February 11, 2014

تصاویر کے شکار پر جانا۔ تصویری

tasaveer k shikar per jana- tasveeri

گاؤں میں بندہ رہے اور فراغت نہ ہو ایسا تو ممکن نہیں اور بندہ فارغ ہو تو شیطانی چرخہ تو خود سے چل پڑتا ہے ان دنوں ہم گاؤں میں بھی ہیں اور فارغ بھی ہیں اور فارغ بھی ایسے کہ بلاگ پوسٹ کرنے کو انٹرنیٹ نہیں ملتا اور بلاگ ٹائپ کرنے کو کمپیوٹر نہیں ملتا۔ ویسے تو ان مواقع پر ہمارے ہاتھ لڈو، تاس (تاش) ، کیرم، بیٹ بال وغیرہ لگتے ہیں لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس بار ہمارے ہاتھ اہک چھرے مارنے والی ہوائی بندوق اور دو کزن لگ گئے جن کا ہم نے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر شکار کا پروگرام بنا ڈالا۔


جاننے والے ہماری بہادری سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم اندھیرے میں اپنے سائے سے ڈر جاتے ہیں اور روشنی میں کتے کے پلے کو بھی شیر سمجھ لیتے ہیں اور ہمارے حاسد تو ہمیں ڈرو پڈو تک بلانے سے گریز نہیں کرتے۔ تو ایسے موقع پر آپ سوچیں گے مجھے کیوں شکار کی جلدی کیوں پڑی تھی تو اس چڑی کوے کےشکار کے درپردہ اصل میں میرے لیے گئے دو کیمرے تھے جن کے ساتھ میں دیسی جیوگرافک اسپیشل ریکارڈ کرنے کو بے چین تھا کہ کزن دنا دن گولیاں چلاتے اور میں دھڑا دھڑ فلیش۔

میں تو اسی وقت جانے کو تیار تھا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بندوق تو تھی لیکن اس کے چھرے میسر نہ تھے اور ہم اسی وقت شہر کو چل دیے کہ چھرے لائے جائیں اور شکار کا آغاز کیا جائے۔ لیکن بارہ ربیع الاول کی وجہ سے تمام دکانیں بند تھیں اور ہمیں بادل نخواستہ شکار کو کیمروں پر حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے اتوار کے روز تک ٹالنا پڑا۔

اگلے دن صبح اٹھ کر ہم سب سے پہلے ملتان کے چوک گھنٹہ گھر پہنچے اور اسلحے والی دکان کا گھیراؤ کر کے بیٹھ گئے کہ آج یا چھرے نہیں یا یہ دکان نہیں۔ صبح خیزی کی نعمت سے محروم دکاندار نے گیارہ بجے دکان کھولی اور ہمیں اپنے نیند کے پانچ گھنٹےکھونے کا غصہ تو بڑا آیا لیکن کڑوا گھونٹ پی کر چپ چاپ چھرے لیے اور واپس چل دیے۔ ادھر دکاندار بھی ہمارے منہ سے چھروں کی ڈبی کا سن کر بجھ سا گیا کہ وہ ہماری اجڑی شکل دیکھ کر سمجھا تھا شاید کوئی بیوی کا ستایا صبح صبح رائفل، کلاشنکوف یا دستی بم لینے آیا ہے۔

خدا خدا کرکے اتوار کا روز آیا اور ہم جو ساری رات خوشی سے سو نہ سکے تھے صبح صبح سو گئے۔ گیارہ بجے آنکھ کھلی تو سردیوں کی برکت سے باہر ابھی بھی ایسے لگ رہا تھا کہ صبح کے چھ بجے ہوں۔ ہم اس کو واقعی صبح کے چھ سمجھتے ہوئے دوبارہ سو گئے۔ یوں گھنٹہ بھر مزید نیند کی پھر گرم پانی سے جسم کو ٹکور کی اور ڈٹ کر ناشتہ کر کے کیمروں کا بیگ کندھے لٹکایا اور شکار کو تیار ہو گئے۔ ہمارے باقی دو کزن بھی آہستہ آہستہ آ گئے اور یوں ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔

ہم تین کزن ایک موٹر سائیکل پر سوار ہوئے جس کی خستہ حالت دیکھ کر شک گزرتا تھا شاید واپس پر یہ ہم تینوں پر سوار ہو گا۔ ایک کزن نے موٹر سائیکل سنبھالا ایک نے ہوائی بندوق سنبھالی اور میں نے کیمروں کا بستہ سنبھالا۔ معاونت کے لیے دو نوکر دو سائیکلوں پر ہمراہ تھے ایک کے ذمے شکار تلاش کرنا اور دوسرے کے ذمے گولی لگے شکار کو پکڑنا ذبح کرنا اور چھیل کر ایک لفافے میں رکھتے جانا تھا۔

سب سے پہلے ہم ایک آموں کے باغ پہنچے سہ پہر کے تین بجے تھے اور وہاں پندرہ منٹ خاک چھاننے کے بعد چڑی ، لالی دور کی بات آوارہ کتا بھی نہ ملا۔ اب چونکہ میں شکاری سے زیادہ شکار کے ایکسپرٹ کی حیثیت سے وہاں موجود تھا لہذا میں نے ایسی جگہ کا مشورہ دیا جہاں کے فوٹو زیادہ خوبصورت آتے ۔ میرے شکاری کزن بھی پندرہ منٹ پیدل چل کر خجل ہوچکے تھے لہذا وہ وہیں چلنے پر رضامند ہوگئے۔ حالانکہ میں نے مشورہ دیا تھا کہ چلتے ہی پیدل ہیں لیکن میرے آرام پرست کزن مانے نہ اور موٹرسائیکل پر چل پڑے جب کہ فدوی ماشااللہ سے سارا سارا دن پیدل چلنے کا ریکارڈ رکھتا ہے اور کیمرہ اگر کندھے پر ہو تو پھر کون مائی کا لعل ہے جو روک کر دکھائے۔

اب ہم فضل شاہ والہ سے ولی والہ پہنچے اور یہاں ایک خالی میدان میں چڑیوں، فاختاؤں اور رابن کے جھنڈ کے جھنڈ اڑتے پھر رہے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہم سب کی رال ٹپکنے لگی ۔ میں نے کیمرے سمبھالے میرے کزنوں نے بندوق سنبھالی اور نوکروں نے چھری اور لفافے سنبھالے۔ پندرہ منٹ بعد جب میں جی بھر کے فوٹو کھینچ چکا تو مجھے خیال آیا میں نے کزن سے شرط لگائی تھی کہ اگر پانچ شکار کر لیے تو میں انکو کوکا کولا پلاؤں گا اور اگر نہ کر سکے تو وہ مجھے پلائیں گے۔

شرط کا سوچ کر جب میں اپنے شکاری کزنوں کے پاس پہنچا تو پتہ چلا سکور بدستور صفر ہے۔ ادھر گاؤں میں چونکہ ایک ہم فارغ نہ تھے بلکہ تمام آبادی فارغ ہوتی ہے اس لیے ہماری اس مہم کے گرد اچھا خاصا رش ہو گیا اور ہر چھرے اور فلیش کے ساتھ لوگوں کے مشوروں کا بار بڑھتا چلا گیا۔

اس بے عزتانہ صورتحال سے بچنے کے لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے کہیں اکیلے میں جا کر نشانے کی مشق کی جائے تاکہ اس جمع ہونے والے ہجوم کے سامنے بے عزتی سے بچا جا سکے۔ہم ایک باغ میں گئے اور درختوں کے بیچوں بیچ جا کر باری باری کنوؤں پر چاند ماری کی مشق شروع کر دی۔ وہاں پر یہ راز کھلا کہ بندوق خاصی عمر رسیدہ ہونے کے باعث بوڑھوں سا مزاج رکھتی ہے کہ کب کھلکھلا اٹھے کب بھڑک اٹھے کب نشانے پر چھرہ مارےکب آگے مارے یاکب پیچھے مارے کوئی پتہ نہیں۔

بندوق کے آگے فزکس کے تمام اصول ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ دوسرا جیسے ہی چھرہ بندوق سے نکلتا ہے بندوق کھل جاتی ہے گویا شکاری کو سہولت بہم پہنچانے کا پورا انتظام تھا کہ آپ کو چھرے ڈالنے کے لیے خود محنت کرنے یا کسی نوکر کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ بندوق میں خود سے یہ سہولت موجود ہے۔ جب نشانہ باندھ باندھ کر یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر کسی شے پر نشانہ لگانا ہو تو یا تو پندرہ کے زاویے سے اوپر رکھیں یا پندرہ کے زاویے سے نیچے تو امید ہے کہ پانچ میں سے ایک چھرہ اس شے کو لگ جائے گا

ہم نے دوبارہ میدان سنبھالا اور ایک پرانے بوڑھ کے درخت کی طرف چل دیے۔ وہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ پرندے ہمیں شرمندگی سے بچانے کو خود ہی کہیں کوچ کر گئے ہیں ۔ دور دو ٹیٹریاں یا ہریل بیٹھی تھیں اور ان کا شکار شروع ہوا۔ وہ بھی کوئی انتہا درجے کی کمینیاں ثابت ہوئیں کہ پندرہ میٹر قریب جا کر لیے گئے نشانے سے بھی نہ مریں اور جب ان کو احساس ہوتا کہ قربت اتنی نزدیک ہو گئی ہے کہ وہ ہاتھ سے پکڑی جا سکتی ہیں تو اڑ کر چند میٹر دور جا بیٹھتیں۔ آکر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہمارے بس کا کام نہیں وہ شرم سے پانی پانی ہو کر اڑ گئیں اور ہم چل کر موٹر سائیکل پر آ بیٹھے۔

اب تک ہمیں سمجھ آ چکی تھی کہ ہمارے ہوتے اور اس بندوق کے ہوتے ہم سے چڑی چھوڑ گیدڑ نہیں مرنا (ویسے راستے میں آنے والے ایک گیدڑ پر بھی چھرے ضایع کیے گئے تھے) ہم واپسی گھر کو چل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ بگلے دیکھ کر ایک بار پھر شوق شکار جاگا اور اب کی بار چھروں کا نشانہ خطا ہونے کا ٹارگٹ بگلے تھے۔ جب تین چار چھرے ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک نگاہ غلط ہم پر ڈالی اور ہم جیب میں موم بتی ٹٹولنے لگے کہ ان بگلوں کی ثابت قدمی دیکھ کر ہمیں یقین آ گیا کہ اگر ہمارے پاس موم بتی ہوتی تو آج ہم ان بگلوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیتے لیکن اس نا ہنجار بندوق کی مدد سے یہ ممکن نہ تھا۔ بگلوں کی طنزآمیز نظر کا سامنا ہم نہ کر سکے اور کیمرے سے تین چار تصاویر کھینچ کر ہم نے شکار سے واپسی کا قصد کیا۔

 بندوق ، چاقو، موٹر سائیکل اور پرندے جمع کرنے والا لفافہ جوں کے توں موجود ہیں کہ ایاز کی طرح اصلیت نہیں بھولنا چاہیے اور کبھی بھی بندہ غرور سے جان چھڑانا چاہے تو ایک نظر ان پر ڈال کر دوبارہ خواری اختیار کرسکتا ہے۔
کیلے کا درخت 
ایک خوبصورت پرندہ جو کہ ہمارے خیال میں کمادی کاں کی مادہ ہے

شکرا یا چیل؟؟

چڑی جو ہم سے نہ مر سکی

بلبل کا بچہ جو بڑا ہو چکا ہے

کوا جو دور سے کنگ فشر لگ رہا تھا

آپ چیل کہیں ہم تو باز اور شکرا ہی کہیں گے

آخر یہ نشانہ لگتا کیوں نہیں

کتا بھی ہمارے نشانے خطا ہونے کی پریکٹس کو زوق و شوق سے دیکھ رہا ہے

جب بندوق سے کام نہ چلا تو ہمارے کزن نے بھی کیمرہ تھام لیا

شاید یہاں سے نشانہ لگ جائے۔۔۔

فاختہ المعروف گُگی

مزید گُگیاں

رابن

ایک اور رابن

بعضوں کے بقول ممولہ

ممولے کے جیسے ایک اور چڑی

اللہ جانے اس کا کیا نام ہے لیکن یہ جہاں بھی ہوتی ہیں دس بارہ اکٹھے ہوتی ہیں

کنگ فشر لاکھ کوشش کے باوجود کیمرے سے شرماتا رہا

اس چڑیا کا نچلا حصہ مالٹا رنگ کا تھا

کمادی کاں جس کو ہم ڈھوڈر کاں کہتے تھے

بی ایٹر جس کو ہم کنگ فشر سمجھتے رہے

مکھی خور المعروف بی ایٹر Bee eater

مکھی خور کی پشت

ایک خوبصورت بگلا جو اکثر زمین جنبند نہ جنبد گل محمد بنا کھڑا ہوتا ہے



آپ اپنا کام کریں ہم تو تصاویر کھینچیں گے
بوڑھ کا درخت

ٹٹیریاں نہ اڑتی ہیں نہ مرتی ہیں اور ہمارے شکاری خوار

ٹٹیریاں المعروف ہریل المعروف Red -wattled lapwing

مار سکو تو مار لو

چند خوبصورت مناظر

اس موڑ سے جاتے ہیں

مسجد اور شام

جھنڈ

کجھور اور دھند

بگلا  جو موم بتی کی انتظار میں رہا