Ambrica(amrica) jana hai
بھارت دنیا کا دوسرا آخری ملک ہو گا جہاں میں جاؤں گا۔ اجمل قصاب کے بعد تو رہی سہی خواہش بھی مر گئی ہے۔دوست
کے بھارت جانے کی خواہش سن کر میں نے کہا۔سب سے آخری کونسا ہے دوست نے
پوچھا؟ امریکہ۔میرا جواب تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ مخالفت میں میرا حال بھی کچھ ویسا ہےجیسا ایک امریکی سفیر نے امریکہ مخالف جلوس دیکھ کر کہا تھا کہ سمجھ نہیں آتا امریکہ مخالف جذبات اور جلوس جلسے کیسے ختم کیے جائیں تو
ایک صاحب ادراک بولے کہ سفارت خانے کے باہر بینر لگا دیں کہ
امریکہ کا ویزا سب کے لیے ہے تو اس جلوس میں شامل پچانوے فیصد
لوگ سفارت خانے میں ویزے والی قطار میں کھڑے ہوں گے۔مجھے بھی انہی پچانوے فیصدی میں شامل سمجھیں مگر یہ بات اچھے دنوں کی ہے۔
ویزے والی قطار میں تو ویسے میں بھی لگ چکا ہوں لیکن یہ الگ بات کہ مجھے امریکہ آمد سے روکنے کے لیے اس کو نو دو گیارہ میرا مطلب نائن الیون کا انتظام کرنا پڑا اور اس بوکھلاہٹ میں ویزا رد کیا گیا کہ ایک وجہ پر نشان لگا کر لوٹایا گیا اور پھر پیچھے سے آواز دے کر وہ وجہ کاٹ کر
ویزا رد کرنے کی دوسری وجہ پر نشان لگا دیا گیا۔ میں انکو یقین نہیں دلا سکا تھا کہ میں وہاں پڑھنے جا رہا ہوں اور واپس آؤں گا خیر پڑھنے کا تو کبھی میں اپنے والدین تک کو یہ یقین نہیں دلا سکا کہ میں دوست کے
گھر پڑھنے جا رہا ہوں کجا امریکہ والوں کولیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ننھی ننھی خواہشات کا گلا دبا دیا جائے؛ظالم دنیا۔
اور دوسری بارجب پتہ چلا کہ پولینڈ میں پڑھنے والے غیر ملکی طلبہ کو
امریکہ وزٹ ویزادیتا ہے کہ چھٹیاں ہمارے ہاں گزاریں توابھی ہم نے خواب دیکھنا بھی شروع نہ کیا تھا کہ اسامہ صاحب منطرعام پرآئے شکیل آفریدی کو جیل کے اندر اور ہمیں امریکی ویزے کی دوڑ سے باہر کیا اور
واضح کیا کہ پاکستانی ہو کر امریکہ آنا چاہتے ہو گویا بلی کو خواب چھچھڑوں کے۔
بھائی صاحب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج میں
بقائمی ہوش و حواس یہ اعلان کرتا ہوں امریکہ دنیا کا آخری ملک جہاں میں جانا چاہتا ہوں پہلے ہی مجھے روکنے کے لیے جو جو اقدام کیے گئے ان سے میرے پیارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور ویسے بھی اگر ننگے ہی ہونا ہے تو کسی امریکی ہوائی اڈے پرگوروں کے سامنے
کیوں ہوں بندہ پاک فوج کے میڈیکل ٹسٹ میں جا کر عمل سے زندگی نہ بنا لے جہاں میرا کزن کپتان کے عہدے پر ترقی کر چکا ہے پر بچپن میں کسی نے بتایا تھا کہ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے دوران ایک
مرحلے پر آپکو تمام کپڑے اتارنے ہوتے ہیں۔ اسی ننگے پن سے بچنے کے لیے فیصلہ کیا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے, چاہے میرا کزن چیف بن
جائے, چاہے ہم سے جتنی اکڑبازی کر لے فوج میں نہیں جانااوریہی
اصول امریکہ جانے پر لاگو کیا ہے کہ چاہے امریکہ کاصدر ہی کیوں نہ بلائے (یہ منہ مسور کی دال) جب تک کپڑے اتار تلاشی ختم نہیں ہوتی ہماری طرف سے انکار ہی سمجھیں۔ آخر عزت نفس بھی دنیا میں کسی چڑیا کا نام ہے یا نہیں؟
لیکن میرے جیسے بیوقوف دنیا میں کم کم ہی ہیں اور عقلمند خاصے۔جیسے جب پولینڈ آئے تو کئی بھارتی پنجاب والوں سے ملاقات ہوئی تو ایک لڑکی سے میرا ایک دوست پوچھ ہی بیٹھا کہ کتھاں؟وہ بولی بس امبریکہ جانڑا اے۔
آخری اطلاع تک تین سالوں کی لگاتار کوشش کے باوجود بھی پولینڈ میں پائی جاتی ہے لیکن امبریکہ بھولی نہیں وہ۔بنانی غلیل ہی ہے آج نہیں تو کل ۔ایسے ہی ہمارے ایک اور دوست صاحب دو سال تک انگلینڈ جانے کی غلیل بنانے کی کوششیں کر کرآخر کار واپس دبئی چلے گئے۔
امریکہ کے دو تین الیکشن قبل چونکہ وہاں کی ایک جماعت کا انتخابی نشان گدھا ہے جس پر میرا ایک دوست ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ اس کے خیال میں صرف ایک جماعت نہیں بلکہ امریکہ کا انتخابی نشان گدھا ہونا چایئے تو انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان سے بھی گدھے درآمد کیے چونکہ
ہمارے ہاں گدھے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں لہذا نہ جانے والے گدھوں نے تو ان پر رشک جو کیا سو کیا کیونکہ میں خود یورپ کے مختلف چڑیا گھروں میں گدھوں کی تواضع دیکھ چکا ہوں جہاں وہ باقی جانوروں کی طرح بڑی شان سے جگالی کر رہا ہوتا ہے اور اتنا صاف ستھرا کہ باہر بورڈ دیکھ کر اطمنان کرنا پڑتا ہے کہ گدھا سا نہیں گدھا ہی ہے بہرحال وہ پہلا موقع تھا جب کئی انسانوں نے بھی گدھوں پر رشک کیا کہ کاش
وہ بھی گدھے ہوتے۔(چار ٹانگوں والےکیونکہ دو والے تو وہ ہیں ہی ہیں).جی
لیکن اب تو انسان کے گدھے بننے کی خواہش انسانی اسمگلروں نے پوری کر دی ہے ۔کچھ ہی دن قبل ایک حضرت سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے یونان تک تو ڈنکی ”گدھا” بن کر آئے تھے ۔ویسے صیح طرح یاد نہیں کہ انہوں نےڈونکی بن کر بولا تھا یا ڈونکی لگا کر بولا تھا۔
بہرحال جانا سب نے امبریکہ ہی ہے۔تف ہے ہم پر لوگ گدھے بن گئے ہم سے ایک کپڑے ہی نہ اتر سکے۔
آخر میں ایک یادگار گفتگو سن لیں۔چند دوست گفتگو کر رہے تھے تو
ایک بولے کہ یار ویزا جمع کرا دیا ہے جو کچھ ہو جائے جانا امبریکہ ہےتو ایک بے تکلف قسم کے دوست نے جواب دیا "رانا صاحب تہانوں اس پاسوں ویزا نہ ملے تے کتیاں والے پاسے تو لوا لینڑا"، (اگر یہاں سے نہ ملے تو کتے والی طرف سے لگوا لینا) سنا ہے وہ رد نہیں کرتے۔رانا
صاحب جو غصے کے لیے مشہور ہیں چپ کر گئے۔خدا معلوم ویزا جمع کروا کر کسی کو ناراض نہ کرنا چاہتے تھے کہ کہیں کسی کی آہ نہ لگ جائے یا پھروہ اس مشورے پر سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔