December 1, 2011

بارش بمقابلہ غسل خانہ

Barish bamuqabla Gusalkhana


لو جی کسی ذہین و فطین بندے نے فیس بک پر اپنا سٹیٹس رکھا ہوا تھا کہ مجھے بارش اس لیے اچھی لگتی ہے کیونکہ اس میں روتے ہوئے میرے آنسو کوئی نہیں دیکھ سکتا بھائی صاحب دیکھنے والے تو وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں جو آپکی سوچ ہی ہے لیکن ان صاحب/صاحبہ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو 
 غسل خانہ بھی ایسا ہی پسند ہے کہ نہی

کیونکہ بارش کا سہارا لے کر  روتے تو میں نے آج تک کسی کو نہ دیکھا ہاں غسل خانے میں چھپ کر کئی لوگوں کو روتے دیکھا ہے کہ ان کو وہاں روتے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔یاد رہے غسل خانے سے مراد آپ بیت الخلا لیں، لیٹرین لیں ، ٹوائلٹ لیں،واش روم لیں یا باتھ روم لیں بات ایک ہی ہےبس یہ آپ پر ہے کہ آپ اس کو کس نام سے پکارتے ہیں۔

اور بھائی صاحب ایسی کیا آفت آن پڑی کہ رونا پڑ گیا ؟ بھائی رونا تو میرے اس کزن کا بنتا ہے جو میرے ساتھ میٹرک میں ٹیوشن پڑھا کرتا تھا اور ایک دن گھر سے مشق تیار کر کے نہ جانے پر استاد صاحب نے ڈنڈا اٹھا کر اس کے ہاتھ پر رکھا ہی تھا کہ اس نے رونا شروع کر دیا۔استاد صاحب نے روتا دیکھ کر پہلی وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔چھٹی کے بعد میں نے کہاشاہ  جی کمر لگوا دی ہے آپکا خود کا قول شریف ہے کہ مرد کو درد نہیں بس ناک کٹوا دی ہے۔اس پر کزن صاحب بولے بھائی جان مار کے ڈر سے کون کافر رو رہا تھا میں تو اس لیے رو رہا تھا کہ کیونکہ مجھے بڑے زور کا پیشاب آیا ہوا تھا اور مجھے ڈر اس بات کا تھا مار کھانے کے دوران پیشاب خطا ہو گیا تو کام خراب ہو جائے گا۔بہرحال اس روز کے بعد اگر کزن صاحب گھر سے مشق تیار کر کے نہ جاتے تھے تو کم از کم غسل خانے سے فراغت ضرور حاصل کر کے جاتے تھے۔

بھائی صاحب روتے تو ہم روتے کہ ایک روز ہوٹل جب معمول کے زیادہ کھانے سے بھی زیادہ کھا لیا اور تین چار بوتلیںپیپسی اور سپرائٹ پی کر بھی سانس لینا مشکل ہی رہا تو گھر کا آخر ی میل کار کو دھکا لگا کر لے گئے ۔ظاہر ہے کہ لوگوں کی ہنسی سانس کی روانی سے زیادہ اہم تو نہیں۔اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اصل میں کار خراب ہوئی تو کبھی کسی نے پیشکش نہیں کی اس روز راستے میں کئی لوگوں نے پوچھا بھائی کار خراب ہو گئی ہے دھکا لگا دیں؟ اب ان کو کیا جواب دیتے کہ بھائی کار تو ٹھیک ہے دماغ خراب ہو گیا ہے اور اس نے دھکے سے بھی اسٹارٹ نہیں ہونا۔

اور جناب روئیں تو شیخ صاحب روئیں جو یہاں پولینڈ میں نئے سال کی پالٹی کی خوشی میں ڈی –جے کے فرائض سر انجام دے رہے تھے کہ گھبرائے گھبرائے آئے اور کہنے لگے یار کوئی میری کُھتی گرم کی کھڑا ہے۔کُھتی گرم کے بارے میں بتا تا چلوں کہ کُھتی یعنی گردن ،ہوتا یہ ہے کہ آپ نے گردن پر تھپڑ مار کر اگلے کی گردن گرم کرنی ہے اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک ہاتھ اپنی گردن پررکھیں یا جو یہ بے ہودگی کر رہے ہیں ان سے دور بھاگ جائیں۔اب شیخ صاحب نہ ایک ہاتھ مستقل گردن پر رکھ سکتے تھے وہ موسیقی کی سات نسلوں کی ایسی تیسی کرنے میں دونوں ہاتھوں سے مصروف تھے اور ایسی رنگین محفل چھوڑ کر کون نامراد جانا چاہے گا دوسرا انکو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ پولینڈ میں کھتی گرم کے کیا اصول ہیں۔ہمارے ایک دوست نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کیں اور جاسوس کے طور پر پالٹی میں چلا گیا کیونکہ پالٹی ہمارے کمرے سے باہر گیلری میں ہو رہی تھی اور آخر کار ایک گوری کو شیخ صاحب کی کھتی گرم کرتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔اگلی صبح شیخ صاحب صاف مکر گئے کہ کسی پولی(پولینڈ کی نسبت سے پولی) نے انکی کھتی گرم کی ہے ظاہر ہے بات تو رسوائی کی ہے کہ پہلے پولیوں سے کھتی گرم کروائو پھر دوستوں سے بے عزتی بھی کروائو۔اب رونا تو بنتا ہے   کہ ہم تو بڑے کزنوں اور اسکول میں بڑے لڑکوں کے ہتھے کم کم چڑھتے تھے کجا پولیاں ؟؟

اب روئے تو بیچاری بوبو(ایک پولش لڑکی کا نام ) روئےجو ایک پالٹی میں کچھ ام الخبائث کی ترنگ میں آ کر اور کچھ ایک بھوری جلد کی قربت کیں خاموش نہ رہ سکی اور ہمارے دوست کو کہہ بیٹھی آئی لو یو۔ میرا دوست جو اس کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا بولا "معاف کرنا! مجھے پیشاب آ گیا ہے"۔

اور دروغ بہ گردن حاسدان روئیں تو وہ حضرت روئیں جو ایک سرکاری یونیورسٹی میں ایک عام سے شعبہ کے چیرمین تھے کہ انکے ایک دوست صاحب ملک کے ایک بہت بڑے عہدےپر لگ گئے۔اور وہ پروفیسر صاحب کلاس میں قائد اعظم اور پاکستان کو برا بھلا کہا کرتے تھے جس پر انکی چند ایک بار ساتھی اساتذہ سے ہاتھا پائی ہوتے ہوتے بھی رہ گئی تھی کو ان کے دوست نے بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کر دیا۔لیکن بنگالیوں نے ان کو سفیر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ سنہ 71 میں انکے والد فوج میں تھےانہوں نے انکو محب وطن قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اور بھائی ان سے بڑھکر کیا بات ہو سکتی ہے رونے کی اور وہ بھی بارش میں؟ اپنا تو یہ حال ہے کہ ادھر بارش ہوئی ادھر منہ پر مسکراہٹ آگئی ،دل کِھل اٹھا،بھائی بارش میں کون روتا ہے؟ہاں غسل خانے میں رونے کی سمجھ بھی آتی ہے کہ کبھی آپکو کسی پبلک لیٹرین میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ رو کر ہی نکلیں گے وہاں سے یا پھر پولینڈ میں ہوسٹلز میں جہاں لڑکے تو لڑکے ،لڑکیاں بھی کھڑے ہو کر پیشاب کر تی ہیں اور پانی سے بھری بوتل جو آپ شرمندگی سے بچنے کے لیے چھپا کرساتھ لے گئے تھے سمجھ نہیں آتی فلش صاف کرنے پر خرچ کریں یا اپنے ہی سر پر انڈیل کر غصہ ٹھنڈا کریں۔ اور کم از کم میں نے تو بارش کے جانے پراور غسل خانے سے آنے پر لوگوں کو روتے ضرور دیکھا ہے۔

بھائی صاحبان المختصر ایک تو رونے کی عادت نہیں اور اگر ہو بھی تو یقین مانیں غسل خانہ بارش سے لاکھ درجے بہر ہے کہ ملتان جیسے علاقے میں رہنے والا کیا کرے جہاں بارش سال میں ایک آدھ بار ہی ہوتی ہے اور وارسا میں بارش میں رو کر نمونیا کروانا ہے کیا؟پر   اس کا کیاکیا جائے کہ بچپن میں ہی ایک شعر سن رکھا تھا کہ
       ؎ آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
             عمر بھر  آپ  کی اس  بات نے  رونے نہ دیا 

کبھی رونا پڑا تو بتائیں گے ہم نے غسل خانہ چُنا یا بارش؟؟