April 23, 2020

ترکی: استنبول- انطالیہ- سیواس

سیواس



 ترکی گھومنے کا میں کئی بار من ہی من میں ارادہ کیا کہ ارادہ کرنے کے لیے آپ کو فقط ذہنی آزادی چاہیے- اس ارادے میں استنبول، انطالیہ، ازمیر، قونیہ، انقرہ، غازی عینتاب، سامسون اور کاپا دوکیا شامل تھے- نہ کبھی سیواس کا سنا نہ کبھی جانے کا ارادہ کیا- حالانکہ ڈاکٹر مجاہد نے ایک دو بار بتایا کہ ان کا تعلق سیواس سے ہے لیکن وہ اگلے جملے تک ہی یاد رہا- یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ استنبول کے بعد دوسرا شہر سیواس دیکھنے کو ملے گا-لیکن زندگی بے بھلا کب ہماری مرضی سے کوئی قدم اٹھایا ہے جو اب اٹھاتی- 


ڈاکٹر مجاہد نے میرے جیسے 'نامور' پروفیسر کے ترکی آنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت یونیورسٹی سیواس جہاں وہ پڑھاتے میں میرے لیکچر مقرر کرادیے- ویسے تو ایک مفت خوری کانفرنس کے بعد لیکچر پڑھانا ذرا مشقت کا کام تھا لیکن مفت ٹکٹ، رہائش، کھانے کے لیے اتنا کرنا کوئی ایسا گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ رات کو جب ہوائی اڈے پر اترے دو چیزیں ہی دیکھنے کو ملیں ایک اندھیرا دوسرا برف- اتنی برف دیکھ کر تالن کی یاد آگئی اور ہم نے سیواس کو دیکھے بغیر ہی اپنے پرانے محبوب شہر کی نسبت سے پسند کرلیا-سیواس ہوائی اڈا چھوٹا سا تھا بس یوں سمجھیں ملتان، فیصل آباد کے پرانے ہوائی اڈے جتنا لیکن بالکل ماڈرن، ہر سہولت سے لیس (ماسوائے مفت انٹرنیٹ کے)۔ 

ہوائی اڈہ شہر سے تھوڑے فاصلے پر تھا- راستے میں برف کا لطف اٹھاتے آئے- ڈاکٹر مجاہد اور ڈاکٹر محمد دونوں ہی یونیورسٹی کی طرف سے الاٹ شدہ گھر میں رہتے تھے اور انہوں نے میرا رہائش کا انتظام بھی یونیورسٹی کے اچھے والے گیسٹ ہاؤس/ہاسٹل میں کیا ہوا تھا- ڈاکٹر مجاہد بتانے لگے کہ وہ میری رہائش یونیورسٹی کے ہوٹل میں بھی کر سکتے تھے لیکن وہ یونیورسٹی سے باہر شہر میں ہے تو وہاں رہنے کی صورت میں ڈاکٹر مجاہد کو تھوڑی تکلیف ہو گی اور وہ رہائش کا انتظام اپنے گھر میں بھی کرسکتے تھے لیکن ان کو شک تھا کہ اس صورت میں شاید میں تکلف میں اور شرم کے باعث درست طور آرام سے نہ رہ سکوں-میں نے کہا کہ بھائی کوئی مسئلہ نہیں ہمارا کیا ہے بس صاف بستر ہو اور کوئی انجان بندہ نہ ہو تو ہمارے لیے وہی پنج ستارہ ہوٹل ہے- 

ہوٹل اتار کر انہوں نے کہا ذرا دم لے لیں پھر کھانے کو چلتے ہیں- کھانے کے لیے انہوں نے کوفتے چنے- بقول ان کے سیواس کی مشہور اشیا میں کنگال کتے (جنکو ترک کتے بھی کہتے ہیں اور کتوں سے محبت کرنے والے اس نسل سے بخوبی واقف ہیں کہ میں بھی اپنے ایک کزن کی وجہ سے ان سے واقف تھا جنہوں نے ایک ماہ قبل ہی ایک کنگال کتا خریدا تھا) کوفتے، ریسلنگ کے ورلڈ چیمپئن طحہ اکاگل، اور ترکی کا پہلا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے مشہور تھا جبکہ میں طحہ کے علاوہ باقی تینوں باتوں سے ناواقف تھا کہ میرے لیے تو وہ ڈاکٹر مجاہد کے لیے مشہور تھا- طحہ سے واقفیت اس لیے تھی کہ میں نے حال ہی میں اس پر ایک تحقیقی مقالہ یعنی ریسرچ آرٹیکل (Research article) لکھا تھا- کوفتہ سے مراد ہمارے دماغ میں گوشت کی گیندیں آتی ہیں تاہم ترکی و ایران میں کوفتہ یا کوفتے (ترک اکثر اسم کا آخر 'ے' (بڑی یے) پر کرتے ہیں) اس کے برعکس ہمارے ہماں والی شامی ٹکی یا کباب ہوتا ہے- پاکستانی کوفتوں سے مجھے کبھی رغبت نہیں رہی (کھا لیتا ہوں لیکن مجبوری میں) تو کوفتوں کا سن کر ذرا کوفت ہوئی لیکن جب وہاں پہنچے اور کوفتے دیکھے تو نہ نہ کرتے بھی دو پلیٹ کھا لیں- ڈاکٹر مجاہد کے بقول یہ سیواس کے بہترین کوفتے تھے- میرے سے پوچھیں تو ترکی کے بہترین کوفتے تھے کہ اب تک میں نے کہیں اور کے کوفتے کھائے ہی نہیں تھے- 

کوفتے ٹھوس کر سانس ابھی کہیں پھیپھڑوں اور ناک کے درمیان اٹکا تھا کہ ڈاکٹر مجاہد بولے کے ایک چا خانے میں ان کے چیرمین و ڈاکٹر محمد ہمارا انتظار کر رہے ہیں- ہم کھانے کی ذیادتی سے بولنے سے قاصر تھے وہ ہماری خاموشی کو مشرقی دلہنوں والی ہاں سمجھے اور ہمیں لیکر اس چا خانے چل پڑے- ہمیں کھانے کا خمار سوار تھا اور ڈاکٹر مجاہد ہمیں اندھیرے میں سیواس کی عمارات بتاتے جا رہے تھے یہ سیواس سپور فٹ بال کلب ہے، یہ فلاں جا ہے یہ فلاں ہے اور ہم ہوں ہاں پر گزارہ کر رہے تھے- چا خانہ پہنچ کر ہم نے ساقی کو پکارا کہ وہی چا والا جام گردش میں لا ساقیا- گھنٹہ ڈیڑھ چا کافی پینے کے بعد کل کے وعدے پر محفل برخواست ہوگئی۔ ڈاکٹر مجاہد نے مجھے ہوٹل چھوڑا اور صبح نو بجے آنے کا وعدہ کرکے روانہ ہوئے- باہر کھڑکی پر سفید چاند کی روشنی میں برف لاجواب نظارہ پیش کر رہی تھی لیکن اس سے بھی حسین ہمیں نیند لگ رہی تھی لہذا ہم نے آنکھیں موندیں اور پل بھر میں چاند سے کہیں آگے پہنچ گئے۔
ہوائی اڈے سے نکلتے ہی۔
ہوٹل اور باہر کا نظارہ




صبح نو بجے جب ڈاکٹر مجاہد پہنچے تو میں پہلے ہی تیار تھا- سب سے پہلے وہ اپنے ڈپارٹمنٹ اور دفتر لے کر گئے- وہاں لٹکی اسناد، بیج اور یادگاروں کو دیکھ کر اطمنان ہوا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں کہ اتنی سندیں، بیج اور یادگاریں تو میں بھی لا چکا ہوں بس کبھی کسی کو دکھائی نہیں اپنے ایاز والے بکسے میں سنبھال کر رکھی ہیں- اس کے بعد انہوں نے کہا پہلے ناشتا کر لیتے ہیں- یونیورسٹی میں ہی کسی نیم ترک نیم یورپی کیفے سے ناشتہ کیا- ناشتے کے بعد انہوں نے کہا چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا یعنی چلیں کلاس میں چلیں- اس کے بعد ایک کے بعد دوسری کلاس میں گئے- وہاں کھیلوں کی برانڈنگ پر لم جھاڑا۔ اچھا ہوا یا برا ہوا کہ بچے انگریزی سمجھ تو جاتے تھے پر بولنے میں نکمے تھے- اگر طلبا سوال پوچھیں تو تو غپ بازی میں وقت گزر جاتا ہے لیکن کوئی ٹینکیکل سوال پوچھ لیں تو بات بنانی بھی پڑ سکتی ہے یہاں پر بس ون وے ٹریفک چلتی رہی- آخر میں جب سوال پوچھنے کی باری آئی تو طلبا نے تعلیم سے زیادہ مجھ میں دلچپسی دکھائی اور میرے بارے میں سوال پوچھتے رہے- یاد رہے کہ ڈاکٹر مجاہد سپورٹس منیجمنٹ sport management کے شعبے سے منسلک ہیں اور ان طلبا میں کھلاڑی، منیجر، آرگنائزر، استاد سب شامل تھے کہ ان کی یونیورسٹی ان چار شعبوں میں اسپیشلائزیشن Specialization کراتی ہے- آخر ظہرانے کا وقت ہوا تو میری جان چھوٹی- اب ہم سب اساتذہ یونیورسٹی کی کنٹین پر کھانا کھانے چلے گئے جو کہ تین منزلہ تھی اور ہر منزل پر جیب کے وزن کے حساب سے کھانا میسر تھا- 
مقام ناشتہ

یونیورسٹی کے نظارے




یونیورسٹی میں بنا گھنٹہ گھر

جہاں ظہرانہ ملتا ہے

 کھانے کے بعد ہم دوبارہ ڈپارٹمنٹ چلے گئے جہاں ایک آدھ کلاس کو مزید پڑھایا اور پھر ہم سیر کو نکل پڑے-پہلے ہم یونیورسٹی میں گھومتے رہے کہ ڈاکٹر مجاہد نے اپنی بیٹی کو سکول سے لینا تھا- اسی دوران ہم نے مسجد دیکھی جو بہت خوبصورت بنی ہوئی تھی اور ڈاکٹر مجاہد کے بقول کسی امیر بندے نے تعمیر کرائی تھی اور مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی وہ صاحب انتقال فرما گئے تھے- ڈاکٹر مجاہد کی بیٹی کو گھر چھوڑ کر ہم شہر کو نکل دیے- سب سے پہلے ہم گوک مدرسہ یا نیلا مدرسہ گئے- یہ تیرہویں صدی عیسوی کا قائم کردہ مدرسہ ہے جس کو اس کے نیلے مینار کی وجہ سے نیلا مدرسہ کہتے ہیں- یہ مدرسہ سلجوقیوں نے تعمیر کرایا تھا اور مرمت کے واسطے کافی عرصہ سے بند ہے- ہم نے باہر سے دیدار کیا اور عظمت رفتہ کا بوجھ اٹھائے آگے چل پڑے-یہاں سے ہم جامع مسجد یا گرینڈ مسجد پہنچے-اس مسجد کا مکمل نام سیواس الو مسجد ہے--یہ مسجد گیارہویں صدی عیسوی میں علاقائی شاہی خاندان دانشمندان نے تعمیر کی تھی- یہاں ہمیں ڈاکٹر مجاہد کے ایک دوست عبدالقادر صاحب آن ملے جو کہ ان کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور باغ و بہار شخصیت کے حامل ہیں- اب ہم تینوں سیواس کے مرکز میں گئے جہاں تین خوبصورت عمارتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ٹھہری ہیں- اب چونکہ رات تھی اتنی تفصیل سے دیکھ بھی نہیں سکے لہذا ان عمارتوں کی تفصیل کے لیے آپ بھی میری طرح اگلے دن کا انتظار کیجیے- یہاں سے نکلے تو ایک بار پھر ایک چا خانے پہنچے- یہ چا خانہ کسی پرانی قلعہ نما عمارت کو بحال کر کے بنا ہوا تھا۔ یہاں سے خاصی تاخیر سے نکلے اور ہوٹل پہنچتے پہنچتے بتی فیوز ہوچکی تھی لہذا بغیر کسی تاخیر کے اپنے آپ کو بستر اور نیند کے حوالے کر دیا کہ کل صبح پھر نو بجے نکلنا تھا- 

یونیورسٹی مسجد








نیلا مدرسہ

میں ہی ہوں
شہر میں ایک مینار

صبح کا آغاز پھر یونیورسٹی کلاسز سے ہوا- تاہم آج کوئی بڑی کلاس نہ تھی بلکہ گروپ ڈسکشن Group discussion قسم کی بات چیت تھی- اسی دوران پتہ چلا کہ اس یونیورسٹی کی دو لڑکیاں مارشل آرٹ کی مختلف اقسام میں اپنی عمر کی ورلڈ چیمپئن ہیں- حیرانگی بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی- یہاں سے فارغ ہو کر کھانے کو وہی کل والی کنٹین پہنچے- یہاں پر یونیورسٹی کے ریکٹر/وی سی بھی موجود تھے- ان سے سلام دعا ہوئی- پتہ چلا کچھ روز قبل وہ پاکستان گئے تھے بسلسلہ معاہدہ جو کہ اسلامک انٹرنشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے طے پایا تھا- 

آج یونیورسٹی سے جلدی نکل دیے اور رخ شہر کے مرکز کو تھا۔ ڈاکٹر مجاہد نے رات بتایا تھا کہ یہاں گورنر آفس بھی ہے وہاں انکا ایک دوست ہوتا ہے تو چلتے ہیں اور گورنر ہاؤس کی تصاویر بناتے ہیں- وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گورنر صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کے دوست نے جب سنا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور سپورٹس مارکیٹینگ/برانڈنگ Sports marketing/branding میں مہارت رکھتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ میری تو گورنر صاحب سے لازم ملاقات ہونی چاہیے- کرائیں جی ملاقات—معمولی انتظار کے بعد گورنر سیواس صالح ایہان صاحب کے دفتر میں آنے کا اشارہ ملا- اپنی وزیر صاحبہ کے رویے کے بعد خیال یہی تھا کہ ہاتھ ملائیں گے، تصویر لیں گے اور مع السلام۔ لیکن گفتگو جو شروع ہوئی تو کہاں سے کہاں تک پہنچی۔ آخر میں گورنر صاحب نے کہا ہمارے فٹ بال کلب سیواس سپور کے لیے کوئی مارکیٹنگ کمپین بنا دیں- میں نے کہا کیوں نہیں؟ جب حکم کریں- اس کے بعد تصاویر کا دور ہوا اور چلتے وقت سیواس کے کلب سیواس سپور کے مفلر اور دستانے تحفتۃ عنایت کیے گئے- باہر نکل کر گورنر صاحب کے پی اے اور ڈاکٹر مجاہد کے دوست کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے یہ ملاقات ممکن بنائی تھی- باہر نکل کر دل میں احساس ہوا کہ چلو اپنے نہ سہی غیروں نے تو قدر کی اور دل میں فیصلہ کیا کہ ویسے تو پاکستان سے محبت اپنی جگہ قائم و دائم ہے لیکن اگر ترکی میں کوئی موقع ملا تو سال دو سال کے لیے جانے کو ہم توقف نہ کریں گے- بتائے دیتے ہیں کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ 
ہم اور گورنز صاحب


گورنز سیواس کا آفیشل انسٹاگرام پیج پر ہم

یہاں سے ہم پہنچے اس عمارت میں جہاں ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی تھی- کمال اتاترک نے ترک جمہوریہ کی بنیاد ہمراہ چند مزید راہنماؤں کے ہمراہ رکھی تھی اور سیواس پندرہ بیس روز ترک جمہوریہ کا دارالحکومت بھی رہا ہے جہاں سے بعد ازان اس کو انقرہ منتقل کر دیا گیا-عمارت کو عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے اور یہ واقع چونکہ 1919 میں وقوع پذیر ہوا تھا لہذا پچھلے سال میں منائی گئی صد سالہ تقریبات کے نشانات موجود تھے- حالانکہ چھوٹے شہروں کے ترکوں کی اکثریت اتنی ہی اسلام پسند ہے جتنے ہم لیکن اس کے باوجود وہ اتاترک کا ایسا ہی احترام کرتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستانی قائد اعظم کا۔ جبکہ عمومی تاثر اسلام پسند پاکستانیوں میں اتاترک کا اچھا نہیں لیکن ترک جیسے اپنے سلاطین سے محبت کرتے ہیں ایسے ہی اتاترک سے بھی محبت کرتے ہیں- 
یہاں ٹھہر کر تصویر کھینچوانا عین روایت ہے

عمارت رات میں




عمارت دن میں


صد سالہ تقریبات


عمارت کچھ اندر سے



Add caption

اس عمارت کے سامنے ہی کالے جامعی یعنی قلعہ مسجد ہے- 1580 میں تعمیر کی گئی اس مسجد کا نام اس جگہ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جو کہ اس وقت گڑھی یا چھوٹے قلعے کی صورت میں تھا۔ اس مسجد کا ایک نام مسجد محمت (محمد) بے بھی ہے- اس مسجد میں دو چیزیں بڑی اہم تھیں ایک خانہ تھا جس میں لوگ گمشدہ اشیاہ ملنے پر رکھ جاتے تھے اور جس کی ملکیت ہوتی وہ لے جاتا جبکہ دوسرا صدقہ ستون ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سوراخ میں ہاتھ ڈالنے پر دیکھنے والے کو پتہ نہ چل سکے کہ اس نے خیرات لی ہے یا خیرات دی ہے- ہائے دنیا میں اخلاق پھیلانے والے بد اخلاقے ہو گئے۔ 
قلعہ مسجد- مختلف اوقات و مختلف اطراف سے











 اسی عمارت کے ساتھ ہی مسجد جفت مینار موجود ہے جس کا آج کل فقط مرکزی دروازہ ہی باقی ہے- جفت جیسا کہ نام سے ظاہر ہے دو کو ظاہر کرتا ہے- یہ مدرسہ 1271 میں تعمیر ہوا تھا – اس کی تعمیر کا سہرہ شمس الدین جیوانی کے سر ہے جس نے سلطان کیقباد کے دور حکومت میں خداوند خاتون سلطان کیکاؤس اول کی بہن کے حکم پر تعمیر کیا تھا- یہاں قانون کی تعلیم دی جاتی تھی جبکہ اس کے بالکل سامنے مدرسہ شفائی قائم ہے جو کہ طب کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ مدرسہ سلجوقیوں کے ابتدائی دور حکومت میں سلطان کیکاؤس اول نے تعمیر کیا تھا- ان عمارتوں کے ساتھ ہی ایک پرانے حمام کے نشانات بھی باقی ہیں جو کہ شاید اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تعلیم پر توجہ کرنے والی قوموں کی عمر بھی طویل ہوا کرتی ہے- لیکن ہمیں کیا ہم تو سیر کرنے آئے تھے- 

مدرسہ شفائی کے اندر ہی سلجوقی سلطان کیکاوس اول یعنی عز الدين كيكاوس کا مقبرہ بھی ہے۔ مقبرہ خوبصورت ہے لیکن اس پر کنندہ اشعار ہم کسی سلجوقی بادشاہ سے توقع نہیں کر رہے تھے کہ ان کا خلاصہ یہ تھا کہ سکندر جب دنیا سے گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے- دنیا سے جانے سے پہلے کے حالات بارے نوحہ خوان ہر جا کے خاموش ہیں- یہاں پر آج کل مقامی صنعتوں کا بازار لگتا ہے جہاں سے میں نے کچھ یادگارِ شہر لیں-
اسی مرکزی حصے میں مسجد جفت مینار، مدرسی شیفائی، حمام وغیرہ واقع ہیں جن کی تصاویر دی جارہی ہیں





















مزار کیاؤس اول



یاد گار شہر- کینگال کتے




 یہاں سے نکلے تو راستے میں آرمینیائی محلہ آیا لیکن یہاں سے باہر سے ہی سلام بھیج کر ہم آگے چل دیے۔ آگے گدوک مینار پر جا رکے- گدوک ترکی میں گول مٹول کو کہتے ہیں جو کہ اس مینار کی شکل سے لگ رہا تھا- یہ دراصل شیخ حسن بے کا مزار ہے- یہ مزار 1347 میں تعمیر کیا گیا تھا اور تعمیرات میں ایک منفرد شکل کا حامل ہے- یہاں سے تصاویر کھینچ کر ہم ڈاکٹر مجاہد کے گھر گئے جہاں ترک روایات سے بھرپور کھانا انتظار کر رہا تھا- 
گول مینار

 کھانے سے فارغ ہو کردوبارہ باہر نکلے اور پھر رخ ایک چا خانے کا تھا جہاں پر کل کے ہم پیالہ عبدالقادر صاحب کے ساتھ ڈاکٹر سیت (سعید) بھی انتظار کر رہے تھے۔ ڈکٹر سعید سے ملاقات مستبقل کی تحقیق (ریسرچ پروگرامز) بارے تھی- ترکی میں ابھی شیشہ قانونی طور پر ہوٹلوں میں بیچنا جائز ہے لہذا اکثر ہوٹل دھوئیں اور نوجوانوں سے بھرے ہوتے ہیں- یہ ریسٹورانٹ بھی ایسا تھا۔ بہرحال تین چار گھنٹے دنیا بھر کے لایعنی موضوعات پر بولنے کے بعد جب ہمیں بھی پتہ چلنا ختم ہو گیا کہ کیا سن رہے ہیں اور کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں تو گھر کی یعنی ہوٹل کی راہ پکڑی- 
شہر گردی یا شب گردی





مسجد الو






اگلا دن آخری تھا- مجھے پہلی بار خوشی تھی کہ کرونا کی وجہ سے ہر طرف سے بری خبریں آرہی تھیں اور سننے میں آرہا تھا کہ سعودی عرب کی پروازیں بھی ایران و اٹلی کے بعد بند ہوجائیں گے- ایران میں کرونا نے تباہی پھیلی ہوئی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ پاکستان میں اب پھیلا کہ اب پھیلا۔ ادر دو چار بندوں نے کرونا کا شکار ہونا تھا ادھر پراوزں نے منسوخ ہو جانا تھا اور کر لیںی تھی میں کانفرنسیں وانفرنسیں- حسب معمول نو بجے نکلے تو ہوٹل سے چیک آؤٹ کر لیا اور سامان کار میں ہی رکھ لیا- کل کی گورنر کی ملاقات سے متاثر ہو صوبے کے کھیلوں کے حکومتی سربراہ جس کا انگریزی میں عہدہ ڈرائیکٹر جنرل Director general بنتا ہے نے ملاقات کا نیوتا بھیج رکھا تھا- جس پر ڈاکٹر مجاہد نے فرمائش کی کہ آج بھی پینٹ کوٹ پہنیں – میں نے کہا بھائی پھر آپ کو ہوٹل لا کر مجھے دوبارہ کپڑے تبدیل کرانے ہوں گے کہ گھر میں کل دوپہر یا شام کو پہنچوں گا اور اتنی دیر ہوشیار باش رہا تو مشتری ہوجاؤں گا- جس پر انہوں نے براہ مہربانی جینز میں ملنے کی ہی اجازت دے دی- اصل میں کل گورنر والی تصویر حکومتی انسٹاگرام صفحے پر مشتہر ہوچکی تھی اور ڈاکٹر مجاہد جنکو سارا شہر ہی جانتا تھا چاہتے تھے پتہ لگے کوئی بڑے مہمان ہیں جو پینٹ کوٹ پہنتے ہیں- لیکن ہم اور بڑے اور شوبازی۔ اتنے اچھے ہوتے تو آج دو چار بندے تو واہ واہ کرنے والے ہوتے۔ بہرحال انگریزی کہاوت جس کا نزدیک ترین اردو ترجمہ یہ ہے کہ میں دوسروں کے لیے نہیں اپنے لیے کپڑے پہنتا ہوں(I don’t dress for anyone but me) اور جس ہر میں قطعاً یقین نہیں کرتا کہہ کر دل کو تسلی دینے کی کوشش کی- 

سب سے پہلے ہم یونیورسٹی گئے- یہاں میرے خطبات (لیکچرز کو اور خود کو عزت دینے کی کوشش) پر مجھے سند سے نوازا گیا- چیرمین صاحب نے سیواس کی کلاسیکل موسیقی پر مشتمل ایک سی ڈی تحفے میں دی- ڈاکٹر محمد نے ایک مگ تحفتاً عنایت کیا- یہاں سے ہم ڈرائیکٹر جنرل صاحب کے آفس پہنچے- پانچ منٹ کی ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی- ڈارئیکٹر صاحب کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہمارے فارن افیئرز اور مسلم امہ بارے خیالات سے متاثر ہوئے اور کہنے لگے اگلی بار آپ آئیں تو ہمارے مہمان ہوں گے- میں نے کہا آپ بلائیں ہم نہ آئیں ایسے تو حالات نہیں- ڈارئیکٹر صاحب سیانے تھے اس موقع پر چپ کرگئے بلانے میں پھر ٹکٹ وکٹ، خرچہ مرچہ، وغیرہ وغیرہ----- بہرحال انہوں نے ایک تصویر جو کہ صوبہ سیواس کی پہچان ہے (یہاں ہم وقت کی کمی کہ وجہ سے نہ جا سکے تھے) کہ تصویر جس پر میرا نام عثمانی رسم الخط میں تحریر تھا تحفتاً دی اور مجھے اپنی محبت کا گرویدہ کر لیا- 
الوداعی ملاقات

ہمراہ ڈرائیکٹر جنرل

جمہوریت یونیورسٹی سیواس میں سند وصول کرتے ہوئے

یہاں سے نکلے تو پروگرام ہوائی اڈے کا تھا لیکن آگے عبدالقادر صاحب انتظار میں تھے- انہوں نے ہمیں لیا اور سیواس کے مشہور کوفتے (ان کے مطابق) پر لے گئے- وہاں کوفتے کھائے، ایک کافی کا ڈبہ عنایت کیا اور ہوائی اڈے تک چھوڑنے ساتھ آئے۔ہوائی اڈے کا راستہ ایسا تھا جیسا پاکستان کے شمالی علاقہ جات۔ بس فرق یہ تھا کہ سڑکیں چوڑی تھیں اور صاف ستھری- سڑک کے دونوں اطراف سورج کی روشنی میں برف روشنی کو منعکس کررہی تھی –سیواس کا آخری نظارہ بھی اتنا ہی دلکش تھا جتنا پہلا۔ 
الوداع سیواس




ترکی میں جب کی دہشت گردی کی لہر چلی ہے ہوائی اڈوں پر سختی بہت زیادہ ہوچلی ہے- جسمانی سکینر Body scanner اتنے حساس ہیں کہ میرا ریکارڈ رہا ہے کبھی دنیا میں جہاں بھی گیا کسی ہوائی اڈے میں مشین سے گزرتے آواز نہیں آئی لیکن ترکی میں ریکارڈ یوں بنا کہ ایک بار بھی بنا آواز کے نہیں گزر سکا۔ ہر بار ٹوں۔۔۔ اور میں ہاتھ کھڑے کیے تلاش کو تیار۔ سیواس سے استنبول پہنچا جہاں پانچ گھنٹے کا انتظار تھا۔ بس جب دروازے کا اعلان ہوا کہ لاہور کی پرواز فلاں دروازے سے ہے تو پاکستانیوں نے اس کے بعد انتظار کی کوفت کو محسوس نہیں ہونے دیا- کہ ہر دس منٹ بعد کوئی نہ کوئی شخص /فیملی وہاں کاؤنٹر پر آکر کھڑۓ ہوجاتے۔ ان کی دیکھا دیکھی فوراً قطار بن جاتی اور ہوائی اڈے کے ملازمین آکر کبھی منت سے کبھی غصے سے کہتے کہ بھائی بیٹھ جاؤ ابھی دیر ہے۔پاکستانیوں کا یہ رویہ دیکھ کر تھوڑٰ حیرت ہوئی کہ استنبول میں اکثریت یورپی/امریکی پاکستانیوں کی ہے جو گلف والوں کی نسبت پڑھے لکھے ہیں اور اچھے معاشروں کا حصہ ہیں لیکن ان کے یہ اعمال دیکھ کر یقین آ گیا کہ پاکستانیوں کو کوئی نہیں سدھار سکتا- رہے نام اللہ کا۔۔ 

جب رش چھٹ گیا تو میں کاؤنٹرپر گیا – انہوں نے کہا آپ کی نشست تبدیل کر دی گئی ہے اور اب آپ کی نشست بزنس کلاس میں ہے- میں نے سوچا چلو جو ترکی کا ایک اور تحفہ لیتے جائیں۔ جہاز میں میرے ساتھ ایک صاحب براجمان تھے جنہوں نے گفتگو کا آغاز انگریزی میں کیا کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں- دنیا میں میرے سے پوچھیں تو دو کام مشکل ترین ہیں ایک اپنی تعریف کرنا دوسرا کسی دیسی بندے سے انگریزی بولنا- میں نے مجبوری میں انگریزی میں یہ بتایا کہ کانفرنس پر آیا تھا۔ اچھا لاہور سے؟ میں نے کہا نہیں ملتان سے- کہتے ہیں اچھا --- میں بھی ملتان سےہوں- میں نے کہا ماشااللہ- بس پھر وہ چپ ہوگئے اور ہم فلائیٹ کے میڈیا میں کھو گئے۔ آتے ہوئے ایک فلم آدھی رہ گئی تھی وہ دیکھی اور ایک آدھ اور دیکھی اور لاہور آگیا- لاہور کے پاس بادلوں کی وجہ سے دھکے لگے تو میرے ہم سفر و ہم شہر بولے' اساں سڑکاں کو روندے آں اے تاں پاکستان دی ہوا اچ دھکے ہن۔ پتہ لگدا پیا اے پاکستان آ گیا' (ہم سڑکوں کو روتے ہیں پاکستان کی ہوا میں دھکے ہیں – پتہ تو لگا کہ پاکستان آگیا)- ہم اپنے علاوہ کسی کے منہ سے پاکستان کی بدتعریفی نہیں سن سکتے بھلے وہ مذاق ہی کیوں نہ ہو تو بس ہلکا سا مسکرا دیا- 

راستے میں ہمیں گورنمنٹ آف پاکستان کا وبائی امراض سے نبٹنے کا پرانا فارمولا دیا گیا جو کہ ایک فارم ہے جس میں آپ بتاتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ میں آپ افریقا، چین وغیرہ تو کہیں نہیں گئے تھے۔ کون بتاتا؟کیا بتاتا؟ اس لیے نہیں کہ بتانے میں ڈر لگتا ہے اس لیے کہ یار جہاز میں کون قلم لیے پھرتا ہے۔ بہرحال میں نے رینجر والے اہلکار جس وصول کررہا تھا اسی سے مانگ کر فارم پر کیا اور اس کے حوالے کر دیا- آگے ایک صاحب ایک پانی والے پستول نما کوئی آلہ لیے لوگوں کے ماتھے جانچتے پھر رہے تھے (بعد میں پتہ چلا کہ درجہ حرارت ناپتا ہے)۔ میں نے سوچا پاکستان میں حال یہ ہے کہ ایک پوٹر تک آپ کا سامان نکلوا دیتا ہے، بندہ نکلوا دیتا ہے تو بڑے لوگوں کے لیے یہاں سے غائب ہونا کیا مسئلہ ہے – تعلق نکل آتا ہے پیسہ نکل آتا ہے قوانین زمین جنبد نہ جنبد گل محمد بت بنے ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں- ادھر کاؤنٹر پر ٹھپے لگانے والے انسپکٹر صاحبان نے شاید قسم کھائی تھی کہ اتنی دیر لگانی ہے کہ اتنی دیر میں آپس میں کیا چین سے پیدل پہنچ کر سب کو کرونا ہوجاتا- ایک بی بی تھیں شاید ان کی سربراہ جدھر وہ جاتی تھیں ادھر کام کی رفتار تیز ہوجاتی اور باقی جگہوں پر ایسے کہ یہ سب لوگ شاید بیگار پر لگائے گئے ہیں۔ادھر لوگ کھانس ایسے رہے تھے کہ گویا کھانسنے سے وہ جلدی فارغ کیے جائیں گے۔ 

پاکستان کی فکر میں گھلتا باہر نکلا تو پتہ چلا مجھے جو ملتان سے لینے آئے تھے وہ لاہور آ کر سو گئے تھے- میرے فون پر وہ جاگے ہیں تو آںے میں کم از کم ایک گھنٹہ لگے گا-باہر ایک کونے آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بزرگ بھی آکر بیٹھ گئے۔ بزرگ کو بھی کھانسی تھی۔ میرے دل میں آیا کہ کہیں اور چلا جاؤں لیکن میں نے بدتمیزی سمجھ کر خود کو وہاں بیٹھنے پر مجبور کیے رکھا کہ بزرگ ہیں، ہمارے دیہی لوگ ہیں یہی پاکستان کا سرمایہ ہیں۔ میں اٹھ گیا تو وہ سمجھیں گے کہ پڑھے لکھے لوگ بدتمیز ہوتے ہیں۔ پانچ دس منٹ انتہائی سخت کشمکش میں وہاں بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد بزرگ کو جو کھانسی آئی تو انہوں نے بلاتکلف بلغم ہم دونوں کے سامنے پڑک کرکے پھینک مارا۔ بس اب میری بس ہو گئی – وہاں سے اٹھا تو سیدھا ملتان آکر ہی دم لیا -


Sivas
Turkey: Istanbul-Antalia- Sivas