November 22, 2017

فیس بک فرینڈ ریکوئسٹ کا معمہ


جس وقت میں نے انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب قلمی دوستی دم توڑ چکی تھی اور یاہو Yahoo اور ایم ایس ا ین MSNکے غپ خانے (چیٹ رومز chat rooms) آباد ہو چکے تھے- جی میل Gmail اور سوشل میڈیا بنانے والے شاید ابھی سوچنے کے قابل بھی نہ ہوئے تھے۔ 


ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہم نے بھی ہاٹ میل اور یاہو پر اکاؤنٹ بنائے اور شامل ہوگئے شہیدوں میں- اس دور میں فراغت تھی، وقت کی آسودگی تھی، ذمہ داری نام کو نہ تھی تو سارا دن انٹرنیٹ ہوا کرتا تھا اور ہم تھے دوستو۔ اس زمانے میں اتنا فارغ (فارغ تو اب بھی ہوں لیکن تب وقت اور عقل دونوں سے تھا اب فراغت محض عقل تک محدود رہ گئی ہے) کہ ایک بار دو ہفتے لگا کر میں نے ایم ایس این کے تمام پاکستانی خواتین کے اکاؤنٹ پروفائل account profile(اس زمانے میں پروفائل بنا کرتے تھے) چھان مارے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں ننانوے فیصد مرد ہیں اور عمر بھر اس دو ہفتے کی محنت نے بڑا فائدہ پہنچایا ہے کہ پھر 'ارادوں پر بھرو سہ رہا نہ یادوں پر یقین'- 

حالات بدلے اور سوشل میڈیا کا زمانہ آیا اور ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی فیس بکی مجاہدین میں شامل ہوگئے- ٹوئیٹر Twitter سے البتہ ہماری نہ بن سکی کہ اردو ٹوئیٹر بازوں میں وہی جھلک نظر آئی جو فیس بک میں گوئینگ ٹو واش روم ود خلیل میاں اینڈ ٹوئینٹی تھری ادرز (Going to washroom with Khalil Mian and 23 others) والے لوگوں میں تھی اور میں کبھی روزمرہ کے حالات فیس بک پر شئیر کرنے والوں میں سے نہ بن سکا۔ 

شروع میں تو مجھے ان پر حیرت ہوا کرتی تھی جو فیس بک پر چیٹ کیا کرتے تھے- ایسے ہی فیس بک پر انجان لوگوں کی درخواست دوستی یعنی فرینڈ ریکوئسٹ Friend requiesمجھے حیران کرتے رہی- پھر پتہ چلا کہ گیم کھیلنے والے ایک دوسرے کو ایڈ کرتے ہیں تاکہ گیم کھیلنے میں آسانی رہے تو ہم نے بھی پھر جی بھر کر زو ورلڈ  Zoo world والوں کو ایڈ کیا اور پھر جب گیم کھیلنی چھوڑی تو اسی حساب سے ان کو ان فرینڈ Unfriend بھی - ایسے ہی جب بلاگنگ شروع کی اور بعد ازاں فوٹو گرافی و برڈنگ کی تو پتہ چلا کہ یہاں تعریف کے بدلے تعریف ملتی ہے- لہذا انجان لوگوں کی فرینڈ ریکوئسٹ قبول کرنا شروع کیا جو اس سے قبل نہیں کیا کرتا تھا اور لائیک کا بٹن ایسے استعمال شروع کیا جیسے سرکاری فنڈز کو سیاستدان کرتے ہیں کہ یہاں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے 

یاہو اور ایم ایس ا ین مسنجر پر دوستوں کو ایڈ کیا لیکن فیس بک مجھے اس لیے زیادہ پسند آیا کہ یاہو/ ایم ایس این پر جب تک آپ دوستوں سے گپ شپ نہ کریں آپ کو نہیں پتہ کون کہاں ہے تو اس لیے ہر دس پندرہ دن بعد سب سے ہیلو ہائے کرنی پڑتی تھی تاہم فیس بک نے میرے جیسے تنہائی پسند و کم گو بندے کے لیے یہ آسانی کردی کہ بس ایڈ کردیں اور پھر تماشا اہل کرم دیکھیں کہ لاگ آن ہونے سے آپ کو کسی سے بات چیت ہیلو ہائے کیے بغیر ہی تمام روٹین کا پتہ چلتا رہے گا- فیس بک جب شروع میں چیٹ ریکوئسٹ آتی تھی تو میں حیران ہوا کرتا تھا کہ فیس بک پر کون غپ مارتا ہے؟ لیکن آہستہ آہستہ اس کا بھی عادی ہوتا چلا گیا (چیٹ کا نہیں بلکہ پیغامات موصول کرنے کا)۔ 

پاکستان میں فیس بک پر فرینڈ ریکوسٹ کا ایک مسئلہ پہلے بھی تھا اب بھی ہے- جب ہم پاکستان میں ہوا کرتے تھے تو کسی بھی لڑکی یا لڑکے کو فرینڈز ریکوئسٹ بھیجنے سے پہلے اس بات کا اطمینان ضرور کیا کہ وہ کسی دوست کا بھائی یا بہن نہ ہو کیونکہ کئی ایک دوستوں کے اکثر ایسے اسٹیٹس Status دیکھنے کو ملتے تھے کہ 'میری فرینڈز لسٹ میں اکثر خواتین میری فیملی ممبر ہیں لہذا ان کو فرینڈز ریکوئسٹ بھیج کر اپنے شہدے ہونے کا ثبوت نہ دیں"۔ 

پھر یورپ گیا تو وہاں پتہ چلا کہ یہاں کے رسم و رواج اور طرح کے ہیں، بندے اور طرح کے ہیں اور لوگوں کے انداز و اطور تو بالکل ہی اور طرح کے ہیں۔ اب ویسے تو ہم بھلے ہی دوسروں سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ یہ خاکسار ایک انتہائی عقلمند اور لائق فائق بندہ نا چیز ہے لیکن مجھ پر اپنی نااہلیت بخوبی عیاں ہے تو ہم ایسے گورو کی تلاش میں رہے جو دیار غیر میں فیس بکی اخلاقیات پر ہماری راہنمائی کر سکے اور سات سمندر دور ہماری نیا پار لگا سکے- 

آخر ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ماسٹرز بھی یورپ سے کیا تھا، پی ایچ ڈی بھی اور اب پوسٹ ڈاکٹری بھی یورپ سے ہی کر رہے تھے- ہم نے انہیں جانچا پرکھا اور اپنے ناقص علم کی روشنی میں ان کو بہترین پایا اور ان کے تجربے کا فائدہ اٹھانے کی غرض سے پہلی فرصت میں ہی سوال پوچھ بیٹھا کہ ' جناب یہ فیس بک پر لوگوں کو ایڈ کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟'
وہ مسکرائے اور بولے 'سوال کھل کر کیا جا سکتا ہے'۔ 
شہ پا کر میں گویا ہوا کہ 'جناب لڑکوں صورت حراموں کی تو خیر ہے کہ آنکھیں بند کر کے، انٹرنیٹ کنکشن کے بغیر بھی درخواستِ دوستی بھیجی جا سکتی ہے لیکن گوریوں کے معاملے میں میرا علم ناقص اور تشنہ ہے- ہر ایک گوری (اب یورپ میں تو ہیں ہی گوریاں ساریاں) سے ملاقات کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس کو ایڈ کیا جائے یا ناں؟ کسی کا خوشدلی سے ہیلو کہنا ہی فیس بک پر ایڈ فرینڈ کا بلب جگمگا دیتا ہے جبکہ کچھ کے ساتھ چار روزہ سفر بھی پیپل یو مے نو People you may know کی فہرست سے خارج کروا دیتا ہے'-
 وہ مسکرائے اور میٹھے لہجے میں گویا ہوئے کہ 'ہر ایک جَن، خواہ مرد ہو یا عورت، جس سے ہیلو ہائے Hello hi ہو کو درخواست دوستی بھیج دیں'۔ 
میں حیران رہ گیا ، میرا تمام تجربہ پانی بھرنے چلا گیا، میں گنگ ہو گا۔ ہمت جٹا کر یہی پوچھ پایا 'سرکار اگر وہ ایڈ ریکوئسٹ قبول نہ کرے تو؟' 
جواب ملا کہ 'پھر 'موج کرے'۔ 
بس وہ دن آج کا دن ہر ایک آتے جاتے بندے کو فرینڈ ریکوئسٹ پھینک مارتا ہوں- 

ویسے اگر فیس بک کی پیپل یو مے نو کو دیکھیں تو ہمارے پیر صاحب درست ہی لگتے ہیں کہ گزشتہ ماہ ایک دوست نے ایک تصویر بھیجی اور بولے ان صاحب کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا جانتا نہیں آپ کے توسط سے پہلی بار تصویر دیکھی ہے- بولے ' کل یہ گٹر صفائی کے مقصد کے لیے گھر آئے تھے آج فیس بک کھولی تو پیپل یو مے نو میں پہلے پہلے جگمگا رہے تھے'۔ مجھ پر ہمارے ڈاکٹر صاحب کی عظمت مزید واضح ہو گئی- 

یہ سب کتھا لکھنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ شرمین بی بی کی بہن کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے والے ڈاکٹر صاحب کو بھی ہو سکتا ہے کچھ ایسا راہ نما ملا ہو تو انہوں نے سوچا ہو ریکوئسٹ بھیجوں قبول ہوئی تو الحمدللہ وگرنہ بی بی موج کریں- لیکن شاید یہ بات نہ ان کے پیر اور نہ ہمارے پیر صاحب نے بھی نہیں سوچی کہ "موج صرف کرائی ہی نہیں بلکہ کی بھی جا سکتی ہے-" اب ڈاکٹر صاحب موج کریں اور ہمیں پچھلے دو دنوں میں ہیلو ہائے کہنے والوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے دیں۔

facebook friend request ka muamma