February 9, 2010

پرچہ کہانی

Parcha Kahani


اس بار جب ڈاکٹر کُسی صاحب پرچہ سامنے آیا تو جو پہلی بات میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ وہ آخری موقعہ کب آیا تھا جب مجھے سارے پرچے میں سے ایک سوال بھی نہ آتا ہو۔ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ کچھ سوال آتے ہوں اور کچھ نہ آتے ہوں لیکن ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ سارے سوال آتے ہوں یا کوئی بھی نہ آتا ہو۔میں ڈیڑھ گھنٹہ فضول ضائع کرنے کی بجائے سابقہ زندگی میں دیے گئے امتحانات کو یاد کرنے لگا۔

پڑھاکو اور بہت قابل بچوں کی زندگی عام طور پر بڑی بور ہوتی ہے ۔میرے جیسے درمیانے درجے کے طالب علم ہمیشہ ایک بھرپور زندگی گزارتے ہیں کیونکہ امتحانات سے قبل وہ کتاب اور پڑھائی سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے ایڈز کے اشتہار میں کہتے ہیں ’احتیاط واحد علاج‘۔اور پھر امتحانات کے نزدیک شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے پانچ سالہ پرچے، گیس، پیپر آؤٹ اور جب کوئی داؤ نہ چلے تو پرچے میں ہی کچھ ہیر پھیر کر کے اللہ میاں سے دعا کرنی جب کہ جانتے ہم بھی بخوبی ہیں کہ پاس ہونا تبھی ممکن ہے اگر ممتحن نشے میں ہو۔پاس ہو گئے تو اپنی دو نمبر قابلیت کے خود بھی قائل ہو جاتے ہیں اور فیل ہوئے تو ہائے ری قسمت۔۔۔


اپنے اسکول کے دنوں کے دو واقعات مجھے اکثر یاد آتے ہیں۔ایک جب نویں جماعت میں دسمبر ٹسٹ کا رزلٹ آیا تو ہمارے ریاضی کے استاد جناب رفیق صاحب کلاس میں سب لڑکوں کو پرچے دینے لگے اور نمبر بتانے لگے۔انہوں نے کہا میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں ایک لڑکے نے اس بار صفر بھی حاصل کیا ہیں ہم سب نے جی بھر کر اس کے لیے تالیاں بجائیں اور میں سوچنے لگا کہ دیکھو یہ طیب ایوب ہے یا سعد قیوم۔سر نے مزید تعریف کرتے ہوئے کہا اور اس لڑکے نے دو شیٹیں اضافی بھی لگائی ہیں۔اس پر ہم سب نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور سر بولے اس کا نام ہے علی حسن۔رفیق صاحب آج بھی مجھے علی حسن ہی کہہ کر بلاتے ہیں۔ اور دوسرا جب میں پہلی کلاس میں تھا تو تب بھی ریاضی کے استاد صاحب ہوا کرتے تھے اگر میں بھول نہیں رہا تو انکا نام طاہر تھا۔انہوں نے ہوم ورک دیا جو مما نے کرنے کے لیے ہمارے ہمسائے میں رہنے والی گڑیا باجی کے پاس بھیج دیا۔وہاں جا کر پڑھنا کیا تھا ان کے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر واپس آگیا ۔اگلے دن کلاس میں سر کہنے لگے آج ایک لڑکے نے صرف جمع تفریق کے سوال نہیں کیے بلکہ گیندیں بھی ساتھ بنائی ہیں۔میں دیکھنے لگا کہ کون بیوقوف ہے جس کے پاس اتنا وقت ہے اور تب بھی میرا ہی نام پکارا گیابعد میں پتہ چلا کہ گڑیا باجی نے نہ صرف سوالات حل کیے بلکہ گیندیں بھی بنا دیں۔

ایف ایس سی کے سالِ اول میں ایک دوست نے پوچھنے پر بتایا کہ ہاں وہ پاس ہوجائے گا، پر جب یہ پوچھا کہ سوال کتنے کیے ہیں تو بولا ایک، پر پاس کیسے ہو گے ایک سوال کر کے بس اللہ پر بھروسہ ہے۔یہ توصیح طرح یاد نہیں کہ اس پرچے میں اس کے دس نمبر آئے تھے یا صفر پر اتنا یاد ہے کہ ایف ایس سی کے تیسرے سال جب وہ پاس ہوا تو اسکے ریاضی میں دو سو میں سے چھیاسٹھ نمبر تھے۔پرچے تو میں بھی بہت ایسے کیے کہ تین اس میں پانچ اس میں دس اس میں اور یہ کل ملا کر میں پاس۔پر ایسا حساب کبھی نہ ہو سکا کہ جتنے پاس ہونے کے لیے چاہیں اتنے ہی حاصل کیے جائیں۔ پر آپس کی بات ہے کہ ایف ایس سی کے سال دوئم میں فزکس کا محض ایک ہی سوال تیار کر کے ہم پاس ہو گئے تھے اور دعا یہ مانگتے رہے کہ اللہ میاں بس سوال یہ آجائے اب پرچے میں۔ لیکن ایک کزن ہمارے ایسے بھی ہیں جنہوں نے انگریزی میں ایک ہی سمری یاد کی اور جب اللہ میاں نے انکی دعا نہ سنی اور پرچے میں وہ سمری نہ آئی تو وہ وہی سمری ہی لکھ کر آگئے جو انہوں نے یاد کی تھی۔پر جب انکا نتیجہ آیا تو انکے لیے کچھ کرنا کچھ نہ کرنے سے اچھا ثابت نہ ہوسکا۔

جو مزہ ایف ایس سی کے سال دوئم کے سینڈ اپ کے وقت آیا وہ اپنی نوعیت کا اکلوتا ہی تجربہ تھا۔جب میرے جیسے اندھوں میں کانے راجے پرچہ کر لیتے تو اس کو اپنا حل شدہ پرچہ جمع کرنے میں پانچ دس منٹ لگ جاتے تھے کیونکہ وہ شیٹ شیٹ ہو کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بکھرا ہوتا تھا ۔پڑھاکو لڑکے ہم سے کنی کترا کر دور بیٹھتے تھے کیوں کہ سینئر موسٹ کلاس ہونے کی وجہ سے استادوں کی ہم ذرا کم کم ہی سنتے تھے اور ان پڑھاکو لڑکوں کی شیٹیں بھی زبردستی اٹھا لاتے تھے۔

لیکن کبھی کبھار امتحانات سے قبل جب کوئی حربہ کام نہیں آتا تو پھر پرچے میں ہی ہیر پھیر کی جاتی ہے جیسے کئی لڑکے پیپرز میں لکھ آتے ہیں سر یہ میرا آخری چانس ہے اس بار میں پاس نہ ہوا تو میری شادی نہ ہو سکے گی وغیرہ وغیرہ ۔شروع میں یہ حربہ خاصا کارگر تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔میں نے کبھی یہ کام تو نہیں کیا پر ہاں جب میری تحریر اتنی خراب ہو کہ پڑھنا نا ممکن ہو تو سمجھ لیں کہ پرچہ نہیں آتاتھا۔ چند دن قبل جب ایک دوست پرچے میں لکھ آئے کہ جوابات صفحہ دو پر ہیں اور صفحہ دو کبھی پرچے میں رہا ہی نہیں اس امید پر کہ شاید استاد صاحب سمجھیں جوابات والا صفحہ گم ہو گیا ہے مجھے اپنا واقعہ یاد آیا جب ہم بھی ایسی کوششیں کر تے تھے لیکن نتیجہ ان کا ہمارا ایک سا ہی رہا ہے۔

ایک استاد صاحب خدا ان کو جنت میں جگہ دے کہا کرتے تھے میرا ریکارڈ ہے کہ میں نے کبھی کسی کو فیل نہیں کیا ۔جھوٹ سچ انکا کہنے لگے ایک بار پرچہ چیک کرتے وقت ایک لڑکے کے پندرہ نمبر آئے انہیں بڑی پریشانی ہوئی انہوں نے دوبارہ چیک کیا اور کھینچ کھانچ کر نمبر چوبیس تک لائے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار چوتھی کوشش میں وہ لڑکا پاس کر ہی دیا انہوں نے۔لیکن جب حالات ان کے خلاف ہوئے تو انہوں نے دو ایسے لڑکوں کو فیل کر دیا تھا جن میں سے ایک گولڈ میڈل کے امیدواروں میں سے تھا۔

 پریکٹیکل امتحانات کو میں پریکٹیکل مزاق کہا کرتا ہوں۔سفارشوں والے پورے نمبر لے جاتے ہیں اور میرے جیسے پاس بھی بمشکل ہوتے ہیں۔ایف ایس سی کے فزکس کا عملی امتحان اس کی واضع مثال تھا۔بدقسمتی سے ہمارے ممتحن صاحب باقر حسین جعفری صاحب تھے جو دو سال قبل جب ملتان پبلک اسکول میں عملی امتحان کے ممتحن بنے تھے تو لڑکوں نے ان کے ساتھ وہ کی تھی کہ انہوں نے اکثر کو فیل کر دیا تھااور ابھی بھی ملتان پبلک والوں کووہ پسند نہ کرتے تھے اور ہم ملتان پبلک کے ہی ہونہار سپوت تھے۔جب لکھ لکھا کر زبانی امتحان کی باری آئی تو میں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا سر یہ پریکٹیکل ہے یہ اس کی ریڈنگز ہیں جو کہ بالکل درست ہیں آپ بے شک دوبارہ کروا لیں میں کل اکیڈمی میں گیا تھا وہاں میں نے اس کو رٹا مار لیا تھا اگر آپ یہ پوچھیں کہ اس میں ہوا کیا ہے تو یہ میری آنے والی سات نسلیں بھی بتانے سے قاصر ہیں۔خدا معلوم انہوں نے کیا سوچا ہو گا پوچھنے لگے کہ آپ کی سفارش آئی ہے( میں نے بھی کسی کی منت کروا کر سفارش کروائی تھی)مزید سچ بولنا میرے لیے ممکن نہ تھا،میں نے کہا سر پتہ نہیں ،سر صاحب برا مان گئے اور کہنے لگے سفارش آئی ہے اور آپکو پتہ نہیں میں نے کہا سر گھر والوں نے بھیجا ہو گا کسی کو مجھے کیا پتہ۔کہنے لگے انہوں نے نعیم کا بھی کہا ہے وہ کون ہے۔میرا کزن ہے میں نے صاف جھوٹ بولاوہ بولے تم سید ہو وہ میاں میں نے تڑ سے جواب دیا میری خالہ کی طرف سے کزن بنتا ہے۔یہ تو تھی ایک سفارشی کی کہانی ، میاں نعیم صاحب نے میرے سے دو ہاتھ آگے نکلتے ہوئے پہلے پریکٹیکل بھی پورا سورا کیا پھر جب اس نے پوچھا یہ بتاؤ درجہ حرارت کس سے ماپتے ہیں تو کہنے لگے پتہ نہیں۔سر کو غصہ آگیا وہ بولے جب بخار ہوتا ہے تو کس سے ماپتے ہو میاں صاحب بولے تھرمامیٹر سے تو سر نے کہا درجہ حرارت کس سے ماپیں گے میاں صاحب نے اپنے موقف سے ہٹنا بے عزتی سمجھا اور بولے پتہ نہیں۔سر نے آخری سوال پوچھا علی حسن اور تمھاری سفارش آئی ہے وہ تمھارا کیا لگتا ہے۔میاں صاحب نے صاف گوئی کے تمام تر ریکارڈ توڑتے ہوئے جواب دیا کچھ نہیں کلاس فیلو ہیں ہم۔سر بولے وہ تو کہتا ہے کزن ہیں میاں صاحب بولے سر میں تو اس کا کزن نہیں لگتا وہ کہتا ہے تو میں اب کیا کہوں۔بہرحال رزلٹ میں میرے دس اور نعیم کے نو نمبر تھے۔لیکن اس سے بھی مزے کی بات ہمارے ایک اور دوست تھے جنہوں نے تگڑی سفارش کرائی اور پچیس میں سے چوبیس نمبر حاصل کر لیے پر تھیوری میں وہ انیس نمبر لیکر فزکس میں فیل ہوگئے۔

 ایسے ایسے امتحانات بھی یاد ہیں جہاں انگریزی کا کوئی لفظ بھولتا تھا تو بے تکلف اردو کا لفظ لکھ دیتا تھا جیسے ساتوں کلاس میں فزکس میں پوٹینشل انرجی کی مثال میں اینٹ کی انگلش بھول گیا تو ٹینشن لینے کی بجائے لیکھ دیا
When we drop EENT from height.......

ہاں یاد آگیا،آخری بار جب مجھے امتحان میں کچھ نہ آتا تھا تو یہ ڈیٹا اسٹریکچر کا مضمون تھا جب میں کمپیوٹر انجئینرنگ میں پڑھ رہا تھا۔لیکن بتاتا چلوں ڈیٹا اسٹریکچر بھی پاس ہوگیا تھا اور ڈاکٹر کسی صاحب کا کیپیٹل اینڈ فائننشل مارکیٹ بھی پاس کرلیا۔