April 5, 2018

"ماں بولی"



میں بس اسٹاپ پر پہنچ کر ابھی دم نہ لینے پایا تھا کہ کسی نے دونوں ہاتھوں سے میرا داہنا بازو تھام لیا۔ 

میں نے خود کو پر سکون رکھتے ہوئے اپنی داہنی طرف دیکھا۔ ایک بوڑھی روسی سفید فارم خاتون تھی جن کو روسی زبان میں ببوشکا اور ہمارے ہاں اماں پکارا جاتا ہے۔ اس کا چہرہ دیگر بوڑھی روسی خواتین کی طرح کی طرح عمر بھر کی تنہائی کا غماز تھا۔ خواہشات کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اس کے چہرے پر جھریاں لٹک آئی تھیں۔ اس کی عمر کم از کم اسی سال رہی ہو گی۔ اس کا جسم تھوڑا چوڑا تھا لیکن ابھی تک وہ اس قابل تھی کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی تھی- اس روسی اماں نے سرخ رنگ کا اوور کوٹ پہنا تھا جس کی اجڑی ہوئی روئیں کوٹ کے پرانے ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ کوٹ کا نچلے چند بٹن ٹوٹے ہوا تھا یا اماں بند کرنا بھول گئی تھی۔ اماں کا چہرہ جھریوں سے بھرا تھا۔ وہ کب کی اس عمر میں پہنچ چکی تھی جہاں خواتین کسی بھی قسم کی دِکھنے کی پریشانی سے آزاد ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس خاتون کے ہونٹوں پر ہلکے سرخ رنگ کے بال تھے جو اگر غور سے دیکھے جاتے تو اچھی خاصی مونچھیں بن چکے تھے۔ مجھے اس کو دیکھ کر اپنے گاؤں کی بوڑھی خواتین یاد آ گئیں۔ اماں ثرو، اماں سکھی، اماں روزی، جو ہمارے گھر میں کام کیا کرتی تھیں- جب تک میں طبقاتی فرق نہ جانا تھا تب تک ان کے جھریوں بھرے چہرے سے بڑی محبت جھلکا کرتی تھی۔ 


روسی صوبے تاتارستان کے تاریخی شہر کازان کی اس مشہور ترین مسجد سے میں دو رکعت پڑھ کر ابھی نکلا تھا- ویسے تو میں یورپ میں مسجدوں کو باہر سے دیکھ کر ہی خوش ہو لیتا ہوں اور اندر داخلے سے احتراز کرتا ہوں کہ میں بہت کمزور مسلمان ہوں اور ڈرتا ہوں کہ کوئی میرے خلاف حکومت کو شکایت نہ دے یا حکومتی جاسوس اپنے محکموں میں میرے متعلق منفی رپورٹ نہ جمع کرا دیں کہ میں مسجدوں میں نماز پڑھتا پھرتا ہوں اور نتیجتاً مجھے اگر جیل نہ بھی جانا پڑے تو یورپ چھوڑنا پڑے- پر یہاں آ کر میں خود کو روک نہیں پایا تھا کہ روس کے بیچوں بیچ قائم اس مسجد 'قل شریف' میں نماز پڑھنا ایسا تجربہ تھا جیسے سمندر کے بیچوں بیچ جزیرہ یا صحراؤں میں گھرے نخلستان گھومنے کا۔

جیسا کہ لوگوں کی روس کے بارے عام رائے ہے جس پر میں بھی یقین کرتا تھا کہ یہاں بہت سے بھکاری ، چور، اچکے، پاکٹ مار، بد اخلاق، لڑاکو، شرابی لوگ پائے جاتے ہیں تو اگر وہ کوئی مرد ہوتا تو شاید میں گھبرا جاتا لیکن اس کے خاتون ہونے کی وجہ سے میں اس کو تکنے لگا۔ وہ ممتا بھری شفقت سے میرا بازو سہلانے لگی۔ میں انتظار میں رہا کہ وہ خاتون مدعا کہے اور جو کہ میرے واثق یقین کے مطابق پیسے مانگنا تھا چنانچہ میں نے جیکٹ کی جیب میں پڑے چھ یورو کے سکے مضبوطی سے تھام لیے حالانکہ میں عام دنوں میں ایسا کرنے سے گزیر ہی کرتا ہوں کہ سکے ہاتھ میں تھامنے کے بعد مجھے اپنے ہاتھوں سے دھات کی بو آتی رہتی ہے لیکن خواہ وہ بدبو دار ہی سہی پیسے کس کو برے لگتے ہیں؟ 

 میں نے اس خاتون کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ میری نظروں کا الجھن جان گئی اور روسی میں گویا ہوئی کہ "ابھی میں نے مسجد میں دیکھا تھا تم نماز پڑھ رہے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں تم شاید کوئی پاکستانی ہو" -اماں نے تھوڑا توقف کیا اور پھر نسبتاً دھیمی آواز میں بات جاری رکھی "مسلمانوں سے بھلے وہ پاکستان کے ہوں ہم سب کو بڑی محبت ہے چاہے ہم روسی ہیں لیکن ہیں تو مسلمان ہی ناں۔" 
میں نے سپاٹ چہرے سے اماں کو دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔ 
اس خاتون نے اپنی بات اور میرے بازو کو سہلانا جاری رکھا۔ "جب پاکستان بنا تھا میں بیس سال کی تھی، زار روس سے بھاگ چکا تھا اور ہم روس کے پرچم تلے نئی زندگی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ بس کہیں سے بات سنی تھی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر بھاگا ہے اور ملک کے ٹکڑے کر گیا ہے اور ایک ٹکڑا مسلمانوں کو بھی ملا ہے۔ ہمیں اس لیے زیادہ خوشی ہوئی کہ ہماری مسجدیں بند کر دی گئی تھیں اور مذہب سوشلزم قرار پایا تھا۔ ہر مسلمان سے ہمیں ہمدردی تھی ہر مسلمان ہمیں اپنا بھائی بہن لگتا تھا۔ لیکن ہم اپنے ہی ملک میں قید ہو چکے تھے ہمارے لیے ہر دوسرا ملک گویا چاند اور مریخ تھے جو محض نقشوں میں پائے جاتے تھے اور وہاں جانا صرف خلا بازوں کے لیے ممکن تھا عام شخص کے لیے نہیں۔" 

اس خاتون کی باتیں سن کر اور بازو اتنی دیر تک تھامنے کے بعد میں تھوڑا بوکھلایا ہوا تھا اور شرم کے مارے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا تھا کہ آس پاس موجود دوسرے لوگ اس گفتگو میں کتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اماں کو شاید مدتوں میں کوئی پہلا قاری ملا تھا، یا اس نے پہلی بار کوئی پاکستانی دیکھا تھا اس نے بولنا جاری رکھا۔
"جب روس نے پشاور پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تو ہم نے کتنی دعائیں مانگی تھیں، حالانکہ ہم اللہ کو بھول چکے تھے، قرآن سے نا آشنا تھے، نماز روزہ نہ جانتے تھے۔ بس مسلمان ہونے کو یہی تھا کہ میرا نام فاطمہ تھا، میرے شوہر کا رمضان اور بیٹے کا جوہر۔ لیکن اللہ تو سب کا ہے صرف مسلمانوں کا یا صرف نیکو کاروں کا تو نہیں ناں۔ ہم سارے اس کی مخلوق ہیں اور اس نے مخلوق کو سنا اور روس کو باز رکھا۔ لیکن دل میں گرہ پڑ جائے تو دانتوں سے بھی نہیں کھلتی اور اسی گرہ کو کھولنے روسی افوج افغانستان میں جا اتریں"۔ 

بھلے اماں کی آواز میں مٹھاس تھی اور لہجہ شیریں لیکن اب میں اماں کی گفتگو سے بیزار ہو چکا تھا تاہم مصیبت یہ تھی کہ اماں نے میرا بازو تھاما ہوا تھا اور وہ اس کو بدستور سہلا رہی تھی ۔ مجھے وہ بوڑھی گھریلو ملازمائیں یاد آ گئیں جو میرے بڑے ہونے پر بھی ایسے لاڈ کیا کرتی تھیں جیسے جب میں چھوٹا تھا۔ حالانکہ تب تک میں اچھا برا، امیر غریب جان چکا تھا اور پسینے کی بو بری لگنے لگی تھی خواہ وہ محنت کا پسینہ ہو یا تن آسانی کا۔ لیکن سوچوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور میں ایک بار پھر ایک اماں کے سامنے کھڑا تھا - تمام تر ناپسندیدگی مروت اور شرم سے کمتر تھی جو مجھے بازو چھڑا کر آگے بڑھنے سے روکتی تھی- 
"جب افغانستان میں روسی فوجیں اتریں تو میرے بیٹے کو بھی جو فوج میں بھرتی ہو چکا تھا قندہار بھیجا گیا"۔ اماں کی گفتگو جاری رہی۔ 
"دو سال وہاں رہ کر جس ماہ اس نے گھر واپس آنا تھا اس روز مجاہدین نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ روسی فوج اپنے زخمی اور مردے چھوڑ کر بھاگی۔۔۔۔ اور اس روز جو بھاگی ہے تو ایسی بھاگی کہ آخر ماسکو واپس آ کر ہی دم لیا۔ مجاہدین نے وہیں ہی مرنے والوں کو دفن کیا اور زخمیوں کو ساتھ بطور جنگی قیدی کے طور پر لے گئے۔ مرنے والوں میں میرا واحد بیٹا بھی تھا۔" 
 اماں کی آواز بھرا گئی۔ اس نے زرا سا توقف کیا- شاید وہ ایک بار پھر دل میں اٹھنے والے غبار کے بیٹھنے کا انتظار کر رہی تھی- تھوڑی دیر بعد وہ پھر گویا ہوئی ۔ 
 "تمھاری شکل بالکل میرے بیٹے سی ملتی ہے۔ اگر وہ پاکستان میں پیدا ہوتا تو آج وہ بھی تمھاری طرح ہوتا۔ یہی قد ، یہی کاٹھ، یہی گول آنکھیں۔ اگرچہ اس کا رنگ میرے رنگ سا چٹا سفید تھا لیکن اگر تم میرے بیٹے ہوتے تو بھلے سانولے ہوتے پر زندہ تو ہوتے۔" 

میری نظریں زمین میں گڑی تھیں۔ مجھے اماں کے بازو سہلانے کے انداز سے پتہ چلنے لگا وہ اپنے بیٹے کا عکس مجھ میں دیکھ رہی ہے۔ 
اماں کہنے لگی، "میں جانتی ہوں تمھارا میرا کوئی تعلق نہیں، کوئی رشتہ نہیں، تم ہزاروں میل دور رہتے ہو ہم یہاں – تمھاری اپنی فیملی ہو گی میں اور میرا شوہر تنہا رہتے ہیں۔۔۔" 
اماں خاموش ہو گئی جیسے کچھ کہتے کہتے رکی ہو۔بازو کا سہلانا اب صرف تھامنے تک محدود تھا- میں انتظار میں رہا کہ بات مکمل ہو۔ 
"تم جو آج یہاں آئے تو میرا ایک کام کر دو۔" اماں نے ہمت جتا کر دوبارہ بولنا شروع کیا۔ "میں جانتی ہوں بھلا اجنبی بھی اجنبی کے کام آتا ہے کہ آج کی دنیا میں اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن نجانے کیوں مجھ تم سے امید ہے، شاید اس لیے کہ مجھے لگتا ہے تم میرے ہی بیٹے ہو اور ایک الگ روپ میں میری آخری خواہش پوری کرنے آئے ہو--- یا تم اس کے ہمزاد ہو--- تم تو مشرقی لوگ ہو کیا پتہ کوئی چلہ کھینچا ہو کوئی وظیفہ کیا ہو اور میرے بیٹے کی روح تے تعلق جڑ گیا ہو۔" اماں کی آواز میں امید بھر آئی- "یا ایک فرشتے ہو جس کو خدا نے اس مشن پر یہاں بھیجا ہے"۔ اماں خاموش ہوئی تو مجھے لگا تمام دنیا خاموش ہو گئی ہے- تمام دنیا میں ہر شے مٹ چکی ہو اور ایک میں کازان میں مسجد قل شریف کے سامنے بس اسٹاپ پر کھڑا ہوں اور ایک روسی اماں میرا بازو سہلاتے مجھے محبت سے شرابور کی جارہی ہے- مسجد قل شریف ہمیں محو دیکھ رہی تھی- 

یہ طلسم زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور لوگوں کی بھن بھن مجھے اصل دنیا میں واپس لے آئی- میرے لیے یہ احساس انتہائی قابل شرم تھا کہ بس اسٹاپ کی تمام بھیڑ اماں اور میرا مکالمہ سن رہی تھی لیکن میرے پاس سوائے نطریں جھکائے رکھنے کے کیا چارا تھا۔ 
"میرا بیٹا افغانستان میں دفن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تم میرا کام کرو گے ناں ؟ اس کی قبر پر پھول ڈال آؤ گے ناں؟" دنیا بھر کی ماؤں کی امید ، پیار اور التجا اس خاتون کی آنکھوں میں امنڈ آئیں ۔ "گر تم میرے بیٹے سے نہ سہی میں تو تمھاری والدہ سی ہوں" ۔ میں نظر نہ ملا سکا۔ میں نے کن اکھیوں سے دیکھا۔ دور--- بس آ رہی تھی۔ 

 میں نے اماں کے ہاتھ پر جس سے اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا اپنا ہاتھ رکھا ۔جیب میں انگلیوں میں گردش کرنے والے سکوں کو چھوڑا جن کو بو میری پوروں میں رچ چکی تھی- ان کے پاس پڑا دس یورو کا نوٹ نکالا جو کہ روس میں اچھی خاصی بڑی رقم تھا اور اماں کے اس ہاتھ جس نے میرا بازو تھاما ہوا تھا پر رکھ دیا اور اتنا ہی کہہ پایا " نیئت روتسی" اور اماں کو وہاں ہکا بکا چھوڑ بس میں سوار ہو گیا- بس میں سوار ہو کر مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی- میں سوچنے لگا "نجانے اماں روسی میں کیا کہہ رہی تھی"۔ "ہو نہ ہو پیسے ہی مانگ رہی ہو گی"۔

maan boli