Istanbul te kujh na phol
استنبول سے میری وابستہ یادوں میں سب سے پہلی ایک مثال ہے۔اسپغول تے کجھ نہ پھول۔اسپغول کو کافی عرصے تک میں استنبول بولتا رہا ہوں۔دوسرا یہ پتہ چلا کہ استبول کا پرانا نام قستنطنیہ ہے ۔جس کو تاریخ اور اردو املا کے استاد صاحبان یکساں طور پر فیل کر نے کے لیے استعمال کرتے تھے۔اور بے ہودہ لڑکے اپنی مرضی کے زبر زیر پیش لگا کر اس نام کو ایک گندہ سا جملہ بنا دیا کرتے تھے۔اور پھر شمیم آرا نے مشہورِ زمانہ فلم مس استنبول بنا کر استنبول سے تاریخی شہر کو گلی گلی عام کر دیا۔تب احساس ہوا کہ اس شہر کے نام کی تبدیلی نہ صرف تاریخ اور اردو املا کی آسانی کے لیے ضروری تھی بلکہ انٹرٹینمنٹ کی صنعت کے لیے بھی لازم تھی
خود سوچیں مس قستنطنیہ کیسا لگتا؟
جب مس استنبول کے اشتہارات لگے تو ان پر لکھا تھا میرا ریما اور ریشم کے ہوشربا ڈانس وغیرہ وغیرہ۔مگر مجھے یہ فلم اس وجہ سے بھی یاد رہ گئی ہے کہ جب یہ ہیروئنیں استنبول سے واپس آئیں تو انکے استنبول سے تاریخی بیان اخبارات کی زینت بنے تھے جب میرا نے ریما پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریما تو وہاں بابر علی کے کپڑے دھوتی رہی ہے۔مجھے میرا کو کپڑے دھونے کا موقعہ نہ ملنے پر تو اتنا افسوس نہ ہوا پر اسنبول کی انفرادیت میرے دل میں اجاگر ہو گئی۔
جب میں دبئی میں نوکری کے سلسلے میں مقیم تھا تو میرے ایک دوست نے عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استنبول جانے کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی ساتھ مدعو کر لیا لیکن میرا پاسپورٹ میری کمپنی نے بسلسلہ مہرِ ویزا امیگریشن والوں کو جمع کرایا ہوا تھا جس کی وجہ سے میرا دوست اکیلا ہی استنبول گیا۔جب پانچ دنوں بعد وہ واپس آیا تو اس نے شہر کی بہت تعریف کی اور یہ بھی بتایا کہ اس نے پہلی بار برف باری بھی دیکھی ہے اور استنبول بہت خوبصورت ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن دکھ سے زیادہ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ گیا تو وہ اکیلا تھا لیکن ہر جگہ ہر انداز میں اس کی تصاویر کس نے کھینچی تھیں؟معمہ بدستور حل طلب ہے۔
لیکن جب میں نے خود پہلی بار سر زمینِ استنبول پر قدم رکھا تھا تو میری منزل دراصل وارسا تھی اور میں محض ایک ٹرانزٹ مسافر تھا۔جس کو کراچی سے وارسا کے درمیان جہاز بدلنا تھا۔لیکن کراچی میں جہاز تاخیر کا شکار ہو گیا اور استنبول سے وارسا والا جہاز ہمارا انتظار کیے بغیر اُڑ چکا تھا۔ادھر میں پولینڈ کے موسم کے خوف کی وجہ سے کندھوں پر لٹکائی جیکٹ سے تنگ آ چکا تھا کیونکہ استنبول میں موسم خاصا گرم تھا جبکہ پولینڈ میں منفی بیس ہم خود یاہوموسم پر دیکھ چکے تھے۔لیکن تمام کوفت تب دور ہو گئی جب ترکش ایر لائن والوں نے کہا کہ آج آپکو یہاں رہنا پڑے گا اور کل آپکو وارسا روانہ کریں گے۔میں نے دل میں سوچا میں کونسا وارسا جانے کے لیے مرا جارہا ہوں اب تووہاں رہنا ہے آج یا کل سے کیا فرق پڑتا ہے چلو استنبول ہی دیکھ لیں گے۔لیکن شاید ہماری دلی خوشی بھانپ کر انہوں نے ارادہ بدل دیا اور بتایا کہ اب آپکو لفتھنزا ایر لائن سے براستہ فرینکفرٹ وارسا بھیج رہے ہیں۔سودا یہ بھی گھاٹے کا نہ تھا۔ترکش ایر لائن کے پیسوں میں لفتھنزا کے مزے اور فرینکفرٹ کی سیر الگ۔اور وارسا پہنچنے پر یہ سودا واقعی برا ثابت نہ ہوا۔لیکن جب سمسٹر ختم ہوا اور میں کراچی کی واپسی کی ٹکٹ کنفرم کروانے گیا تو پتہ چلا کہ استنبول والوں نے دریا دلی صرف ہم تک محدود نہ کی تھی بلکہ انہوں نے میری تمام ٹکٹ لفتھنزا کے ریکارڈ میں ڈال کر ٹکٹ ضائع کر دی تھی اور اب مجھے نئی ٹکٹ خریدنی پڑے گی۔لفتھنزا کا مزہ کرکرا ہو کر رہ گیا۔
استنبول میں ایک پل ہے جو یورپ اور ایشیا کو ملاتا ہےایسی جگہ جو اس لحاظ سے منفرد ہو کہ جہاں دو برِاعظم ملتے ہوں وہاں انہونے اور منفرد واقعات رونما ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔اتاترک ہوائی اڈے پر جو پچھلے سال جہازوں میں تاخیر کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا ہے میں ایسے ہی ایک موقع پر جب میرے سمیت اکثر مسافر کراچی کے جہاز کی روانگی کے اعلان کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے میرے ساتھ بیٹھی ایک آنٹی اپنے ہمراہ انکل کو اپنے آنے کا قصہ سناتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ" کچھ لوگ ایسے چیپ ہوتے ہیں کہ بس۔جب میں آرہی تھی تو میرے ساتھ ایک لڑکا بیٹھا تو اس کو دو بار ہنس کر جواب کیا دیا وہ تو سر ہی ہوگیا۔پر حد تو تب ہو گئی جب وہ میرے فوٹو کھینچنے لگاآخر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے میں نے اس کا کیمرہ کھینچ کر زمین پر دے مارا"۔میں نے آنٹی کی طرف دیکھا جو شکل سے میری طرح ہی گزارہ قسم سے بھی نچلی قسم سے تعلق رکھتی تھیں۔مجھے اس لڑکے کی چوائس پر دلی طور پر صدمہ پہنچا۔شاید ایسے ہی خیالات ان انکل کے بھی تھے ۔ان کی آنکھوں میں شک کے لہراتے سائے دیکھ کر آنٹی نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ساتھ سے گزرنے والے ایک غریب سے پاکستانی جس نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور پاؤں میں پشاوری چپل تھی کو جھاڑتے ہو ئے کہا "کن نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے شرم نہیں آتی"؟وہ ہکا بکا ہوتے ہوئے بولا" کیسے دیکھا میں نے"؟شاید اس کو اس شہر کے انوکھے ہونے کا پتہ نہ تھا اس لیے اس کو حیرت سے کوئی اور جملہ نہ سوجھا تھا۔"میں پہچانتی ہو ں ان گندی نظروں کو جس سے تم مجھے دیکھ رہے تھے"۔جواب ملا "گند میری نظروں میں نہیں آپکے دماغ میں ہے"۔اب آنٹی کو بھی شہر کے انوکھے ہونے کا احساس ہوا تھا۔
ایک دفعہ استنبول سے کراچی آتے میرے ہمراہ ایک مسافر نے جو کنیڈا سے آرہے تھے اور استنبول سے ہم اکٹھے ہی کراچی جا رہے تھے بولے آپ نے ایک چیز نوٹ کی ہے میں نے معذرت کی تو بولے کہ ایسا لگتا ہے کہ ترکش ایرلائن کی ہوسٹسوں کو سختی سے ممانعت کی گئی ہے کہ آپ نے ہنسنا تو دور مسکرانا بھی نہیں ہے۔اب دیکھو میں شکل سے ایشیائی لگتا ہوں ان سے ترکی میں بات کر رہا ہوں لیکن مجال ہے جو مسکرا جائیں۔میں اس سلسلے میں اپنا تجربہ نہیں لکھنا چاہتا لہذا امید ہے باقی دوست اپنے قیمتی تجربات سے مجھے نوازیں گے اور معاملہ جلد ہی صاف ہو جائے گا۔
میرے ایک اور دوست نے جس کو استنبول میں بارہ گھنٹے ہوائی اڈے پر گزارنے پڑے تھے کو وہاں ایک لڑکی پسند آگئی۔لیکن بدقسمتی سے وہ وہاں سیکورٹی میں میں تھی اور میرا وہ دوست نو دس گھنٹے اس لڑکی اور اس کی وردی کو دیکھ کر آہیں بھر بھر کر اپنی منزل کو روانہ ہوگیا۔استنبول واقعی انوکھا شہر ہے۔وارسا سے استنبول اور استبول سے کراچی دو تہذیبوں کے درمیان سفر ہے جس پر استنبول ایک پل کا سا کردار ہے ۔لیکن جب کراچی کی روشنیاں ہوائی جہاز سے دکھائی دیں تو پاکستان اپنی تمام تر قدورتوں، پسماندگی،خرابیوں اور خامیوں کے باوجود بہت خوبصورت دکھائی دیا۔کسی نے سچ ہی کہا ہے جو مزہ بھیا کے چوبارے نہ بلخ نہ بخارے۔
جب جہاز اترنے لگا تو جہاز کی تمام بتیاں بجھا دی گئیں تو ایک بچے نے پوچھا امی یہ لائیٹ کیوں آف ہو گئی ہے؟میں جو تمام راستہ بڑے کشادہ دل سے پاکستانیوں کی حرکات و سکنات دیکھتا آرہا تھا، انکے لڑکیوں اور خاص طور پر ایر ہوسٹسوں کے بارے میں کمنٹس سنتا آرہا تھااور دل ہی دل میں جلا بھنا بیٹھا تھا مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے وارسا سے کراچی کے بارہ گھنٹے کے سفر میں بارہویں گھنٹے تمام تر اخلاق طاق پر رکھتے ہوئے اس لڑکے کو کہا بیٹا یہ لائیٹ آف نہیں ہوئی بلکہ چلی گئی ہے۔ہم پاکستان پہنچ گئے ہیں ناں۔