Inqlab
آج کل ہر طرف انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں جہاں سنو انقلاب کی
بازگشت سنائی دے رہی ہے ہر کوئی انقلاب کی اپنی اپنی تشریح کر رہا ہےاور تو اور جو انقلاب کو صیح طور لکھنا نہیں جانتے وہ بھی انقلاب کا راگ آلاپ رہے ہیں اب تورات کاٹنے کے لیے یار کی بجائے انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایک انقلاب کا میں عینی شاہد ہوں جس کی روداد آپکی نظر کرتا ہوں۔باقی اخلاقی سبق جس کوانگریزی میں" مورال آف دی اسٹوری " کہتے ہیں وہ سب کا اپنا اپنا۔
انقلاب۔۔۔
استاد صاحب نے با آواز بلند نعرہ لگایا۔
لیٹرین گیا ہے استاد جی۔ اگلی صف میں بیٹھے ایک طالب علم نے جواب دیا۔
آدھا گھنٹا ہو گیا ہے ۔اس انقلاب نے لیٹرین میں ڈیرہ ہی لگا لیا ہے۔
استاد جی عام حالات میں بھی غصے میں رہتے تھے۔
استاد جی عام حالات میں بھی غصے میں رہتے تھے۔
استاد جی کہتے ہیں انقلاب صدیوں میں آیا کرتے ہیں؟
استاد جی نے شعلہ بار نگاہوں سے اس زبان دراز طالب علم کو دیکھا اور بلا تکلف القابات سے نوازنے والی زبان خدا جانے اس طالب علم کے والد کے معاشی حیثیت کیوجہ سے رک گئی تھے یا وہ تمام غصہ انقلاب کے آنے تک بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔
تو کیا انقلاب صدیوں تک لیٹرین میں بیٹھا رہے گا؟ استاد جی نے دانت پیستے ہوئے جوابی سوال پوچھا۔
استاد جی انقلاب جو آیا تو کیا ہوگا؟ایک منہ چڑھا طالب علم عوام دین بولا۔(مجھے صیح سے یاد نہیں اس کا نام عوام دین تھا یا امام دین تھا)
عوام دینا، سب سے پہلےتو تیرے پٹواری باپ کا قُل ہوگا۔استاد جی کی زبان تھی آخر۔وہ سیدھی بات سے پہلے بھی دو جملے رسید کیا کرتے تھے۔
اوئے تیل لینے بھیجنا ہے۔
استاد جی انقلاب تو تیل لینے گیا
اس نے پیسے واپس نہیں کرنے۔بڑا بے ایمان ہے استاد جی یہ انقلاب۔
جی استاد جی کئی لوگوں کے پیسے کھا چکا ہے ۔
استاد جی بلائو تو آتا بھی نہیں۔۔
کئی لوگ انقلاب سے خار کھائی بیٹھے تو انہوں نے سوچا حساب چکانے کا اچھا موقع ہے۔
اوئے عقل کے اندھو انقلاب تو تیل لینے ٹھیک نہیں انقلاب جو تیل لینے جائے گا وہ ٹھیک ہے اور میں نے کونسے پیسے دینے ہیں اس کا باپ جو تیل کا منیجر بنا بیٹھا ہے وہ اسی سے تیل لے آئے گا۔
انقلاب کا باپ تیل کا مینیجر؟ بات ہم سب کی سمجھ سے باہر تھی
یا انقلاب کو جنم دینے والے جانتے تھے یا استاد جی۔
انقلاب اچھا ہے یا برا؟ میں نے ساتھ بیٹھے کے کان میں سرگوشی کی۔
استاد جی خوش تو اچھا ،استاد جی ناخوش تو برا۔
اسکی بات سن کر مجھے دھچکہ سا لگاکیونکہ میرے خیال میں تو اگر وہ وقت پر آتا تو اچھا اگر دیر سے آتا تو برا۔
کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے استاد جی کی عقابی نگاہوں سے کیا چھپا رہ سکتا تھا۔
یہ انقلاب کا پوچھ رہا ہے استاد جی۔ عوام کا پیٹ بھی اس کے دل کی طرح ہلکا تھا۔
جب آئے گا تو دیکھ لینا پر ایک بات ہے پر شکل اور عمل جیسے بھی ہوں انقلاب کانام دھانسو ہے
استاد جی اپنے جملے کے لطیف طنز سے خود ہی ہنسنے لگے۔
یکم مئی کو تقریب ہونی ہے اسکول میں سب کی چھٹی بند ہے ۔سب نے آنا ہے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مزدوروں پر اور
مزدوروں کے انقلاب پر تقریر کرنی ہے۔ استاد جی نے اعلان کیا۔
ہر انقلاب ہمیں ہی نقصان پہنچاتاہے۔ایک وہ ہے جو پیسے کھا کر لیٹرین گھسا بیٹھا ہے ایک یہ ہے جو پہلی مئی کی چھٹی ہڑپ کر گیا۔پتہ نہیں کب انقلاب سے جان چھٹے گی ۔ میرے پیچھے بیٹھے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔
استاد جی مزدوروں کا بھی انقلاب ہے؟ وہ کونسی جماعت میں ہے۔ایک قابل طالب علم نے سوال کیا۔
او جاہلو غریب کی زندگی اپنی نہیں ہوتی انقلاب کہاں سے ہو گا۔ان کا انقلاب بھی اس بیہودے انقلاب کی طرح ہے جو لیٹرین میں جا کر سو گیاہے۔وہ کسی جماعت میں نہیں پڑھتا ۔ابھی یہ باتیں تمھاری سمجھ میں نہیں آنی۔ابھی کیا مزدور، کمی اور غریب رہےتو ساری عمر نہیں آنی ۔
اب بک بک بند کرو اور میری بات غور سے سنو۔جب جب ہیڈماسٹر صاحب تقریر میں مزدور انقلاب آکر رہے گا تو ہم نے نعرہ لگانا ہے میں کہوں گا انقلاب تم نے جواب دینا ہے کہ زندہ بار چلو مشق کروشاباش۔
انقلاب !!!استاد جی نے واشگاف نعرہ لگایا۔
حاضر جناب۔دروازے سے آواز آئی۔انقلاب کی آواز نحیف اور حال پتلا تھا۔
جیسے انقلاب کے بعد خون رستا ہے ویسے ہی انقلاب کے پیٹ کا انقلاب اس کی شلوار سے رس رہا تھا۔
انقلاب سے ناگوار بو آرہی تھی۔
او کنجر انقلاب ۔۔۔استاد جی ناک انگلی اور انگوٹھے سے دبا کر چیخے۔
او عوام دین جا اس انقلاب کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آ۔
استاد جی نے انقلاب کی چھٹی کرا دی تھی۔
ہونہہ آجاتے ہیں منہ اٹھا کر ۔انقلاب کی نا جائز اولاد نہ ہوں تو۔استاد جی انقلاب سے کئی نا جائز رشتے قائم کرنے کے بعد اس کی سات نسلوں میں کیڑے نکال رہے تھے۔
منہ دھونا آتا نہیں نام انقلاب۔ (استاد جی نے منہ کی بجائے کچھ اور کہا تھا)
انقلاب کا تو پتہ نہیں البتہ میرا وہ گورنمنٹ ماڈل اسکول محلہ سیاسی میں پہلا اور آخری دن تھا۔