ہم سٹاک ہوم و سٹاک ہوم سنڈروم سے متاثر ہوئے بغیر ہی واپس تالِن پہنچ گئے اور آئیندہ کے لیے سٹاک ہوم سے کسی بھی قسم کا تعلق و رابطہ رکھنے سے توبہ کر لی۔

سٹاک ہوم چڑیا گھر جس کو سکاسن پارک کہتے ہیں کی تصاویر اس لنک پر ملاحظہ کریں

Stockholm tak do behri safar