April 12, 2021

ملتان میں آموں کے ساتھ عام سلوک



چالیس پچاس سال قبل کسی نے ایک راہ دکھائی اور ملتان و گردنواح کے تمام زمیندار دھڑادھڑ آم کے باغ لگانے لگ گئے۔آم ان نسبتاً کم زرخیز زمینوں کو ایسے راس آئے کہ کسی کا ایک بیگھ بھی تھا تو وہاں بھی آم لگ گئے۔
 ہمارے ملک میں زمیندار ایک بڑی بیچاری قسم کی مخلوق ہے ۔کاشتکار یا جاگیردار تو پھر فائدہ میں رہ جاتے ہیں لیکن زمیندار نہ ہی کاشتکار بن سکتا ہے کہ معاشرے میں اپنی عزت اور خاندانیت کا بھرم خاک میں ملتا ہے اور اتنے زرائع اور دہشت نہیں کہ جاگیرداری والا طرہ قائم رہ سکے۔ بس اسی نام نہاد بھرم کی خاطر وہ الیکشن لڑتا ہے، عدالت جاتا ہے، سرکاری اہلکاروں سے تحفے تحائف دے دلا کر بنا کر رکھتا ہے،دس بندوں کو سالانہ گندم دیتا ہے تاکہ وہ اسکے ہاں نوکری کرتے رہیں۔زمین یا تو ٹھیکہ پر دے دیتا ہے یا خود کاشت بھی کرتا ہے تو ڈرائیور، منیجر، منشی راہق (مزدور) کے لاہ لشکر کے ہمراہ کرتا ہے جس میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ داؤ لگانے کو تیار ہوتا ہے اور زمیندار جانے انجانے میں یہ سب برداشت کرتا رہتا ہے۔


 بحرحال باغات لگےاور زمیندار کی شان بڑھ گئی۔کچھ کیے کرائے بغیر گھر پیسے آنے لگے پھل الگ جو دینے دلانے کے کام آنے لگا۔ پیسہ بڑھا تو خرچہ برھا اور مجموعی حالات وہی جوں کے توں۔ ادھر آم کے آڑھتی باغ کا سودا طے کرتے اور جب حساب کتاب کا وقت آتا تو پاؤں پڑ کر بیس فیصد پچیس فیصد رقم معاف کرا لیتے کہ اتنا گھاٹا ہوا ہے کہ گھر کے افراد کو بیچنے کی نوبت آ گئی۔ زمیندار کچھ خوف خدا کچھ خوف بدنامی معاف کردیتا اور اگلے سال وہی ٹھیکیدار پھر باغ لینے آن پہنچتا۔

 لے دے کر چارہ یہی بچ جاتا کہ کچھ زمین بیچ دی جائے۔لیکن گاہک مارکیٹ میں ہوتا نہیں تھا اور سال دو سال بعد کوئی ایک آدھ بندہ آ جاتا تو وہ ایسے نخرے کر کے زمین خریدتا گویا خیرات کر رہآ ہو۔اوپر سے زمین کی مالیت بمشکل اتنی کے زمیدار فقط اپنے ادھار اتار پائے۔ 

 زمین سے محبت ان لوگوں میں تو تھی جنہوں نے اپنے خون پسینہ ایک کر کے چند بیگھہ زمین بنائی تھی لیکن ایسے لوگوں میں قطعا نہیں تھی جنہوں نے باپ دادا سے زمیں وراثت میں حاصل کی تھی اور جو اب انکے باپ دادا والا طنطنہ قائم رکھنے میں ناکام تھی۔ 

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ملتان شہر کے عمرانی فیچرز کبھی پڑھے نہیں گئے ریسرچ نہیں کیے گئے۔ یہاں معاشرتی ڈھانچہ دو حصوں میں منقسم تھا جاگیردار اور اس کے رعایا ( رعایا وہ لوگ تھے جو جاگیرداروں کے پاس آ کر زمین مانگتے- جاگیر دار ان کو زمین دیتے، گھر بنانے میں مدد کرتے اور انکو اپنے پاس نوکر رکھتے اور گاہے بگاہے مدد بھی کرتے رہتے لیکن بدلے میں سب گھر والے جاگیردار کے گھر میں نوکری کرتے- کچھ عوضانے پر کچھ مفت- ان لوگوں کو عام زبان میں کمی کہا جاتا تھا۔اب نہ جاگیر دار رہے نہ کمی لیکن سوچ سب کی جاگیرداروں والی ہوگئی۔سب صاحب لوگ ہیں، خود مختار ہیں، قانون سے بالاتر ہیں- 

2003  میں اربنائزیشن کو سرکاری طور پر اپنایا گیا تو اس ملتان کے نواحات کو اس بیلٹ میں شامل کر دیا گیا جہاں کالونیاں بننا تھیں۔تب وزیر زراعت سکندر بوسن تھے جنکا خود کا یہ حلقہ تھا۔ اور پھر باغات سرکاری و نجی کالونیاں بننا شروع ہوئے واپڈا ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن ، رائل آرچرڈ ، بچ ولاز، واپڈا ٹاؤن فیز ٹو فیز تھری اور شہر کے دوسرے کونے پر فاطمہ جناح ٹاؤن اور پھر ڈی ایچ اے اور سٹی ہاؤسنگ نے انٹری ماری جنہوں نے وسیع اراضی حاصل کر کے کالونیاں میں شامل کر دیا۔ بیس سالوں میں میرے دیکھتے دیکھتے دیکھتے صرف بوسن روڈ پر دس کلو میٹر کا رقبہ (ڈی ایچ اےسے قبل) باغات کٹ کر چھوٹی بڑی کالونی میں تبدیل ہو چکے تھے جن میں اکثریت کچی آبادی قسم کی بے ہنگم غیر منظور کالونی تھی جہاں زمینداروں کے رعایا نے آبادکاری کی اور زمینداروں سے مرلہ مرلہ لیکر آبادیاں قائم کردیں جو کہ اب بھی کسی بھی بڑی کالونی کے آگے پیچھے دائیں بائیں اسکو گھیرے ہیں- تو اہم بات یہ ہے کہ ملتان میں جب بھی اربنائزیشن ہوئی ہے، نئے گھر بنے ہیں، آبادیاں بڑھی ہیں باغات ہی کٹے ہیں اسکی وجہ یہ ہے یہاں کی اہم فصل آم کے باغ ہی تھے۔ پاکستان کے ہر شہر کی طرح اربنائزیشن کی حد میں زرعی زمین ہی آئی لیکن ملتان کی زرعی زمین کا معاملہ یہ تھا کہ یہاں باغات تھے۔ 

 بلا شبہ ملتان کا آم پاکستان کا ایک قومی اثاثہ تھا لیکن اس اثاثے کی گورمنٹ کی نظر میں اہمیت یہ تھی کہ ملتان میں چند سال قبل ہی مینگو کارگو کی سہولت ملی تھی تاکہ آم بیرون ملک ایکسپورٹ ہو سکے اور سب سے زیادہ ایکسپورٹ پچھلے سال ہوئی ہے جب نوے ہزار درختوں کے کٹنے کا شور کیا جا رہا ہے۔گورنمنٹ عمومی طور پر ایسے علاقوں کے لیے خاص مراعات کا اعلان کرتی ہے تاکہ قومی اثاثے بچائے جا سکیں جیسے یورپی یونین اپنے کسانوں کو اربنائزیشن سے بچانے کو وظیفے یا دیگر مراعات دیتی ہے لیکن پاکستان میں نہ ہی حکومتوں کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ ہی اتنے ذرائع۔ بلکہ حکومتی سنجیدگی اس سے دیکھیے کہ جب ڈی ایچ اے آیا تو تب بھی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی سکندر بوسن ہی تھے بلکہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے زور ڈلوا کر یہاں ہی ڈی ایچ اے کی ریکومنڈیشن دی ہو جیسے احمد حسن ڈیہڑ نے اپنی زمینوں کے پاس واپڈا ٹاؤن بنوایا تاکہ انکی زمین کے دام بڑھ جانیں۔ 

جب ڈی ایچ اے آیا تو ہم نے بھی بڑی کہانیاں سن رکھیں تھیں کہ فوجی بڑے ظالم ہیں زمین ہر حال میں لے کر رہتے ہیں لیکن جب ڈی ایچ اے آگیا تو عجیب معاملہ دیکھنے کو ملا کہ زمیندار سفارش اور منت کر رہے تھے کہ خدا را ہماری زمین لے لیں- وہ جگہ جہاں کوئی بیس لاکھ ایکڑ بیچ دیتا تو اکڑتا پھرتا تھا وہاں ریٹ ایک کروڑ ہو گیا- میرے سامنے کئی مثالیں ہیں کہ لوگ جب زمین بیچنے گئے تو جواب ملا کہ آپ کا علاقہ ڈی ایچ اے کی حد میں نہیں (ابتداً سنا تھا کہ جتنا اب رقبہ منظور کیا گیا ہے اس کا دسواں حصہ منظور شدہ تھا لیکن لوگوں کی دلچسپی کے پیش نظر اس میں توسیع بعد میں کی گئی ) تو لوگوں نے سیکٹریوں، فوجی افسران، یار دوستوں سے سفارشیں کرا کر اپنا رقبہ ڈی ایچ اے میں شامل کرایا اور پیسے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے- اب سٹی آگیا تھا تو اس نے ریٹ مزید اونچا کر دیا اور زمینداروں کی لاٹری لگ گئی اور نقصان آم کو اٹھانا پڑا- 

 جب سٹی فیز ون بن گیا اور ڈی ایچ اے کی توسیع ہوگئی تو فیس بک پر کسی کو یاد آیا یا دلایا گیا کہ اوہو ملتان میں تو ڈی ایچ اے نے آموں کی بربادی کردی- قومی اثاثہ لٹ گیا، ملک برباد ہوگیا۔ وہ لوگ جنہوں نے بلین ٹری پر ایک لفظ تعریف میں نہ نکالا تھا کو ماحول کا خیال بے چین کرگیا- پہلی بات یہ ہے کہ حکومت کو شروع میں ہی سوچنا چاہیے تھا کوئی سد باب کرنا چاہیے  تھا جیسے تحریک انصاف حکومت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ زرعی زمین پر کالونی بننے کے خلاف قانون پاس کیا جائے گا لیکن یہ بات فقط اعلان تک محدود رہی  لیکن اگر زرعی زمین پر نہیں بنے گا تو کہاں بنے گا شہر؟ چولستان کے صحرا یا بلوچستان کے پہاڑوں پر- دوسرا یہ کہ ملک ہمارا زرعی ہے تو شہر جب بھی پھیلیں گے تو زرعی رقبہ ہی شہروں میں شامل ہوگا- اگر حکومت پابندی لگا بھی دیتی ہے کہ فلاں شہر میں فلاں علاقہ شہر میں شامل نہیں کیا جائے گا تو ان لوگوں کا قصور ہے؟ جیسے ملتان میں ایک طرف تو کروڑ روپے ایکڑ بک رہی ہو زمین دوسری طرف کوئی دس لاکھ پر لینے کو تیار نہ ہو۔ تیسرا یہ کہ یہ تمام مبینہ نوے ہزار درخت زمینداروں نے خود لگائے تھے- زمیندار کی فصل تھی اس نے کاٹ لی –کوئی سرکاری جنگل تو نہیں کٹا-جب لگے تھے گورمنٹ نے مفت تو درخت نہیں دیے تھے یا کوئی سبسڈی نہیں دی تھی (جیسی آج کل زیتون پر چل رہی ہے)- پنڈی، لاہور و دیگر شہروں میں جب کالونیاں بنیں تو زرعی رقبہ کم ہوا وہاں پر جو کاشت ہوتا تھا وہ کم ہوا ملتان میں اربنائزیشن نے آم کو نقصان پہنچایا- ہاں اگر آپ کو اتنا ہی ماحول کا خیال ہے تو بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے ، سٹی میں پلاٹ ، بنگلہ نہ لیں تاکہ کالونیوں کا کاروبار غیر منافع بخش ہوجائے اور یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے- صرف ڈی ایچ اے پڑھ کر مخالفت برائے مخالفت سے آپ کسی نیک عمل میں حصہ نہیں ڈال رہے-