Nizam
نوٹ : اس مضمون کے سب واقعات بد قسمتی سے سچے ہیں یا انکو میں ایسی ہی حالت میں جانتا ہوں۔کوئی جھوٹ محض اتفاقیہ ہو گا۔مصنف کو ذمہ دار نہ سمجھا جاوے۔
نہ تو یہ خدانخواستہ پاکستان کے نظام کی بات ہو رہی ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا نہ ہی نظام دین سقہ ایک دن کے بادشاہ کی کہانی ہے بلکہ یہ نظام الدین ملتان پبلک اسکول والے کا تذکرہ ہے جنکو فیس بک پر لوگ صاحبزادہ نظام کے نام جانتے ہیں۔
نظام سے ملے مجھے دس سال سے زیادہ کا عرصہ گرز چکا ہے۔اس کی فرمائش پر جب اس کے بارے میں لکھنے کے سوچنے بیٹھا تو اس کی یاد ایسی جھلکیوں کی صورت میں پائی جیسی انسان ڈرامہ دیکھنے کے دوران اشتہارات دیکھا کرتا ہے۔اس کی باتیں اور اس کے متعلق واقعات ایسے ہی بے ربط اور وقفوں میں پائے ہیں جیسے لکھ رہا ہوں اور ویسے بھی دو چیزوں میں وقفہ اچھا ہوتا ہے ایک نظام سے تعلق میں اور دوسرا تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔
میرا اور نظام کا تعلق ایسا ہے کہ آپ کو پتہ چلے کہ یہ شخص آپ کا دور کا رشتہ دار ہے اور آپ اس کا احترام کرنے لگ جاتے ہیں بغیر کسی وجہ کے بغیر کسی مطلب کے ایسے ہی ملتان پبلک میں اکٹھے پڑھنے کی وجہ سے میں نظام کا احترام کرتا ہوں اور قرین قیاس یہی ہے کہ ادھر بھی یہی کیفیت ہے۔
بنیادی طور پر نظام کا بت اور مٹی سے اٹھایا گیا ہے اور میرے دماغ میں کچھ اور بھرا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم دونوں کبھی اچھے دوست نہیں رہے لیکن کبھی ہم کو ایک دوسرے سے شکایت بھی نہیں رہی ہاں اس مضمون کے بعد نظام صاحب کوئی بات کریں تو علیحدہ بات ہے۔
میں میٹرک کے ’سی‘ سیکشن کے جن تین چار لڑکوں کو نام سے اور شکل سے بیک وقت جانتا تھا ان میں ایک نطام الدین بھی تھا۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ اس جیسے پکے رنگ کا لڑکا شاید ہی کوئی اور سینئر اسکول میں تھااور تھا تو اتنا صحت مند نہ تھا اور اگر یہ دونوں خوبیاں بھی تھیں تو کم از کم اتنی موٹی عینک نہ لگاتا ہو گا جتنی نظام لگاتا تھا۔اس کے علاوہ اور کوئی واقعہ یا بات یادشت کے پردے پر نہیں ابھرتی جس کے باعث میں نظام کو جانتا ہوں۔
نظام کے بارے میں پہلی بات جو یاد ہے وہ دسویں کا فزکس کا پریکٹیکل ہے۔اس کا اور میرا گروپ ایک تھا شاید اس وجہ سے کہ میں سینڈ اپ send up میں فیل ہو کر ری سینڈاپ پاس کر کے ریگولر طلبا کے آخری گروپ میں شامل ہوا تھااور اپنے اے سیکشن والوں کی بجائے سی والوں کے ساتھ پریکٹیکل دے رہا تھا۔بہرحال جب زبانی امتحان یعنی وائیوا کی باری آئی تو نسیم صاحب نے ممتحن کو کہا کہ یہ حافظ صاحب ہیں۔ممتحن صاحب نے فرمایا تو چلو آپ ہمیں فلاں سورت سنا دیں۔اور وہ سورت میں بیچ میں بھول گیا۔نظام جو سامنے بیٹھا تھا ہنس پڑا ،مجھ بڑا غصہ آیا جی چاہا کھری کھری سنا دوں لیکن نظام کو کھری کھری تو نہ سنائیں البتہ پاسکل کاپرنسپل سنا کر پریکٹیکل سے جان چھڑا لی اور سوچا اب کون ملتا ہے نظام سے بس آخری بار ہی ہنسنا ہے تو ہنس لے۔لیکن ایف ایس سی میں ہم ایک بار پھر ہم جماعت بن گئے اور اب کی بار تو سیکشن بھی ایک ہی تھا۔نظام کافی عرصہ تک لوگوں کو یہ قصہ سنانے کی کوشش کرتا رہا لیکن خوش قسمتی سے میرا گراف لوگوں میں خاصا اونچائی پر تھا جس کی وجہ سے میرا خاطر خواہ مذاق نہ اڑ سکا۔
گردیزی صاحب کی کلاس تھی اور مضمون تھا مطالعہ پاکستان۔انہوں نے سوال پوچھا کہ پاکستان میں کتنی ہائیکورٹ ہیں تو نعیم نے جواب دیا ہر ضلع میں ایک۔اس کے جواب پر وہ لوگ بھی دل کھول کر ہنسے جن کا خیال تھا کہ ہر ضلع میں ایک سے زیادہ ہوتی ہیں۔نطام نے ہاتھ اٹھا یا تو گردیزی صاحب نے بادل نخواستہ اس کو بولنے کا موقع دے دیا کیونکہ گردیزی صاحب کم کم ہی چبلیاں سننے کے موڈ میں ہوا کرتے تھے۔نظام نے جواب دیا ہر صوبے میں ایک ہوتی ہے۔گردیز ی صاحب نے اس کو شاباش دی لیکن مجھے بڑا غصہ آیا کہ نظام جیسے بونوں کو کہاں حق ہے کہ ہم جیسے گلیوروں کے ہوتے لوگوں کی نظروں میں آئیں۔
دروغ بہ گردن نعمان خان اس نے ایک طالب علم کے والد کو نظام کو جھک کر ملتے دیکھا تھا لیکن اسکول میں طالب علموں میں کم از کم ایف ایس سی میں نظام کسی کا دوست نہیں تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ کوئی نظام کا دوست نہ تھا۔حالانکہ ہم ایف ایس سی میں واضح دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے ایک وہ جو ملتان پبلک میں پڑھتے آئے تھے دوسرے وہ جو نئے نئے آئے تھے۔ میں اور نظام دونوں پہلے گروہ میں شامل تھے اور شروع شروع میں ہماری جان پہچان بھی اچھی خاصی ہو گئی تھی اور میں ہمیشہ ایسے لڑکوں کے قریب رہا ہوں جنہوں نے پڑھائی پر ہمیشہ کھیل کود کو ترجیح دی ہو اور بظاہر نظام کو پڑھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہو ا کرتی تھی لیکن نعمان اورنعیم کرکٹ کی وجہ سے میرے ذیادہ قریب ہو گئے اور جب مجھے نظام کی خوبیوں کا پتہ چلتا گیا میں نظام سے دور ہوتا گیا۔
ذاتی طور پر میں انتہائی کمینہ واقع ہوا ہوں میں کسی کو اپنے سے برتر نہیں دیکھ سکتا ۔اگر کوئی نیک بندہ ملے گا تو میں اس کے سامنے اپنے گناہوں کا رعب جھاڑوں گا ،گناہ گار ملے گا تو اس کو اپنی نیکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کروں گا اور یا تو وہ میرے سے واقعی مرعوب ہو جائے گا یا ہمارے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔نظام اور میری کہانی میں ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ نظام چلا گیا اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔
نظام کسی گروپ میں مستقل شامل نہ ہو سکا نہ وہ ہماری طرح باغی کرکٹر بن سکا، نہ وہ سوٹہ گروپ میں شامل ہو سکا،نہ وہ اسکول سے بھاگنے میں طاق ہو سکا نہ اسکول کی املاق کو نقصان پہنچنانے میں شامل ہو سکا۔وہ کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر ڈولتا رہا شاید ہم سب نظام سے خوفزدہ تھے، کچھ اسکی حرکتوں سے۔کچھ اس کے معاشی رتبے سے۔ملتان پبلک والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ دوست بنانے سے قبل اس کا معاشی رتبہ بھی ماپا کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی صاحب نظام کو دیکھ کر ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جہاں نظام ہے وہیں کا نظام خراب ہے لیکن ان کی اس بات پر میں ہمیشہ حیران ہوا کرتا تھا کہ نظام تو محض شیر آیا شیر آیا کا نعرہ تھا،یا پھر بد سے بدنام برا والی بات ہے کہ جب میں اسکول میں اپنی ایک تقریر میں استادوں کے بارے تند و تیز باتیں کیں تو بعد میں ریاضی کے استاد رفیق صاحب کہنے لگے کہ علی حسن یہ نہیں لکھ سکتا یہ لازمی کسی اور نے اس کو لکھ کر دی ہے (رفیق صاحب اب بھی مجھے علی حسن ہی کہتے ہیں)۔جبکہ نظام کچھ ایسا خاص نہ کرنے کے باوجود نا پسندیدہ کی فہرست میں تھا۔
نظام کیمسٹری سیکشن میں تھا اور میں کمپیوٹر سیکشن میں۔جب ایک سال میں کیمسٹری کے تین استاد بدلے گئے تو ہمارے ہم جماعتوں نے نئے استاد کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ان کی کرسی پر گوند لگا دی اورکرسی کی ایک ٹانگ بھی توڑ دی اورحوصلہ افزا رصد کے طور پر ہم بھی پہنچ گئے۔لیکن بر وقت مخبری ہونے کے باعث کچھ ایسا ویسا واقعہ پیش نہ آیا۔ہم نے اس دن اپنے کیمسٹری والے ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر کمپیوٹر کی بجائے کیمسٹری کی ہی کلاس اٹینڈ کی جبکہ ہم کمپیوٹر گروپ میں تھے اور کیمسٹری ہمارا مضمون نہ تھا۔اب کیمسٹری کے لیکچر کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کہا سب کو سزا ملے گی اور ان کو خاص طور پر ملے گی جنہوں نے کمپیوٹر کی چھوڑ کر کیمسٹری کی کلاس میں شرکت کی تھی۔انہوں نے نظام کو بھیجا کہ جاؤ اور کمپیوٹر کے مشہور زمانہ استاد صاحب قاسم قریشی صاحب سے حاضری کا رجسٹر لے آؤ تاکہ پتہ چلے آج کون کون نہیں گیا۔میرا اور نعیم اشرف کا سانس اندر کا اند اور باہر کا باہر۔ہم دو ہی اہم کردار تھے۔نظام صاحب جب رجسٹر لے کر پہنچے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس پر نظر ڈالی اور بولے نعیم اشرف اور علی حسان۔دل چاہا کہ نظام کے سب کے سامنے بے تحاشہ پیٹ ڈالوں کہ اتنا ایماندار کب سے ہو گیا آتے ہوئے ہماری حاضری لگا دیتا۔ہو نہ ہو یہی ہیڈ ماسٹر صاحب کا جاسوس ہے جو ان کو اندرکی خبریں دیتاہے۔ہیڈ ماسٹر صاحب پھر بولے اچھا صرف نعیم اشرف اور علی حسان ہی کلاس میں گئے تھے۔ایکدم ہی دل خوشی سے پھول کر کپا ہو گیا، جیسے کسی کو لاٹری لگ گئی ہو،ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے ہم سینہ تان کر کھڑے ہو گئے،نظام کے لیے دل میں جتنی کدورت تھی صاف ہو گئی اور دل چاہا کہ آگے بڑھ کر تمام بری سوچوں کے لیے اس سے معافی مانگ لوں،اتنی دیر میں مِکی فیملی میں سے ایک بولا سر ہم تو گئے تھے کلا س میں آپ قاسم صاحب سے پوچھ لیں۔(اب مِکی فیملی کو بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے اس کے لیے نعمان خان سے رابطہ کریں جس نے اصغر کو مِکی ماؤس اور اس کے بھائی اور کزن کو مِکی فیملی کی عرفیت دی تھی)۔ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ کھڑے ہوئے مختیار صاحب جو ہمیشہ سے شادی بد خبر واقع ہوئے ہیں نے دخل اندازی کی اور ہیڈ ماسٹر صاحب پر یہ راز افشا کیا کہ آج یکم ہے اور آپ اکتیس تاریخ کی حاضری دیکھ رہے ہیں جبکہ پچھلا مہینہ تیس کا تھا۔نظام الدین صاحب نے جوشِ محبت میں میری اور نعیم کی اکتیس نومبر کی حاضری لگا دی تھی۔
نظام کے بارے میں سنا ہے کہ بابر شریف کو بھول گیا ہے۔اس بابر کو جس سے ایف ایس سی میں ایک سال اکٹھے پڑھنے والے اسد نے یونیورسٹی میں اچانک ملنے پر پوچھا ’معاف کیجیے! کیا ہم پہلے کہیں ملے ہیں‘ ۔اس کے جواب میں بابر نے جو کہا وہ اس سے زیادہ معزازنہ طریقے سے نہیں لکھا جا سکتا کہ ’آ پ کے قبلہ والد صاحب کے ہمراہ ملتان پبلک اسکول میں پڑھا کرتا تھا‘ اور دوسری طرف نظام نے مجھے یاد رکھا ہے جس کو کبھی کبھار میں خود بھی پہچاننے سے انکار کر دیتا ہوں۔
تین سال قبل نظام نے ملتا ن آنا تھا تو مجھ سے بھی ملنا قرار پایا تھا ۔جن تین دنوں وہ ملتان میں رہا ان تین دنوں اس کا موبائل بند رہا لیکن دوسری طرف سلیمان عمر پر میرا مضمون پڑھ کر اس نے مجھے پولینڈ ہی فون کر ڈالا جہاں میرے والدین بھی کم کم فون کر تے ہیں۔ عبدالرحمٰن نے میٹرک میں ہم سب ہم جماعتوں کے عرفیت رکھ چھوڑی تھی اور وہ ان کو تب تک دہرا تا رہتا تھا جب تک وہ مشہور نہ ہو جاتے۔مثلاً میں ابو، کاشف پنڈت، نعمان ظفر گھوڑا، سعد طاہر ڈائینو،سلیمان عمر پلوٹو،احمد مرتضیٰ بنٹہ وغیرہ۔اب یہ تو مجھے پتہ نہیں اگر نظام بھی اے سیکشن میں ہوتا تو عبدل اس کو کیا نام دیتا لیکن انگریزی فلم فارن ہائیٹ 451 دیکھنے کے بعد اگر نظام کا نام کسی کتاب پر ہوتا تو وہ ہوتا شفیق الرحمان کی مزید حماقتیں۔
اسکول کے ختم ہونے کے بعد نظام کے بارے میں ادھر ادھر سے خبریں پتہ چلتی تھیں کہ یہ ہو گیا وہ ہو گیااور سب سے بڑا ذریعہ علی محمد تھا جو نظام کے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔لیکن اب پچھلے چندسالوں سے میری اور نظام کی دوستی فیس بک پر چل رہی ہے۔نظام کی شادی کی اطلاع بھی فیس بک پر ملی ہے۔حالانکہ شادی ملتان میں ہوئی ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ بھائی آپ اور نظام کیسے ایک دوسرے کو جانتے ہیں تو میں اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے بر ملا کہہ سکتا ہوں کہ بھائی صاحب اللہ کی قسم میرا کوئی قصور نہیں،اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہے۔نہ فیس بک بنائی ہوتی نہ یہ دن دیکھنا پڑتا۔
ضمیمہ: ںطام الدین کو 21 اگست 2012 کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اور ہم 2001 کے بعد دوبارہ نہیں مل سکے۔نومبر 2012 میں نظام نے برسلز آنا تھا جہاں ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا لیکن اب ملاقات روز قیامت ہی ہوگی۔یہ سارا مضمون نطام نے پڑھا تھا اور میرے اندازے میں خاصا پسند کیا تھا لہذا اس کو یہاں سے ڈیلیٹ کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔اللہ تعالیٰ نظام کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین