August 6, 2019

اگر تبریز نہ باشد- 1

پیش سفر، روز اول، سیر تہران




قسمت میں ایسے ہی لکھا تھا کہ میں نے بابا کے نہ چاہنے کے باوجود اپنے ماہانہ خرچ سے پیسے بچا کر پی ایچ ڈی کے ڈیفنس سے تین ماہ قبل لیتھوانیا Lithuania ایک تعلیمی کانفر س میں جانا تھا، کانفرنس کا خاص اسپورٹس سے متعلق ہونے کے باوجود اسکو فصول پانا تھا. وہاں ایک ترک ڈاکٹر (ڈاکٹر مجاہد فشنے) سے ملنا تھا اس کے بعد اگلے دو سال ایک دو مواقع پر اس ترک پروفیسر کے طلبا کی ریسرچ میں مدد کر نا تھا (حالانکہ میں اور دوسروں کی مدد..............) اور اس ترک ڈاکٹر کی وساطت سے ایک ایرانی ڈاکٹر سے ایک ریسرچ پراجیکٹ سے منسلک ہونا تھا اور اختتام کار تبریز میں ( ایک بار پھر بابا کے نہ چاہنے کے باوجود) دانشگاہ تبریز یعنی تبریز یونیورسٹی کے سمر اسکول Summer school میں شرکت کرنا تھی. اب قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے- 


ایک فضول سی فلم کا فضول سا مکالمہ ہے کہ "کہتے ہیں اگر کسی چیز کو دل سے چاہو تو پوری کائنات اسے تم سے ملانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے"۔جبکہ کم از کم میرے معاملے میں تو حقیقت حال اس کے برعکس ہے کہ اگر کبھی بھولے سے انجانے سے بھی کچھ سوچا کہ اس کو حاصل کیا جائے تو پوری کائنات اس کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہے- بہت سے دوست اس کفیت کو سمجھتے ہوں گے اور جن کو یہ آگاہی حاصل ہو چکی ہے ان میں سے اکثریت کرکٹ میچ دیکھنا ترک کر چکی ہے کہ یار لوگ اس کیفیت کو 'منحوسیت' کہتے ہیں۔ اب میرا بھی یہی حال ہے کہ ابھی ایران جانے کی بات ابتدائی مراحل میں تھی کہ کائنات کا ایک موٹا سا زرہ ہمارے درپیش ہوا اور لگا ایران کو جنگ کی دھمکیاں دینے- اب اس موقع پر ایران کو زرا صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کہ مہمانان کی آمد آمد ہے لیکن ادھر سے اینٹ کا جواب پتھر آیا جو سیدھا ہماری ایران کی تیاروں کو آن لگا اور امیدوں کا شیشہ تڑخ سا گیا- 

یہ تو شہر کے لوگوں کے ظلم کا احوال ہے اور ادھر خود مرنے کا شوق بھی کم نہ تھا- ہوا یوں کہ سمر سکول کے معاونین نے مجھ سے تفصیل لے کر مجھے آن لائن ویزا ارسال کر دیا اور ساتھ ہی تاکید کی کہ مجھے ایرانی سفارت خانے کا چکر ضرور لگانا ہوگا جہاں ویزا پاسپورٹ پر چسپاں کیا جائے گا- اب ایک سستی دوسرا وقت کی کمی- میں نے سوچا کہ اماراتی، سعودی یا جتنے بھی اور آن لائن ویزہ جات سے پالا پڑا ہے وہاں تو آن لائن ویزا آیا آپ نے پرنٹ نکالا، ٹکٹ لی اور پہنچ گئے ہوائی اڈے- اب اگر سفارت خانے جانا ہے تو آن لائن ویزا کس مرض کی بلا ہے؟ آخر میزبان یونیورسٹی کے اصرا ر پر میں بدھ کو سفارت خانے پہنچ گیا جب کہ سفر میں نے اتوار رات کو کرنا تھا-اب سفارت خانے میں ایجنٹس حضرات کا راج تھا نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی بتانے والا- ہم بھی دیکھا دیکھی سارے کاغذات جمع کرا کر گیارہ ہزار فیس ادا کر کے باہر نکلے تو ایک ایجنٹ صاحب سے پوچھا کہ "بھائی یہ واپس کب ملے گا؟" 
اس نے میرے ہاتھ میں پکڑی رسید دیکھی اور نوید سنائی کہ ایک ہفتے بعد یعنی اگلی بدھ۔ مجھے میری امیدیں خاک میں ملتی نظر آئیں اور مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں نے ایک دو لوگوں کو بھی کیوں بتایا کہ میں ایران جا رہا ہوں، 'اور مارو شیخیاں'- 
میرے چہرے کا اڑتا رنگ دیکھ کر ایجنٹ نے حوصلہ دلایا "ویسے آپ جمعہ کو پتہ کر لیں کبھی کبھار جلدی بھی دے دیتے ہیں ویزا۔" 
ایسی طفل تسلیوں کے سہارے ہم نے عمر گزار دی ہم کیا اس کو سچ سمجھتے اس سے پوچھنے لگے کہ "بھائی ارجنٹ کا کوئی طریقہ کار نہیں؟ "
اس نے کہا کیوں نہیں آپ "نکے سفیر صاحب (کاؤنسل جنرل consul general) کو کہتے تو وہ ارجنٹ فیس لیکر آج ہی ویزا لگا دیتے-" میں نے سوچاچلو یہ معاملہ بھی ہاتھ سے گیا- میں نے پوچھا کیوں نہ میں پاپسورٹ اٹھا لوں اور کل ارجنٹ فیس کے ساتھ جمع کرادوں تو ایجنٹ بھائی بولے کہ "بھائی کیوں تین بار ویزا فیس بھرتے ہیں (ایک سنگل جو اس روز ادا کی تھی اور ایک ڈبل جو فوری کے لیے بھرنا پڑتی)"- 
میں نے سوچا بات تو سچ ہے اتنے کی تو ٹکٹ نہیں جتنا ویزا فیس پر لگ جائے اور ویزا بھی ایران کا- چلو چھوڑو اللہ پر اور چلو گھر۔ 

اب خیال آیا کسی ایسے بندے کو رابطہ کیا جائے جس کا ایران سے تعلق ہو – ایک دوست جو اسلام آباد میں پائے جاتے ہیں جو کہا گیا تو وہ بولے "اگر آپ اسلام آباد ایمبیسی آئے ہوتے تو فوراً کام ہوجاتا چلیں لاہور میں ڈھونڈتے ہیں کوئی بندہ-" اسی دوران خیال آیا کہ ایک ایجنٹ صاحب جن سے معلومات لی گئیں تھیں سے رابطہ کر کے دیکھتے ہیں- ان سے رابطہ ہوا تو وہ بولے "بھائی جان آپ کن چکروں میں پڑ گئے؟ کس نے کہا تھا بھاگ پڑیں ایمبیسی (ان کی بات کا مقصد یہی تھا)؟ مجھے یا کسی ایجنٹ کو دیتے ایک دن میں ویزا لگ جاتا۔" 
بہرحال میں پتہ کرتا ہوں- انہوں نے کچھ دیر بعد بتایا کہ جمعہ کو جا کر فلاں صاحب سے مل لیں وہ مدد کردیں گے- ہم نے جب نذرانہ پوچھا تو وہ بولے بس انکو پٹرول کے پیسے دے دینا- میں نے اپنے دوست سے کہا کہ "کہاں سے کہاں تک پٹرول کے پیسے؟ ملتان تا لاہور یا ماڈل ٹاؤن تا شادمان۔۔۔"- فیصلہ ہم نے اپنے گمان پر چھوڑ دیا- 
بروز جمعہ جو کہ آخری یوم کار تھا اور ہمارے لیے بھی آخری امکان سفرتھا کچھ عشق اور کچھ کام یعنی کچھ تعلق اور کچھ ایجنٹی چلی اور ہمارے باقی تمام معاملات کی طرح عین آخری لمحے پر پاسپورٹ مل ہی گیا- ادھر یونیورسٹی والے رابطہ کر کر کے دل ہار چکے تھے کہ شاید بندہ ہاتھ سے گیا لیکن اب میں انکو اپنی سستیوں کی داستان کیا سناتا- اب فائنل ہوا تو میں انکو کہا کہ "بھائی صاحب کیا ہوگیا ہے بندے کو کام وام بھی پڑ سکتا ہے بے فکر رہیں میں آرہا ہوں"۔
یونیورسٹی کو یہ فکر تھی کہ ٹرمپ صاحب کی بڑھکیں سن کو کچھ لوگ اپنی آمد منسوخ کر چکے تھے- 

کرنے کو منسوخ میں بھی کر سکتا تھا کہ اگر ایران نہ بھی جاتا تو کیا فرق پڑ جاتا اوپر سے خاندان والوں کی خواہش بھی تھی کہ نہ جاؤں- لیکن ایک تو 2016 کے بعد پہلی بار کسی ملک کے باقاعدہ دورے کا موقع ملا تھا دوسرا کسی بھی مجلس علمی کے رکن (اکیڈمیشن academician) کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کو دعوت نامہ دے کر بلایا جائے کہ آئیں اور خطاب کریں یا لیکچر سے نوازیں- وگرنہ اکثر تو اپنے پلو سے پیسے بھر بھر کر بے مقصد اکیڈمک کانفرنسوں میں بے معنی مقالے پڑھ کر زندگی گزار دیتے ہیں- اب یہاں مجھے بطور مہمان مقرر مدعو کیا گیا تھا جسکو انگریزی میں گیسٹ سپیکر یا کی نوٹ سپیکر (Guest speaker/ Keynote speaker) کہتے ہیں تو ایسے موقع کو کون کافر رد کرتا چاہے وہ ایران میں ہو یا ہونولولو- اب ہماری باری آئی بولنے کی تو ہم کیوں چپ رہیں- 

تاہم اس دوران ایک خوش کن بات یہ ہوئی کہ کرنسی تبدیل کرنے پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک پاکستانی روپیہ کا ایک صد پچاس ریال ہیں- اب پوچھا یار وہاں تو تومان نہیں چلتا پتہ چلا کہ تومان کو باقاعدہ کرنسی نہیں بس چونکہ ریال لاکھوں تک پہنچے ہیں جیسے کہ ایک لاکھ یا پانچ لاکھ ریال کا نوٹ عام ہیں لہذا اس کی شدت کم کرنے کو ایک صفر اڑا کر اس کو تومان بنا دیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی شے دس ریال کی ہے تو دکاندار آپ کو کہے گا ایک تومان ادا کیجیے اور آپ اس کو دس ریال کا نوٹ پکڑا دیں گے- تاہم کرنسی تبدیل کرنے والے نے بتایا کہ آپ کو ایک لاکھ کی گتھی لینی پڑی گی یعنی سو نوٹ اور کھلا ریال خریدو فرخت نہیں کیا جاتا- اب لاکھ تو لاکھ ہے اور ہم کبھی مونپلی Monopoly یا کروڑ پتی کھیل میں لاکھ روپے کے مالک نہیں بنے کجا لاکھ کی سو نوٹ والی گتھی تو ہم نےکسٹم/ ایف بی آر/ نیب کے جھنجھٹ سے بچنے کو بہتر سمجھا بس وہاں سے ہی پیسے تبدیل کرائے جائیں کہ جہاں چالیس سال گزار لیے وہاں چار روز اور کروڑ پتی نہ ہو سکے تو کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑے گا۔ 

آخرکار امریکی جارحیت، ایرانی مدافعت، خاندانی مخالفت، حالات کی شدت غرض ہر ایک شے کو پچھاڑتے ہم اتوار رات کو ماہان ائیر سے تہران کے لیے روانہ ہوگئے۔ (نئے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں ہم سے مراد کوئی گروپ نہیں بلکہ اپنے آپ کو عزت دینے کی کوشش ہے)- موسم خراب اور جہاز کی اندرونی حالت اس سے بھی خراب- لیکن ہم تو اس مکتبہ فکر کے لوگ ہیں کہ مر کر ہی چین پائیں گے لہذا زندگی سے محبت چہ معنی (ابھی ایرانی حدود میں داخل نہیں ہوا کہ میری فارسی ابھرنے لگی)- تو بسم اللہ پڑھی اور چل پڑے تہران کو- 

علامہ اقبال نے فرمایا تھا (میرا خیال ہے انہوں نے ہی فرمایا تھا) کہ 
؎ جنونت گر به نفس خود تمام است 
از کاشی تا به کاشان نیم گام است 
اب ایک تو نہ ہم جنونی (ویسے شعر میں جنون مثبت ہے) نہ ہی یہ سفر کاشی سے شروع ہوا اس لیے آدھ قدم کی بجائے تین اساڑھے تین گھنٹے جس میں ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر علیحدہ ہے کے بعد ہم تہران ائیرپورٹ پر وارد ہوئے- ہماری اصل منزل تبریز تھی لیکن یہاں میرے وہی ترک دوست جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے پہنچ چکے تھے اور ہمارا منصوبہ پہلا روز تہران گھومنے کا تھا اور تبریز روانگی رات کو تھی- ویسے بھی تہران کے دو ہوائی اڈے ہیں ایک امام خمینی جو فقط بین الاقوامی پروازوں کے لیے ہے دوسرا مھر آباد جو ملکی پروازوں کا بوجھ سہتا ہے اور دونوں ہوائی اڈوں کے درمیان گھنٹہ ڈیڑھ کا فاصلہ ہےاور تبریز جانے کو ہمیں تہران جانا ہی جانا تھا کہ امام خمینی ہوائی اڈا شہر سے باہر جبکہ مھر آباد شہر کے بیچوں بیچ ہے-

ڈاکٹر مجاہد ترکی میں سیواس میں حریت یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یونیورسٹی سپورٹس منیجمنٹ Sport Managementکے علاوہ سپورٹس کوچنگ و عملی کھیلوں Sport coaching & practicing وغیرہ بھی کرواتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مجاہد کھلاڑیوں، کوچز اور دیگر کھیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں خاصی شہرت رکھتے تھے- یہی وجہ تھی کہ ہوائی اڈے پر ڈاکٹر مجاہد میرا جبکہ ڈاکٹر مجاہد کے دو طلبہ کم فینز ان کاانتظار کر رہے تھے- انہوں نے وہاں ہمیں موصول کیا اور اگلے آٹھ دس گھنٹے کے لیے ہمارے مالک بن بیٹھے- 

سب سے پہلے ہمارے میزبان کسی اسپورٹس کمپلکس میں لے گئے جہاں نہ صرف مختلف کھیلوں کے گراؤنڈز موجود تھے بلکہ ایک خوبصورت جھیل، شاپنگ مال، ریسٹورانٹ، باغ وغیرہ بھی پائے جاتے تھے اور اس کو دیکھ کر مجھے اپنا اسلام آباد والا کمپلکس بازیچہ اطفال لگنے لگا اور دونوں ممالک کے کھیلوں کے معیار میں پائے جانے والا فرق پہلی ہی نظر میں واضح ہو گیا-وہاں پر ہماری ایران کے نیشنل انڈر 19 فٹ بال کے کوچ سے ملاقات ہوئی- علی دوستی مھر (وکیپیڈیا پیج) ایسے ملے جیسے ہم ایرانی انڈر 19 کوچ ہوں اور وہ ہم سے آٹو گراف لینے آئے ہوں- یہاں ایک مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ ڈاکٹر مجاہد ترک اور انگریزی بول سکتے تھے جبکہ ہم فقط فرنگی بولی تک محدود جبکہ ایرانیوں کی اکثریت فارسی زدہ اور انگریزی سے نابلد۔ تاہم ایران میں ایک بڑی اکثریت آزری (آزر بائیجان) و ترک لوگوں کی ہے جو ترک بولتے ہیں اس لیے ڈاکٹر مجاہد کو تو پھر بھی سامع و مقرر میسر آ جاتے تھے لیکن ہم تو بس 
 ع کوئی ہنسا تو ہنس پڑے رویا تو رو دیئے 
(عدیم ہاشمی سے معذرت کے ساتھ کہ اصل شعر ہے کوئی ہنسا تو رو پڑے رویا تو مسکرا دیئے/ اب کے تیری جدائی میں ہم تو عجیب ہو گئے) کی تفسیر ہو کر رہ گئے۔ کبھی کبھار ڈاکٹر مجاہد گفتگو کا انگریزی میں خلاصہ بیان کر دیتے تو موضوع سخن سے متعلق لگائے گئے اندازے درست یا غلط ثابت ہوتے وگرنہ ومن ترکی نمی دانم- اسی دوران میں اپنے آپ کو کوستا رہا کہ زمانہ طالبعلمی جب فارسی پڑھنے کا موقع ملا تھا تو کیوں اسکو سنجیدگی سے نہ لیا- آخر کار دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اگر حال ہی میں سیکھی گئی پولستانی (پولشPolish-) اور ایستی (ایسٹونینEstonian-) زبانیں بھلا چکا ہوں تو چھٹی جماعت میں پڑھی فارسی کس کھیت کی مولی ہے جو یاد رہتی- 

پولینڈ رہائش کے دوران جب مجھے پتہ چلا کہ اشاراتی زبان بھی پوری دنیا کی ایک نہیں بلکہ ہر ملک کے لوگوں کی اشاراتی زبان مخلتف ہوتی ہے کہ اشارے اس ملک میں بولی جانے والی زبان کی بنیاد پر مقرر کیے جاتے ہیں تو دنیا کی بے ثباتی پر مزید یقین آگیا- تاہم اتنے سالوں گھاٹ گھاٹ منہ مارنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محبت وہ واحد زبان ہے جس کے لیے کسی اشارے، کسی لفظ کی ضرورت نہیں اور اس پہلی ملاقات میں کچھ سمجھے بوجھے بغیر میں علی دوستی مھر کی محبت و خلوص پر ایمان لے آیا- 

ناشتے کا وقت آیا جس کو صبحانہ بولا جاتا ہے تو ہم سے پوچھا گیا کیا تناول فرمائیں گے- ہم ٹہھرے دو توش اور ایک پنیر کی ٹکی والے بندے- اوپر سے تیل کی خوشبو/بو سے سر میں درد پڑجاتا ہے تو بس اتنا کہا کہ جو دل چاہے بس چا ضرور منگوایے گا- چا سے ہماری محبت اس لنک پر پڑھیے- بیرہ ایک بیری تھی یعنی خاتون تھیں جنکو بہری کہنا غیر مناسب نہ تھا کہ بارہا یاد دہانیوں کے بعد کہیں جا کر ہمیں صبحانہ نصیب ہوا لیکن بہری کا لقب جو ہم نے دل ہی دل میں انکو عنایت کیا تھا واپس لے لیا جب اس نے گڑگڑا کر معافی مانگی کہ ہم ناشتہ و ظہرانہ کے درمیان آئے ہیں اس لیے باورچی صاحب پکانے کو راضی نہ تھے انہیں غیر ملکی مہمانوں کی دہائیاں دی گئیں جس پر بادل نخواستہ وہ تیار ہوئے- ناشتہ آملیٹ کا تھا، ایک سادہ آملیٹ، ایک ٹماٹر آملیٹ اور ایک کجھور والا آملیٹ- ہمارے ہاں ٹماٹر پیاز ثابت ڈال کر معدے کا جو امتحان لیا جاتا ہے وہ یہاں مفتود تھا کہ ٹماٹر کا یا تو کچومر نکال کر پکایا جاتا تھا ہے یا جوس ڈالا جاتا ہے کہ انڈے میں ٹماٹر نام کو نہ تھا لیکن ذائقہ میں خوب رچا ہوا تھا اور رنگ بھی سرخ تھا۔ کجھور والا آملیٹ اس بھی مزیدار کہ نمکین میٹھے کا بہترین مرقع تھا- ناشتہ کے بعد چا آ گئی- چا کا طریقہ کار یہ معلوم ہوا کہ ایک چینی کی ڈلی/کیوب منہ میں رکھیں اور ایک گھونٹ بھریں لیکن ہم چا بغیر چینی ہی پیتے ہیں تو ہم نے ایران میں چینیوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے چا پی اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچا کہ چلو ایران آنے کے پیسے وغیرہ حلال ہوگئے- 

کجھور والا آملیٹ

ٹماٹر والا آملیٹ

سادہ آملیٹ

علی دوستی مھر درمیان والی نشست پر

لیکن پیسے حلال ہونے کا تو یہ آغاز تھا۔ ناشتے کے بعد علی دوستی مھر تو وہیں رہ گئے اور ہم نکل پڑے شہر گردی کو- پہلا اسٹاپ تھا ایک شاپنگ مال جس کا نام ایران مال تھا۔ لیکن یہ عام مال نہ تھا بلکہ انتہائی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا تھا- جنہوں نے دبئی مال دیکھا ہوا ہے وہ اس کے مقابل سمجھیں (کہ اس کی پارکنگ اور نقشے میں کسی حد تک دبئی مال کا رنگ جھلکتا تھا) بقیہ مسلمان تُکوں سے کام چلائیں- تاہم دکانیں اس میں ابھی بن رہی تھیں لیکن ایک عجائب گھر نما حصہ تیار ہو چکا تھا اور ہمیں یہاں لانے کا مقصد اسی کا دیدار کرانا تھا- اس حصے کا آغاز کتب خانہ یعنی لائیبریری سے ہوتا تھا- لائیبریری ایسی شاندار بنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں- اندر لکڑی کا ایسا زبردست کام ہوا تھا کہ کتابوں تک تو نظر ہی نہ جاتی تھی- مجھے یاد آیا کہ ہماری جو تھوڑی بہت ثقافتی اقدار بچی ہیں ان میں سے اکثر کا ماخذ ایران ہی ہے- لائیبریری سے چلے تو آگے ایک قدیمی شربت خانہ آگیا- وہاں مشروب و آرائش دل میں جگہ گھیرے جارہے تھے کہ قالین بافی کا مرکز آگیا۔ قالین ابھی نظروں نے جذب کیے نہیں تھے کہ تصویری سیکشن آ گیا- ان کے علاوہ برآمدے، محرابیں، چھتیں ہر شے انگریزی محاورے کے مطابق اسٹیٹ آف دی آرٹ تھی اور ایران میں پہلے ہی مقام کی سیر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اگر کوئی شخص حس لطیف یعنی ایستھٹک سینس Aesthetic sense رکھتا ہے تو اس کو زندگی میں ایک بار ضرور ایران آنا چاہیے- 

ایران مال میں لائیبریری











شربت خانہ میں انٹری











تصاویر گیلری/ نمائش گاہ










قالین نمائش 







عمارت کی نقش ونگاری














اگلی منزل آزادی چوک جس کو میدان آزادی اور آزادی ٹاور کہتے ہیں تھا- یہ ایسے ہی جیسے کوئی لاہور آئے اور مینار پاکستان نہ آئے یا اسلام آباد والے فیصل مسجد اور کراچی والے مزار قائد اعظم نہ جائیں- تہران کا قومی نشان ہے اور جب بھی تہران کی بات کی جاتی ہے اسی کی تصویر لگائی جاتی ہے- اب ہم نے سوچا کہ آزادی نہ گئے تو کل کلاں کیا ثبوت دے سکیں گے کہ تہران گئے تھے لہذا وہاں گئے، حفظ مراتب کے تحت وہاں گاڑی چوک کے کنارے ہی کھڑی کی، نیچے اتر کر تین چار مختلف زاویوں سے تصاویر و سلفیاں (تصاویر آپ کے لیے سلفی اپنے لیے) اتاری گئیں اور قافلہ آگے کو روانہ ہو گیا- 

آزادی ٹاور

میدان آزادی سڑک کنارے سے

لوگ اس کنارے گاڑی پارک کرکے آزادی میدان جاتے ہیں






اب دوپہر ہو چکی تھی تو یار لوگوں کی بھوک چمک اٹھی تھی جبکہ ادھر ابھی آملیٹ پیٹ میں قلقاریاں مار رہے تھے لیکن سوچا کہ آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں (یہ تو ظاہری حالت تھی پر حقیقت یہ ہے کہ میں ایرانی کھانوں کا دلدادہ ہوں اور پیٹ بھرا بھی ہو تو ایرانی کھانے سے انکار انتہائی مشکل ہوگا)- کھانا آیا پہلے سوپ آیا اور پھر یونانی قسم کا سلاد- پہلے تو شک پڑا کہ یہ آغاز محبت ہے اور اصل معرکہ آگے پڑے گا لیکن پھر سوچا کیا پتہ یہی کچھ حاصل وصول ہو تو اس بھی محروم ہو جائیں تو دونوں کے ساتھ خوب انصاف کیا- جب انصاف کا بول بالا ہو گیا تو پتہ چلا کہ وہ دانہ ہی تھا جس میں ہم پھنس چکے کہ اصل کورس اب آئے گا- کھایا وہ بھی کھایا، چاول، کباب، مرغ الا بلا کیا کرتے کہ ہنس کر تو کوئی ہم سے پیسے مانگ لے ہم دے دیتے ہیں (آج کل کے زمانے میں پیسے جان سے زیادہ قیمتی ہیں) اور یہ تو پھر دے رہے تھے تو المختصر اور الجامع کہ 
؎ ہم نے اس دن اتنا کھایا جتنا کھایا جا سکتا تھا 
پھر بھی بھرے ہوئے پیٹ سے کتنا کھایا جا سکتا تھا 
اور پھر یہ شعر تمام دورہ ایران کا معمول ہوگیا- 

کھانا





ہوٹل سے باہر کا نظارہ ہمراہ کھانا

کھانا کھا کر ابھی سانس کا سلسلہ بمشکل ہموار ہوا تھا کہ ہم علی دوستی مھر کی اکیڈمی چلے گئے جہاں آٹھ تا سولہ سال کے بچے فٹ بال کھیل رہے تھے- وہاں پر بچے بلائے جاتے وہ ہمیں باری باری بال سے کرتب دکھاتے اور چلے جاتے- اسی دوران چا، مٹھائی بھی چلتی رہی- دو گھنٹے کے سیشن کے اختتام پر ہمیں مختلف تحائف (دیوان حافظ، خشک میوہ، مٹھائی، کلب کی شرٹس وغیرہ) دے کراکیڈمی سے لیکر ہمیں چائے خانے لے گئے وہاں بر چا، کافی، پھل، آئس کریم وغیرہ کھلا کر
باقاعدہ رخصت کیا گیا-

مزید کھانا



اب ہم میلاد ٹاور پہنچے جسکو تہران ٹاور بھی کہتے ہیں جو کہ دنیا کا چھٹا اونچا ترین ٹاور ہے- برج میلاد یا برج چار سو پینتیس میٹر بلند ہے- اسکی بلندی پر پہنچے وہاں کچھ مشہور لوگوں کے مجسمے پڑے تھے جو کہ ایسے شہکار تھے کہ لگتا تھا ابھی بول اٹھیں گے- چھت پر سے شہر کا نظارہ کیا اور واپسی کا راستہ لیا- ایران جا کر احساس ہوا کہ انہوں نے آرٹ کو اسلام یا ماڈرن ازم کا نام دیکر قربان نہیں کیا- اس کے علاوہ انہوں نے اپنی قدیمی ثقافت (جو کہ ہماری بھی ہے) مثلاً خطاطی، کاشی گری، نقاشی، مجسمہ سازی، مینا کاری، تصاویر سازی، ظروف سازی وغیرہ کو کمرشل بنیادوں پر لاکھڑا کیا ہے اور اب ایران میں کسی بھی گھر میں پیسے کی ریل پیل کی بجائے اس کا ذوق دیکھا جاتا ہے یعنی صوفہ بھلے دس لاکھ کی بجائے دو ہزار کا ہو لیکن قالین، تصاویر، فرش و چھت شہکار ہوں (جس میں قیمت کا عنصر کم اور فنکارانہ مہارت کا عملدخل زیادہ ہے)۔بس جہاں بھی گئے اپنی قوم کی آرٹ میں عدم دلچسپی پر افسوس ہی ہوتا رہا- 

میلاد ٹاور




میلاد ٹاور سے شہر کا نظارہ






میلاد ٹاور اندر سے

مجسمہ ہاشمی رفنجانی

مجسمہ بو علی سینا

میلاد ٹاور کے باہر





میلاد ٹاور سے نکلے تو اگلی پرواز کا وقت ہو چکا تھا ایک میزبان نے ہمارے ہمراہ تبریز ہی جانا تھا- وہ ہمیں تہران لینے کو آئے تھے- اب ہم مھر آباد ہوائی اڈے پہنچے- ایران میں دس بارہ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے فضائی کرائے بھی مناسب ہیں- جہاز ایک گھنٹہ لیٹ تھا- جس پر ایرانی میزبان کو زرہ بھر حیرت نہ ہوئی کہ یہ ایرانی معمول ہے- اب دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد یاد آیا کہ ہم نے کل صبح لیکچر بھی دینا ہے-پہلے سوچا کچھ دیکھ لیں پھر وہی ازلی سستی آڑے آئی کہ خیر ہے کل کی کل دیکھیں گے- تاہم لیکچر سے زیادہ یہ جھجک تھی کہ 2016 کے بعد سے انگریزی میں پڑھانا ترک کیا ہوا تھا کہ اب بہاولپور/ملتان میں انگریزی میں پڑھانا شو بازی تو ضرور ہو سکتی ہے بچوں کو علم دینے کا باعث نہیں ہوسکتی لیکن بھلا ہو ہماری طبعیت کا کہ 
؎ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
 ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا  

تبریز ہوائی اڈا رات کو

تبریز ہوائی اڈے پر مسجد


بلآخر رات گیارہ بجے تبریز پہنچے- تہران میں اس روز خاصی گرمی تھی جبکہ تبریز میں ہوا ٹھنڈی اور خنک تھی- بس ہم گرمی کے ماروں کو اور کیا چاہیے۔ اس اندھیرے میں لپٹا تبریز ہی ہمیں اچھا لگنے لگ گیا- ہوٹل پہنچے تو سوچا کہ اب سکون کریں گے لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے- آگے سمر اسکول کی معاون ڈاکٹر وجیحہ جوانی (جی یہی نام ہے) ہمارے انتظار میں تھیں- انہوں نے ہمیں وصول کیا، کمرہ دکھایا اور حکم لگایا کہ چونکہ ہم انگریزوں کے غلام نہیں رہے لہذا انگریزی زبان یہاں پر غیر ملکی زبان ہے تو اس لیے ایک مترجم کا انتظام کیا گیا ہے - آپ اس کے ساتھ اپنے لیکچر کو ڈسکس کر لیں تاکہ کل وہ بچوں کو سمجھا سکیں- میں نے پوچھا "ابھی؟" وہ بولیں "ابھی کر لیں یا کوئی مسئلہ نہیں کل صبح سات بجے کر لیں-" صبح سات بجے والد صاحب اور پرندوں کے علاوہ کوئی طاقت نہیں جو ہمیں جگا سکے تو میں نے ابھی کو ہی چنا لیکن یہ ضرور پوچھ بیٹھا کہ یہ پروگرام کس نے بنایا تھا جس میں پہلا لیکچر ہی مجھ غریب کو نامزد کیا گیا-تھکاوٹ، نیند کے بوجھ تلے تھوڑا سمجھایا، تھوڑا سمجھا (تھوڑا اس لیے کہ مترجم صاحبہ میرے لحجے و رفتار کو کسی طور پکڑ ہی نہیں پا رہی تھیں)آخر پاور پوائنٹ کی سلائیڈز PowerPoint slides مترجم کے حوالے کیں اور بات یوں ختم کی کہ بی بی میں تو زیادہ تر عملی مثالوں سے چلتا ہوں اس لیے اب میں کیا بتاؤں کیا کہوں گا- تب جو دماغ میں آیا وہ زبان پر آجائے گا- اب پتہ نہیں وہ میرے تبخر علمی سے متاثر ہو گئیں یا جہالت سے گھبرا گئیں وہ پاور پوائیںٹ سلائیڈز لیکر مجھے اکیلا چھوڑ گئیں (بل گیٹس کی جے ہو) اور میں ڈاکٹر مجاہد جو ایک ہی کمرے میں تھے سونے کو چلے گئے- سوتے وقت ناشتے کا پوچھا گیا تو میں نے وہی دو سلائیس اور پنیر کی ٹکی والی کہانی سنا دی کہ ناشتا صبح سات تا نو بجے پروسا جانا تھا- ہم وہاں جا کر لیٹے اور شاید تبریز سے نندیا پور پاس ہی تھا کہ اس سفر میں زرا وقت نہ لگا-
(سفر ابھی جاری ہے)

Ager Tabriz na bashad