April 19, 2019

اسد عمر کی تبدیلی اور پاکستانی معیشت



سوچ رہا ہوں کہ ایک راہمنا کتابچہ لکھوں جو ایسے غیر ملکی پاکستانیوں کی مدد کرے جو پاکستان مستقل سکونت کا سوچ رہے ہیں تو اسی میں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ عاجزی (یعنی ہمبلنس) کو وہاں ہی چھوڑ کر آئیں کہ جب تک یہاں آپ ڈھونڈورا نہیں پیٹیں گے کہ میں ایسا میں ویسہ میں دھیلہ میں پیسا تب تک کسی نے آپ کو گھاس نہیں ڈالنی تو اسی نقطے کے تحت میں بتاتا چلوں کہ میں نے ماسٹرز میں اکنامس یا معاشیات پولینڈ سے پڑھی تھی جہاں پڑھانے والے اکثر سوشلسٹ یا بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے جبکہ ڈاکٹریٹ میں معاشیات اسٹونیا میں پڑھی تھی جہاں اساتذہ کٹر فری اکانومسٹ یا سرمایہ درانہ نظام کے حامی تھی اس لحاظ سے مجھے دونوں نقطہ نظر کو پڑھنے اور جاننے کا موقع ملا- - 

اکنامکس کا سیدھا سادا نسخہ ہے کہ حکومت کسی مارکیٹ کو کنٹرول نہ کرے- مہنگائی ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے پاس خرچ کرنے کو بہت رقم ہے لہذا مرکزی بنک شرح سود میں اضافہ کرے جس کی وجہ سے بچت اسکیموں کے منافع میں اضافہ ہوگا اور عوام پیسہ بنکوں میں رکھ دیں گے تو جب مارکیٹ میں پیسہ ہی نہ ہوگا تو اشیا کی خرید میں کمی ہوگی اور جس کا نتیجہ قیمتوں میں کمی کی صورت نکلے گا کہ سرمایہ دار کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ فروخت ہے- دوسرا یہ کہ اسٹاک اکسچینج کسی ملک کی اکنانومی کو ماپنے کا سب سے بہتر آلہ ہے- جبکہ سنٹرل بنک ایک آزاد ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں سے بالاتر ہو کر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کرے تاکہ سرمایہ کاری فروغ پاتی رہے- یہ سب خیالی اور آئیڈیل دنیا کی باتیں ہیں ہمارے ملک میں بے وقوف پلاننگ کرنے والے یہ نہیں جانتے ابھی بھی سود کی وجہ سے بہت سے لوگ بنکوں میں پیسہ نہیں رکھتے اور مہنگائی کی اصل وجہ حکومتوں کے اندھا دھند نوٹ چھاپنے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان میں تو مافیا ہیں جو ان کا دل کرے گا وہ کریں گے ۔ چینی مافیا، پٹرول مافیا، بجلی مافیا، سبزی مافیا، قانونی مافیا، کار مافیا وغیرہ وغیرہ۔ بھاڑ میں گئی عوام اور بھاڑ میں گیا اکنامکس بمع اصول۔ اور مرکزی بنک کا کام ہماری طرف عوام، ملک یا کرنسی کی دیکھ بال نہیں بلکہ بنکوں کی دیکھ بال ہے کہ کسی طرح ان کا منافع کم نہ ہونے پائے۔  

پاکستان میں ہمیشہ سے ڈاکٹر محبوب الحق کا فارمولا اپلائی کیا گیا جو سرمایہ دارانہ نظام کو سپورٹ کرتا ہے کہ امیر کو خوب پیسہ بنانے دیا جائے تاکہ وہ غریب کے لیے دوسرا کارخانہ لگا سکے-اسی بنا پر پچھلی تمام حکومتوں نے صنعتوں کو اندھا دھند نوازا لیکن بجائے اس کے بہتری آتی اس وقت پاکستانی درآمدادت بری ترین سطح پر ہیں- 

ادھر ہمارے عوام سوشلٹ قسم کی حکومت چاہتے ہیں جو عوام کی فلاح کے لیے بہتری کرتی رہتی ہے سبسڈیاں دیتی ہے، امداد دیتی ہے لیکن اس کے لیے ٹیکس دینے کو ہم تیار نہیں- دبئی میں جہاں 5 فیصد ویٹ یا سیلز ٹیکس لگا ہے کسی معمولی کمپنی والے سے پوچھ لیں اسنے کتنا سیلز ٹیکس جمع کرایا ہے اور پاکستان جہاں سترہ فیصد وصول کیا جاتا ہے وہاں کتنی آمدنی ہونی چاہیے تھی؟ادھر ادروں کا بھی بھٹہ بیٹھ چکا ہے یاد رہے سٹیل مل کو نون لگی وزیر خزانہ ایک روپے میں بیچنے کو تیار تھے تو پچھلی حکومتوں نے قرضے لیکر معاملات چلائے رکھے لیکن قرض کی مے کب تک چلتی اور اگر یہ حکومت بھی حلوے مانڈے پر چلتی رہی تو اگلی حکومت اس سے بھی بری حالت میں ہوگی- عوام کا حال یہ ہے کہ وہ حقوق لینا چاہتی ہے لیکن فرائض کے نام سے اسکو نفرت ہے- بھارت میں پچھلے دنوں مودی نے بڑے نوٹ منسوخ کردیے اور تمام عوام قطار میں لگ کر نوٹ تبدیل کراتی رہی کیا پاکستان میں اتنا بڑا اقدام ممکن ہے؟ آج بھی کوئی الیکشن میں اس معاملے کو نہیں اچھال رہا کہ عوام کو خوار کر دیا ادھر یہ حال ہے آج بھی لوگ بھٹو کو گالیاں دیتے ہیں کہ چینی اور آٹے کے لیے عوام کو قطاروں میں خوار کرائے رکھا۔عوام کا حال یہ ہے کہ بس ہمیں سہولت ملے وہ کیسے ہو کیونکر ہو وہ انکا ذمہ نہیں- جبکہ ہمارے اداروں کے احوال کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے کہ ایک طرف حکومت معیشت کو ڈاکیومنٹذ کرنا چاہتی ہے دوسری طرف اکثر بنکوں میں اردو میں دستخط کرنے والوں یا انگوٹھا چھاپ لوگوں کا اکاؤنٹ کھلوانے کی سہولت ہی نہیں- 

اصل بات شروع ہوئی تھی اسد عمر کی تبدیلی سے- اس میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ خان مخالفین نے ہر بات پر تنقید کرنی ہے کوئی آئے یا جائے، اچھا کرے یا برا کرے جبکہ حامیوں نے ہر بات کی تعریف کرنی ہے جبکہ کسی وزیر کو تبدیل کرنا کوئی ایسی بڑی بات نہیں وزیراعظم کی صوابدید ہے کرے کرے نہ کرے- تاہم اگر اسد عمر دور کا جائزہ لیا جائے تو اسد عمر کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا، ڈالر اوپر گیا اور عام آدمی پر بوجھ پڑا لیکن معاشیات کا کوئی نظریہ صارفین یا عوام کو کسی قطار میں نہیں گنتا- آج تک کوئی ایسی سٹڈی نظر سے نہیں گزری جس میں عوام سے مہنگائی کی وجوہات یا کسی اور معاشی اتار چڑھاؤ کی وجوہات پوچھی گئی ہوں- تاہم یہ بھی حقیقت کہ ایکسپورٹ بڑھے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا لیکن اس کا اکیلے اسد عمر کو کریڈٹ بھی نہیں دیا جاتا سکتا کہ اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ جبکہ ایسے ہی مہنگائی اور ڈالر میں بھی اسد عمر اکیلا ذمہ دار نہیں معدنی تیل کی قیمتوں کی سفارش اوگرا کرتی ہے جبکہ بجلی کی قیمتیں ایک معائدے کے تحت پیٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی صورت میں خود بہ خود گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں جبکہ ڈالر کو اسد عمر نے میرے خیال میں  مغربی اصولوں کے تحت نہیں چھیڑا کہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا-

تاہم  میرے نزدیک اسد عمر کی ناکامی  یہ ہے انہوں نے کوئی ٹیم تیار نہیں کی ہوئی تھی وہی نیشنل بنک کے صدر جو مبینہ طور پر منی لاڈرنگ میں ملوث تھے کافی عرصہ تک اپنی پوسٹ پر برقرار رہے- نہ ہی اسٹیٹ بنک میں کوئی قابل ذکر تعنیاتی ہوئی نہ ہی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن میں- تاہم انکا فنانشل بل بہرحال ایک بہتر کاوش تھی۔ 

اہم بات یہ ہے معاشی پالیسیاں ہمیشہ لانگ ٹرم کے لیے بنتی ہے آج کے لیے نہیں جیسے ڈار صاحب نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کنٹرول کیے رکھا لیکن جیسے ہی گئے نون کے ہی اگلے وزیر خزانہ صاحب نے مزید پیسہ جھونکنے سے انکار کردیا اور ڈالر بڑھنا شروع ہو گیا- لیکن ہم قوم ہی ایسے ہیں کہ کبھی وہ درخت نہیں لگائیں گے جس کی چھاؤں میں ہمارے بچے بیٹھیں اس کی بجائے سفیدہ اور کونا کاپس جیسے مضر صحت درخت لگا کر اپنا کام تو چلا رہے ہیں- اس کی ایک بڑی مثال ہمارے بجلی کی صورتحال ہے کہ ہم اتنی بجلی تو بنا سکتے ہیں جتنی ضرورت ہے لیکن تمام کی تمام پرائیوٹ اداروں کی معدنی تیل سے تیار شدہ جس کا نیتجہ یہ نکلا کہ وہ بجلی جو پچاس پیسے فی یونٹ تھی اب پچیسروپے فی یونٹ میں جا پڑی ہے تاہم حکومت ابھی بھی اس پر سبسڈی دے رہی ہے اور آئی ایم ایف کہتا ہے کہ کس نے کہا تن آسانی کرو اب لو عوام سے پچیس روپے- یوں حکومتیں بجلی بنانے کے جھنجھٹ سے چھوٹیں اور ترسیل کا نظام بھی اللہ کے حوالے کر دیا گیا کہ بجلی کے پیسے بھی آجائیں تو پہنچائی نہیں جا سکتی- کسی حکومت نے ایسا منصوبہ کرتے وقت نہ سوچا تھا کہ ایک دن یہ گلے پڑ جائے گا بلکہ سابقہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ معائدہ کیا کہ لینے کی صورت میں تو پیسے ادا کیے جائیں گے لیکن اگر بجلی نہ خریدی تو اسکا ہرجانہ دیں گے- 

اگر بات کریں اسد عمر کے متبادل کی تو جہاں تک میں نے سنا ہے مجھے ڈاکٹر سلمان شاہ ایک اچھی چوائس لگتے ہیں کہ ان کے چند انٹرویوز میں انہوں نے یہی بات کی کہ پاکستان کی صورتحال دنیاوی و معاشی لحاظ سے منفرد ہے- یہاں جو اسٹاک اکسچینج کو کامیابی کہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے اور یہان وزیر خزانہ کو قیمتوں کو بھی دیکھنا پڑے گا- لیکن جمہوریت کی آمد کے بعد سے ہمیں وزیر خزانہ بنکنگ سیکٹر سے ملے، اکاؤنٹنٹ ملے کوئی کوالیفائیڈ بندہ نہیں ملا یہی حفیظ پاشا ہیں یہی شوکت ترین ہیں یہی عشرت حسین ہیں وگرنہ کوئی ربر سٹیمپ آجائے گا کہ قحط الرجال ایسا ہے کہ کسی بندے کی خوبی یہ ہے کہ وہ جتنا برا ہو فلاں سے تو اچھا ہے- رہے نام اللہ کا 

بہر حال پاکستانی معیشت ناکامیوں کی ایک ایک ایسی کہانی جس میں جتنا افسوس کیا جائے تھوڑا ہے- اگر آپ مزید افسوس کرنا چاہتے ہیں تو اقتصادی سلسلے میں میرے لکھے ہوئے پرانے دو بلاگ ملاحظہ کیجیے۔


asad umar ki tabdili aur Pakistani maeshat