February 8, 2021

آخری سلام




جب کا ہوش سنبھالا (میں اپنا ہوش سنبھالنا عمر کے حساب سے نہیں بلکہ سوچ کے اعتبار سے گنتا ہوں) نہ کبھی کسی مشہور
 ہستی سے ملنے کا شوق ہوا نہ کسی ہم پیشہ (مصنف، فوٹو گرافر، برڈر) سے ملاقات کی آرزو رہی- باقی پرستار بننا تو مدت ہوئی ہم نے چھوڑ دیا 

 زندگی کا ایک اصول یہ بنایا جس پر بہت حد تک عمل بھی کیا کہ جو خامی خود میں ہو اس پر دوسروں پر تنقید مت کرو تو جیسے اپنے سے بڑوں سے ملاقات کا شوق نہیں پالا ایسے ہی ان لوگوں سے جو مجھ سے کسی غلط بات پر متاثر ہوئے سے بھی حتی الوسیع کوشش کی کہ نہ ہی ملیں- 

 جب میری کتاب 'شجر محبت' چھپ کر آئی تو کئی لوگوں کی فرمائش تھی کہ اپنی دستخط شدہ کتاب دوں لیکن انتہائی کوشش کی (شاید ایک آدھ ہی دستخط شدہ کاپی دی ہو گی) کہ ایسا نہ ہونے پائے-

 کچھ میری مردم بیزاری، کچھ نہ کسی سے امیدیں بدھنا اور کچھ اپنے آپ کو منکسرالمزاج بنانا آڑے آیا اور اگر کسی محفل میں جانا بھی پڑا تو مجبوری پر گیا کہ میں بڑے چھوٹے کا قائل نہیں۔ دوستی و محبت پیسہ، رتبہ، شکل، صورت سے بے نیاز ہے- بس دل ملنا چاہیے باقی ہر شے ثانوی ہے- 

عقیدت اور توقعات کا بار اکثر انسان کو لے ڈوبتا ہے- کسی کی گفتگو، کسی کے نظریات، کسی کی عادات، کسی کا لائف سٹائل، کسی کا چہرہ ہر شے کامل نہیں ہو سکتی اور جس وجہ سے محبت پیدا ہوتی ہے وہ ملاقات میں ختم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے بشرطیکہ عقیدت کا بہاؤ عقل کا بند توڑ دے۔ 

 بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو میں نے دل ہی دل میں بہت سراہا ہے تاہم جیسا پہلے کہا کبھی ان سے ملاقات کی خواہش نہیں پالی- حتیٰ کہ وہ سامنے بھی آجاتے تو میں پہچاننے کے باوجود ایسے نکل جاتا جیسے ان سے ملا ہی نہیں خواہ مرحوم اشفاق احمد صاحب ہوتے ، فیض صاحب ہوتے، ڈاکٹر رتھ فاؤ ہوتیں، منیر نیازی ہوتے، اعتزاز حسن شہید ہوتا، حسین شاہ ہوتے یا محمد علی صد پارہ ہوتے کہ ہر دو صورتوں میں نہ کبھی آٹوگراف اور نہ سیلفی میں رغبت رہی ہے (نہ ہی بطور پرستار اور نہ ہی بطور شخصیت) – جب جب آٹو گراف و سیلفی لینے کا موقع آیا ہے تو وہاں سے باآسانی فرار اختیار کیا ہے لیکن جہاں دینا پڑا ہے وہاں سے نجات مشکل ہی ثابت ہوئی ہے- 

لیکن کیا ہے ناں کہ دل کو کچھ لوگ بھانے لگتے ہیں – کچھ ایسے لوگ ہیں جن سے ملا نہیں لیکن دل ان کی طرف کھنچتا ہے- ملے بغیر، جانے بغیر- کسی دوسرے علاقے کی رہائشی، کوئی اور زبان بولنے والے، کوئی اور زندگی گزرانے والے- کچھ ایسا کام کرجاتے ہیں جو دل میں گھر کر جاتے ہیں اور ہمیشہ وہاں رہتے ہیں- جو امرتا پریتم کے الفاظ تبدیلی کے ساتھ ہوجاتے ہیں 
میں تینوں ملاں گا 
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں 
شاید تخیل دی چھنک بن کے 

جیسے پاکستان سے محبت ایسی ہے کہ جو اس محبت کا بھرم نبھا جاتا ہے اس کا مقام دل کے پاس قرار پاتا ہے- محمد علی صد پارہ ان میں سے ایک ہیں جن کو بہت عرصے سے جانتا ہوں ( یک طرفہ محبت)- نہ صرف پاکستان بلکہ اپنی محبت اپنے شوق پر جان لٹانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں- پاکستان کی ایک مادہ پرست جنریشن میں محمد علی صد پارہ کو سلام- 

!!!!!!!!آخری سلام